Friday, July 30, 2021

فرشتے بے پردہ عورت کے تابوت پر ہنستے ہیں

 ▪️ *فرشتے بے پردہ عورت کے تابوت پر ہنستے ہیں*؟▪️


☘ایک دن رسول اکرم صل اللہ علیہ والہ وسلم نے  حضرت جبرائیلء سے پوچها!! کیا فرشتے بهی کبهی ہنسا کرتے ہیں؟🍃

جبرائیل نے عرض کیا، جی ہاں یا رسول الله صہ ، فرشتے تابوت پر رکهی اُس عورت کی میت پر ہنستے ہیں جو جب تک زندہ ہوتی ہے  تو پردہ و حجاب نہیں کیا کرتی ، لیکن جب مَر جاتی ہے تو (اس کے تابوت پر اور) اس کی قبر کی لحد میں اُس پر چادر ڈالی جاتی ہے تا کہ نامحرم اس کا جسم یا جسمانی بناوٹ نہ دیکھ سکیں. 🍃

یہ صورتحال دیکھ کر فرشتے ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک یہ عورت دیکهنے لائق تهی تو اس نے اپنے آپ کو پردہ و حجاب میں نہیں رکها اور اب جبکہ اس کی میت سے سب کو گِهن آتی ہے، اسے چادر سے چهپایا جا رہا ہے!!!


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


  یہ بات تلاش بسیار کے باوجود بہی کتب حدیث یہاں تک کہ من گھڑت روایات کے متعلق تالیفات میں بھی ہم کو نہ مل سکی؛ لہذا اس طرح کی باتوں کا بیان و نشر کرنا( جب تک سند معلوم نہ ہو ) موقوف رکھا جائے۔


وﷲ تعالی اعلم

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

30 جولائی، 2021؁ء

جب نبی پاک نے رکوع لمبا کردیا

 ▪️ *جب نبی پاکؐ نے رکوع لمبا کردیا* ▪️


مفتی صاحب ایسی کوئی حدیث ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ ایک دفعہ مسجد میں جا رہے تھے تو آپ کے آگے ایک بوڑھا شخص جارہا تھا تو آپ آہستہ ہوگئے اس بوڑھے شخص کی تکریم کے لیے تو ادھر آپ کی جماعت کا ٹائم تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کو حضرت علی المرتضیٰ کا یہ کام اتنا پسند آیا کہ اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کو بھیج دیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہے جا کر کہ رکوع کو لمبا فرما دیجئے میرے نبی کیونکہ علی المرتضیٰ راستہ میں آ رہے ہیں ایسی کوئی حدیث ہے کیا؟



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 



 تلاش بسیار کے بعد بھی کتب میں یہ بات نہ مل سکی ؛ اسکے بیان و نشر سے اجتناب کیا جائے۔



وﷲ تعالی اعلم

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی* 

30جولائی 2021

امام ابو یوسف کو فقاہت کی سند بزبان امام اعظم

 ✦ *امام ابویوسفؒ کو فقاہت کی سند بزبان امام اعظمؒ*✦


  ایک واقعہ بکثرت دوران درس( زمانہ تعلیم میں ) سننے کو ملا کہ ایک مرتبہ حضرت امام ابو حنیفہ نے اپنے ہونہار شاگرد قاضی ابویوسف کو کسی نماز کی امامت کیلیے آگے بڑھایا تو غالبا امام اعظم کو سفر در پیش تہا یا کوئی اور مسئلہ تہا تو امام ابویوسف نے وہ نماز بہت ہی اختصار کے ساتھ یعنی ترکِ واجب و سنن کے ساتھ ادا کرادی اور پھر بھی امام اعظم نے ان کو شاباشی دی یہاں تک کہ انکو فقیہ کا خطاب عطا فرمادیا۔


قابل استفسار بات یہ ھے کہ جب نماز میں واجب و سنن کی رعایت بہی نہ تہی تو امام اعظم نے اس بات کو سراہا کس وجہ سے تہا؟



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


   یہ واقعہ امام طحطاوی نے در مختار کے حاشیے میں ذکر کیا ھے: تفصیل اسکی یہ ھے کہ سورہ فاتحہ کا پڑھنا نماز میں واجب ھے اور کسی سورت کی قرات یا ماتیسر من القرآن بہی ضروری ھے البتہ ضرورت حال کے وقت اسی کے مناسب قرات یعنی طوال مفصل کی رعایت نہ ہو تو اختصارا بہی قرات کرکے نماز مکمل کی جاسکتی ھے۔ تو ایک مرتبہ فجر کا وقت بہت تنگ  باقی رہ گیا تہا امام ابویوسف نے جلدی جلدی نماز پڑھاکر مکمل کرادی تب ان کی بصیرت علمی دیکھ کر امام اعظم نے ان کو شاباشی دی کہ آپ تو ماشاءﷲ فقیہ ہوگئے ہو۔ کہ آپ نے موقع محل کی رعایت کی۔


 

 💎 *حاشية الطحطاوي* 💎


وقد ورد: أن أبا يوسف أم الإمام في صلاة الصبح، وكان الوقت ضيقا، فقرأ بآية من الفاتحة في كل ركعة، فلما تمت الصلاة، قال الإمام: صار يعقوبنا فقيها.


٭ المصدر: حاشية الطحطاوي علي الدر المختار

٭ المصنف: العلامة الطحطاوي

٭ المجلد: 2

٭ الصفحة: 235

٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.



