Saturday, February 17, 2024

امام ابن قیم پر ایک الزام

 ▪️ *امام ابن قیم پر ایک الزام* ▪️


  میں نے ایک شیعہ ویب سائٹ پر تحریر دیکھی جس میں امام ابن قیم پر وہ الزام لگا رہے ہیں کہ امام موصوف کی فقہ کے تناظر میں ایسی خواتین کو جنکے شوہر نہ ہوں اور ان پر شہوت کا غلبہ ہو مصنوعی آلۂ تناسل سے استفادہ کرنے کی اجازت ہے اور شیعہ مزید لکھتے ہیں کہ کیا یہی ہے خالص اسلام یا یہ اسلام بنی امیہ یا ابن تیمیہ کے پیروکاروں کا اسلام ہے؟



 اس الزام کی کیا حقیقت ہے!!!



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


  شیعہ حضرات کا شیوہ یہی رہا ہے کہ کسی بھی طرح وہ امت میں انتشار و افتراق کی آگ کو ہوا دیتے رہیں ؛ مذکورہ بالا مسئلے میں اگر غور کیا جائے تو یہ مسئلہ امام ابن القیم نے بدائع الفوائد میں ذکر کیا ہے اور انہوں نے کسی کی یہ رائے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ رائے صحیح نہیں ؛ اب شیعہ حضرات خود بتایئں کہ جب امام ابن القیم اس بات کو غیر صحیح کہہ رہے ہیں تو ان پر اس کے کہنے کا الزام کس طرح عائد ہوسکتا ہے؛ بیان الفوائد کی عبارت درج ذیل ہے:


🔘 *بیان الفوائد* 🔘



 وإن كانت امرأة، لا زوج لها واشتدت غلمتها، فقال بعض أصحابنا: يجوز لها اتخاذ الاكرنبج (وهو شيء يعمل من جلود على صورة الذكر) فتستدخله المرأة أو ما أشبه ذلك من قثاء وقرع صغار، والصحيح عندي: أنه لا يباح؛ لأنّ النبي إنما أرشد صاحب الشهوة إذا عجز عن الزواج إلى الصوم، ولو كان هناك معنيً غيره لذكره.



÷ ترجمہ ÷ اگر کوئی ایسی خاتون ہو جسکا شوہر نہ ہو اور اسکی شہوت ناقابل برداشت ہو تو ہمارے بعض اصحاب یہ تدبیر بتاتے ہیں کہ وہ مصنوعی آلے کی مدد سے خواہش کی تکمیل کرلیوے ۔امام ابن القیم فرماتے ہیں: کہ صحیح یہ ہے کہ یہ طریقہ درست نہیں ؛ کیونکہ حدیث میں تو شہوت کے زور کو توڑنے کا علاج روزہ بتایا گیا ہے لہذا اگر روزے کے علاوہ بھی کوئی اور طریقہ ہوتا تو وہ صاحب شریعت کی جانب سے ضرور بتادیا جاتا ۔


٭ المصدر: بيان الفوائد

٭ المصنف: الإمام ابن القيم

٭ المجلد: 4

٭ الصفحة: 1471

٭ الطبع: دار عالم الفوائد، مكة المكرمة.


🔅 *اصل بات کیا ہے* 🔅


  امام ابن القیم پر شیعوں کا الزام صحیح نہیں ھے ؛ البتہ اس مسئلے میں اصل بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس نکاح کی کوئی صورت نہ ہو یا وہ شادی شدہ تو ہو لیکن بیوی کے قریب جانے کی صورت نہ نظر آتی ہو مثلا: بیرون ملک میں مقیم ہو اور چھٹی سے قبل گھر واپس آنا ممکن نہ ہو یا جیل میں قید ہو اور پر شہوت کا اس قدر غلبہ ہو کہ روزہ رکھنے سے بھی شہوت کا خمار نہ اتر رہا ہو اور اسکے لیے زنا میں پڑنے کا خطرہ ہو تو ایسا شخص اگر شہوت کے ازالے کے لیے زنا کی جگہ مشت زنی کرلے تو اھون البلیتین کے پیش نظر ایسا کرنے کی اجازت ہوگی اور یہ بات عقل و نقل کے بالکل موافق ہے  

فقہ کا ایک اصول اور ضابطہ ہے ،اورسخت مجبوری میں بسا اوقات اس کے مطابق عمل کرنے کی گنجائش ہوتی ہے؛ البتہ یہ قاعدہ ایک روایت کی خوشبو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے یعنی اس قاعدے کو حدیث کی تائید حاصل ہے یہ مجبوری و اضطرار کے وقت کی بات ھے 



♦️ *الأشباہ والنظائر* ♦️



الرَّابِعَةُ: [إذَا تَعَارَضَ مَفْسَدَتَانِ رُوعِيَ أَعْظَمُهُمَا ضَرَرًا بِارْتِكَابِ أَخَفِّهِمَا]


نَشَأَتْ مِنْ هَذِهِ الْقَاعِدَةِ قَاعِدَةٌ رَابِعَةٌ، 

وَهِيَ مَا:


إذَا تَعَارَضَ مَفْسَدَتَانِ رُوعِيَ أَعْظَمُهُمَا ضَرَرًا بِارْتِكَابِ أَخَفِّهِمَا".


