Tuesday, October 27, 2020

شب قدر افضل ھے یا شب میلاد

 ••• *شب قدر افضل ھے یا شب میلاد* •••


 ایک پوسٹ نشر ہورہی ھے جس میں لکہا ھے: کہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے فرمایا: کہ بیشک سرورِ عالَم صلی ﷲ علیہ وسلم ولادت کی شب شبِ قدر سے بھی افضل ھے۔


( ماثبت بالسنہ, ص:100)


اس کا حوالہ و تحقیق مطلوب ھے!!!


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


سرِ دست " ما ثبت بالسنہ " میں تو مجھے یہ مل نہ سکی؛ البتہ امام قسطلانی نے " المواھب اللدنیہ " میں یہ بات لکھی ھے:  اگر شب قدر و شب میلاد میں موازنہ کیا جائے تو شب میلاد , شب قدر سے تین وجوہات کی بنا پر افضل ھے:


1)  حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی رات وہ رات ہےجس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا جبکہ لیلۃ القدر آپکو عطا کی گئی، لہٰذا وہ رات جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےظہور کا شرف ملا اس رات سے زیاد شرف والی ہوگی جسےاس رات میں تشریف لانےوالی شخصیت کےسبب سےشرف ملا پس اس میں کوئی نزاع نہیں، لہٰذا شبِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ”لیلۃ القدر“سےافضل ہوئی۔


2)  اگر لیلۃ القدر کی عظمت اس بناء پر ہےکہ اس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے تو شب ولادت کو یہ شرف حاصل ہےکہ اس میں اللہ تعالیٰ کےمحبوب صلی اللہ علیہ وسلم کائنات میں جلوہ فرما ہوئے۔ صحیح اور منتخب ترین قول کےمطابق جس وجہ سےشبِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شرف سےنوازا گیا وہ ” لیلۃ القدر“ کو شرف سےنوازنےکی وجہ سےکہیں زیادہ افضل و اشرف ہے، لہٰذا شب ولادت افضل ہوگی۔


3)  لیلۃ القدر کےباعث امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفضیلت بخشی گئی اور شبِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سےجمیع موجودات کو فضیلت سےنوازا گیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نےرحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا تو اس نعمت کو جمیع کائنات کےلیےعام کر دیا گیا، پس ”شب ولادت“ نفع رسانی میں کہیں زیادہ ہےلہٰذا اس اعتبار سےیہ لیلۃ القدر سےافضل ہوئی۔



💠 *قسطلانی کی عبارت*


 فان قلت : إذا قلنا بأنه صلى الله عليه وسلم ولد ليلاً فأيهما افضل ، ليلة القدر ام ليلة مولده صلى الله عليه وسلم ؟

 أجيب بأن ليلة مولده صلى الله عليه وسلم افضل من ليلة القدر من وجوه ثلاث :

 أحدها : أن ليلة المولد ليلة ظهوره صلى الله عليه وسلم وليلة القدر معطاة له ، ما شرف بظهور ذات المشرف مما شرف بسبب ما أعطيه . ولا نزاع في ذلك . فكانت ليلة المولد بهذا الاعتبار افضل .

 الثاني : أن ليلة القدر شرفت بنزول الملائكة فيها ، وليلة المولد شرفت بظهوره صلى الله عليه وسلم فيها ، ومن شرفت به ليلة افضل ممن شرفت بهم ليلة القدر على الأصح المرتضى ، فتكون ليلة المولد افضل .

 الثالث : إن ليلة القدر وقع التفضيل فيها على أمة محمدصلى الله عليه وسلم وليلة المولد الشريف وقع التفضيل فيها على سائر الموجودات . فهو الذي بعثه رحمة للعالمين فعمت به النعمة على جميع الخلائق فكانت ليلة المولد اعم نفعاً » .



فائدہ:  المواھب اللدنیہ کے محشی و محقق شیخ صالح احمد شامی نے اس عبارت کے حاشیے میں تفصیلا ثابت کیا ھے کہ شب میلاد کو شب قدر سے زیادہ افضل بیان کرنا بلا دلیل ھے اس پر کوئی قرآنی آیت و قول نبی موجود نہیں ھے ؛ لہذا اس شب کی فضیلت اپنی جگہ مسلم لیکن شب قدر سے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا بلا دلیل ھے۔



• المصدر: المواهب اللدنية 

• المؤلف: العلامة القسطلانيؒ

• المحقق: صالح احمد الشامي

• المجلد: 1

• الصفحة: 145

• الطبع: المكتب الاسلامي، بيروت، لبنان.