▫️ *مزید وضاحت* ▫️


  اگر فجر کا وقت تنگ ہو اور نمازی کو لگتا ھے کہ مجھے وقت کے اندر اندر مکمل نماز نہیں ملیگی تو بہی ایسا شخص نماز ترک نہ کرے بل کہ ایسے شخص کو چاہئے فضیلت وقتی کے حصول کیلیے نماز پڑھے اور یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اسی ایک رکعت کے بقدر وقت میں آداب و سنن کو چھوڑ کر پوری نماز ادا کرلے جیساکہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں آتا ھے کہ ایک مرتبہ فجر کی نماز میں یہ صورت پیش آگئ کہ وقت بہت تنگ رہ گیا تو انہوں نے قاضی ابویوسف کو امام بنایا اور قاضی ابویوسف نے اسی تنگ وقت میں فجر کی دونوں رکعتیں پڑھادیں اس پر امام اعظم نے قاضی ابویوسف کی حوصلہ افزائی کی اور فرمایا: صار یعقوبنا فقیہا( ہمار یعقوب فقیہ ہوگئے) ظاہر ھے جلدی میں پڑھی گئ اس نماز میں اگر کچھ ایسی چیزیں ترک کرنا پڑی ہوں جن کے سبب نماز کا اعادہ ضروری ہو تو اعادہ بہی کیا ہوگا؛ لیکن وقت کی فضیلت حاصل کرنے کیلیے یہ صورت اختیار کی گئ ۔


• نام کتاب: ایضاح البخاری

• نام مرتب: مولانا ریاست علی بجنوریؒ 

• جلد: 3

• صفحہ: 503

• طبع : مکتبہ مجلس قاسم المعارف, دیوبند, 



نوٹ) قاضی ابویوسفؒ کے پیش نظر حدیث مبارک "من ادرك من الصبح ركعة، فقد قبل ان تطلع الشمس، فقد أدرك الصبح. الخ تهي. اس وجہ سے امام اعظمؒ نے ان کو سراہا اور خطاب سے نوازا۔( راقم )


 وﷲ تعالی اعلم

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

۳۰ جولائی، ۲۰۲۱ ؁ء

جب مسجدوں کیلیے امام نہ مل سکیں گے

 ▪️ *جب مسجدوں کیلیے امام نہ ملیں گے* ▪️


  مفتی صاحب! ایک پوسٹ کی بابت استفسار مقصود ھے: کہ نبی کریمؐ کا ارشاد ھے: کہ آخر زمانہ میں نماز کا وقت ہوچکا ہوگا اور جماعت کی تیاری ہوگی لیکن کوئی مناسب امام نہ مل سکے گا اور لوگ ایک دوسرے پر ٹالیں گے کہ تم نماز پڑھادو / تم نماز پڑھادو! مزید یہ بہی سنا ھے کہ لوگ امام کے انتظار میں دیر تک کھڑے رہا کریں گے کہ کوئی آئے اور نماز پڑھادے۔


کیا یہ مضمون روایات میں ھے؟




••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


  جی یہ مضمون روایات میں ھے کہ قیامت کی نشانی میں یہ بات بہی ھے کہ لوگ مناسب شخص نہ پاوینگے کہ اسکو امام بنا سکیں ( کیونکہ علم دین سے شناسائی نہ ہوگی / نماز پڑھانے تک کا طریقہ معلوم نہ ہوگا) اور دیر تک لوگ امام کا انتظار کریں گے: 



🔰 *سنن ابو داود* 🔰


  

حدثنا هارون بن عباد الأزدي، حدثنا مروان، حدثتني طلحة أم غراب، عن عقيلة، (امرأة من بني فزارة مولاة لهم) عن سلامة بنت الحر( أخت خرشة بن الحر الفزاري) قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن من أشراط الساعة أن يتدافع أهل المسجد لا يجدون إماما يصلي بهم.


٭ المصدر: سنن أبي داود

٭ المحقق: شعيب الارنؤوطؒ

٭ المجلد: 1

٭ الصفحة: 435

٭ الرقم: 581

٭ الدرجة: ضعيف

٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.



💎 *سنن ابن ماجة* 💎


حدثنا أبوبكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، عن أم غراب، عن امرأة - يقال لها: عقيلة - عن سلامة بنت الحر أخت حرشة، قالت: سمعت النبيؐ يقول: يأتي علَى النَّاسِ زمانٌ يقومونَ ساعةً ، لا يجدونَ إمامًا يصلِّي بِهم.


. المصدر: سنن ابن ماجة

. المحقق: شعيب الأرنؤوطؒ

. المجلد: 2

. الصفحة: 122

. الرقم: 982

. الدرجة: ضعيف

. الطبع: دار الرسالة العالمية، بيروت، لبنان.



