ایک شیعہ کی تحریر پڑھی جس میں وہ لکھ رہا ھے کہ غزوۂ تبوک سے واپسی کے موقع پر ایک گھاٹی میں چند صحابہ نے موقع پاکر حضور پر حملہ کیا اور حضور کو بلندی سے نیچے گرانے کی کوشش کی ؛ لیکن وہ اس سازش میں ناکام ہوئے اور ان صحابہ کے نام حضرت ابوبکر / حضرت عثمان/ حضرت طلحہ/ حضرت سعد بن ابی وقاص/ ہیں-
اس بات کی تحقیق درکار ھے!!!
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
سب سے پہلے وہ واقعہ ذکرنا مناسب ہوگا جس کی بابت شیعہ و روافض نے بہتان و جہوٹ کا سہارا لیا ھے:
🔖 *الرحیق المختوم اردو* 🔖
سیرت کی مشہور کتاب " الرحیق المختوم " میں مولانا صفی الرحمن مبارکپوری نے یہ واقعہ اختصارا ذکر کیا ھے: اسلامی لشکر تبوک سے مظفر و منصور واپس آیا ۔ کوئی ٹکر نہ ہوئی ۔ اللہ جنگ کے معاملے میں مومنین کے لیے کافی ہوا ۔ البتہ راستے میں ایک جگہ ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی سے گزر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی ہانک رہے تھے ۔ باقی صحابہ کرام دور وادی کے نشیب سے گزر ہے تھے اس لیے منافقین نے اس موقع کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے غنیمت سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قدم بڑھایا ۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھی حسب معمول راستہ طے کررہے تھے کہ پیچھے سے ان منافقین کے قدموں کی چاپیں سنائی دیں ۔ یہ سب چہروں پہ ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریباً چڑھ ہی آئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کی جانب بھیجا ۔ انہوں نے ان کی سواریوں کے چہروں پر اپنی ایک ڈھال سے ضرب لگانی شروع کی ، جس سے اللہ نے انہیں مرعوب کردیا اور وہ تیزی سے بھاگ کر لوگوں میں جا ملے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’ رازدان ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسی واقعہ سے متعلق اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ ’’ وَھَمُّوْا بِمَا لَم یَنَالُوْا (9: 74) انہوں نے اس کام کا قصد کیا جسے وہ نہ پا سکے.
÷ نام کتاب: الرحیق المختوم( اردو )
÷ نام مؤلف : صفی الرحمن مبارکپوری
÷ صفحہ:
587
÷طبع: مکتبہ سلفیہ, شیش محل روڈ , لاھور پاکستان.
🏷️ *مسند احمد میں* 🏷️
حدثنا يزيد، اخبرنا الوليد -يعني ابن عبد الله بن الجُمَيْع- عن أبي الطفيل، قال: لما أقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم من غزوة تبوك أمر مناديا فنادى: إن رسول الله أخذ العقبة، فلا يأخذها أحد، فبينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوده حذيفة ويسوق به عمار إذ أقبل رهط متلثمون على الرواحل، غشوا عمارا وهو يسوق برسول الله صلى الله عليه وسلم، وأقبل عمار يضرب وجوه الرواحل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لحذيفة: " قد، قد " حتى هبط رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما هبط رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل ورجع عمار، فقال: " يا عمار، هل عرفت القوم؟ " فقال: قد عرفت عامة الرواحل والقوم متلثمون قال: " هل تدري ما أرادوا؟ " قال: الله ورسوله أعلم، قال: " أرادوا أن ينفروا برسول الله صلى الله عليه وسلم فيطرحوه " قال: فسأل عمار رجلا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: نشدتك بالله، كم تعلم كان أصحاب العقبة فقال: أربعة عشر فقال: إن كنت فيهم فقد كانوا خمسة عشر، فعذر رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم ثلاثة قالوا: والله ما سمعنا منادي رسول الله، وما علمنا ما أراد القوم، فقال عمار: أشهد أن الاثني عشر الباقين حرب لله ولرسوله في الحياة الدنيا، ويوم يقوم الأشهاد قال الوليد: وذكر أبو الطفيل في تلك الغزوة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال للناس: وذكر له: أن في الماء قلة فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم مناديا فنادى: " أن لا يرد الماء أحد قبل رسول الله فورده رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد رهطا قد وردوه قبله، فلعنهم رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ ".
٭ المصدر: مسند أحمد
٭ المجلد: 39
٭ الصفحة: 210
٭ الرقم: 23792
٭ الدرجة: صحيح
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.