والله تعالي اعلم

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

27 اكتوبر، 2020؁ء

Sunday, October 25, 2020

ولادت کی خوشی میں بکرا

 ••• *حضورؐ نے اپنی ولادت کی خوشی میں بکرا ذبح کیا؟*•••


ایک پوسٹ گردش میں ھے جس میں امام سیوطی کے حوالے سے درج ھے : کہ نبی اکرم نے اپنی ولادت کی خوشی کے اظہار کیلیے بکرا ذبح فرمایا ( حسن المقصد فی عمل المولد) نیز یہ بھی لکہا ھے: نبی اکرم نے فرمایا : پیر کے دن میری ولادت ہوئی ؛ اسلیے روزہ رکھتا ہوں۔ ( مسلم / السنن الکبری)


 اس کی تحقیق مطلوب ھے!!!



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


  جب ماہِ ربیع الاول آتا ھے اس طرح کی پوسٹیں و مضامین خوب خوب نشر کیے جاتے ہیں جن میں اہل اھواء و اہل بدعت کی خوشی کا سامان ہو یہ بہی اسی طرح کی ایک پوسٹ ھے.


🔰 *امام سیوطیؒ کی عبارت*


امام سیوطیؒ نے اپنی کتاب " حسن المقصد فی عمل المولد " میں ایک بات ذکر کی ھے ؛ لیکن اس میں نہ ہی ولادت کا ذکر ھے نہ ولادت کی خوشی کا؛ بلکہ روایت میں فقط اتنا ذکر ھے : کہ نبی کریمؐ نے بعثت کے بعد اپنا عقیقہ فرمایا.



*حسن المقصد کی عبارت*


 ما أخرجه البيهقي عن انس رضي الله عنه: (أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة).


ترجمه:  نبی اکرمؐ نے بعثت کے بعد یعنی نبوت ملنے کے بعد خود کا عقیقہ فرمایا.


تشریح: روایت میں نہ ولادت کا ذکر ھے اور نہ ہی ولادت کی خوشی میں بکرے کے ذبح کرنے کا نہ ماہ ربیع الاول کا نہ پیر کے دن کا نہ 12 تاریخ کا؛ بس اتنا مذکور ھے : کہ نبی اکرم نے اپنا عقیقہ فرمایا تہا۔


÷ نام کتاب: حسن المقصد فی عمل المولد

÷ نام مؤلف : امام سیوطیؒ 

÷ صفحة: 64

÷ طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.



💠 روايت پر كلام 💠


مذکورہ روایت سے فقط اتنا معلوم پڑتا ھے کہ نبی اکرم نے اپنا عقیقہ کیا تہا اس میں نہ سال کا ذکر ھے نہ ماہ و تاریخ کا نہ دن اور وقت کا؛ لیکن کیا اتنی بات بہی مستند سند سے ثابت ھے؟ تو اس روایت پر حفاظ حدیث و محدثین کا کلام ھے یعنی یہ روایت قابل استدلال نہیں ھے: 


1️⃣ *امام نووي كا كلام*


امام نوویؒ نے شرح المھذب میں کہا ھے: یہ حدیث باطل ھے , منکر ھے , متروک ھے: 


أما الحديث الذي ذكره في عق النبي صلى الله عليه وسلم عن نفسه فرواه البيهقي بإسناده عن عبدالله بن محرر بالحاء المهملة والراء المكررة عن قتادة عن أنس (أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عنه نفسه بعد النبوة) وهذا حديث باطل، قال البيهقي هو حديث منكر، وروى البيهقي بإسناده عن عبد الرزاق قال: "إنما تركوا عبدالله بن محرر بسبب هذا الحديث"، قال البيهقي: وقد روى هذا الحديث من وجه آخر عن قتادة، ومن وجه آخر عن أنس وليس بشيء، فهو حديث باطل وعبدالله بن محرر ضعيف متفق على ضعفه قال الحفاظ هو متروك" اهـ.


• المصدر: شرح المهذب 

• المصنف: الإمام النوويؒ

• المجلد: 8

• الصفحة: 412

• الطبع: مكتبة الإرشاد، جدة، السعودية.


2️⃣ *امام بيهقيؒ كا كلام*


امام بیہقیؒ نے یہ روایت ذکر کرنے کے بعد کلام لکہا: اسکی سند میں راوی " عبدﷲ بن محرر" ہیں جنکو محدثین نے ترک کردیا ھے.


نوٹ: امام سیوطیؒ نے "حسن المقصد" میں یہ روایت ذکر تو کی ھے ؛ لیکن بیہقی کا کلام ذکر نہیں کیا جس سے بظاہر ایسا لگا کہ یہ روایت مستند ھے۔


قال عبدالزاق إنما تركوا عبدالله ابن محرر لحال هذا الحديث وقد روي من وجه آخر عن قتادة ومن آخر عن أنس وليس بشيء.


× المصدر: السنن الكبري

× المحدث: البيهقيؒ 

× المجلد: 9

× حديث نمبر: 19273

× الصفحة: 505

× الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.



3️⃣ *ابن حجر عسقلانيؒ كا فرمان*


 ۩ قوله- أي الرافعي-: "رُوي أنه صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة".. البيهقي من حديث قتادة عن أنس وقال: منكر؛ وفيه عبدالله ابن محرر وهو ضعيف جداً، وقال عبد الرزاق إنما تكلموا فيه لأجل هذا الحديث. 

