✦ *حضرت سعد بن معاذ کو قبر کا بھینچنا* ✦
ایک بات کے متعلق مجھے استفسار در پیش ھے: کہ صحابی رسول حضرت سعد بن معاذ ایک جلیل القدر صحابی ہیں کہا جاتا ھے: کہ حضرت کی وفات کے موقع پر خدا تعالی کا عرش بہی جھوم اٹھا تہا؛ لیکن دوسری جانب یہ بھی سنا جاتا ھے: کہ تدفین کے بعد ان کو قبر نے بھینچا بھی تہا تو ان کے ساتھ قبر نے یہ معاملہ کیوں کیا؟
مجھے وضاحت کیساتھ اسکا جواب عنایت فرمایئں!!!
▪️ *باسمہ تعالی* ▪️
*الجواب وبہ التوفیق:*
حضرت سیدنا سعد بن معاذ ایک جلیل القدر صحابی ہیں جہاں ان کے فضایل متعدد ہیں وہیں یہ بات بھی ھے کہ ان کے جنازہ میں ستر ہزار فرشتے شریک تھے نیز ان کی وفات پر عرش الہی بہی جہوم اٹھا تہا, فرشتوں نے بہی ان کے جنازے کو کاندھا دیا تہا,اور بزبان نبوت ان کے جنتی لباس فاخرہ کا ذکر بہی روایت معتبرہ میں ھے:
• *ان کا جنتی لباس* •
امام حافظ الدنیا علامہ ابن حجر عسقلانی نے " الاصابہ " میں معتبر سند سے روایت ذکر کی ھے: کہ حضرت سعد بن معاذ کا جنت والا لباس بہت عمدہ ہوگا:
✧ وأخرج ابن السكن وأبو نعيم من طريق داود بن الحصين عن واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ عن أبيه قال: لبس رسول الله صلى الله عليه وسلم قباء مزررا بالديباج، فجعل الناس ينظرون إليه فقال مناديل سعد في الجنة أفضل من هذا. رواته موثقون إليه.
٭ المصدر: الإصابة في معرفة الصحابة
٭ المحدث: الامام ابن حجر العسقلاني
٭ المجلد: 4
٭ الصفحة: 525
٭ الرقم: 5857
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
• *رحمن کے عرش کا جھومنا* •
امام ترمذی نے بسند صحیح ذکر کیا ھے: کہ حضرت سعد بن معاذ کی وفات پر عرش الہی جہوم اٹھا :
※ حدثنا محمود بن غيلان حدثنا عبد الرزاق أخبرنا ابن جريج أخبرني أبو الزبير أنه سمع جابر بن عبد الله يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول وجنازة سعد بن معاذ بين أيديهم اهتز له عرش الرحمن.
قال وفي الباب عن أسيد بن حضير وأبي سعيد ورميثة. قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح.
÷ المصدر سنن الترمذي
÷ المجلد: 6
÷ الصفحة: 160
÷ الرقم: 3848
÷ الطبع: دار الغرب الإسلامي، بيروت، لبنان.
$ *فرشتوں کا جنازے کو کندھا دینا* $
امام ترمذی نے بیان کیا کہ انکے جنازے کے ہلکا ہونے کی وجہ سے بعض منافقین نے اسکا طعنہ دیا تو نبی کریم نے کہا: ان کو کیا معلوم , سعد کے جنازے کو ملائکہ نے بھی کندھا دیا تہا۔
حدثنا عبد بن حميد أخبرنا عبد الرزاق أخبرنا معمر عن قتادة عن أنس بن مالك قال لما حملت جنازة سعد بن معاذ قال المنافقون ما أخف جنازته وذلك لحكمه في بني قريظة فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فقال إن الملائكة كانت تحمله.
قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح غريب.
% المصدر: سنن الترمذي
% المجلد: 6
% الصفحة: 161
% الرقم: 3849
% الطبع: دار الغرب الإسلامي، بيروت، لبنان.
÷ *قبر کا ان کو بہینچنا* ÷
امام نسائی نے ( بَابُ : ضَمَّةِ الْقَبْرِ وَضَغْطَتِهِ) میں بسند صحیح روایت ذکر کی ھے جس میں ہے کہ ایک بار قبر نے حضرت سعد کو بہینچا تہا:
اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا عمرو بن محمد العنقزي، قال: حدثنا ابن إدريس، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" هذا الذي تحرك له العرش، وفتحت له ابواب السماء، وشهده سبعون الفا من الملائكة، لقد ضم ضمة، ثم فرج عنه".
