Monday, August 19, 2019

جبرئیل کی عمر

▪ *جبرئیلؑ کی عمر*▪

کیاکوئی ایسی حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت جبریلؑ سے پوچھا کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے یاد نہیں؛  مگر میں ایک ستارہ دیکھتا تھا جو70000 ستر ہزار سال میں ایک بار نظر آتا تھا اور میں نے وہ 72000 بار دیکھا ہے تو آپﷺ نے کہا کہ وہ ستارا میں ہوں"

 کیا اس طرح کی کوئی روایت موجود ہے؟!!!!

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*


یہ بات سیرت کی مشہور و معروف کتاب " سیرت حلبیہ" میں مذکور ہے۔

🔰عن أبي هريرةؓ قال: " سأل النبيّ صلى الله عليه وسلم جبريلَ عليه السلام فقال: يا جبريل كم عمّرتَ من السنين؟ فقال: يا رسول الله لست أعلم ، غير أن في الحجاب الرابع نجمًا يطلع في كل سبعين ألف سنة مرة ، رأيته اثنتين وسبعين ألف مرة ، فقال النبيّ صلى الله عليه وسلم : ( وعزة ربي أنا ذلك الكوكب ) .

المصدر: انسان العیون المعروف: بـ السيرة الحلبية
المؤلف: علي الحلبی الشامیؒ
المجلد:1
الصفحة: 36
الطبع: مکتبة الازہریة، قاہرة، مصر

♦ << *روایت کا حکم*>>

اس روایت کے متعلق «شیخ عبدﷲ بن محمد بن الصدیق الؔغماری» نے کہا : یہ خالص جہوٹ اور نرا بہتان ہے.


 📕وروي في بعض كتب المولد النبوي عن أبي هريرةؓ قال: " سأل النبيّ صلى الله عليه وسلم جبريلَ عليه السلام فقال: يا جبريل كم عمّرتَ من السنين؟ ... " فذكره ثم قال : " وهذا كذب قبيح ، قبّح الله من وضعه وافتراه " .

المصدر: مرشد الحائر
المؤلف: الشیخ عبدﷲ الغماریؒ
الصفحة: 5
الطبع: موسوعة الحافظ بن عبدﷲ الصدیق۔


___••• *خلاصۂ بحث* •••___

 حضرت جبرئيلؑ کی عمر کے متعلق جو بات ‌"سیرت حلبیہ" میں مذکور ہے وہ ثابت نہیں ھے؛ لہذا اسکو بیان نہ کیا جائے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
مؤرخہ: 19 اگست، ؁2019ء

Saturday, August 17, 2019

قصہ ایک فاحشہ کا

▪ *قصّہ ایک فاحشہ کا*▪

ایک ویڈیو میں خطیب صاحب بیان کرتے ہیں:  کہ ایک طوائف آپؐ کے پاس سے گزری تو آپؐ کھانا کھا رہے تھی اس نے بولا کیسا نبی ہے خود کھانا کھا رہا لوگوں سے پوچھتا نہیں آپؐ نے فرمایا آؤ تم بھی کھاؤ وہ بولی کہ ایسے نہیں اپنے منہ والا دیں گے تو کھاؤں گی پھر آپؐ نے اپنا نوالہ اس کی منہ میں ڈال دیا اور وہ عورت فوراً مسلمان ہو گئ اور مکہ کی سب سے باحیا عورتوں میں شمار ہونے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے!!!


••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  یہ واقعہ کمزور سند کے ساتھ مذکور ہے , البتہ اس میں مذکورہ عورت کے اسلام کا ذکر نہیں اور نہ ہی یہ مذکور ہے کہ وہ فاحشہ مکہ مکرمہ کی سب سے باحیا خاتون شمار کی جانی لگی, فقط اتنا ذکر ھے کہ اس واقعہ کے بعد اسکی زبان کی تیزی اور مردوں سے ملنا جلنا رک گیا تہا۔  یہ واقعہ آپ علیہ السلام کے مکارمِ اخلاق کے متعلق خطباء و وعظاء بیان کرتے ہیں۔

🔰 *مجمع الزوائد میں*

عن ابي أمامةؓ:   كانت امرأةٌ ترافثُ الرجالَ وكانت بذيئةً فمرت بالنبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وهو يأكلُ ثريدًا على طربالٍ فقالت انظروا إليه يجلسُ كما يجلسُ العبدُ ويأكلُ كما يأكلُ العبدُ فقال النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وأيُّ عبدٍ أعبدُ مني قالت ويأكلُ ولا يُطعمُني قال فكلِي قالت ناوِلْني بيدِك فناولَها فقالت أطعمْني مما في فيك فأعطاها فأكلت فغلبها الحياءُ فلم ترافثْ أحدًا حتى ماتت.