قَالَ الزَّيْلَعِيُّؒ فِي بَابِ شُرُوطِ الصَّلَاةِ: ثُمَّ الْأَصْلُ فِي  جِنْسِ هَذِهِ الْمَسَائِلِ أَنَّ مَنْ اُبْتُلِيَ بِبَلِيَّتَيْنِ، وَهُمَا مُتَسَاوِيَتَانِ يَأْخُذُ بِأَيَّتِهِمَا شَاءَ، وَإِنْ اخْتَلَفَا يَخْتَارُ أَهْوَنَهُمَا؛ لِأَنَّ مُبَاشَرَةَ الْحَرَامِ لَا تَجُوزُ إلَّا لِلضَّرُورَةِ وَلَا ضَرُورَةَ فِي حَقِّ الزِّيَادَةِ.


مِثَالُهُ: رَجُلٌ عَلَيْهِ جُرْحٌ لَوْ سَجَدَ سَالَ جُرْحُهُ، وَإِنْ  لَمْ يَسْجُدْ لَمْ يَسِلْ، فَإِنَّهُ يُصَلِّي قَاعِدًا يُومِئُ بِالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ؛ لِأَنَّ تَرْكَ السُّجُودِ أَهْوَنُ مِنْ الصَّلَاةِ مَعَ الْحَدَثِ.


أَلَا تَرَى أَنَّ تَرْكَ السُّجُودِ جَائِزٌ حَالَةَ الِاخْتِيَارِ فِي التَّطَوُّعِ عَلَى الدَّابَّةِ، وَمَعَ الْحَدَثِ لَا يَجُوزُ بِحَالٍ. ... اھ


*خلاصہ* 


امام زیلعیؒ نے فرمایا: اگر کسی کے سامنے خرابیاں ہیں یا دو مصیبتیں ہیں تو دیکھے اگر دونوں کا نقصان و مضرت برابر ھے تو پھر جو چاہے اختیار کرلے ؛ لیکن اگر ایک کا نقصان زیادہ ھے اور دوسری کا کم ھے تو پھر عقلا و شرعا کم نقصان والی مصیبت کو اختیار کرلیا جائے گا ؛ کیونکہ مجبوری ھے

اور یہ حالت اضطرار ہے اور اس حالت میں اگر حرام کا ارتکاب ہوا تو گنجائش کا پہلو نکلتا ھے


مثال کے طور پر ایک شخص ہے اسکو ایسا زخم ھے کہ سجدہ کرتے وقت اس سے خون رِس رہا ھے اور اگر سجدہ نہ کرے ت

 و خون نہیں بہتا ھے تو اب دو صورتیں ہیں یا تو خون بہتا رھے اور یہ سجدہ کرے یا نماز میں رکوع و سجدہ اشارے سے کرلیوے اور خون کو نہ بہنے دے تو اب ہم اسکو یہ مسئلہ بتایںگے کہ بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھے ؛ کیونکہ یہ صورت کم نقصان والی ھے اور خون( جس سے وضو ٹوٹے گا) کے ساتھ نماز پڑھنا زیادہ نقصان والی ھے 

اور اسکی نظیر موجود بھی ھے کہ بغیر عذر سجدہ نہ کیا جائے جیسے: سواری پر نفل نماز ہو تو سجدہ کا اشارہ جائز ھے ؛ لیکن یہ حدث یعنی خون وغیرہ کے بہتے ہوئے حالت اضطرار کے علاوہ میں سجدہ کی گنجائش تک نہیں نہ فرض میں نہ نفل میں۔ 

(*اسی طرح زنا اور مشت زنی دونوں ہی مصیبت ہیں لیکن اگر واقعتا زنا میں پڑجانے کا خوف و خطر ہو تو ایسی صورت میں مشت زنی ایک راستہ ہوگا ؛ لیکن اس کی عادت نہ بنالی جائے ؛ کیونکہ یہ طریقہ فقط شہوت کے غلبے کو توڑنے کے لیے بقدر ضرورت ہے*



٭ المصدر: الأشباه والنظائر

٭ المؤلف: الإمام ابن نؔجيم المصريؒ

٭ الصفحة: 76

٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.




🔘 *المقاصد الحسنة* 🔘



 حديث: "من ابتُلِي ببَلِيَّتَين فليخترْ أسهلَهما".