( ترجمہ )
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی وہ شخص ہے جس کے لیے عرش الٰہی ہل گیا، آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے، اور ستر ہزار فرشتے اس کے جنازے میں شریک ہوئے، (پھر بھی قبر میں) اسے ایک بار بھینچا گیا، پھر (یہ معاملہ) ان سے ہٹا لیا گیا“۔
∅ المصدر: سنن نسائي
∅ الصفحة: 284
∅ الرقم: 2055
∅ الطبع: دار الحضارة للنشر والتوزيع، الرياض، السعودية.
🔸 *قبر نے کیوں بہینچا* 🔸
اب قابل بیان بات یہ ھے: کہ حضرت سعد کی اس قدر جلالت شان کے باوجود انکو قبر نے کیوں دبایا ؟ تو اسکے دو طرح کے جوابات ہیں:
1) بعض کتب میں ھے: کہ نبی کریم نے کہا: سعد بن معاذ سے گاہے طہارت و بول میں کوتاہی ہوئی ہوگی تو اسکی وجہ سے قبر نے یہ معاملہ کیا:
🔖 *دلائل النبوہ* 🔖
اخبرنا ابو عبد الله الحافظ، حدثنا ابو العباس، قال: حدثنا احمد، قال: حدثنا يونس، عن ابن إسحاق، قال: حدثنا أمية بن عبد الله : انه سأل بعضَ أهل سعد: ما بلغكم من قول رسول الله في هذا؟ فقالوا: ذكر لنا ان رسول الله سئل عن ذلك، فقال: كان يقصر في بعض الطهور من البول.
٭ المصدر: دلائل النبوة
٭ المحدث: الإمام البيهقي
٭ المجلد: 4
٭ الصفحة:30
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
فائدہ:
کیا یہ بات مستند ھے کہ حضرت سعد طہارت میں کوتاہی کرتے ہونگے؟
جواب:مذکورہ روایت میں راوی " اہل سعد " کون ہیں اسکی صراحت نہیں ؛یہ روات مجہول ہیں لہذا یہ سند اتنی معتبر نہیں کہ اس بات کو حتمی کہاجاسکے نیز امام ابن الجوزی نے مضوعات میں اس طرح کی روایت ذکر کی ھے جسمیں طہارت کی کوتاہی والی بات ھے ؛ لیکن حضرت علام نے خود اس روایت پر سخت جرح فرماکر اسکو قابل احتجاج نہیں مانا ھے:
🔰 *الموضوعات* 🔰
أنبأنا ابن ناصر، أنبأنا ابن المبارك بن عبد الجبار، وعبد القادر بن محمد، قالا: أنبأنا أبو إسحاق البرمكي، حدثنا أبوبكر محمد بن عبد الله بن خلف، حدثنا محمد بن ذريح، حدثنا هناد بن السري، حدثنا ابن فضيل عن أبي سفيان، عن الحسن قال: أصاب سعدُ بنُ معاذٍ جراحةً فجعله النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عند امرأةٍ تُداويه فمات من اللَّيلِ ، فأتاه جبريلُ فأخبره فقال : لقد مات فيكم رجلٌ لقد اهتزَّ العرشُ لحبِّ لقاءِ اللهِ إيَّاه ، فإذا هو سعدٌ ، فدخل رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قبرَه ، فجعل يُكبِّرُ ويُهلِّلُ فلمَّا خرج قيل : يا رسولَ اللهِ : ما رأيناك صنعت هذا قطُّ ؟ قال : إنَّه ضُمَّ في القبرِ ضمَّةً حتَّى صار مثلَ الشَّعرةِ ، فدعوتُ اللهَ أن يُرفِّهَ عنه، وذلك انه كان لا يستبرئُ من البولِ.
هذا حديث مقطوع ؛ ان الحسن لم يدرك سعدا، وابو سفيان اسمه طريف بن شهاب الصفدي، قال احمد بن حنبل ويحي بن معين: ليس بشيئ، وقال النسائي: متروك الحديث، وقال ابن حبان: كان مغفلا، يهم في الأخبار حتي يقلبها، ويروي عن الثقات ما لا يشبه حديث الأثبات، وحوشي سعد ان يقصر فيما يجب عليه من الطهارة.
٭ المصدر: الموضوعات
٭ المحدث: الامام ابن الجوزيه
٭ المجلد:3
٭ الصفحة: 233
٭ الطبع: المكتبة السلفية، المدينة المنورة، السعودية.