    الراوي: أبو أمامة الباهليؓ
    المحدث: الهيثميؒ
    المصدر:  مجمع الزوائد
    المجلد:8
    الصفحة: 421
    الرقم:  14227
    الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان

    خلاصة :  فيه علي بن يزيد الألهاني وهو ضعيف.

📕 *الؔمعجم الكبير ميں*

حدثنا احمد بن حسين الحذاء،ثنا اسماعيل بن عبيد بن أبي كريمة، ثنا محمد بن سلمة عن أبي عبيد الرحيم، عن أبي عبد الملك عن القاسم، عن أبي أمامةؓ:   جاءتْ إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم امرأةٌ بَذِيئَةُ اللسانِ قدْ عُرِفَ ذلِكَ منها وبينَ يَدَيْهِ قَدِيدٌ يأكُلُهُ فأخذ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قديدَةً فيها عصَبٌ فألقاها إلى فِيهِ فجعلَ يَلُوكُها مَرَّةً على جانِبِهِ هذا ومَرَّةً على جانِبِهِ الآخرَ فقالَتِ المرأَةُ يا نبيَّ اللهِ ألَا تُطْعِمُنِي قال بلى فناوَلَها مما بينَ يَدَيْهِ قالَتْ لَا إلَّا الذي في فيكَ فأخرَجَهُ فأعطاها فألْقَتْهُ في فمِها فلم تزلْ تلوكُه حتى ابتلَعَتْهُ فلم يَعْلَمْ مَنْ تِلْكَ المرأةُ بعدَ ذلِكَ الأمرِ الذي كانتْ عليه من البذاءِ والذَّرَابَةِ.


    الراوي: أبو أمامة الباهليؓ
    المحدث: الطبرانيؒ
    المصدر: المعجم الكبير
    المجلد: 8
    الصفحة:275
    الرقم:  7903
    الطبع: مكتبة ابن تيميةؒ، قاهرة

    📖 *الأمالي الخميسية میں*

   
 أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ رَيْذَةَ  ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الطَّبَرَانِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الصَّبَّاحِ  ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّاقٍ مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا  عَبْدُ السَّلَامُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ مُطَّرِحِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ  عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ یزَيْدٍ ، عَن الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَؓ ، قَالَ :  "  كَانَتِ امْرَأَةٌ تُرَافِثُ الرِّجَالَ وَكَانَتْ بَذِيَّةً فَمَرَّتْ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَأْكُلُ ثَرِيدًا عَلَى طِرِيَّانٍ ، قَالَتِ : انْظُرُوا إِلَيْهِ كَيْفَ يَجْلِسُ كَمَا يَجْلِسُ الْعَبْدُ ، وَيَأْكُلُ كَمَا يَأْكُلُ الْعَبْدُ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ : وَأَيُّ عَبْدٍ أَعْبَدُ مِنِّي ؟ قَالَتْ : وَتَأْكُلُ وَلَا تُطْعِمُنِي ؟ قَالَ : فَكُلِي ، قَالَتْ : نَاوِلْنِي يَدَكَ فَنَاوَلَهَا ، قَالَتْ : أَطْعِمْنِي مِمَّا فِي فِيكَ ، فَأَعْطَاهَا فَأَكَلَتْهُ ، فَغَلَبَهَا الْحَيَاءُ ، فَلَمْ تَرْفُثْ أَحَدًا حَتَّى مَاتَتْ "  .

