Saturday, September 28, 2019

طوفان نوح اور بڑھیا

▪ *طوفان نوح اور بڑھیا*▪

ایک بُڑھیا حضرت نوح علیہ السّلام کے پاس سے گُزری۔آپ علیہ السّلام کشتی بنانے میں مصروف تھے۔وہ خاتون دولتِ اِسلام سے مالا مال تھی۔اس نے حضرت نوح علیہ السّلام سے کشتی کے بارے پوچھا۔آپ علیہ السّلام نے فرمایا:اللّہ تعالیٰ عنقریب طوفان سے کُفّار کو برباد کر دے گا اور اہلِ ایمان اس کشتی میں بیٹھ کر بچ جائیں گے۔اس بُڑھیا نے عرض کیا:
 'آپ طوفان کے وقت اسے بھی بتائیں گے تاکہ وہ بھی کشتی میں بیٹھ کر سیلاب سے نِجات پا لے۔جب مقررہ وقت آیا تو حضرت نوح علیہ السّلام مخلوق کو کشتی میں سوار کرنے میں مصروف ہو گئے اور اس بُڑھیا کی بات بھول گئے۔وہ آپ علیہ السّلام سے دُور تھی۔پِھر کُفّار ہلاک ہو گئے۔مومن نِجات پا گئے۔اہلِ ایمان کشتی سے باہر آ گئے۔وہ بُڑھیا آپ علیہ السّلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: آپنے تو کہا تھا کہ عنقریب طوفان آئے گا،کیا طوفان نہیں آیا؟آپ علیہ السّلام نے فرمایا:طوفان آ چُکا ہے اللّہ تعالیٰ کا امر واقع ہو چُکا ہے۔
 آپ علیہ السّلام نے بُڑھیا کے معاملے پر تعجب کِیا۔اللّہ تعالیٰ نے اسے اسی گھر میں بچا لیا ہے۔وہ کشتی پر سوار بھی نہیں ہوئی اس نے طوفان دیکھا تک نہیں،اللّہ تعالیٰ اپنے مومن بندّوں کی حمایت و حفاظت اسی طرح کرتا ہے۔

کیا یہ واقعہ احادیث سے ثابت ھے؟!!!

__ *باسمہ تعالی*__
*الجواب وبہ التوفیق*:

  یہ واقعہ شیخ اسماعیل حقی نے تفسیر _روح البیان_ میں محض ایک حکایت و کہانی کی حیثیت سے بیان کیا ھے, کسی حدیث یا صحابی کا فرمان نہیں بتایا ھے؛ لہذا اس واقعے کو حدیث سے ثابت نہ مانا جائے۔

__*واقعہ کا ماخذ*__

حكي ان عجوزاً مرت على نوح وهو يصنع السفينه وكانت مؤمنه به، فسألته عما يصنعه ، فقالــ:
((إن الله تعالى سيهلك الكفار وبالطوفان وينجي المؤمنين بهذه السفينه فأوصت ان يخبرها نوح إذا جاء وقتها لتركب في السفينه مع المؤمنين، فلما جاء ذلك الوقت اشتغل نوح بحمل الخلق فيها ونسي وصية العجوز وكانت بعيدة منه ثم لما وقع إهلاك الكفار ونجاة المؤمنين وخرجوا من السفينه، جاءت إليه تلك العجوز فقالت : يانوح إنك قلت لي سيقع الطوفان ألم يأن ان يقع ؟قال : قد وقع وكان امر الله مفعولاً، وتعجب من امر العجوز؛ فإن الله تعالى قد انجاها في بيتها من غير ركوب السفينه ولم تر الطوفان قط ))وهكذا حماية الله تعالى لعباده المؤمنين.

المصدر: روح البيان (حقي)
المؤلف: اسماعيل حقي البروسوي
المجلد: 4
الصفحة: 129
الطبع: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان.
خلاصة:  حكاية

💠  ••• *_فائدہ_*•••

 مذکورہ واقعہ محض ایک حکایت ھے, اور حکایات کے بیان کے متعلق ضابطہ یہ ھے: کہ سند کا بیان کرنا ان کے لیے زینت اور خوبصورتی ھے واجب اور ضروری نہیں یعنی حکایات اولیاء کو بلا سند بہی بیان کیا جاسکتا ھے ۔بشرطیکہ وہ بات کسی نص شرعی سے متصادم نہ ہو اور اس سے کسی مسئلہ شرعیہ کا اثبات نہ ہورہا ہو۔

🔰واما اخبار الصالحین وحکایات الزاھدین والمتعبدین ومواعظ البلغاء وحکم الادباء, فالاسانید زینة لها.وليست شرطا لتاديتها.