 قال البيهقي: وروى من وجه آخر عن قتادة ومن وجه آخر عن انس وليس بشيء.

 قلت- القائل ابن حجر العسقلاني-: "أما الوجه الآخر عن قتادة فلم أره مرفوعاً وإنما ورد أنه كان يفتي به، كما حكاه ابن عبد البر، بل جزم البزار وغيره بتفرد عبدالله بن محرر به عن قتادة.

 وأما الوجه الآخر عن أنس فأخرجه أبو الشيخ في الأضاحي وابن أيمن في مصنفه والخلال من طريق عبدالله بن المثنى عن ثمامة بن عبدالله بن أنس عن أبيه. وقال النووي في "شرح المهذب" هذا حديث باطل". اهـ.



۞ ابن حجرؒ نے بہی تلخیص حبیر میں اس روایت کو غیر معتبر غیر قابل استدلال بتایا ھے:



٭ المصدر: تلخيص الحبير

٭ المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ

٭ المجلد: 4

٭ الحديث: 2418

٭ الصفحة: 269

٭ الطبع: مؤسسة قرطبة للنشر والتوزيع،


4️⃣ *امام ذهبي كا كلام*


امام شمس الدین ذھبیؒ نے بہی اس روایت کو مستند نہیں مانا ھے: 


عبد الله بن محرر الجزري عن يزيد بن الاصم، وقتادة .قال احمد ترك الناس حديثه، وقال الجوزجاني: هالك، وقال الدارقطني وجماعة: متروك، وقال ابن حبان: كان من خيار عباد الله الا انه كان يكذب ولا يعلم، ويقلب الاخبار 

ولا يفهم،... وقال ابن معين: ليس بثقة، ... ومن بلاياه: روى عن قتادة عن أنس (أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعدما بعث). رواه شيخان عنه" اهـ.


① المصدر: ميزان الاعتدال 

② المحدث: الذهبيؒ 

③ المجلد: 2

④ الصفحة: 500

⑤ الرقم: 4591

⑥ الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.


🌐 *پیر کے دن روزہ رکہنا*


 صحیح مسلم میں روایت ھے: کہ نبی کریمؐ بروز پیر روزہ رکھتے تھے : 


عن ابي  قتادة الانصاري  : وَسُئِلَ عن صَوْمِ يَومِ الاثْنَيْنِ؟ قالَ: ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ، أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ.


٭ المصدر: صحيح مسلم

٭ المجلد: 1

٭ الصفحة: 520

٭ الرقم: 1162

٭ الطبع: دار طيبة، رياض.



تشریح: مسلم شریف کی روایت میں فقط اتنا ھے: کہ آنحضورؐ ہر سوموار کو روزہ رکہاکرتے تھے پوچھے جانے پر بتایا: کہ یہ دن میری ولادت کا ھے اور میری بعثت کا بہی ؛ لہذا اس سے فقط اتنا ثابت ھے کہ آپؐ یوم ولادت کو روزہ رکھ لیتے تھے لیکن اس میں تاریخ ولادت کا ذکر ہی نہیں ؛ کیونکہ تاریخ ولادت میں اختلاف واقع ہوا ھے لہذا ہر پیر کو روزہ مستحب ھے نہ یہ کہ سال میں ایک تاریخ کو مقرر کرکے روزہ رکہنا۔


___ *خلاصۂ کلام* ___


 ماقبل کی تفصیل سے ثابت ہوا کہ حضور نے نہ تو اپنی ولادت کی خوشی میں بکرا ذبح کیا نہ ہی یہ ثابت ہوا کہ آپ ہر سال کسی متعینہ تاریخ کو روزہ  رکہتے ہوں؛ بلکہ اتنا معلوم ہوا ھے کہ آپ علیہ السلام ہر ہفتے سوموار کو روزہ رکہتے تھے بلا قیدِ ماہ و تاریخ۔



وﷲ تعالی اعلم 

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

25 اکتوبر : 2020؁ء

Saturday, October 24, 2020

جبرئیل کے مختلف انبیاء کے پاس آنے کی تعداد

 *جبرئیلؑ کے مختلف انبیاءؑ کے پاس آنے کی تعداد*


حضرت سیدنا جبریلؑ کس نبی کے پاس کتنی مرتبہ آئے اسکے متعلق ایک پوسٹ پڑھی جس میں بحوالہ"ارشاد الساری شرح البخاری" لکھا تہا : کہ سیدنا جبرئیل کا حضرت آدم کے پاس 12 مرتبہ, حضرت ادریس کے پاس 4 مرتبہ, حضرت نوح کے پاس 50 مرتبہ, حضرت ابراہیم کے پاس 42 مرتبہ, حضرت موسی کے پاس 400 مرتبہ, حضرت عیسی کے پاس 10, اور حضور اکرم کے پاس 24000 مرتبہ آنا ہوا ھے ۔

( ارشاد الساری, ج:1,ص:60, حدیث:2,)



اسکے متعلق تحقیق مطلوب ھے!!