الراوي: ابو أمامةؓ
المؤلف:يحي بن حسين الشجريؒ
المصدر: الامالي الخميسية
المجلد:2
الصفحة:301
الرقم: 2524
الطبع:  دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


🔘 *روایت کا حکم*

 ہم نے تین کتابوں کے حوالے سے واقعہ ذکر کیا ہے لیکن یہ واقعہ ضعیف الاسناد ہے زیادہ قوت کا حامل نہیں کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی " علی بن یزید " ہیں جو روایت میں ضعیف ہیں۔

<<< *علی بن یزید* >>>

علي بن يزيد بن أبي زياد الهاني، أبو عبد الملك الدمشقي، صاحب القاسم بن عبد الرحمن، ضعيف، من السادسة، مات سنة بضع عشرة ومأة.

المصدر: تقريب التهذيب
المؤلف: ابن حجر العسقلانيؒ
الصفحة:707
الرقم:4851
الطبع: دار العاصمة، للنشر والتوزيع،

  ÷÷÷ *الحاصل*÷÷÷

مذکورہ واقعہ جسکا تعلق نبی کریمؐ کے اخلاق عالیہ سے ھے بحیثیت سند کمزور ہے؛ لیکن بیان کیا جاسکتا ہے ؛ کیونکہ اسکا تعلق فضائل سے ہے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

۱۷ اگست، ؁۲۰۱۹ء

Friday, August 16, 2019

دیہاتی کے انگور

▪ *دیہاتی کے انگور*▪

مشہور ہے کہ ایک غریب دیہاتی، بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں، انگوروں سے بھری ایک رکابی کا تحفہ پیش کرنے کیلئے حاضر ہوا۔کملی والے آقا نے رکابی لی، اور انگور کھانے شروع کیئے۔
 پہلا دانہ تناول فرمایا اور مُسکرائے۔اُس کے بعد دوسرا دانہ کھایا اور پھر مُسکرائے۔اور وہ بیچارہ غریب دیہاتی آپ کو مسکراتا دیکھ دیکھ کر خوشی سے نہال تہا,صحابہؓ سارے منتظر، خلاف عادت کام جو ہو رہا ہے کہ ہدیہ آیا ہے اور انہیں حصہ نہیں مل رہا,سرکار علیہ السلام، انگوروں کا ایک ایک دانہ کر کے کھا رہے ہیں اور مسکراتے جا رہے ہیں۔میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔۔ آپؓ نے انگوروں سے بھری پوری رکابی ختم کر دی۔۔
 اور آج صحابہؓ سارے متعجب!!!!
 غریب دیہاتی کی تو عید ہو گئی تھی۔۔خوشی سے دیوانہ۔۔۔ خالی رکابی لیئے واپس چلا گیا۔
 صحابہؓ نہ رہ سکے۔۔۔۔ ایک نے پوچھ ہی لیا، یا رسول اللہ! آج تو آپ نے ہمیں شامل ہی نہیں کیا؟
 سرکار صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: تم  لوگوں نے دیکھی تھی اُس غریب کی خوشی؟ میں نے جب انگور چکھے ۔۔ تو پتہ چلا کہ کھٹے ہیں۔ مجھے لگا کہ اگر تمہارے ساتھ یہ تقسیم کرتا ہوں تو
ہو سکتا ہے تم میں سے کسی سے  کچھ ایسی بات  یا علامت ظاہر ہو جائے، جو اس غریب کی خوشی کو خراب کر کے رکھ دے۔

اور  بیشک آپؐ اخلاق کے  بلند ترین درجہ پر ہیں (القلم – 4)
سبحان الله ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا یہ واقعہ درست ہے؟!!!

--- *باسمہ تعالی*---
*الجواب وبہ التوفیق:*

  یہ قصہ غیر ثابت ہے؛ کسی متداول کتب حدیث یہاں تک کہ من گھڑت روایات پر تالیف کی گئیں کتابوں میں بھی اسکا نام و نشان نہیں ھے, نیز احادیث کی تحقیق کرنے والے اداروں کا بھی اس واقعہ کے متعلق یہی کہنا ہے : کہ یہ من گھڑت اور بے اصل ہے؛ لہذا نہ تو اسکی نسبت نبی کریمؐ کی جانب کی جائے اور نہ ہی اس پوسٹ کو نشر و بیان نہ کیا جائے ۔ علاوہ ازیں حضور مقبولؐ کے اخلاق کریمانہ کے متعلق دیگر صحیح ترین روایات کتب حدیث میں موجود ہیں ان کو پڑھا جائے ۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻 ...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Thursday, August 15, 2019

میر عرب کو آئ ٹھنڈی ہوا جہاں سے

*میرِ عربﷺ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے*؎

علؔامہ اقبال (مرحوم)کی ایک نظم جو "بچوں کے قومی گیت " کے نام و عنوان سے جانی جاتی ھے اس میں ایک شعر ہے :

؎ *میرِ عربؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے*
*میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے*

کیا اس شعر کا مفہوم درست ہے ؛ کیا یہ بات حدیث سے ثابت ھے کہ نبی کریم ﷺ کو غیر منقسمہ ہندوستان کی جانب سے فرحت آمیز خوشبویں آتی تہیں؟...