يُستأنس له بقول عائشة :


 "مَا خُيِّر النَّبيُّ ﷺ بين أَمرين إلَّا اختار أَيسرَهما ما لم يكن إثمًا".


٭ المصدر: المقاصد الحسنة

٭ المحدث: الإمام السخاويؒ

٭ الصفحة: 629

٭ الرقم: 1077

٭ الطبع: دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان.



🔰 *صحيح البخاري* 🔰


حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشةؓ: أنها قالت: ما خُيِّرَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بيْنَ أمْرَيْنِ قَطُّ إلَّا أخَذَ أيْسَرَهُمَا، ما لَمْ يَكُنْ إثْمًا، فإنْ كانَ إثْمًا كانَ أبْعَدَ النَّاسِ منه، وما انْتَقَمَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لِنَفْسِهِ في شيءٍ قَطُّ، إلَّا أنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ، فَيَنْتَقِمَ بهَا لِلَّهِ.


★ المصدر: صحيح البخاري

★ المجلد: 2

★ الصفحة: 1721

★ الرقم: 6126

★ الطبع: الطاف اينڈ سنز، کراچی، پاکستان.



❇️ *فقہ حنبلی و حنفی کی عبارات* ❇️ 


امام ابن قدامہ حنبلی نے الکافی میں لکھا کہ زنا کے خدشے کی وجہ سے اگر کوئی مشت زنی کا ارتکاب کرلیوے تو یہ ضرورت کے تحت حد اباحت میں آئے گا:



ويحرم الاستمناء باليد، لأنها مباشرة تفضي إلي قطع النسل، فحرمت كاللواط، ولا حد فيه، لأنه لا إيلاج فيه، فإن خشي الزنا أبيح له؛  لأنه يروي عن جماعة من الصحابة رضي الله عنهم.


• المصدر: الكافي في فقه الإمام أحمد بن حنبل

• المصنف: شيخ الإسلام ابن قدامة المقدسي

• المجلد: 4

• الصفحة: 93

• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.



🔰 *شرح منتهي الإدارات* 🔰



شیخ منصور بن یونس بہوتی نے شاندار تفصیل لکھی ہے کہ جو مرد بغیر ضرورت مشت زنی کا مرتکب ہوا تو اس نے حرام فعل کیا اور اسلامی قلمرو میں اسکو تعزیر کی جائے گی ؛ لیکن اگر زنا میں پڑنے کا قوی اندیشہ تہا یا ہم جنس پرستی کی جانب میلان ہوگیا تہا تو اب وہ مشت زنی کرنے میں سزا سے باز رکھا جائے گا یعنی مشت زنی فی نفسہ ناجائز عمل ہے البتہ کسی کو نکاح کرنے کی قدرت ہی نہ ہو تو یہ حالت مستثنی ہے نیز *یہی بات خاتون کے لیے بھی ہے کہ اسکے لیے بھی خود تلذذی جائز نہیں ہے البتہ اگر ایسی خاتون ہو کہ کوئی اس سے نکاح ہی نہیں کر رہا ھے اور خاتون کو شہوت کا غلبہ ھے اور ڈر ہے کہ زنا کا ارتکاب ہوجائے تو پھر خود لذتی کی اجازت ہوگی*



★ المصدر: شرح منتهي الإدارات

★ المصنف: الإمام البهوتي

★ الصفحة: 229

★ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.


♦️ *الدر المختار مع رد المحتار* ♦️


امام احمد اور امام شافعی رحمہما اللہ کے قول قدیم میں تو اگرچہ رخصت تھی مگر قول جدید یعنی دوسرا محقق قول حرام ہونے کا ہے, اگر کسی پر شہوت کا غلبہ بہت ہو جائے اور قضاء شہوت کے لیے بیوی نہ ہو یا پاس نہ ہو اور زنا میں ابتلا کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں گنجائش ہے یعنی جو وعید مشت زنی کے سلسلہ میں وارد ہے اس وعید کا وہ شخص مستحق نہ ہوگا۔ 



"وكذا الاستمناء بالكف وإن كره تحريما لحديث «ناكح اليد ملعون» ولو خاف الزنى، يُرجى أن لا وبال عليه.


(قوله: وكذا الاستمناء بالكف) أي في كونه لا يفسد ، لكن هذا إذا لم ينزل، أما إذا أنزل فعليه القضاء، كما سيصرح به وهو المختار، كما يأتي لكن المتبادر من كلامه الإنزال بقرينة ما بعده فيكون على خلاف المختار 


(قوله: ولو خاف الزنى إلخ) الظاهر: أنه غير قيد، بل لو تعين الخلاص من الزنى به، وجب؛ لأنه أخف،

 وعبارة الفتح: فإن غلبته الشهوة ففعل إرادة تسكينها به فالرجاء أن لا يعاقب اهـ

 زاد في معراج الدراية: وعن أحمد والشافعي في القديم الترخص فيه، وفي الجديد يحرم،


ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ

 وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة: أنه يكره، ولعل المراد به كراهة التنزيه، فلا ينا  في قول المعراج، يجوز، تأمل!