وﷲ تعالی اعلم

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

30 جولائی، 2021؁ء

Thursday, July 29, 2021

غدیر خم کا روزہ

 ▪️ *غدیر خُم کا روزہ* ▪️


*سوال:* 


علماء اہل سنت نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے کہ حافظ ابو بکر خطیب بغدادی نے عبداللہ بن علی بن محمد بن بشران سے ، انہوں نے حافظ علی بن عمر دارقطنی سے انہوں نے ابی نصر جشون خلال سے انہوں نے علی بن سعید رملی سے انہوں نے حمزہ بن ربیعہ سے انہوں نے عبداللہ بن شوذب سے انہوں نے مطر وارق سے انہوں نے شہر بن حوشب سے انہوں نے ابوھریرہ سے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جو شخص اٹھارہ ذی الحج کو روزہ رکھے ،اللہ اسے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب عطا فرمائے گا.یہی غدیر خم کا وہ دن ہے جب نبی اعظم (ص) نے علی بن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا: کیا میں مومنوں کا ولی نہیں ہوں؟ سب نے کہا : ہاں ! اے اللہ کے رسول ! تب آپ (ص) نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ،یہ سن کر عمر بن خطاب بولے مبارک ہو ! مبارک ہو! اے فرزند ابو طالب آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ہوگئے .اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت نازل ہوئی:آج میں نے تمھارے دین کو کامل کرد یا ہے ۔اس حدیث کو حافظ بغدادی نے ایک اور سند کے ساتھ علی بن سعید رملی سے بھی نقل کیا ہے ۔(تاریخ بغداد ، ج 9 ،ص ۔ محترم سوال میرا یہ ہے کہ کیا یہ روایت صیحح ہے کہ غدیر خم کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کا اہتمام کرتے تہے اور عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو مبارکباد دی ہے غدیر خم کے واقعے پر؟


... *باسمه تعالي* ...

*الجواب وبه التوفيق:*

یہ روایت صحیح نہیں ہے نیز ۱۸/ ذی الحجہ کو روزہ رکھنا یہ شیعوں کا بیان کردہ مسئلہ ہے، کسی پیغمبر یا امام نے بالخصوص اس دن نہ روزہ رکھا ہے، اور نہ اس کا ثواب بیان کیا ہے، اسی طرح غدیر خم کے نام پر عید منانا بھی شیعوں کا من گھڑت مسئلہ ہے۔امام جورقانی نے اس روایت کو باطل قرار دیا ھے: 



🔖 *الاباطیل والمناکیر* 🔖


(هَذَا حَدِيثٌ بَاطِلٌ، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ إِلَّا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، وَلَا عَنْهُ إِلَّا مَطَرٌ الْوَرَّاقُ، قَالَ أَبُو الْحُسَيْنِ الْقَارِئُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَلِيٍّ، يَقُولُ: لَمْ أَسْمَعْ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، يُحَدِّثُ عَنْ شَهْرٍ بِشَيْءٍ قَطُّ، وَقَالَ مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ: سَأَلْتُ ابْنَ عَوْنٍ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ؟ ، فَقَالَ: مُنْكَرُ الْحَدِيثِ).


• المصدر: الأباطيل والمناكير

• المحدث: الإمام الجورقانيؒ

• المجلد: 2

• الصفحة: 302

• الرقم: 714

• الطبع: إدارة البحوث الإسلامية، والدعوة، والإفتاء، بالجامعة السلفية، بنارس، يوبي، الهند.


والله تعالي أعلم 

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

29جولائي، 2021؁ء

Wednesday, July 28, 2021

پانچ لاکھ احادیث کا خلاصہ

 ✦  *پانچ لاکھ احادیث کا خلاصہ*✦


  امام ابوداودؒ فرماتے ہیں: کہ میں نے نبی کریمؐ کی پانچ لاکھ احادیث لکھی ہیں , ان میں سے چار ہزار آٹھ سو احادیث کا انتخاب کرکے انہیں اپنی کتاب " سنن ابوداود" میں ذکر کیا ھے پھر ان چار ہزار آٹھ سو احادیث میں سے صرف چار احادیث کا انتخاب کیا اور یہ چار احادیث ایسی ہیں جو انسان کو دیندار بنانے کیلیے کافی ہیں:


1) اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ھے( بخاری 1)

2) آدمی کے اسلام کی خوبی و کمال یہ ھے کہ وہ فضول کاموں اور باتوں کو بھی چھوڑدے( ترمذی 2317)

3) آدمی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کیلیے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ھے( ترمذی 2515)

4) حلال بھی واضح ھے اور حرام بھی واضح ھے , اور ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچتا رہا تو اسکا دین اور اس کی عزت بچ گئ ۔ ( بخاری 52)


اس بات کا حوالہ مطلوب ھے!!!



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


  جی یہ بات درست ھے , حاجی خلیفہؒ نے کؔشف الظنون میں یہ بات لکھی ھے: 


▪️سنن ابي داود، سليمان بن الاشعث السجستاني، المتوفي سنة: 275، خمس و سبعين ومأتين، قال:  كتبت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم خمسمائة ألف حديث، انتخبت منها ما ضمنته هذا الكتاب - يعني كتاب السنن - جمعت فيه أربعة آلاف وثمانمائة حديث ذكرت فيها الصحيح وما يشبهه ويقاربه، وما فيه وهن شديد بينته، ويكفي الإنسان لدينه من ذلك أربعة أحاديث:


أحدها: قوله صلى الله عليه وسلم: ((الأعمال بالنيات)).


والثاني: قوله صلى الله عليه وسلم: ((من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه)).


والثالث: قوله صلى الله عليه وسلم: ((لا يكون المؤمن مؤمناً حتى يرضى لأخيه ما يرضاه لنفسه)).


والرابع : قوله صلى الله عليه وسلم: (( الحلال بين والحرام بين، وبين ذلك أمور مشتبهات.


٭ المصدر: كؔشف الظنون

٭ المؤلف: حاجي خليفةؒ 

٭ المجلد: 2

٭ الصفحة: 1004

٭ الطبع: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان.


والله تعالي اعلم

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

28جولائي، 2021؁ء

نبی کا وصی

 ❁ *نبی کا وصی* ❁


مفتی صاحب یہ روایت مستند ھے : کہ ہر نبی کا کوئی وصی ہوتا ھے اور میرا وصی علیؓ ھے؟


از راہ کرم اس پر روشنی ڈالیں!