نیز یہ بہی بیان کیا جاتا ہے: کہ ایک بار نبی کریم اپنی داہنی جانب دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: مانگو کیا مانگتے ہو!
صحابہ نے کہا: ہمارے ماں باپ آپ پر قربان, آپ داہنی جانب دیکھ کر کیوں مسکرائے ؟
  حضور اکرم نے فرمایا: میں ہندوستان کی طرف سے عشق کی خوشبو محسوس کرتا ہوں۔

  حوالہ: مستدرک حاکم, حدیث: 4053.

▪ *باسمہ تعالی*▪
*الجواب وبہ التوفیق:*

1⃣  اس سوال کا جواب حضرت شیخ الاسلام " مفتی محمد تقی عؔثمانی" _ دامت برکاتہم_ کے حوالے سے انہیں کے الفاظ میں درج ہے:
 اس مضمون کی کوئی حدیث  احقر کے علم میں نہیں ھے, اور کتبِ حدیث میں سرسری تلاش سے ملی بھی نہیں۔

المصدر: فتاویٰ عثمانی
المؤلف: تقی عثمانی _حفظہﷲ_
المجلد: 1
الصفحہ:225
الطبع: مکتبۂ معارف القرآن, کراچی, پاکستان۔

2⃣ نیز مستدرک حاکم کے حوالے سے جو روایت ذکر کی گئ ھے مستدرک حاکم میں اس طرح کی کوئی روایت موجود نہیں ھے ؛ البتہ وہاں ایک روایت مذکور ہے : جسکا مفہوم یہ ہے:سب سے اچھی خوشبو سرزمین ہندوستان کی ہے۔

--- *روایت کے الفاظ*---

حدثنا محمد بن الحسن الكارزي ، ثنا علي بن عبد العزيز ، ثنا حجاج بن منهال ، ثنا حماد بن سلمة ، عن حميد ، عن يوسف بن مهران ، عن ابن عباس - رضي الله عنهما - قال : قال علي بن أبي طالب : أطيب ريح في الأرض الهند ، أهبط بها آدم - عليه الصلاة والسلام - فعلق شجرها من ريح الجنة .

هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه .

المصدر: مستدرك حاكم
المؤلف: حاكم نيشاپوری
المجلد: 2
الصفحة: 638
الرقم: 4053
الطبع: دار الحرمين للطباعة والنشر، قاهرة، مصر.


🔘 حاکم نے اس روایت کو صحیح درجہ کی بتایا ہے اور کہا ھے: کہ یہ روایت امام مسلم کی شرط کے مطابق ہے؛ جبکہ معاملہ ایسا نہیں کیونکہ امام ذہبی نے اسی روایت کے حاشیہ پر لکہا ہے: کہ یہ روایت مسلم کی شرط پر نہیں ھے نیز اس میں ایک راوی *یوسف بن مہران* ہیں جنکو ابن حجر نے کمزور کہا ہے۔

(حوالہ بالا)


♦ *یوسف بن مہران*

 یوسف بن مہران کے متعلق علامہ ابن حجر عسقلانی کا تبصرہ: یوسف بن مہران بصری ہیں, اور یہ لین الحدیث یعنی ضعیف ہیں۔

   يوسف بن مهران البصري، وليس هو يوسف بن ماهك، ذاك ثقة، وهذا لم يرو عنه الا زيد بن جدعان، وهو لين الحديث، من الرابعة.

المصدر: تقريب التهذيب
المؤلف: ابن حجر العسقلاني
الصفحة: 1096
الرقم: 7943
الطبع:  دار العاصمة للنشر والتوزيع.

