▪️ *پختـــــــہ ایمـــــــان* ▪️
حضرت انسؓ کے مہمان خانے میں چند مہمانوں نے کھانا کھایا،کھانا کھا لینے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ شوربے سے دستر خوان کا رنگ زردی مائل ہو گیا۔ آپ نے خادمہ کو بلایا اور اسے دستر خوان دے کر فرمایا کہ اسے جلتے ہوئے تندور میں ڈال دو،خادمہ نے حسبِ حکم ایسا ہی کیا اور اس دستر خوان کو جلتے ہوۓ تندور میں پھینک دیا۔
مہمان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آگ نے دستر خوان کو چھوا تک نہیں خادمہ نے اسے تندور سے صحیح سلامت باہر نکالا اس وقت وہ نہایت صاف اور سفید ہو چکا تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے دھو دیا ہو۔ دوست احباب نے جب یہ ماجرا دیکھا تو حضرت انسؓ سے پوچھا: " اے صاحبِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ کیا وجہ ہے کہ دستر خوان آگ سے محفوظ رہا اور پھر صاف بھی ہو گیا؟"
گفت زانکہ مصطفےٰ دست ودھاں
بس بمالید اندریں دستار خواں
حضرت انسؓ نے فرمایا "اس کا سبب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس دستر خوان سے بارہا اپنے دست مبارک اور لب مبارک کو صاف کیا اس لیے اسے آگ نہیں جلا سکتی۔"
رومیؒ فرماتے ہیں:
اے دل ترسندہ از نار و عذاب
باچناں دست و لبے کن اقتراب
" اے دل اگر تجھے آتشِ دوزخ سے نجات پانے کی فکر ہے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قرب حاصل کر،جب ان کے دستِ مبارک کو مس کرنے کی وجہ سے ایک بے جان جلنے سے محفوظ رہا تو جو ان کا عاشقِ زار ہو گا وہ کیسے جلے گا؟"
پھر مہمانوں نے خادمہ سے پوچھاکہ تو نے بلا تامل دستر خوان آگ میں ڈال دیا؟ کیا تو ڈری نہیں کہ یہ جل جائے گا؟ اس نے جواب دیا "میں حکم کی غلام ہوں اور مجھے اس بات کا کامل یقین ہے کہ جو میرے آقا حضرت انسؓ حکم دیں گے وہ کبھی نقصان پہنچانے والا نہیں ہو گا۔
رومی رحمۃ اللّٰہ علیہ نصیحت فرماتے ہیں کہ:
"اگر کسی شخص کا دل جہنم کی آگ سے خوف ذدہ ہو اس کوچاہیے کہ ایسے مبارک لبوں اور ہاتھوں کے قریب ہو جائے جو قرب والے ہیں۔
خدا کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ جس چیز کو مس کر دیں تو وہ آگ میں نہیں جل سکتی، تو جو امتی عشق مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ سے عقیدت رکھتا ہوگا تو اسے کیا کچھ عطا ہوگا؟
رومی رحمۃ اللہ علیہ نصیحت کرتے ہوۓ فرماتے ہیں اے عزیزم!
صدق اور پختگی میں(اُس) عورت سے کم نہ ہو مردانِ خدا اولیاء اللہ کا دامن تھام لے ، ان کی نسبت سے تم کندھن بن جاؤ گے اور تمہیں بھی اللّٰه تعالیٰ اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور قربت حاصل ہو جاۓ گی۔
جو کوئی عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا طالب ہے اسے چاہیے کہ وہ اولیا اللہ کی ہمنشینی اختیار کرے ان کی صحبت اور نگاہ سے عشق کا وہ رنگ نصیب ہوگا کہ وہ دونوں جہان میں لا یحتاج ہو جائے گا.
اس واقعہ کا حوالہ و تحقیق درکار ھے!!!!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
حکایاتِ رومی میں یہ واقعہ مذکور ھے:
* نام کتاب:حکایات رومی (اردو)
* نام مصنف:جلال الدین رومی
* صفحہ: 100
* حکایت نمبر: 16
* طبع: بُک کارنر شوروم, بالمقابل اقبال لائبریری, بُک اسٹریٹ, جہلم, پاکستان.
🔰 *عربی میں* 🔰
یہ واقعہ عربی زبان میں متعدد کتب میں حضور اکرم کے معجزات کے تحت مصنفین نے ذکر کیا ھے:
🔮 *إمتاع الأسماع* 🔮
امام مقریزی نے " امتاع الاسماع" میں ابو نعیم کے حوالے سے یہ واقعہ لکھا ھے ؛ لیکن محشی " محمد عبد الحمید النمیسی " نے حاشیہ میں لکھا کہ لم اجدہ مجھے یہ واقعہ نہیں مل سکا:
*وأما سلامة منديل مر على وجهه صلى الله عليه وسلم فلم تحرقه النار لما طرح فيها*
فخرج أبو نعيم من حديث محمد بن رميح، قال: حدثنا عبد الله بن محمد بن المغيرة، حدثنا أبو معمر عباد بن عبد الصمد، قال: أتينا أنس بن مالك نسلم عليه، فقال: يا جارية، هلمي المائدة نتغدى، فأتته بها فتغدينا، ثم قال: يا جارية هلمي المنديل، فأتته بمنديل وسخ، فقال: يا جارية أسجري التنور، فأوقدته، فأمر بالمنديل، فطرح فيه، فخرج فخرج أبيض كأنه اللبن.