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:*



حضرت جبرئیلؑ کے انبیاء کرامؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کی تعداد کا حتمی اور صحیح علم خدا عز و جل کو ھے , مذکورہ پوسٹ میں جو تعداد لکھی گئ ھے وہ بلا سند منقول ھے ؛ ارشاد الساری میں یہ بات ذکر کی گئ ھے ؛ لیکن وہاں یہ بھی لکہا ھے کہ ہم نے یہ بات تفسیر ابن عادل سے نقل کی ھے ؛ لیکن اسکے ثبوت و غیرہ کی ذمہ داری مفسر ابن عادلؒ کی ھے:


💠 *ارشاد الساری کی عبارت*


وفي تفسير ابن عادل: ان جبريل نزل علي النبي اربعة وعشرين الف مرة، وعلي آدم اثنتي عشرة مرة، وعلي إدريس أربعا، وعلي نوح خمسين، وعلي إبراهيم اثنتين واربعين مرة، وعلي موسي اربعمأة، وعلي عيسي عشرا، كذا قاله والعهدة عليه.


٭ المصدر: ارشاد الساري 

٭ المؤلف: القسطلانيؒ

٭ المجلد: 1

٭ الصفحة: 84

٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.



🔰 *اللباب في علوم الكتاب*


تفسیر " اللباب فی علوم الکتاب یعنی تفسیر ابن عادل " میں یہ بات بلا کسی سند و حوالہ منقول ھے: 


※ يروى أن جبريل - صلوات الله وسلامه عليه - نزل على آدم - عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام ُ - اثنتي عشرة مرة، وعلى إدريس أربع مراتٍ، وعلى نوح - عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام ُ - خمسين مرَّة، وعلى إبراهيم اثنتين وأربعين مرة وعلى موسى أربع مرات، وعلى عيسى عشر مراتٍ، وعلى محمدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ وعلى سائر الأنبياء أربعة وعشرين ألف مرَّةٍ.


٭ المصدر: اللباب في علوم الكتاب المعروف بـ تفسير ابن عادل

٭ المفسر: اؔبو حفص عمر بن علي ابن عادل الدمشقي الحنبليؒ

٭ المجلد: 12

٭ الصفحة: 7

٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.



___ *خلاصۂ کلام* ____


یہ بات کسی سند سے ثابت نہ مل سکی ؛ لہذا اس بات کو نشر و بیان نہ کیا جائے۔


وﷲ تعالی اعلم 

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

24 اکتوبر: 2020؁ء

Friday, October 23, 2020

حضرت علی و فاطمہ کی سخاوت

 ••• *حضرت علی و فاطمہ کی سخاوت* •••



ایک مرتبہ جب حضرت امام حسن اورامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہا دونوں بیمار ہوگئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لے گئے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ان کے لئے نذر کرو۔ منت مانو‘‘۔

 سیدنا علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا اوران کی خادمہ حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنھا تینوں نے منت مان لی کہ اگر یہ شفا یاب ہوگئے تو ہم تین روزے رکھیں گے۔ چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے شمعون جو خیبر  کا یہودی تھا سے کچھ قرض لیا اور ایک روایت میں ہے کہ کام کرکے اجرت کے طور پر کچھ لیا اور ان تھوڑے سے پیسوں سے سحری و افطاری کا اہتمام کیا۔ پہلے دن جب افطار کا وقت ہوا تو دروازے پر آ کر ایک شخص نے آواز دی۔ اے اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھوکا ہوں۔ سیدہ کائنات رضی اللہ عنھا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور روٹی کے ساتھ جو کھانا پکا تھا وہ سارا اُٹھا کر مسکین کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ اگلے دن روزہ رکھا جوبچا تھا وہ پکایا۔ افطار کا وقت ہوا تو ایک اور سائل آگیا۔ اس نے کہا کہ میں یتیم ہوں تو سارا پکا ہوا کھانا اس یتیم کو دے دیا اورخود پانی سے روزہ افطار کر لیا۔ تیسرے دن روزہ رکھا پھر سائل آگیا۔ اس نے کہا کہ میں قیدی ہوں خدا کے لئے مجھے دیں۔ میں بھوکاہوں۔ پھر سب کچھ اس کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ یوں تینوں دن جب روزہ پانی سے افطار ہوتا رہا۔ منت پوری کرنے سے امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ  شفایاب ہو تو گئے تھے مگر بھوک کی وجہ سے ان کے پیارے پیارے چہرے مرجھاگئے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اورخاتون جنت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنھا کے چہرے بھی مرجھا گئے تھے اور ان کا پیٹ اندر کی طرف لگ گیا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی المرتضی، حسنین کریمین، سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہم کا چہرہ دیکھا تو پوچھا : کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے بتایا : آقا علیہ السلام یہ واقعہ ہوا ہے۔ بس اتنی بات ہوئی تھی اور ابھی آقا علیہ السلام کے دل میں تھوڑا سا دکھ آیا ہی تھا کہ میری شہزادی بیٹی نے کتنی قربانی دی ہے؟ میرے شہزادوں نے تین دن کیسے بھوک سے گذارے کہ اسی اثنا میں جبریل علیہ السلام اترے اورحاضر ہو کر عرض کرنے لگے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ لیجئے سورۃ الدھر کی آیات۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے گھرانے کے لئے تحفہ بھیجی ہیں۔ اس لئے کہ جب انہوں نے نذر مانی تھی تو افطار کے وقت وہ اللہ کی محبت میں کسی دن مسکین، کسی دن یتیم اور کسی دن قیدی کو کھانا کھلا دیتے تھے۔ اس کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے سورۃ الدھر کی درج ذیل آیات تلاوت کیں۔

يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًاo وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًاo إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًاo

(الدهر، 76 : 7 - 10)

’’(یہ بندگانِ خاص وہ ہیں) جو (اپنی) نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جن کی سختی خوب پھیل جانے والی ہے اور اپنا کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوجود ایثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لئے تمہیں کھلا رہے ہیں۔ نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکر گزاری کے (خواہشمند) ہیں۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کا خوف رہتا ہے جو (چہروں کو) نہایت سیاہ (اور) بدنما کردینے والا ہے‘



( اس واقعے کی تحقیق و حوالہ مطلوب ھے!!!)


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق*:


 یہ واقعہ متعدد کتبِ تفسیر میں منقول ھے ہم بطور مثال " تفسیر کشاف " کا حوالہ ذکر کرتے ہیں:


💠 *تفسیر کشاف*💠


وعن ابن عباس رضى الله عنه: أنّ الحسن والحسين مرضا، فعادهما رسول الله ﷺ في ناس معه، فقالوا: يا أبا الحسن، لو نذرت على ولدك، فنذر علىّ وفاطمة وفضة جارية لهما إن برآ مما بهما: أن يصوموا ثلاثة أيام، فشفيا وما معهم شيء، فاستقرض علىّ من شمعون الخيبري اليهودي ثلاث أصوع من شعير، فطحنت فاطمة صاعا واختبزت خمسة أقراص على عددهم، فوضعوها بين أيديهم ليفطروا فوقف عليهم سائل فقال:السلام عليكم أهل بيت محمد، مسكين من مساكين المسلمين، أطعمونى أطعمكم الله من موائد الجنة، فآثروه وباتوا لم يذوقوا إلا الماء، وأصبحوا صياما، فلما أمسوا ووضعوا الطعام بين أيديهم وقف عليهم يتيم، فآثروه، ووقف عليهم أسير في الثالثة، ففعلوا مثل ذلك، فلما أصبحوا أخذ على رضى الله عنه بيد الحسن والحسين وأقبلوا إلى رسول الله ﷺ، فلما أبصرهم وهم يرتعشون كالفراخ من شدّة الجوع قال: ما أشد ما يسوؤني ما أرى بكم، وقام فانطلق معهم فرأى فاطمة في محرابها قد التصق ظهرها ببطنها وغارت عيناها. فساءه ذلك، فنزل جبريل وقال: خذها يا محمد هنأك الله في أهل بيتك فأقرأه السورة.


٭ المصدر: تفسير الكشاف

٭ المفسر: جار الله الزمخشريؒ

٭ المجلد:  4

٭ الصفحة: 657

٭ الطبع: دار الكتب العلمية،بيروت، لبنان.


🔰 *واقعے کی حقیقت* 🔰


اس واقعے کو گرچہ واعظین و مفسرین نے اپنی کتب و بیانات میں جگہ دی ھے؛ لیکن محدثین کے نزدیک یہ واقعہ من گھڑت اور غیر مستند ھے؛ ہم اس بارے میں  محدثین کی جو  آراء ہیں ان کا حوالہ (عبارت سے صرف نظر کرتے ہوئے)  اختصار کے پیش نظر ذکر کرینگے :



1️⃣ *کتاب الموضوعات میں*


"امام ابن الجوزیؒ" نے اسکے بارے میں کہا: اس کے من گھڑت ہونے میں شک و شبہ نہیں ھے۔ 


وهذا حديث لا يشك في وضعه ولو لم يدل على ذلك إلا الأشعار الركيكة والأفعال التي يتنزه عنها أولئك السادة، قال يحيى بن معين: "أصبغ بن نباتة لا يساوي شيئا"، وقال أحمد بن حنبل: "حرقنا حديث محمد بن كثير، وأما أبو عبد الله السمرقندي فلا يوثق به".