••• *خلاصۂ کلام* •••

 مذکورہ بات کہ نبی کریم کو ہندوستان کی جانب سے عشق و محبت کی خوشبویں آتی تہیں یا حضور داہنی جانب دیکھ کر مسکرائے تہے اور مسکراہٹ کی وجہ ہندوستان کی خوشبو تہی سب بے اصل بات ہے ۔اسکو بیان کرنا جائز نہیں۔

وﷲ تعالیٰ اعلم
✍🏻... _کتبہ_ *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
 15 اگست, ؁2019ء

Sunday, August 11, 2019

ہر انسان کے خمیر میں مٹی

؎ *پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تہا*

ایک بات بہت مشہور ہے کہ ہر انسان کے خمیر میں نطفے کے ساتھ اس جگہ کی مٹی بھی شامل ہوتی ہے جہاں وہ دفن ہوگا مثلا: جب کوئی انسان وفات پاتا ھے اور جہاں اسکی تدفین ہوتی ہے تو لوگ اسکے متعلق کہتے ہیں :
؏ *پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تہا*

اس بات میں کتنی صداقت ہے اور اگر صداقت ہے تو اسکا مطلب و مفہوم کیا ہے؟

از راہ کرم روشنی ڈالیں!!

•••• *باسمہ تعالی*••••
*الجواب وبہ التوفیق:*

   جی یہ بات حدیث سے ثابت شدہ ھے : کہ ہر انسان کے خمیر میں نطفہ کے ساتھ ساتھ اس جگہ کی مٹی بہی شامل ہوتی ھے جہاں اسکو دفن کیا جایئگا یعنی اگر کسی کی ولادت "ہندوستان"میں ہوئی اور بقضائے ایزدی اسکی وفات ”مکہ مکرمہ“ میں ہوگئ اور وہیں اسکو دفنادیا گیا تو گو کہ اسکی ولادت ہندوستانی تہی لیکن اسکا خمیر مکہ مکرمہ کی سرزمیں سے گوندھا گیا تہا اور یہ بات اسکی تدفین سے ثابت ہوگئ ۔  اسکے متعلق تفصیل سے حضرت اقدس *مفتی محمد شفیع عؔثمانیؒ* اپنی مایہ ناز شہرہ آفاق تفسیر -{معارف القرآن}- میں بحوالہ تفسیر ”قرطبی“ لکہتے ہیں : کہ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ھے کہ ہر پیدا ہونیوالے انسان پر رحم مادر میں اس جگہ کی مٹی کا کچھ جزء  ڈالا جاتا ھے جس جگہ اسکا دفن ہونا ﷲ کے علم میں مقدر ہے۔

★ نام کتاب: معارف القرآن
★مفسر: شفیع عؔثمانیؒ
★جلد:6
★صفحہ:117-118
★طبع: مکتبہ معارف القرآن کراچی

🔅 معارف القرآن میں ذکر کردہ حضرت ایوہریرہؓ کی روایت ،ؔحافظ ابونعیمؒ نے 《حلیۃ الاولیاء》 میں ذکر کی ھے :

حدثنا القاضي محمد بن إسحاق بن إبراهيم الأهوازي قال: ثنا محمد بن نعيم، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا ابن عون، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من مولود إلا وقد ذر عليه من تراب حفرته»

 قال أبو عاصم: ما تجد لأبي بكر، وعمر رضي الله تعالى عنهما فضيلة مثل هذه لأن طينتهما من طينة رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا حديث غريب من حديث ابن عون عن محمد، لم نكتبه إلا من حديث أبي عاصم النبيل عنه، وهو أحد الثقات الأعلام من أهل البصرة.

+نام کتاب: حلیة الاولیاء
+مؤلف: ابو نعیمؒ
+مجلد:2
+صفحۃ: 280
+طبع:دار الفکر، بیروت، لبنان


🔰 *روایت کا درجہ*

یہ روایت بلحاظ سند اس قابل نہیں کہ اسکو بیان کیا جائے؛ کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی −«محمد بن اسحاق بن ابراہیم اھوازی»− ہیں جن پر وضع حدیث کا الزام ہے

⚡محمد بن اسحق بن ابراهيم الاهوازي ولقبه ” سركره“ عن موسي بن اسحاق بن موسي الخطمي.
قال ابوبكر بن عبدان الشيرازي: أقر بالوضع،

۰المصدر: لسان الميزان
۰المؤلف: ابن حجر العسقلانيؒ
۰المجلد: 6
۰الصفحة: 553-554
۰الطبع:دار البشائر الاسلامية، بيروت لبنان.