فقلت: يا أبا حمزة! ما هذا؟ قال: هذا منديل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح به وجهه، وإذا اتسخ صنعنا به هكذا، لأن النار لا تأكل شيئا مر على وجوه الأنبياء - عليهم السلام.
• المصدر: إمتاع الأسماع
• المحدث: المقريزي
• المجلد: 11
• الصفحة: 254
• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
✴️ الخصائص الكبري ✴️
امام جلال الدین سیوطی نے بھی یہ واقعہ ذکر فرمایا ھے:
وأخرج أبو نعيم عن عباد بن عبد الصمد قال: أتينا أنس بن مالك رضي الله عنه فقال: يا جارية: هلمي المائدة نتغدى، فأتت بها ثم قال: هلمي المنديل فأتت بمنديل وسخ، فقال: اسجري التنور فأوقدته فأمر بالمنديل فطرح فيه فخرج أبيض كأنه اللبن، فقلنا: ما هذا؟ قال: هذا منديل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح به وجهه فإذا اتسخ صنعنا به هكذا، لان النار لا تأكل شيئا مر على وجوه الأنبياء.
٭ المصدر: الخصائص الكبري
٭ المحدث: الحافظ السيوطي
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 320
٭ الطبع: دار الكتب الحديثية، قاهرة، مصر.
📚 *سُبُلُ الهُدٰي والرَّشَاد* 📚
امام محمد بن یوسف صالحی شامی نے نبی کریم کی شاندار سیرت لکھی ھے, اس میں بھی یہ واقعہ درج ھے:
*الباب السابع في موازاته صلى الله عليه وسلم ما أوتيه إبراهيم الخليل عليه الصلاة والسلام*
أوتي النجاة من النار، وقد خمدت نار فارس لنبينا صلى الله عليه وسلم. روى أبو نعيم عن عباد بن عبد الصمد قال: أتينا أنس بن مالك رضي الله عنه قال: يا جارية: هلمي المائدة نتغدى، فأتت بها ثم قال: هلمي المنديل فأتت بمنديل وسخ، فقال: اسجري التنور فأوقدته فأمر بالمنديل فطرح فيه فخرج أبيض كأنه اللبن، فقلنا: ما هذا؟ قال: هذا منديل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح به وجهه فإذا اتسخ صنعنا به هكذا، لان النار لا تأكل شيئا مر على وجوه الأنبياء.
① المصدر: سبل الهدي والرشاد
② المصنف: الامام محمد بن يوسف الصالحي الشامي
③ المجلد: 10
④ الصفحة: 911
⑤ الطبع: المجلس الأعلي للشئون الإسلامية، قاهرة، مصر.
🔆 *واقعہ کی اسنادی حیثیت* 🔆
اس واقعہ کی سند میں ایک راوی " عباد بن عبد الصمد " ہیں جن کے متعلق امام بخاری نے کہا: منکر الحدیث ہیں , امام ابن حبان نے کہا: واہ ( اعتبار نہیں) ہے, امام ابو حاتم نے کہا: ضعیف جدا ( انتہائی کمزور ) ھے, امام ابن عدی نے کہا: غالی شیعہ ہیں , امتم عقیلی نے کہا: ان کی روایات منکر ہوتی ہیں , یہ حضرت انس سے بہت کچھ روایات کرتے ہیں ؛ لیکن عموما سب منکر روایات ہی ہوتی ہیں.
÷ المصدر: لسان الميزان
÷ المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ
÷ المصدر: 4
÷ الصفحة: 393
÷ الرقم: 4080
÷ الطبع: دار البشائر الإسلامية، بيروت، لبنان.
⚠️ *خلاصہ* ⚠️
اس واقعہ کے ثبوت میں تامل ھے قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا ھے کہ یہ ثابت ھے , نیز عوام میں جو یہ مشہور ھے: کہ پیغمبر کا ملبوس جلتا نہیں ھے یہ غلط مشہور ھے کیونکہ حدیث میں آیا ھے: کہ آپ ایک مرتبہ مصلے پر بیٹھے ہوئے تھے ایک چوہا جلتی بتّی لیے ہوئے آیا , مصلٰی شریف جل گیا ۔
✳️ حدثنا سليمان بن عبد الرحمن التمار،حدثنا عمرو بن طلحة، حدثنا أسباط عن سماك، عن عكرمة عن ابن عباس، قال: جاءت فأرة فاخذت تجر الفتيلة، فجاءت بها، فألقتها بين يدي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - على الخمرة التي كان قاعدا عليها فأحرقت منها مثل موضع درهم، فقال: إذا نمتم فأطفئوا سرجكم! فإن الشيطان يدل مثل هذه على هذا فتُحرقكم.
٭ المصدر: سنن ابوداود
٭ المجلد: 7
٭ الصفحة: 528
٭ الرقم: 5247
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻 ... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
19 جنوری ء: 2021
No comments:
Post a Comment