المصدر: نوادر الحدیث
المؤلف: الشيخ يونس الجونفوري
الصفحة: 41
الطبع: ادارہ افادات اشرفیہ, دو بگہ روڈ ھردوئی, لکھنو۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
28/09/2019ء

Thursday, September 26, 2019

ہچکی کا مطلب قبر کی یاد

*ہچکی کا مطلب قبر کی یاد*

کیا یہ بات درست ہے : کہ جب ہم ہچکی لیتے ہیں تو ہمکو قبر یاد کر رہی ہوتی ہے؟

___ *باسمہ تعالی*___
*الجواب وبہ التوفیق*

  اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔


المصدر: دار الافتاء, بنوری ٹاؤن
المجیب: مفتی حنیفﷲ صاحب
فتوی سیریل نمبر:25072
تاریخ اجراء: 25/01/2015
مکمل پتہ : متصل سائٹ تہانہ, پوسٹ بکس نمبر:10698, کراچی پاکستان۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻....کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

مسواک کی من گھڑت فضیلت

*مسواک کی ایک من گھڑت فضیلت*

ایک بات کافی مشہور ہے: کہ
جو شخص مسواک جیب میں ہر وقت رکھے تو اگر اس کا ایکسیڈنٹ ہوجاۓ تو اس کی ہڈی نہیں ٹوٹے گی۔

 اس بات میں کتنی صداقت ھے؟
کیا ذخیرۂ احادیث میں اس طرح کی کوئی روایت موجود ھے؟!!!

 __ *باسمہ تعالی*__
*الجواب وبہ التوفیق*

   مسواک کی جن احادیث میں فضیلتیں وارد ہوئی ہیں یہ فضیلت کسی بھی روایت میں مذکور نہیں (یعنی یہ بات فقط من گھڑت اور بناؤٹی ہے)۔ اس کا نشر کرنا اور اس فضیلت کو تسلیم کرنا جائز نہیں۔

المصدر: دار الافتاء بنوری ٹاؤن
مجیب: مفتی حنیفﷲ صاحب
فتوی سیریل نمبر: 25072
تاریخ اجراء :25/01/2015
مکمل پتہ: متصل سائٹ تہانہ, پی او بکس نمبر:10698, کراچی پاکستان۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Tuesday, September 24, 2019

ابودجانہ اور کھجور

*ابو دجانہ اور کھجور*▪

ابودجانہ رضى اللہ عنہ كى ہر روز كوشش ہوتى كہ وہ نماز فجر رسول اللہﷺ كے پيچھے ادا كريں، ليكن نماز كے فورى بعد يا نماز كے ختم ہونے سے پہلے ہى  مسجد سے نكل جاتے، رسول اللہﷺ كى نظريں ابودجانہ كا پيچھا كرتيں ، جب ابودجانہ كا يہى معمول رہا تو ايك دن رسول اللہﷺ نے ابودجانہ كو روك كر پوچھا :

’’ابودجانہ! كيا تمہيں اللہ سے كوئى حاجت نہيں ہے؟
ابودجانہ گويا ہوئے: كيوں نہيں اے اللہ كے رسول، ميں تو لمحہ بھر بھى اللہ سے مستغنى نہيں ہوسكتا۔۔۔
رسول اللہﷺ فرمانے لگے، تب پھر آپ ہمارے ساتھ نماز ختم ہونے كا انتظار كيوں نہيں كرتے، اور اللہ سے اپنى حاجات كے ليے دعا كيوں نہيں كرتے۔۔۔

ابودجانہ  كہنے لگے اے اللہ كے رسول! در اصل اس كا سبب يہ ہے كہ ميرے پڑوس میں ايك يہودى رہتا ہے، جس كے كھجور كے درخت كى شاخيں ميرے گھر كے صحن ميں لٹكتى ہيں، اور جب  رات كو ہوا چلتى ہے تو اس كى كھجوريں ہمارے گھر ميں گرتى ہيں، ميں مسجد سے اس ليے جلدى نكلتا ہوں تاكہ ان گرى ہوئى كھجوروں كو اپنے خالى پيٹ بچوں كے جاگنے سے پہلے پہلے چُن كر اس يہودى كو لوٹا دوں، مبادا وہ بچے بھوك كى شدت كى وجہ سے ان كھجوروں كو كھا نہ ليں۔۔۔