✦  *باسمہ تعالی* ✦

*الجواب وبہ التوفیق:* 


   یہ روایت بقول اؔمام سیوطیؒ من گھڑت ھے: 


▪️ أنبأنا علي بن عبيد الله الزاغوني، أنبأني أحمد بن محمد السمسار، حدثنا عيسي بن علي الوزير، حدثنا البغوي، حدثنا محمد بن حميد الرازي، حدثنا علي بن مجاهد، حدثنا محمد بن إسحاق، عن شريك ابن عبد الله عن أبي ربيعة الأيادي، عن ابن بريدة، عن أبيه مرفوعا: لِكُلِّ نَبِيٍّ وَصِيٌّ، وَإِنَّ عَلِيًّا وَصِيِّ وَوَاْرِثِيْ.


٭ المصدر: اللآلي المصنوعة

٭ المحدث: الإمام السيوطيؒ

٭ المجلد: 1

٭ الصفحة: 359

٭ الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.



 🔸 *ميزان الاعتدال*🔸


امام حؔافظ "شمس الدین الذھبیؒ" نے بھی اسکو من گھڑت قرار دیا ھے: 


∞ حدثنا ابن إسحاق، عن شريك، عن أبي ربيعة الأيادي، عن ابن بريدة، عن أبيه (مرفوعا) "لكل نبي وصيّ و وارث، وإنّ عليّا وصيّي و وارثي.قلتُ: هذا كذب، ولا يحتمله شريك.


. المصدر: ميؔزان الاعتدال

. المحدث: الإمام الذهبيّؒ

.المجلد: 2

. الصفحة: 273

. الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.


واللّٰه تعالٰي أعلم

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

28جولائي، ؁2021ء

Friday, July 23, 2021

باپ کی دعا نبی جیسی

 ✦ *باپ کی دعا نبی جیسی*✦



  ایک روایت کی تحقیق مطلوب ھے: کہ فرمان مصطفیؐ ھے: باپ کی دعا اولاد کیلیے ایسی ھے جیسے نبی کی دعا امت کیلیے ھے۔



▪️ *باسمہ تعالی* ▪️

*الجواب وبہ التوفیق:* 


  والد کی دعا ہو یا والدہ کی دعا اولاد کے حق میں قبولیت کے زیادہ قریب ہوتی ھے ؛ لیکن سوال میں معلوم کردہ الفاظ والی روایت کو محدثینؒ نے معتبر نہیں مانا ھے ؛ لہذا ان الفاظ کو حدیث کے نام سے نشر نہ کیا جائے۔



🔖 *الموضوعات* 🔖


⚀ روي يحي بن سعيد العطار، عن سعيد ابي حبيب، عن يزيد الرقاشي، عن أنس قال: قال رسول اللہﷺ :  دعاء الوالد لولده مثل دعاء النبي لأمته.


قال أحمد بن حنبلؒ: هذا حديث باطل، منكر، وسعيد ليس حديثه بشيئ.


٭ المصدر: الموضوعات

٭ المحدث: الإمام ابن الجوزيةؒ

٭ المجلد: 3

٭ الصفحة: 87

٭ الطبع: المكتبة السلفية، المدينة المنورة، السعودية.




والله تعالى أعلم 

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

23 جولائي، ؁ء2021

Thursday, July 22, 2021

سعد بن معاذ کو قبر کا بھینچنا

 ✦ *حضرت سعد بن معاذ کو قبر کا بھینچنا* ✦


  ایک بات کے متعلق مجھے استفسار در پیش ھے: کہ صحابی رسول حضرت سعد بن معاذ ایک جلیل القدر صحابی ہیں کہا جاتا ھے: کہ حضرت کی وفات کے موقع پر خدا تعالی کا عرش بہی جھوم اٹھا تہا؛ لیکن دوسری جانب یہ بھی سنا جاتا ھے: کہ تدفین کے بعد ان کو قبر نے بھینچا بھی تہا تو ان کے ساتھ قبر نے یہ معاملہ کیوں کیا؟


مجھے وضاحت کیساتھ اسکا جواب عنایت فرمایئں!!!




▪️ *باسمہ تعالی* ▪️

*الجواب وبہ التوفیق:* 


    حضرت سیدنا سعد بن معاذ ایک جلیل القدر صحابی ہیں جہاں ان کے فضایل متعدد ہیں وہیں یہ بات بھی ھے کہ ان کے جنازہ میں ستر ہزار فرشتے شریک تھے نیز ان کی وفات پر عرش الہی بہی جہوم اٹھا تہا, فرشتوں نے بہی ان کے جنازے کو کاندھا دیا تہا,اور بزبان نبوت ان کے جنتی لباس فاخرہ کا ذکر بہی روایت معتبرہ میں ھے: 



• *ان کا جنتی لباس* •


امام حافظ الدنیا علامہ ابن حجر عسقلانی نے " الاصابہ " میں معتبر سند سے روایت ذکر کی ھے: کہ حضرت سعد بن معاذ کا جنت والا لباس بہت عمدہ ہوگا: 


✧ وأخرج ابن السكن وأبو نعيم من طريق داود بن الحصين عن واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ عن أبيه قال: لبس رسول الله صلى الله عليه وسلم قباء مزررا بالديباج، فجعل الناس ينظرون إليه فقال مناديل سعد في الجنة أفضل من هذا. رواته موثقون إليه.


٭ المصدر: الإصابة في معرفة الصحابة

٭ المحدث: الامام ابن حجر العسقلاني 

٭ المجلد: 4

٭ الصفحة: 525

٭ الرقم: 5857

٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.