📎 *نور الانوار* 📎
ملا جیون نے " نور الانوار " میں ایک روایت ذکر کی ھے: کہ ایک نیک صالح صحابی کی تدفین سے فراغت کے بعد جب قبر نے دبایا تو حضور انکے گھر تشریف لائے اور ان کی اہلیہ سے ( در پردہ ) ان کا وہ عمل معلوم کیا جس کی وجہ سے وہ قبر میں مبتلا ہوئے تو جواب ملا: کہ موصوف بکریاں چرایا کرتے تھے ؛ لیکن بکریوں کے پیشاب کی چھینٹوں سے احتراز میں احتیاط گاہے نہ ہوپاتی تہی: لیکن محشی نے " اشراق الابصار" کے حوالہ سے لکہا کہ یہ واقعہ ان الفاظ میں موجود نہیں۔
∌ وقصة هذا الحديث الناسخ ما روي أنه عليه السلام لما فرغ من دفن صحابي صالح ابتلي بعذاب القبر جاء إلي امرأته فسألها عن أعماله فقالت كان يرعى الغنم و لا يتنزه من بوله فحينئذ قال عليه السلام إستنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه.
• المصدر: نور الانوار
• المؤلف: العلامة أحمد ملا جيون
• الصفحة: 286
• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
💐 *إعلاء السنن* 💐
اعلاء السنن میں بھی طبقات ابن سعد کے حوالہ سے روایت ذکر کی ھے کہ قبر نے حضرت سعد بن معاذ کو دبایا تہا ؛ لیکن اس کی وجہ خود كے پیشاب سے طہارت میں کوتاہی نہ سمجہی جائے:
▫️ واخرج ابن سعد قال: أخبرنا شبابة بن سوار، أخبرني أبومعشر، عن سعيد المقبري، قال: لما دفن رسول الله سعد بن معاذ، قال: لو نجا أحد من ضغطة القبر، لنجا سعد، ولقد ضم ضمة اختلف فيها اضلاعه من اثر البول، كذا في شرح الصدور للسيوطي، قلتُ: وسند ابن سعد مرسل حسن، ولكن ليس فيه ذكر الغنم ونحوه، ولكن لا يظن بسعد أنه كان لا يستنزه من بول نفسه لكونه نجس بالاتفاق.
. المصدر: إعلاء السنن
. المحدث: العلامة ظفر التهانوي
. المجلد: 1
. الصفحة: 417
. الطبع: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراچي، پاكستان.
2) *دوسرا جواب*
دوسرا جواب جو سند صحیح سے روایات میں موجود ھے: وہ یہ ھے کہ قبر کا دبانا یا قبر کا میت کو بھینچنا اس بنا پر ہی نہیں ہوتا کہ وہ عاصی ھے یا کافر ھے ؛ بل کہ قبر تو ہر کسی کو دبوچتی و دباتی ھے خواہ عاصی ہو یا مطیع ؛ لہذا حضرت سعد کے معاملے کو یہ بالکل نہ سمجہا جائے کہ ان کو قبر نے بوجہ تقصیر فی طہارت بطور عذاب دبایا تہا بلکہ قبر نے معمول و عادت کے مطابق دبایا تہا اور چونکہ اس میں سختی تو ہوتی ھے اسی وجہ سے حضور کا ذکر و تسبیح و تہلیل کرنا ہوا تہا:
💎 *صحیح ابن حبان* 💎
اخبرنا عمر بن محمد الهمداني، حدثنا بُنْدار عن عبد الملك بن الصباح، حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن نافع، عن صفية، عن عائشة، عن النبي: قال: للقبر ضغطة، لو نجا منها احد، لنجا منها سعد بن معاذ.
٭ المصدر: صحيح ابن حبان
٭ المجلد: 7
٭ الصفحة: 379
٭ الرقم: 3112
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.
☢️ *ایک خوبصورت توجیہ* ☢️
امام سیوطی نے محمد تیمی کا ایک مقولہ نقل کیا ھے : کہ قبر کا یہ دبانا بطور محبت و شفقت ہوتا ھے یعنی جیسے کسی ماں کا بچہ کافی دن بعد لوٹے تو ماں فرط محبت میں اسکو گود میں لیکر دباتی ھے , چومتی ھے اسکو سینے سے چمٹاتی ھے بس اسی طرح قبر بہی نیک بندے کیساتھ یہ محبت بھرا برتاؤ کرتی ھے:
∅ عن محمد التيمي رحمه الله قال :( كان يقال : إن ضمة القبر إنما أصلها أنها أُمُّهُم ، ومنها خُلقوا ، فغابوا عنها الغيبة الطويلة ، فلما رد إليها أولادها ضمتهم ضم الوالدة الشفيقة التي غاب عنها ولدها ثم قدم عليها ، فمن كان لله مطيعاً ضمته برفق ورأفة ، ومن كان لله عاصياً ضمته بعنف سخطاً منها عليه ) .
. المصدر: بشرى الكئيب بلقاء الحبيب
. المحدث: السيوطي
. الصفحة: 36
. الطبع: مكتبة القرآن، قاهرة، مصر.