پھر ابودجانہ قسم اٹھا كر كہنے لگے اے اللہ كے رسول! ايك دن ميں نے اپنے بيٹے كو ديكھا جو اس گرى ہوئى كجھور  كو چبا رہا تھا، اس سے پہلے كہ وہ اسے نگل پاتا ميں نے اپنى انگلى اس كے حلق ميں ڈال كر كھجور باہر نكال دى۔ ۔۔
اللہ كے رسول! جب ميرا بيٹا رونے لگا تو ميں نے كہا اے ميرے بچے مجھے حياء آتى ہے كہ كل قيامت كے دن ميں اللہ كے سامنے بطور چور كھڑا ہوں۔۔۔

سيدنا ابوبكر رضى اللہ عنہ پاس كھڑے يہ سارا ماجرا سن رہے تھے، جذبہ ايمانى اور اخوت اسلامى نے جوش مارا تو سيدھے اس يہودى كے پاس گئے اور اس سے كھجور كا پورا درخت خريد كر ابودجانہ اور اس كے بچوں كو ہديہ كر ديا۔۔۔
پھر كيوں نہ اللہ سبحانہ وتعالىٰ ان مقدس ہستيوں كے بارے يہ سند جارى كرے:
﴿رَّضِىَ اللّـٰهُ عَنْـهُـمْ وَرَضُوْا عَنْهُ﴾
"اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ  الله سے راضی ہوئے-"

چند دنوں بعد جب يہودى كو اس سارے ماجرے كا پتہ چلا تو اس نے اپنے تمام اہل خانہ كو جمع كيا، اور رسول اللہﷺ كے پاس جا كر مسلمان ہونے كا اعلان كر ديا۔۔۔  الحمدللہ على نعمة الإسلام

عزيز دوستو !
ابودجانہ رض تو اس بات سے ڈر گيا تھا كہ اس كى اولاد ايك يہودى كے درخت سے كھجور كھانے سے كہيں  چور نہ بن جائے۔۔۔۔
 اللہ المستعان
(بحوالہ: الطبقات الكبرى لإبن سعد)

  کیا یہ واقعہ مستند ھے؟!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
__*باسمہ تعالی*__
*الجواب وبہ التوفیق*

 مذکورہ واقعہ "طبقات ابن سعد " میں -جہاں حضرت ابودجانہ کا ذکر ہے- مذکور ہی نہیں۔

المصدر: طبقات ابن سعد
المؤلف: محمد بن سعد
المجلد:3.
الصفحہ: 515.
الرقم: 273
الطبع: مکتبہ الخانجی قاھرہ,

💠  *واقعہ کا ماخذ*

 یہ واقعہ امام عبد الرحمن صفوری شافعی نے اپنی کتاب " نزہت المجالس" میں حکایت اور محض کہانی کی حیثیت سے بلا کسی سند کے ذکر کیا ھے۔

▪ *واقعہ کی عبارت*


" كان في زمن النبي صلى الله عليه وسلم رجل يقال له أبو دجانة، فإذا صلى الصبح خرج من المسجد سريعا، ولم يحضر الدعاء، فسأله النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: جاري له نخلة يسقط رطبها في داري ليلا من الهواء، فأسبق أولادي قبل أن يستيقظوا، فأطرحه في داره، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لصاحبها: ( بعني نخلتك بعشر نخلات في الجنة، عروقها من ذهب أحمر، وزبرجد أخضر، وأغصانها من اللؤلؤ الأبيض ) فقال: لا أبيع حاضرا بغائب، فقال أبو بكر: قد اشتريتها منه بعشر نخلات في مكان كذا، ففرح المنافق ووهب النخلة التي في داره لأبي دجانة، وقال لزوجته: قد بعت هذه النخلة لأبي بكر بعشر نخلات في مكان كذا، وهي داري، فلا ندفع لصاحبها إلا القليل، فلما نام تلك الليلة وأصبح، وجد النخلة قد تحولت من داره إلى دار أبي دجانة ".