• *رحمن کے عرش کا جھومنا* • 


امام ترمذی نے بسند صحیح ذکر کیا ھے: کہ حضرت سعد بن معاذ کی وفات پر عرش الہی جہوم اٹھا : 



※ حدثنا محمود بن غيلان حدثنا عبد الرزاق أخبرنا ابن جريج أخبرني أبو الزبير أنه سمع جابر بن عبد الله يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول وجنازة سعد بن معاذ بين أيديهم اهتز له عرش الرحمن.


 قال وفي الباب عن أسيد بن حضير وأبي سعيد ورميثة. قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح.


÷ المصدر سنن الترمذي

÷ المجلد: 6

÷ الصفحة: 160

÷ الرقم: 3848

÷ الطبع: دار الغرب الإسلامي، بيروت، لبنان.




$ *فرشتوں کا جنازے کو کندھا دینا* $


امام ترمذی نے بیان کیا کہ انکے جنازے کے ہلکا ہونے کی وجہ سے بعض منافقین نے اسکا طعنہ دیا تو نبی کریم نے کہا: ان کو کیا معلوم , سعد کے جنازے کو ملائکہ نے بھی کندھا دیا تہا۔



حدثنا عبد بن حميد أخبرنا عبد الرزاق أخبرنا معمر عن قتادة عن أنس بن مالك قال لما حملت جنازة سعد بن معاذ قال المنافقون ما أخف جنازته وذلك لحكمه في بني قريظة فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فقال إن الملائكة كانت تحمله.


 قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح غريب.


% المصدر: سنن الترمذي

% المجلد: 6

% الصفحة: 161

% الرقم: 3849

% الطبع: دار الغرب الإسلامي، بيروت، لبنان.


÷ *قبر کا ان کو بہینچنا* ÷


 امام نسائی نے ( بَابُ : ضَمَّةِ الْقَبْرِ وَضَغْطَتِهِ) میں بسند صحیح روایت ذکر کی ھے جس میں ہے کہ ایک بار قبر نے حضرت سعد کو بہینچا تہا: 



اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا عمرو بن محمد العنقزي، قال: حدثنا ابن إدريس، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" هذا الذي تحرك له العرش، وفتحت له ابواب السماء، وشهده سبعون الفا من الملائكة، لقد ضم ضمة، ثم فرج عنه".


( ترجمہ )


عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی وہ شخص ہے جس کے لیے عرش الٰہی ہل گیا، آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے، اور ستر ہزار فرشتے اس کے جنازے میں شریک ہوئے، (پھر بھی قبر میں) اسے ایک بار بھینچا گیا، پھر (یہ معاملہ) ان سے ہٹا لیا گیا“۔


∅ المصدر: سنن نسائي

∅ الصفحة: 284

∅ الرقم: 2055

∅ الطبع: دار الحضارة للنشر والتوزيع، الرياض، السعودية.


🔸 *قبر نے کیوں بہینچا* 🔸


اب قابل بیان بات یہ ھے: کہ حضرت سعد کی اس قدر جلالت شان کے باوجود انکو قبر نے کیوں دبایا ؟ تو اسکے دو طرح کے جوابات ہیں:

1) بعض کتب میں ھے: کہ نبی کریم نے کہا: سعد بن معاذ سے گاہے طہارت و بول میں کوتاہی ہوئی ہوگی تو اسکی وجہ سے قبر نے یہ معاملہ کیا: 


🔖 *دلائل النبوہ* 🔖


اخبرنا ابو عبد الله الحافظ، حدثنا ابو العباس، قال: حدثنا احمد، قال: حدثنا يونس، عن ابن إسحاق، قال: حدثنا أمية بن عبد الله : انه سأل بعضَ أهل سعد: ما بلغكم من قول رسول الله في هذا؟ فقالوا: ذكر لنا ان رسول الله سئل عن ذلك، فقال: كان يقصر في بعض الطهور من البول.


٭ المصدر: دلائل النبوة

٭ المحدث: الإمام البيهقي

٭ المجلد: 4

٭ الصفحة:30

٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.



فائدہ:


 کیا یہ بات مستند ھے کہ حضرت سعد طہارت میں کوتاہی کرتے ہونگے؟


 جواب:مذکورہ روایت میں راوی " اہل سعد " کون ہیں اسکی صراحت نہیں ؛یہ روات مجہول ہیں لہذا یہ سند اتنی معتبر نہیں کہ اس بات کو حتمی کہاجاسکے نیز امام ابن الجوزی نے مضوعات میں اس طرح کی روایت ذکر کی ھے جسمیں طہارت کی کوتاہی والی بات ھے ؛ لیکن حضرت علام نے خود اس روایت پر سخت جرح فرماکر اسکو قابل احتجاج نہیں مانا ھے: 



🔰 *الموضوعات* 🔰


أنبأنا ابن ناصر، أنبأنا ابن المبارك بن عبد الجبار، وعبد القادر بن محمد، قالا: أنبأنا أبو إسحاق البرمكي، حدثنا أبوبكر محمد بن عبد الله بن خلف، حدثنا محمد بن ذريح، حدثنا هناد بن السري، حدثنا ابن فضيل عن أبي سفيان، عن الحسن قال: أصاب سعدُ بنُ معاذٍ جراحةً فجعله النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عند امرأةٍ تُداويه  فمات من اللَّيلِ ، فأتاه جبريلُ فأخبره فقال : لقد مات فيكم رجلٌ لقد اهتزَّ العرشُ لحبِّ لقاءِ اللهِ إيَّاه ، فإذا هو سعدٌ ، فدخل رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قبرَه ، فجعل يُكبِّرُ ويُهلِّلُ فلمَّا خرج قيل : يا رسولَ اللهِ : ما رأيناك صنعت هذا قطُّ ؟ قال : إنَّه ضُمَّ في  القبرِ ضمَّةً حتَّى صار مثلَ الشَّعرةِ ، فدعوتُ اللهَ أن يُرفِّهَ عنه، وذلك انه كان لا يستبرئُ من  البولِ.