 وفي السراجع:  إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر،


قال أبو الليث: أرجو أن لا وبال عليه، وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ"



٭ المصدر: الدر المختار مع رد المحتار (باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده) 

٭ المجلد: 3

٭ الصفحة: 371

٭ الطبع: دار عالم الكتب، الرياض، السعودية.



☸️ *الفقه علي المذاهب الأربعة* ☸️


امام عبد الرحمن الجزیری کہتے ہیں: حنبلیوں کے یہاں بھی بحالت اضطرار خود لذتی کی جانب جانا یہ قول قوی نہیں ( یعنی شہوانی ہیجان کو دور کرنے کے لیے دیگر جائز طرق کو زیر عمل لایا جائے گا مثلا: ادویہ کے ذریعے یا نکاح کے ذریعے ہی )



وقالوا: لوكان الاستمناء باليد مباحا في الشرع، لأرشد إليه الرسول صلي الله عليه وسلم؛  لأنه أسهل من الصوم، ولكن عدم ذكره دلّ علي تحريمه، قال صاحب كتاب " سبل السلام " قد أباح الاستمناء بعض الحنابلة، وبعض علماء الحنفية - إذا خاف علي نفسه في الوقوع في الزنا- وهو رأي ضعيف، لايعتد به.


⚂ المصدر: الفقه علي المذاهب الاربعة

‌⚂ المصنف: عبد الرحمن الجزيري

⚂ المجلد: 4

⚂ الصفحة: 137

⚂ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.




⚠️ *خلاصۂ کلام* ⚠️


  امام ابن القیمؒ یا فقہ حنبلی وغیرہ کی رو سے اگر مشت زنی یا عورت کی خود لذتی مطلقا جائز ہوتی تب تو اہل تشیع اپنے الزام میں حق بجانب تھے ؛ لیکن فقہی کتب سے تو یہ معاملہ ظاہر ھے کہ مذکور امر کی گنجائش مجبوری اور حالت اضطرار میں ہے جبکہ محبوری میں تو قرآن کریم بھی ایسی چیزوں کی اجازت دیتا ہے جو فی نفسہ حرام ہیں : فَمَنِ ٱضۡطُرَّ فِی مَخۡمَصَةٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفࣲ لِّإِثۡمࣲ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورࣱ رَّحِیمࣱ﴾ [المائدة ٣]

تو اگر مجبوری میں جواز و اباحت پر شیعوں کو فقہ حنبلی پر  اعتراض ہے تو یہ اعتراض قرآن کریم پر ہونا چاہئے۔!!!


⭕ *ہمارا شیعوں سے سوال* ⭕


اگر کسی شخص (مرد و زن ) کے پاس نہ تو وسائل نکاح ہوں یا وہ شادی شدہ ہوں لیکن بیوی یا شوہر سے قربت ممکن نہ ہو اور شہوت کا زور اس حد ہو کہ زنا ہی ایک آخری راستہ ہو تو آپ کے نظریۂ شیعیت کی روشنی میں ایسے شخص کے لیے کیا راہنمائی ہے؟ کیا وہ زنا کرلے یا مشت زنی کرے یا وہ ( خاتون )  مصنوعی آلۂ تناسل سے یا اپنی انگشت سے فشار شہوت ختم کرے ؟


اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ اس بارے میں شریعت کا کوئی حکم موجود نہیں تو یہ آپ کی کم علمی ہوگی ؛ کیونکہ قرآن تو کہتا ہے کہ اس کتاب مقدس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے : ﴿وَنزلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ﴾ [ النحل/ 89] 


اور اگر آپ یہ کہیں کہ ہم اس بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں یہ بھی درست موقف نہ ہوگا ؛ کیونکہ قرآن تو زور دے رہا ہے کہ کتاب کا علم رکہنے والے علماء مستفتی کو جواب ضرور دیں : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ (187)


اور اگر شیعہ علماء یہ جواب اختیار کریں کہ ایسا شخص زنا ہی کرلیوے تو پھر بات ہی ختم ؛ کیونکہ صاف زندقہ اور گمراہی ھے ؛ عقل و نقل اجماع وغیرہ سب کے خلاف ھے 


اور اگر آپ بھی وہی راہ منتخب کرتے ہیں کہ زنا کی بجائے اھون طریقہ اختیار کرلیا جائے کہ مرد مشت زنی اور خاتون خود لذتی کے ذریعے شہوانی ہیجان کا دفعیہ کرلے تو پھر آپ کو اعتراض کس بات پر ہے ؟



وﷲ تعالی اعلم

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی* 

17 فروری، 2024؁ء

No comments:

Post a Comment