÷  المصدر: كتاب الموضوعات 

÷  المحدث: ابن الجوزيؒ 

÷  المجلد: 1

÷  الصفحة: 390

÷  الطبع: المكتبة السلفية، المدينة المنورة،


2️⃣ *نوادر الاصول میں*


حکیم ترمذیؒ نے " نوادر الاصول" میں لکہا: یہ بنائی ہوئی بات ھے اسکا واضع قابل مذمت ھے:


هذا حديث مزوق، قد تطرف فيه صاحبه حتي يشبه علي المستمعين، والجاهل يعض علي  شفتيه تلهفا الا يكون بهذه الصفة، ولا يدري أن صاحب هذا الفعل مذموم.


★ المصدر: نوادر الاصول 

★ المحدث: حكيم الترمذيؒ

★ المجلد: 1

★ الصفحة: 246

★ الطبع: دار الجيل، بيروت، لبنان.


3️⃣ *اللآلي المصنوعة ميں*


امام سیوطیؒ نے بھی اسکا رد فرمایا ھے: 


قال الحكيم الترمذي في نوادر الأصول: ومن الحديث الذي تنكره القلوب حديث رواه ليث، عن مجاهد، عن ابن عباس في قوله تعالى: )يوفون بالنذر ويخافون يوما كان شره مستطيرا  ويطعمون الطعام على حبه مسكينا ويتيما وأسيرا .


※ المصدر: اللآلي المصنوعة

※ المحدث: الامام السيوطيؒ 

※ المجلد: 1

※ الصفحة: 371

※ الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.



وﷲ تعالی اعلم

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

۲۳ اکتوبر: ؁۲۰۲۰ء

Friday, October 16, 2020

چھ گنہگار عورتیں

 •• *(چھ گنہگار عورتیں)*  ••



ایک مرتبہ حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور حضرت فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)حضور اکرم ﷺ‎ سے ملنے کے لیے آپ ﷺ‎ کے گھر تشریف لے گئے۔حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فرماتے ہیں کہ جب ہم نبی ﷺ‎ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ نبی کریم ﷺ‎  رو رہے ہیں آپ  ﷺ‎  پر گریہ طاری ہے  جب میں نے آپ ﷺ‎ کی یہ حالت دیکھی تو عرض کیا کہ یارسول اللہ  ﷺ‎ میرے ماں باپ آپﷺ‎ پر قربان ہوں آپﷺ‎ کو کس چیز نے رلایا ہے؟ اور کس بنا پر آپﷺ‎ رو رہے ہیں؟ آپﷺ‎ نے جواب میں فرمایا کہ میں نے شبِ معراج میں اپنی اُمت کی عورتوں کو جہنم کے اندر  قسم قسم کے عذابوں میں مبتلا دیکھا اور ان کو جو عذاب ہو رہا تھا وہ اتنا شدید  اور ہولناک تھا کہ اس عذاب کے تصور سے مجھے رونا آرہا ہے۔اس کے بعد آپ ﷺ‎ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ میں نے جہنم کے اندر عورتوں کو کس کس عذاب میں مبتلا دیکھا چنانچہ آپﷺ‎ نے فرمایا 

میں نے ایک عورت كو دیکھا کہ وہ اپنے بالوں کے ذریعے جہنم کے اندر لٹکی ہوئی ہے اور اس کا دماغ ہانڈی کی طرح پک رہا ہے۔

میں نے دوسری عورت کو جہنم میں اسطرح دیکھا کہ وہ زبان کے بل لٹکی ہوئی ہے۔

تیسری عورت کو میں نے دیکھا کہ وہ چھاتیوں کے بل جہنم میں لٹکی ہوئی ہے۔

چوتھی عورت کو میں نے  اس طرح دیکھا کہ اس کے دونوں پیر سینے سے بندھے ہوئے ہیں اور اس کے دونوں ہاتھ پیشانی سے بندھے ہوئے ہیں۔

پانچویں عورت کو میں نے اس حالت میں دیکھا کہ اس کا چہرہ خنزیر کی طرح ہے اور باقی جسم گدھےکی طرح ہے مگر حقیقت میں وہ عورت ہے اور سانپ بچھو اس عورت سے لپٹے ہوئے ہیں۔

چھٹی عورت کو میں نے اس حالت میں دیکھا کہ وہ کتے کی شکل میں ہے اور اس کے منہ کے راستے سے جہنم کی آگ داخل ہو رہی ہے۔اور پاخانہ کے راستے آگ نکل رہی ہے اور عذاب دینے والے فرشتے جہنم کے گُرز اس کو مار رہے ہیں۔

اس کے بعد حضرت فاطمہ زہرا (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)  نے عرض کیا ابا جان ان عورتوں پر یہ عذاب ان کے کون سے عمل کی وجہ سے ہو رہا تھا۔ انکے کون سے ایسے اعمال تھے جن کی وجہ سے آپ ﷺ‎ نے ان کو اس ہولناک عذاب میں مبتلا دیکھا؟آپﷺ‎ نے فرمایا جس عورت کو میں نے جہنم میں لٹکا ہوا دیکھا اور اس کا دماغ ہنڈیا کی طرح پک رہا تھا اِس کو یہ عذاب گھر سے باہر ننگے سر جانے کی وجہ سے ہو رہا تھا۔ وہ عورت نا محرم مردوں سے اپنے سر کے بال نہیں چھپاتی تھی۔