🔘 لیکن ذخیرۂ احادیث میں فقط یہی ایک روایت نہیں ھے ؛بلکہ صحیح سند سے اسی مفہوم و معنی کے ثبوت کے لیے دوسری روایت بھی موجود ہے:

~~*روایت کے الفاظ*~~

عن أبي سعيد الخدريؓ قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم بجنازة عند قبر فقال: " قبر من هذا؟ " فقالوا: قبر فلان الحبشي يا رسول الله. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا إله إلا الله , سيق من أرضه , وسمائه إلى تربته التي خلق منها ".


۰۰۰۰ (ترجمہ)۰۰۰۰

سیدنا ابو سعید الخدریؓ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں ایک جنازے پر ایک قبر کے پاس سے گزرے ، آپ ﷺ نے پوچھا یہ کس کی قبر ہے ؟ وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ فلاں حبشی کی ہے (جو ہمارے شہر مدینہ میں فوت ہوگیا ہے ) آپ نے " لا إله إلا الله " پڑھا اور فرمایا : یہ آدمی اپنی  زمین و آسمان یعنی اپنے علاقے سے(اللہ کے حکم سے ) یہاں اس مٹی میں لایا گیا جس مٹی سے اسے پیدا کیا گیا تھا ۔

 اس روایت کو ؔامام حاکمؒ نے روایت کیا ھے اور روایت فرمانے کے بعد اسکے متعلق لکہا: کہ یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح ہے گو امام بخاریؒ و مسلمؒ نے اسکو اپنی صحیحین میں ذکر نہ بہی کیا ہو تب بہی کوئی مسئلہ نہیں نیز اس روایت کے متعدد شواہد ہیں اور سب کے سب صحیح ہیں۔

。نام کتاب: مستدرک حاکم
。مؤلف: ابو عبدﷲ حاکم نیشاپوریؒ
。جلد:1
。صفحۃ: 515
。طبع:دار الحرمین , مصر

♦ نیز مفتی محمد شفیع عثمانیؒ صاحب نے مذکورہ مقام پر  «―تفسیر مؔظہری―» کے حوالے سے مزید کہا : کہ حضرت عبد ﷲ بن مسعودؓ نبی کریمؐ سے روایت کرتے  ھیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا:  ہر پیدا ہونیوالے بچے کے ناف میں ایک جزء مٹی کا ڈالا جاتا ھے اور جب مرتا ہے تو اسی زمین میں دفن ہوتا ہے جہاں کی مٹی اسکے خمیر میں شامل کی گئ تہی,  اور فرمایا: کہ میںؐ اور ابوبکرؓ  ایک ہی مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں اور اسی میں دفن ہونگے ۔

یہ روایت خطیبؒ نے نقل کرکے فرمایا: کہ یہ روایت غریب ہے اور ابن جوزیؒ نے اسکو موضوعات میں شمار کیا ھے ؛ لیکن ؞؞؞شیخ محدث مؔیرزا محمد حارثی بدخشیؒ ؞؞؞ نے فرمایا: اسکے بہت سے شواہد  حضرت ابن عمرؓ, ابوہریرہؓ, ابو سعیدؓ اور ابن عباسؓ سے منقول ہیں, جس سے اس روایت کو قوت پہونچتی ہیں؛ اس لیے یہ روایت حسن لغیرہ سے کم درجہ کی نہیں۔ ( مظہری)

 نام کتاب: مؔعارف القرآن
مفسر: شفیع عثمانیؒ
مجلد: 6
صفحہ:118
طبع: مکتبہ معارف القرآن کراچی


••• *خلاصۂ کلام* •••

  یہ بات کہنا کہ ہر انسان کی تدفین اسی جگہ ہوا کرتی ھے جس زمین کی مٹی سے اسکا خمیر گوندھا ہوتا ہے درست اور صحیح ہے ؛ نیز مذکورہ _ؔمرزا جہاں بخت جہاںدار_ کا شعر جو عوام کی زباں زد ہے  یہ بہی اسی حدیث کا مفہوم ہے۔
شعر کی دوسری سطر ضرب المثل اور کہاوت بن گئ ھے مکمل شعر اس طرح ہے:

؎ *آخر گل اپنی صرف در مے کدہ ہوئی*
*پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا*

وﷲ تعالی اعلم
کتبہ: *محمد عدنان وقار ؔصدیقی*
۹ذی الحجۃ، '۱۴۴۰؁ھ' مطابق ۱۱ اگست ؁ ۲۰۱۹ء

Thursday, August 8, 2019

چاول کی فضیلت

•••• *چاول کی فضیلت*••••

ایک ویڈیو گردش میں ھے: جس میں ایک نامعلوم شخص بیان کرتا ہے کہ کسی شخص نے نبی کریمؐ سے اپنی غربت کا ذکر کیا تو نبی کریمؐ نے عرض کیا: تم خول چاول کہایا کرو تمہاری غربت دور ہوجایئگی وہ شخص چلا گیا کچھ دن بعد دوبارہ آیا اور کہا : کہ اے رسول خدا! میں نے آپؐ کے ارشاد کی تعمیل کی ؛ لیکن اب دولت اس قدر ہوگئ ھے کہ سنبھالی نہیں جاتی اسکا حل بتایئں,تو آپ نے پھر اسکو یہی کہا: کہ چاول کا استعمال کرو۔  وہاں موجود دوسرے شخص نے کہا: کہ حضور! غربت دور کرنے اور دولت کو اعتدال میں لانے کے لیے آپ نے ایک ہی طریقہ بتایا تو آقائے کریمؐ نے کہا: ہاں؛ کیونکہ چاول میں برکت ھے۔


کیا اس طرح کا کوئی واقعہ کتب حدیث میں ھے؟

__*باسمه تعالی*__
*الجواب وبه التوفیق:*

یہ سوال دو باتوں پر مشتمل ہے:
1) غربت کےدفع اور دولت کی زیادتی کو اعتدال پر لانے کے لیے چاول کا استعمال
2) چاول میں برکت کا ہونا۔

1⃣پہلی بات تو تلاشِ بسیار کے بعد بھی کتب حدیث میں مل نہ سکی۔
2⃣ دوسری بات کہ چاول کھایا کرو؛ کیونکہ اس میں برکت ہے یہ امام عبد الرحمن صفوری شافعیؒ نے اپنی کتاب " نزهة المجالس" میں بلا کسی سند ذکر کی ہے اور مذکورہ کتاب محدثین کی نظر میں معتبر بہی نہیں ھے ۔

🔘 *نزهة المجالس کی عبارت*

👈🏻 وعن عليؓ في قوله تعالى لينظر أيها أزكى طعاما أنه الأرز في كتاب البركة عن النبي صلى الله عليه وسلم{ *كلوا الأرز فإنه بركة*}.

 المصدر: ؔنزھة المجالس
المؤلف: عبد الرحمن الصفوریؒ
المجلد:2
الصفحة:348
الطبع: المکتب الثقافی للنشر والتوزیع, مصر.


🔰•••• فائدہ ••••🔰

  چاولوں کے متعلق کچھ اور من گھڑت باتیں حدیث کے نام سے مشہور کردی گئ ہیں مثلا: چاول کہانوں کا سردار ہے , چاول مجھ سے ھے , چاول میرے نور سے پیدا کیا گیا ھے, چاول اگر انسان ہوتا تو مرد ہوتا اگر مرد ہوتا تو نیک ہوتا اگر نیک ہوتا تو نبی ہوتا اگر نبی ہوتا تو رسول ہوتا , جس نے چالیس دن چاول کھائے اسکے دل سے زبان کے ذریعے حکمت کا سرچشمہ پھوٹے گا, چاول بہترین دواء ہے۔

  ان تمام تر باتوں کو •عؔلامہ طاہر پٹنیؒ• نے من گھڑت قرار دیا ہے۔ ان کا  بیان کرنا جائز نہیں۔

🔅المصدر: تذکرة الموضوعات
المؤلف: العلامة طاهر الفتنیؒ
الصفحة:147
الطبع: ادارة الطباعة المنیریة, مصر.

🔅 _الحاصل_🔅

  مذکورہ سوال بے اصل ہے اسکو معتبر نہ مانا جائے اور نہ ہی اسکو آگے نشر و بیان کیا جائے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*