هذا حديث مقطوع ؛ ان الحسن لم يدرك سعدا، وابو سفيان اسمه طريف بن شهاب الصفدي، قال احمد بن حنبل ويحي بن معين: ليس بشيئ، وقال النسائي: متروك الحديث، وقال ابن حبان: كان مغفلا، يهم في الأخبار حتي يقلبها، ويروي عن الثقات ما لا يشبه حديث الأثبات، وحوشي سعد ان يقصر فيما يجب عليه من الطهارة.


٭ المصدر: الموضوعات 

٭ المحدث: الامام ابن الجوزيه

٭ المجلد:3

٭ الصفحة: 233

٭ الطبع: المكتبة السلفية، المدينة المنورة، السعودية.


📎 *نور الانوار* 📎


ملا جیون نے " نور الانوار " میں ایک روایت ذکر کی ھے: کہ ایک نیک صالح صحابی کی تدفین سے فراغت کے بعد جب قبر نے دبایا تو حضور انکے گھر تشریف لائے اور ان کی اہلیہ سے ( در پردہ ) ان کا وہ عمل معلوم کیا جس کی وجہ سے وہ قبر میں مبتلا ہوئے تو جواب ملا: کہ موصوف بکریاں چرایا کرتے تھے ؛ لیکن بکریوں کے پیشاب کی چھینٹوں سے احتراز میں احتیاط گاہے نہ ہوپاتی تہی: لیکن محشی نے " اشراق الابصار" کے حوالہ سے لکہا کہ یہ واقعہ ان الفاظ میں موجود نہیں۔


∌ وقصة هذا الحديث الناسخ ما روي أنه عليه السلام لما فرغ من دفن صحابي صالح ابتلي بعذاب القبر جاء إلي امرأته فسألها عن أعماله فقالت كان يرعى الغنم و لا يتنزه من بوله فحينئذ قال عليه السلام إستنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه.


• المصدر: نور الانوار

• المؤلف: العلامة أحمد ملا جيون

• الصفحة: 286

• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.



💐 *إعلاء السنن* 💐


اعلاء السنن میں بھی طبقات ابن سعد کے حوالہ سے روایت ذکر کی ھے کہ قبر نے حضرت سعد بن معاذ کو دبایا تہا ؛ لیکن اس کی وجہ خود كے پیشاب سے طہارت میں کوتاہی نہ سمجہی جائے: 



▫️ واخرج ابن سعد قال: أخبرنا شبابة بن سوار، أخبرني أبومعشر، عن سعيد المقبري، قال: لما دفن رسول الله سعد بن معاذ، قال: لو نجا أحد من ضغطة القبر، لنجا سعد، ولقد ضم ضمة اختلف فيها اضلاعه من اثر البول، كذا في شرح الصدور للسيوطي، قلتُ: وسند ابن سعد مرسل حسن، ولكن ليس فيه ذكر الغنم ونحوه، ولكن لا يظن بسعد أنه كان لا يستنزه من بول نفسه لكونه نجس بالاتفاق.


. المصدر: إعلاء السنن

. المحدث: العلامة ظفر التهانوي

. المجلد: 1

. الصفحة: 417

. الطبع: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراچي، پاكستان.



2) *دوسرا جواب*


دوسرا جواب جو سند صحیح سے روایات میں موجود ھے: وہ یہ ھے کہ قبر کا دبانا یا قبر کا میت کو بھینچنا اس بنا پر ہی نہیں ہوتا کہ وہ عاصی ھے یا کافر ھے ؛ بل کہ قبر تو ہر کسی کو دبوچتی و دباتی ھے خواہ عاصی ہو یا مطیع ؛ لہذا حضرت سعد کے معاملے کو یہ بالکل نہ سمجہا جائے کہ ان کو قبر نے بوجہ تقصیر فی طہارت بطور عذاب دبایا تہا بلکہ قبر نے معمول و عادت کے مطابق دبایا تہا اور چونکہ اس میں سختی تو ہوتی ھے اسی وجہ سے حضور کا ذکر و تسبیح و تہلیل کرنا ہوا تہا: 



💎 *صحیح ابن حبان* 💎


اخبرنا عمر بن محمد الهمداني، حدثنا بُنْدار عن عبد الملك بن الصباح، حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن نافع، عن صفية، عن عائشة، عن النبي: قال: للقبر ضغطة، لو نجا منها احد، لنجا منها سعد بن معاذ.


٭ المصدر: صحيح ابن حبان

٭ المجلد: 7

٭ الصفحة: 379

٭ الرقم: 3112

٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.


☢️ *ایک خوبصورت توجیہ* ☢️


امام سیوطی نے محمد تیمی کا ایک مقولہ نقل کیا ھے : کہ قبر کا یہ دبانا بطور محبت و شفقت ہوتا ھے یعنی جیسے کسی ماں کا بچہ کافی دن بعد لوٹے تو ماں فرط محبت میں اسکو گود میں لیکر دباتی ھے , چومتی ھے اسکو سینے سے چمٹاتی ھے بس اسی طرح قبر بہی نیک بندے کیساتھ یہ محبت بھرا برتاؤ کرتی ھے: 


∅ عن محمد التيمي رحمه الله قال :( كان يقال : إن ضمة القبر إنما أصلها أنها أُمُّهُم ، ومنها خُلقوا ، فغابوا عنها الغيبة الطويلة ، فلما رد إليها أولادها ضمتهم ضم الوالدة الشفيقة التي غاب عنها ولدها ثم قدم عليها ، فمن كان لله مطيعاً ضمته برفق ورأفة ، ومن كان لله عاصياً ضمته بعنف سخطاً منها عليه ) .