۔۔۔

دوسری عورت جس کو آپﷺ‎ نے دیکھا کہ زبان  کے بل جہنم میں لٹکی ہوئی ہے۔وہ عورت زبان درازی سے اپنے شوہر کو تکلیف دیا کرتی تھی۔

تیسری عورت جس کو آپﷺ‎ نے دیکھا کہ وہ اپنی چھاتیوں کے بل لٹکی ہوئی ہے وہ عورت ہے جو شادی شدہ ہونے کے باوجود دوسرے مردوں سے ناجائز تعلق رکھتی تھی۔

چوتھی عورت جس کو آپﷺ‎ نے اس حالت میں دیکھا کہ اس کے دونوں پیر سینے سے بندھے ہوئے ہیں اور دونوں ہاتھ سر سے بندھے ہوئے ہیں اس کے بارے میں آپﷺ‎ نے فرمایا کہ یہ وہ عورت ہے جو دنیا میں جنابت اور حیض سے پاک نہیں رہتی تھی اور نمازوں میں سستی کیا۔ کرتی تھی۔

پانچویں عورت جس کو آپﷺ‎ نے اس حالت میں دیکھا کہ اس کا چہرہ خنزیر کی طرح ہے اور باقی جسم گدھےکی طرح ہے اور سانپ بچھو اس سے لپٹے ہوئے ہیں۔اِس کے بارے میں آپﷺ‎  نے فرمایا کہ یہ وہ عورت ہے جس کو جھوٹ بولنے اور چغلی کھانے کی وجہ سے  یہ عذاب ہو رہا تھا۔


       اس روایت کی تحقیق و حوالہ مطلوب ھے!!!


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:*


  یہ روایت غیر مستند ھے؛ اسکو  آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرکے بیان کرنا درست نہیں ھے، اصل اس کا ماخذ شیعی کتابیں ہیں مثلا: " عیون اخبار الرضا " میں ذکر ھے: 



🔰 حدثنا علي بن عبد الله الوراق رضي الله عنه قال حدثنا محمد بن أبي عبد الله الكوفي عن سهل بن زياد الأدمي  عن عبد العظيم بن عبد الله الحسني عن محمد بن علي الرضا عن أبيه الرضا عن أبيه موسى بن جعفر عن أبيه جعفر بن محمد عن أبيه محمد بن علي عن أبيه علي بن الحسين عن أبيه الحسين بن علي عن أبيه أمير المؤمنين علي بن أبي طالب : 


قال دخلت أنا و فاطمة على رسول الله (ص) فوجدته يبكي بكاءً شديدا فقلت فداك أبي و أمي يا رسول الله ما الذي أبكاك فقال يا علي ليلة أسري بي إلى السماء رأيت نساء من أمتي في عذاب شديد فأنكرت شأنهن فبكيت لما رأيت من شدة عذابهن و رأيت امرأة معلقة بشعرها يغلى دماغ رأسها و رأيت امرأة معلقة بلسانها و الحميم يصب في حلقها و رأيت امرأة معلقة بثدييها و رأيت امرأة تأكل لحم جسدها و النار توقد من تحتها و رأيت امرأة قد شد رجلاها إلى يديها و قد سلط عليها الحيات و العقارب و رأيت امرأة صماء عمياء خرساء في تابوت من نار يخرج دماغ رأسها من منخرها و بدنها متقطع من الجذام و البرص و رأيت امرأة معلقة برجليها في تنور من نار و رأيت امرأة تقطع لحم جسدها من مقدمها و مؤخرها بمقاريض من نار و رأيت امرأة يحرق وجهها و يداها و هي تأكل أمعاءها و رأيت امرأة رأسها رأس الخنزير و بدنها بدن الحمار و عليها ألف ألف لون من العذاب و رأيت امرأة على صورة الكلب و النار تدخل في دبرها و تخرج من فيها و الملائكة يضربون رأسها و بدنها بمقامع من نار فقالت فاطمة (ع) حبيبي و قرة عيني أخبرني ما كان عملهن و سيرتهن حتى وضع الله عليهن هذا العذاب فقال يا بنيتي أما المعلقة بشعرها فإنها كانت لا تغطي شعرها من الرجال و أما المعلقة بلسانها فإنها كانت تؤذي زوجها و أما المعلقة بثدييها فإنها كانت تمتنع من فراش زوجها و أما المعلقة برجليها فإنها كانت تخرج من بيتها بغير إذن زوجها و أما التي كانت تأكل لحم جسدها فإنها كانت تزين بدنها للناس و أما التي شد يداها إلى رجليها و سلط عليها الحيات و العقارب فإنها كانت قذرة الوضوء قذرة الثياب و كانت لا تغتسل من الجنابة و الحيض و لا تنتظف و كانت تستهين بالصلاة و أما الصماء العمياء الخرساء فإنها كانت تلد من الزناء فتعلقه في عنق زوجها و أما التي كانت تقرض لحمها بالمقاريض فإنها كانت تعرض نفسها على الرجال و أما التي كانت تحرق وجهها و بدنها و هي تأكل أمعاءها فإنها كانت قوادة و أما التي كان رأسها رأس الخنزير و بدنها بدن الحمار فإنها كانت نمامة كذابة و أما التي كانت على صورة الكلب و النار تدخل في دبرها و تخرج من فيها فإنها كانت قينة نواحة حاسدة ثم قال (ع) ويل لامرأة أغضبت زوجها و طوبى لامرأة رضي عنها زوجها .