🔖 *تكملة فتح الملهم* 🔖
مسلم شریف میں تبوک سے واپسی والی گھاٹی میں حملہ آوروں کو منافق کہا گیا ھے کہ وہ لوگ منافقین تھے ؛ اور یہ بات خود نبی کریم نے حضرت حذیفہ بن یمان ( رازدار رسول ) کو بتائی تھی؛ لیکن ان کے نام کیا کیا ہیں یہ بات فقط رسول کریم اور ان کے راز دار حضرت حذیفہ کو معلوم ھے اور حضرت حذیفہ نے کبھی بھی یہ راز فاش نہ فرمایا؛ لہذا راف ضیوں کا یہ کہنا کہ وہ حملہ آور فلاں فلاں صحابہ تھے فقط ان کی فطری دروغ گوئی ھے :
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارٍ: أَرَأَيْتُمْ صَنِيعَكُمْ هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمْ فِي أَمْرِ عَلِيٍّ، أَرَأْيًا رَأَيْتُمُوهُ أَوْ شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَلَكِنْ حُذَيْفَةُ أَخْبَرَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا، فِيهِمْ ثَمَانِيَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ، ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ وَأَرْبَعَةٌ» لَمْ أَحْفَظْ مَا قَالَ شُعْبَةُ فِيهِمْ.
اس روایت میں ایک لفظ وارد ھے کہ میرے اصحاب میں بارہ منافق ہیں لہذا کسی کو یہ غلط فہمی ہرگز نہ ہو کہ یہاں صحابہ مراد ہیں ؛ بلکہ عربی میں ساتھ رہنے سہنے والے ( خواہ آستین کے دشمن ہوں)کو ساتہی و صاحب کہہ دیا جاتا ھے اور اگلی روایت میں اس کی وضاحت ھے کہ اصحابی کی بجائے امتی کا لفظ ھے کہ میری امت میں بارہ منافقین ہیں نیز یہ بھی ملحوظ رھے کہ امت میں بارہ سے زیادہ منافقین تھے لیکن بارہ کا عدد فقط اس گھاٹی کے حملہ آوروں کی تعداد بیان کرنا ھے:
حدثنا محمد بن المثني، ومحمد بن بشار، (واللفظ لابن المثني) قالا: حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن ابي نضرة، عن قيس بن عُبّاد، قال: قلنا لعمار: أرأيت قتالكم، أرأيا رأيتموه؟ فإن الرأي يخطئ ويصيب، أو عهدا عهده إليكم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: ما عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يعهده إلى الناس كافة، وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «إن في أمتي» قال شعبة: وأحسبه قال: حدثني حذيفة، وقال غندر: أراه قال: «في أمتي اثنا عشر منافقا لا يدخلون الجنة، ولا يجدون ريحها، حتى يلج الجمل في سم الخياط ثمانية منهم تكفيكهم الدبيلة،
سراج من النار يظهر في أكتافهم، حتى ينجم من صدورهم».
ترجمہ:
جناب قیس سے روایت ہے، میں نے جناب عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: (سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھے) تم نے (سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے)جو جنگ کی اور لڑے یہ تمہاری رائے ہے ؟
کیونکہ کسی کی رائے درست بھی ہوسکتی ہے ، اورغلط بھی ، یا تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں کچھ فرمایا تھا .
سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کوئی بات ایسی نہیں فرمائی جو اور عام لوگوں سے نہ فرمائی ہو لیکن سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں بارہ منافق ہیں ، یہ جنت میں نہ جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھسے .نہ اس کی خوشبو پائیں گے “ (یعنی ان کا جنت میں جانا محال ہے)
اور آٹھ کو ان میں سے دبیلہ سمجھ لے گا (دبیلہ پھوڑا یا دمل)
یعنی ایک آگ کا چراغ ان کے مونڈھوں میں پیدا ہو گا ان کی چھاتیاں توڑ کے نکل آئے گا (یعنی اس میں انگار ہو گا جیسے چراغ رکھ دیا ۔‘‘
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ قَالَ كَانَ بَيْنَ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ بَعْضُ مَا يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ فَقَالَ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ كَمْ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ قَالَ: فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: أَخْبِرْهُ إِذْ سَأَلَكَ، قَالَ: كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ، فَإِنْ كُنْتَ مِنْهُمْ فَقَدْ كَانَ الْقَوْمُ خَمْسَةَ عَشَرَ، وَأَشْهَدُ بِاللَّهِ أَنَّ اثْنَيْ عَشَرَ مِنْهُمْ حَرْبٌ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا، وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ، وَعَذَرَ ثَلَاثَةً، قَالُوا مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا عَلِمْنَا بِمَا أَرَادَ الْقَوْمُ، وَقَدْ كَانَ فِي حَرَّةٍ فَمَشَى فَقَالَ إِنَّ الْمَاءَ قَلِيلٌ فَلَا يَسْبِقْنِي إِلَيْهِ أَحَدٌ فَوَجَدَ قَوْمًا قَدْ سَبَقُوهُ فَلَعَنَهُمْ يَوْمَئِذٍ.