(ترجمہ)

  حضور اکرم کے زمانے میں حضرت ابودجانہ فجر کی نماز پڑھ کر جلدی سے مسجد سے چلے جاتے اور دعا میں حاضری نہیں دیتے تہے ایک دن حضور نے اس کی وجہ معلوم کی تو ابودجانہ نے عرض کیا: کہ حضرت معاملہ یہ ھے کہ میرے( منافق) پڑوسی کا ایک کہجور کا درخت ہے جس پر کہجوریں لدی ہیں رات کو ہوا چلنے سے کچھ کہجوریں جھڑ کر میرے گھر میں آگرتی ہیں تو میں اپنے بچوں کی بیداری سے قبل جاکر ان کہجوروں کو اٹھاکر پڑوسی کی طرف ڈال دیتا ہوں , تو حضور نے اس درخت والے سے کہا: تم مجہے اپنا درخت جنت کے دس درختوں کے بدلے بیچ دو! جنکے تنے سرخ سونے اور سبز زمرد کے ہونگے جبکہ ان کی شاخیں سفید موتیوں کی ہونگی۔ تو مالک درخت پڑوسی نے کہا: مجہے یہ درخت فروخت نہیں کرنا ھے  اور میں اس درخت کو جو ابہی موجود ھے ان درختوں کے بدلے کیسے بیچ سکتا ہوں جو غائب ہیں ؟( یعنی جنت میں ہیں) حضرت ابوبکر کو علم ہوا تو انہوں نے کہا: یارسولﷲ! میں اس درخت کو جنت کے ان دس درختوں کے بدلے خریدتا ہوں,  چنانچہ وہ منافق مالک درخت راضی ہوگیا, اور اپنی بیوی سے کہنے لگا: کہ میں نے درخت ابوبکر کو فروخت کردیا ھے جبکہ وہ درخت میری ہی زمین میں لگا ہوا ھے میں اسکے پھلوں کا معمولی حصہ ہی ان کو دونگا۔ ( بقیہ جعل سازی کرکے خود رکھونگا) چنانچہ اس رات جب وہ سویا اور صبح سوکر اٹھا تو دیکہا کہ وہ درخت رات میں اسکے گھر سے نکل کر حضرت ابودجانہ کے گھر جاکر زمین میں لگ گیا۔

المصدر: نزهة المجالس
المؤلف: عبد الرحمن الصفوري
المجلد: 1
الصفحة:238
الطبع:  المكتب الثقافي، قاهرة

___ الحاصل___

 مذکورہ واقعہ امام صفوری شافعی نے منافق کے متعلق ذکر کیا ھے نہ کہ یہودی کے متعلق, نیز واقعہ کو حکایت کے نام سے بیان کیا ھے حدیث کے عنوان سے نہیں؛ اور واقعہ میں کچھ فرق بہی ھے لہذا اس کو حدیث کا نام ہرگز نہ دیا جائے فقط ایک کہانی کی حیثیت دی جائے۔

وﷲ تعالی اعلم
کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Wednesday, September 11, 2019

زینب کا مرثیہ

▪ *شہیدِ کربلا پر زینب کا مرثیہ*▪


   ایک مرثیہ منسوب بطرف " حضرت زینب بنت فاطمہ " مشہور ھے:

کہ ابومخنف سے روایت ہے کہ حضرت حسینؓ بن علیؓ شہید کربلا کی ہمشیرہ زینب بنت فاطمہ جب اپنے بھائی حضرت حسینؓ کی لاش کے پاس سے گزریں تو انہوں نے چیخ و پکار کر یہ مرثیہ پڑھا:
 ہائے محمد!! ہائے محمد!! تم پر آسمان کے فرشتوں کی درود نازل ہو, یہاں حسینؓ چٹیل میدان میں پڑے ہیں, خون میں لت پت ہیں, اعضاء بکھرے پڑے ہیں, ہائے محمد!! آپ کی بیٹیوں کو قید کرلیا گیا ہے, اور اولاد کو تہہ تیغ کردیا گیا ہے, جن پر گرد و غبار اڑ رہا ھے ,

راوی کہتا ھے: اس مرثیہ نے بخدا ہر دوست و دشمن کو رلاکر رکھدیا۔
کیا واقعتا حضرت زینب نے مذکورہ مرثیہ پڑھا تہا؟