. المصدر: بشرى الكئيب بلقاء الحبيب

. المحدث: السيوطي 

. الصفحة: 36

. الطبع: مكتبة القرآن، قاهرة، مصر.


💦 *امام ذھبی کی توجیہ* 💦


قلت : هذه الضمة ليست من عذاب القبر في شيء ; بل هو أمر يجده المؤمن كما يجد ألم فقد ولده وحميمه في الدنيا ، وكما يجد من ألم مرضه ، وألم خروج نفسه ، وألم سؤاله في قبره وامتحانه ، وألم تأثره ببكاء أهله عليه ، وألم قيامه من قبره ، وألم الموقف وهوله ، وألم الورود على النار ، ونحو ذلك . 


فهذه الأراجيف كلها قد تنال العبد وما هي من عذاب القبر ، ولا من عذاب جهنم قط ، ولكن العبد التقي يرفق الله به في بعض ذلك أو كله ، ولا راحة للمؤمن دون لقاء ربه . 


قال الله تعالى : وأنذرهم يوم الحسرة وقال : وأنذرهم يوم الآزفة إذ القلوب لدى الحناجر فنسأل الله - تعالى - العفو واللطف الخفي . ومع هذه الهزات ، فسعد ممن نعلم أنه من أهل الجنة ، وأنه [ ص: 291 ] من أرفع الشهداء - رضي الله عنه - . كأنك يا هذا تظن أن الفائز لا يناله هول في الدارين ، ولا روع ولا ألم ولا خوف ، سل ربك العافية ، وأن يحشرنا في زمرة سعد .


ترجمہ: 


”یہ تنگی اور پکڑ عذاب قبر نہیں ہے، بل کہ یہ تو ایک حالت ہے، جس کا سامنا مومن کو بہر صورت کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ دنیا میں اپنے بیٹے یا محبوب کے گم ہو جانے پر پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ اسی طرح اسے بیماری، جان نکلنے، قبر کے سوالات، اس پر نوحہ کرنے کے اثرات، قبر سے اٹھنے، حشر اور اس کی ہولناکی اور آگ پر پیشی وغیرہ جیسے حالات کی تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے یا پڑے گی۔ ان دہشت ناک حالات سے انسان کا پالا پڑ سکتا ہے۔ یہ نہ قبر کا عذاب ہے، نہ جہنم کا۔ لیکن اللہ تعالیٰ شفقت کرتے ہوئے اپنے متقی بندے کو بعض یا سب حالات سے بچا لیتے ہیں۔ مومن کو حقیقی و ابدی راحت اپنے رب کی ملاقات کے بعد ہی حاصل ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (وَأَنْذِرْہُم یَوْمَ الْحَسْرَۃِ)(مریم : ٣٩) ‘آپ لوگوں کو حسرت والے دن سے خبر دار کر دیں۔’ نیز فرمایا : (وَأَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْـآزِفَۃِ، إِذِ القُلُوبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ) (المؤمن : ١٨) ‘آپ لوگوں کو تنگی اور بدحالی والے دن سے ڈرا دیں کہ جب کلیجے منہ کو آئیں گے۔’ ہم اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر ، لطف وکرم اور پردہ پوشی کا سوال کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ان جھٹکوں کے باوجود سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ  جنتی ہیں اور بلند مرتبہ شہدا میں سے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ کامیاب انسان کو دنیا و آخرت میں کسی قسم کی پریشانی، قلق، تکلیف، خوف اور گھبراہٹ کا سامنا نہیں ہو گا۔ اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہمیں عافیت عطا فرمائے اور ہمارا حشر (سیدالانصار) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ  کے ساتھ کر دے۔”




× المصدر: سير أعلام النبلاء

× المحدث: الإمام الذهبي

× الصفحة: 1782

× الرقم: 2222

× الطبع: بيت الافكار الدولية، بيروت، لبنان.


•••__ *خلاصہ کلام* __•••


  معلوم ہوگیا کہ حضرت سعد بن معاذ کی بابت یہ گمان نہ کیا جائے کہ وہ طہارت میں کوتاہی کرتے ہونگے اس لیے ان کو قبر میں وہ معاملہ پیش آیا ؛ بلکہ یہ معاملہ سب کو پیش آنا ھے ؛ لیکن انبیاء کو یہ معاملہ پیش نہیں آتا ھے: 


💟 *شرح الصدور* 💟


امام سیوطی نے حکیم ترمذی کا قول نقل فرمایا ھے کہ انبیاء اس سے مستثنی ہیں : 


#وقال الحكيم الترمذي:" سبب هذا الضغط أنه ما من أحد إلا وقد ألم بذنب ما فتدركه هذه الضغطة جزاء لها ثم تدركه الرحمة... قال: وأمّا الانبياء، فلا نعلم ان لهم في القبور ضمة، ولا سؤالا لعصمتهم.


٭ المصدر: شرح الصدور

٭ المؤلف: جلال الدين السيوطي

٭ الصفحة: 110

٭ الطبع: دار المنهاج، جدة، السعودية.