💦 *امام ذھبی کی توجیہ* 💦
قلت : هذه الضمة ليست من عذاب القبر في شيء ; بل هو أمر يجده المؤمن كما يجد ألم فقد ولده وحميمه في الدنيا ، وكما يجد من ألم مرضه ، وألم خروج نفسه ، وألم سؤاله في قبره وامتحانه ، وألم تأثره ببكاء أهله عليه ، وألم قيامه من قبره ، وألم الموقف وهوله ، وألم الورود على النار ، ونحو ذلك .
فهذه الأراجيف كلها قد تنال العبد وما هي من عذاب القبر ، ولا من عذاب جهنم قط ، ولكن العبد التقي يرفق الله به في بعض ذلك أو كله ، ولا راحة للمؤمن دون لقاء ربه .
قال الله تعالى : وأنذرهم يوم الحسرة وقال : وأنذرهم يوم الآزفة إذ القلوب لدى الحناجر فنسأل الله - تعالى - العفو واللطف الخفي . ومع هذه الهزات ، فسعد ممن نعلم أنه من أهل الجنة ، وأنه [ ص: 291 ] من أرفع الشهداء - رضي الله عنه - . كأنك يا هذا تظن أن الفائز لا يناله هول في الدارين ، ولا روع ولا ألم ولا خوف ، سل ربك العافية ، وأن يحشرنا في زمرة سعد .
ترجمہ:
”یہ تنگی اور پکڑ عذاب قبر نہیں ہے، بل کہ یہ تو ایک حالت ہے، جس کا سامنا مومن کو بہر صورت کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ دنیا میں اپنے بیٹے یا محبوب کے گم ہو جانے پر پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ اسی طرح اسے بیماری، جان نکلنے، قبر کے سوالات، اس پر نوحہ کرنے کے اثرات، قبر سے اٹھنے، حشر اور اس کی ہولناکی اور آگ پر پیشی وغیرہ جیسے حالات کی تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے یا پڑے گی۔ ان دہشت ناک حالات سے انسان کا پالا پڑ سکتا ہے۔ یہ نہ قبر کا عذاب ہے، نہ جہنم کا۔ لیکن اللہ تعالیٰ شفقت کرتے ہوئے اپنے متقی بندے کو بعض یا سب حالات سے بچا لیتے ہیں۔ مومن کو حقیقی و ابدی راحت اپنے رب کی ملاقات کے بعد ہی حاصل ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (وَأَنْذِرْہُم یَوْمَ الْحَسْرَۃِ)(مریم : ٣٩) ‘آپ لوگوں کو حسرت والے دن سے خبر دار کر دیں۔’ نیز فرمایا : (وَأَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْـآزِفَۃِ، إِذِ القُلُوبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ) (المؤمن : ١٨) ‘آپ لوگوں کو تنگی اور بدحالی والے دن سے ڈرا دیں کہ جب کلیجے منہ کو آئیں گے۔’ ہم اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر ، لطف وکرم اور پردہ پوشی کا سوال کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ان جھٹکوں کے باوجود سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اور بلند مرتبہ شہدا میں سے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ کامیاب انسان کو دنیا و آخرت میں کسی قسم کی پریشانی، قلق، تکلیف، خوف اور گھبراہٹ کا سامنا نہیں ہو گا۔ اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہمیں عافیت عطا فرمائے اور ہمارا حشر (سیدالانصار) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر دے۔”
× المصدر: سير أعلام النبلاء
× المحدث: الإمام الذهبي
× الصفحة: 1782
× الرقم: 2222
× الطبع: بيت الافكار الدولية، بيروت، لبنان.
•••__ *خلاصہ کلام* __•••
معلوم ہوگیا کہ حضرت سعد بن معاذ کی بابت یہ گمان نہ کیا جائے کہ وہ طہارت میں کوتاہی کرتے ہونگے اس لیے ان کو قبر میں وہ معاملہ پیش آیا ؛ بلکہ یہ معاملہ سب کو پیش آنا ھے ؛ لیکن انبیاء کو یہ معاملہ پیش نہیں آتا ھے:
💟 *شرح الصدور* 💟
امام سیوطی نے حکیم ترمذی کا قول نقل فرمایا ھے کہ انبیاء اس سے مستثنی ہیں :
#وقال الحكيم الترمذي:" سبب هذا الضغط أنه ما من أحد إلا وقد ألم بذنب ما فتدركه هذه الضغطة جزاء لها ثم تدركه الرحمة... قال: وأمّا الانبياء، فلا نعلم ان لهم في القبور ضمة، ولا سؤالا لعصمتهم.
٭ المصدر: شرح الصدور
٭ المؤلف: جلال الدين السيوطي
٭ الصفحة: 110
٭ الطبع: دار المنهاج، جدة، السعودية.
والله تعالي اعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*
22جولائي، 2021