 ___*باسمہ تعالی*___
*الجواب وبہ التوفیق:*

  ماہ محرم کی آمد ہوتے ہی واقعہ کربلا کے متعلق بہت کچھ بیان و نشر ہوتا ہے؛ لیکن اس میں بہت سی باتیں من گھڑت, یا غیر مستند, بہت کمزور بہی ہوتی ہیں کہ جنکو معتبر نہیں مانا جاسکتا ھے , انہیں کمزور اور غیر مستند باتوں میں سے سوال میں معلوم کردہ  مرثیہ منسوب بطرف " حضرت زینب بنت فاطمہ" بہی ہے , جسکی نسبت نواسیٔ رسول کی جانب کرنا درست نہیں ۔

♦ *مرثیہ کا ماخذ*

 اس مرثیہ کا ماخذ تاریخ طبری ہے:

من رواية *أبي مخنف*، قال: حدثني أبو زهير العبسي، عن قرة بن قيس التميمي، قال: نظرت إلى تلك النسوة لما مررن بحسين وأهله وولده صِحْنَ ولطمن وجوههن، قال: فاعترضتهن على فرس، فما رأيت منظراً من نسوة قط كان أحسن من منظر رأيته منهم ذلك اليوم، قال: فما نسيت من الأشياء لا أنس قول زينب ابنة فاطمة حين مرت بأخيها الحسين صريعاً وهي تقول: يا محمداه يا محمداه صلى عليك ملائكة السماء، هذا الحسين بالعراء مرمل بالدماء، مقطع الأعضاء، يا محمداه وبناتك سبايا، وذريتك مقتلة، تسفي عليها الصبا، قال: فأبكت والله كل عدو وصديق.

المصدر: تاریخ الطبری
المؤلف : ابن جریر الطبری
المجلد: 5
الصفحہ: 456
الطبع: دار المعارف , مصر۔


🔰  *روایت کا درجہ*

یہ روایت بلحاظ سند کم از کم بہت زیادہ کمزور و ضعیف ھے تاآنکہ نقاد حدیث حضرات کی تفصیلات کی روشنی میں تو اسکو بیان کرنا بہی درست نہیں؛ کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی " ابو مخنف لوط بن یحی " ہیں ۔ جو ایک شیعہ راوی و مؤرخ  ہیں جنکو روایت میں ناقابل اعتماد کہا گیا ہے۔

 🔘 *ابو مخنف*

لوط بن يحي أبو مخنف اخباري تالف لايوثق به، تركه أبوحاتم وغيره، وقال الدارقطني: ضعيف، وقال ابن معين: ليس بثقة، وقال مرة: ليس بشئ، وقال ابن عدي: شيعي محترق صاحب أخبارهم.

المصدر: ميزان الاعتدال
المؤلف: الذهبي
المجلد: 3
 الصفحة: 419
الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.



وﷲ تعالی اعلم
کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

معاویہ کے نسب سے خون کی بو

▪ *معاویہؓ کے نسب سے خون کی بو*▪

   ماہ محرم شروع ہوتے ہی ایک پوسٹ سوشل میڈیا ( wats app& face book ) پر  زور و شور سے نشر ہورہی ھے کہ حضور اکرمؐ نے حضرت معاویہؓ سے ایک موقعہ پر کہا: کہ اے معاویة ! تو مجھ سے دور ہٹ؛ مجہے تیرے نسب سے اپنے خون کی بو محسوس ہوتی ھے ( یعنی تیری اولاد میری اولاد کی قاتل بنےگی) اس خوف سے معاویہ نے شادی نہیں کی ؛ لیکن شادی نہ کرنیکی وجہ سے معاویہ کو جسمانی طور پر مرض کا عارضہ ہوا اور پریشانی کا سامنا ہوا تو مجبورا معاویہ نے شادی کی۔

اس پوسٹ میں کتنی صداقت ھے؟
 از راہ کرم مطلع فرمایئں!!!

▪  *باسمہ تعالی* ▪
*الجواب وبہ التوفیق:*

 مذکورہ بات جو سیدنا امیر معاویہؓ کے متعلق معلوم کی گئ ھے اسکا سچائی سے ذرا بہی تعلق نہیں ھے ۔یہ بات کسی بہی سند سے ثابت نہیں , ایسی بات کا نشر کرنیوالا جھوٹا قرار پائیگا۔ اور یہ جرات اسی شخص کی ہوسکتی ھے جس کے دل میں بغض معاویہؓ ہو۔

وﷲ تعالی اعلم
کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*