والله تعالي اعلم

✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي* 

22جولائي، 2021

Sunday, July 18, 2021

فرزند عثمان غنی

 ✦ *نواسۂ رسولؐ فرزندِ عثمان غنیؓ*✦


 سوال یہ ھے: کہ حضرت عثمان غنیؓ کے بیٹے عبد ﷲؓ کی وفات کس طرح ہوئی؟ 




▪️ *باسمہ تعالی* ▪️

*الجواب وبہ التوفیق:* 


  حضرت رقیہؓ بنت رسول کے بطن سے حضرت عثمان غنیؓ کے مقام حبشہ میں دو بچے ہوئے: ایک بچہ ناتمام پیدا ہوا تہا پھر اسکے بعد ایک فرزند مولود ہوئے جنکا نام ٭عبد ﷲ٭ رکھا گیا , اسی نام کی نسبت سے حضرت عثمان غنیؓ کی کنیت " ابو عبد ﷲ" مشہور ہوئی, اہل سیر لکہتے ہیں کہ عبد ﷲ جب قریبا چھ برس کی عمر کو پہونچے تو ان کی آنکھ میں ایک مرغ نے ٹھونگ لگاکر زخم کردیا تہا, جسکی وجہ سے ان کا چہرہ متورم ہوگیا, پھر وہ ٹھیک نہ ہوسکا, اسی حالت میں وہ انتقال کرگئے,ان کے بعد حضرت رقیہؓ سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔


🔖 *تفسیر قرطبی* 🔖


وَهَاجَرَتْ مَعَهُ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ الْهِجْرَتَيْنِ، وَكَانَتْ قَدْ أَسْقَطَتْ مِنْ عُثْمَانَ سَقْطًا، ثُمَّ وَلَدَتْ بَعْدَ ذَلِكَ عَبْدَ اللَّهِ، وَكَانَ عُثْمَانُ يُكْنَى بِهِ فِي الْإِسْلَامِ، وَبَلَغَ سِتَّ سِنِينَ فَنَقَرَهُ دِيكٌ فِي وَجْهِهِ فَمَاتَ، وَلَمْ تَلِدْ لَهُ شَيْئًا بَعْدَ ذَلِكَ. 


• المصدر: تفسير القرطبي

• المجلد: 17

• الصفحة: 229

• الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.



🕯️ *أُسد الغابة* 🕯️


اؔمام «ابن اثیر» نے بھی حضرت رقیہؓ کے سوانحی خاکے میں یہ بات لکھی ھے: کہ ٤؁ھ جمادی الاولی میں  ننہے " عبد ﷲ" کی وفات ہوئی اور وفات کا سبب مرغ کی ٹھونگ سے آنکھ کا زخمی ہونا تہا, ان کا جنازہ انکے نانا جان جناب محمد عربی صلی ﷲ علیہ وسلم نے پڑھایا اور قبر میں ان کے والد ؔداماد رسول حضرت عثمان غنیؓ اترے تھے۔



۞ فتزوج عثمان بن عفان رقية بمكة، وهاجرت معه إلي الحبشة، وولدت له هناك ولدا، فسماه عبد الله، وكان عثمان يكني به، فبلغ الغلام ست سنين، فنقر عينَه ديكٌ، فورم وجهه، ومرض ومات، وكان موته في "جمادي الأولي " سنة "أربع "وصلي عليه رسول الله، ونزل أبوه عثمان في حفرته. 



٭ المصدر: أسد الغابة 

٭ المؤلف: الإمام ابن الأثيرؒ

٭ الصفحة: 1518

٭ الرقم: 6932

٭ الطبع: دار ابن حزمؒ، بيروت، لبنان.


والله تعالي أعلم

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي* 

18 جولائي، 2021

Friday, July 16, 2021

حرام کمائی کی نحوست

 ▪️ *حرام کمائی کی نحوست* ▪️ 


کسی نے دس درہم کا کپڑا خریدا ان میں سے ایک درہم حرام کا تھا تو جب تک یہ کپڑا اس کے بدن پہ رہے گا اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔


اس روایت کا حوالہ و تحقیق مطلوب ھے:


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


  یہ روایت مسند احمد میں مذکور ھے؛ لیکن محقق "شيخ شعيب ارنؤوطؒ" نے لکھا ھے: کہ یہ روایت بہت زیادہ ضعیف ھے ؛ لہذا اسکی نسبت نبی کریمؐ کی جانب نہ کیجائے۔


🔰 *مسند احمد* 🔰


حدثنا أسود بن عامر، حدثنا بقية بن الوليد الحمّصي، عن عثمان بن زفر، عن هاشم، عن ابن عمر، قال: من اشترى ثوباً بعشرة دراهم وفيه درهم حرام لم يقبل الله صلاته ما دام عليه، قال: ثم أدخل إصبعيه في أذنيه، ثم قال: صُمّتا إن لم يكن النبي سمعته يقوله.


٭ المصدر: مسند احمدؒ

٭ المجلد: 10 

٭ الصفحة: 24

٭ الرقم: 5732 

٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.



💎 *نصب الراية* 💎


امام زیلعیؒ نے بہی تقریبا یہی بات لکھی ھے:


• المصدر: نصب الراية

• المحدث: الامام الزيلعيؒ

• المجلد: 2 

• الصفحة: 325

• الطبع: دار القبلة للثقافة الاسلامية، جدة، السعودية.



🔖 *الدراية في تخريج أحاديث الهداية* 🔖


امام حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانیؒ نے بہی ضعیف جدا لکہا ھے:


》 المصدر: الدراية في تخريج أحاديث الهداية 

》المحدث: الإمام ابن حجر العسقلانيؒ 

》المجلد: 1

》الصفحة: 247

》الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.


والله تعالي أعلم 

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

16 جولائي: 2021