ولید بن جمیع نے کہا: ہمیں ابوطفیل رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: عقبہ والوں میں سے ایک شخص اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان (اسطرح کا جھگڑا ہوگیا جس طرح لوگوں کے درمیان ہو جاتا ہے۔ (گفتگو کے دوران میں) انہوں نے (اس شخص سے) کہا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ عقبہ والوں کی تعداد کتنی تھی؟ (حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ نے) کہا: لوگوں نے اس سے کہا: جب وہ آپ سے پوچھ رہے ہیں تو انہیں بتاؤ۔ (پھر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے خود ہی جواب دیتے ہوئے) کہا: ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہ چودہ لوگ تھے اور اگر تم بھی ان میں شامل تھے تو وہ کل پندرہ لوگ تھے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ان میں سے بارہ دنیا کی زندگی میں بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ میں تھے اور (آخرت میں بھی) جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین لوگوں کا عذر قبول فرما لیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کرنے والے کا اعلان نہیں سنا تھا اور اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ ان لوگوں کا ارادہ کیا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حرہ میں تھے، آپ چل پڑے اور فرمایا: "پانی کم ہے، اس لیے مجھ سے پہلے وہاں کوئی نہ پہنچے۔" چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (وہاں پہنچ کر) دیکھا کہ کچھ لوگ آپ سے پہلے وہاں پہنچ گئے ہیں تو آپ نے اس روز ان پر لعنت کی۔
٭ المصدر: تكملة فتح الملهم
٭ المجلد: 6
٭ الصفحة: 79/ 80/ 81/ 82
٭ الرقم: 6966/ 6967/ 6968
٭ الطبع: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان.
🔮 *المحلّٰی بالآثار* 🔮
امام ابن حزم اندلسی نے المحلی بالآثار میں حضرت حذیفہ بن یمان کی روایت کے متعلق لکہا ھے کہ یہ روایت ساقط الاعتبار ھے یعنی اسکا اعتبار نہیں ؛ کیونکہ وہ جو روایت ذکر کررھے ہیں اس میں حملہ آوروں کے نام مذکور ہیں اور راوی حضرت ولید بن جمیع ہیں جن کی روایت مسلم شریف میں ھے اور صحیح سند سے مروی روایت میں حملہ آروں کے اسماء مذکور ہی نہیں اور ان ناموں کا ذکر ہوگا بھی کیسے ؛ کیونکہ حضرت حذیفہ بن یمان کی رازداری اور ان کی امانت داری اس کی وجہ سے مخدوش ہوجاتی ھے. الحاصل! امام ابن حزم کی بات کا خلاصہ یہ ھے کہ جس نے بھی نام ذکر کیے ہیں وہ بات گھڑی ہوئی ھے خدا اس گھڑنے والے کو غارت کرے!
♜ وأما حديث حذيفة : فساقط ؛ لأنه من طريق الوليد بن جميع ، وهو هالك ! ولا نراه يعلم من وضع الحديث ؛ فإنه قد روى أخباراً فيها أن أبا بكر ، وعمر ، وعثمان ، وطلحة ، وسعد بن أبي وقاص ، رضي الله عنهم : أرادوا قتل النبي صلى الله عليه وآله ، وإلقاءه من " العقبة " في " التبوك "، وهذا هو الكذب الموضوع الذي يطعن الله تعالي واضعه، .
٭ المصدر: المُحلّٰي بالآثار
٭ المحدث: الإمام ابن حزم الاندلسي
٭ المجلد: 12
٭ الصفحة: 160
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
☪️ *كشف المشكل من حديث الصحيحين* ☪️
امام ابن جوزی نے حضرت حذیفہ والی روایت ذکر کرکے فرمایا: کہ یہ روایت نوآموز ( مبتدی طلبہ ) لوگوں کیلیے مشکل مقام ھے ؛ کیونکہ جب عقبہ والے مطلقا بولا جاتا ھے تو ذہن اس طرف جاتا ھے کہ وہ بیعت عقبہ والے انصار صحابہ ہوں جبکہ وہ واقعہ بیعت عقبہ اور یہ تبوک کی عقبہ( گھاٹی) دونوں واقعات الگ الگ ہیں, جہاں کچھ منافقین چھپ کر منہ چھپاکر نبی کریم پر حملہ کرنے آئے تھے:
هذا الحديث يشكل على المبتدئين ؛ لأن أهل العقبة إذا أطلقوا : فإنما يشار بهم إلى الأنصار المبايعين له ، وليس هذا من ذاك ، وإنما هذه عقبة في طريق تبوك ، وقف فيها قوم من المنافقين ليفتكوا به .
× المصدر: كشف المشكل من حديث الصحيحين
× المحدث: الإمام ابن الجوزية
× الصفحة: 392
× الطبع: دار الوطن، الرياض، السعودية.
🕯️ *خلاصۂ کلام* 🕯️
واقعہ عقبہ جو مقام تبوک سے واپسی کے وقت پیش آیا (جس میں منافقوں کے ایک ٹولے نے نبی کریم پر حملہ کیا تہا) درست ھے؛ لیکن یہ کہنا کہ اس ٹولے میں حضرات صحابہ شامل تھے انتہائی درجے کا دجل و فریب ھے اور دنیا کی کوئی بھب سند یہ ثابت نہیں کرتی کہ ان حملہ آوروں میں بجز منافقوں کے کوئی صحابی و ہمدم رسول شامل تہا۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ : *محمد عدنان وقار صدیقی*
7 ستمبر 2021
No comments:
Post a Comment