٭ المصدر: عيون أخبار الرضا

٭ المجلد: 2

٭ المؤلف: ابو جعفر الصدوق

٭ الصفحة: 13

٭ الرقم: 24

٭ الطبع: منشورات الشريف الرضي، ايران.



💠 *روایت کا حکم*💠


یہ روایت خود شیعی علماء کی نظر میں قابل بیان نہیں ھے؛ کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی " أبو سعيد سهل بن زياد الآدمي " ھے جو روایت میں غیر مستند ہے نیز جھوٹا ھے: 



🔷 سهل بن زياد أبو سعيد الآدمي الرازي كان ضعيفاً في الحديث، غير معتمد فيه. وكان أحمد بن محمد بن عيسى يشهد عليه بالغلو والكذب وأخرجه من قم إلى الري وكان يسكنها..)ا.هـ


٭ المصدر: رجال النجاشي

٭ المؤلف: ابو العباس النجاشي

٭ الصفحة:185

٭ الرقم: 490

٭ الطبع: مؤسسة النشر الاسلامي، قم، إيران.



➖ *امام ذھبی کی کتاب میں*➖


یہ روایت بلا کسی سند و حوالہ امام ذھبی کی کتاب میں بھی در آئی ھے : 

نیز اس کتاب کی نسبت امام ذھبی کی جانب درست نہیں ھے



* المصدر : الكبائر 

* المؤلف: الامام الذهبي

* الصفحة: 177

* الطبع: دار الندوة الجديدة، بيروت، لبنان.


وﷲ تعالی اعلم

✍🏻...کتبہ : *محمد عدنان وقار صدیقی*

16 اکتوبر 2020

Sunday, October 4, 2020

فرشتے کا بوسہ لینا

 • *فرشتے کا بوسہ لینا* •


 ایک روایت کی تحقیق و حوالہ مطلوب ھے: کہ 

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب کوئی شخص قرآن کریم کو پڑھتا( ختم کرتا ) ہے

تو فرشتہ اس کے دونوں آنکھوں کے درمیان (یعنی پیشانی) پر بوسہ دیتا ہے۔



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


  یہ بات نبی کریمؐ کی حدیث نہیں ھے ؛ لہذا اس کی نسبت نبی کریمؐ کی جانب نہ کیجائے۔


🔷 *اس قول کی نسبت*🔷


یہ بات حضرت سفیان ثوریؒ کی جانب منسوب ھے جیساکہ کتب میں صراحت ھے: 



💠 *الحبائک فی اخبار الملائک*


 امام سیوطیؒ نے اس قول کی نسبت حضرت سفیان ثوریؒ کی جانب کی ھے: 


واخرج الدينوري في المجالسة عن سفيان الثوري قال: اذا ختم الرجل القرآن، قبل الملك بين عينيه.


٭ المصدر: الحبائك في أخبار الملائك

٭ المصنف: السيوطيؒ 

٭ الصفحة: 101

٭ الرقم: 370

٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


✳️ ابن عقيلة المكيؒ نے اس قول کی نسبت " حبیب ابن ابي عمرہؒ" کی جانب کی ھے: 



وعن حبيب ابن ابي عمرة قال: اذا ختم الرجل القرآن، قبل الملك بين عينيه.


٭ المصدر: الزيادة والاحسان في علوم القرآن

٭ المؤلف: ابن عقيلة المكيؒ

٭ المجلد: 9

٭ الصفحة: 428

٭ الطبع: جامعة الشارقة، الامارات العربية المتحدة.



🔰 المجالسة ميں 🔰


عؔلامہ دینوریؒ نے " المجالسة" میں اسکو ذکر کیا ھے اور اس کو سفیان ثوریؒ کی جانب منسوب کیا ھے: 



 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ التَّغْلِبِيُّ، نَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ يُونُسَ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَقُولُ: إِذَا خَتَمَ الرَّجُلُ الْقُرْآنَ قَبَّلَ الْمَلَكُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ: فَحَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا قَالَ: ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ فَقَالَ: رَحِمَ اللهُ سُفْيَانَ هَذَا مِنْ مُخَبَّآتِ سُفْيَانَ.


٭ المصدر: المجالسة وجواهر العلم 

٭ المصنف: ابوبكر الدينوري المالكيؒ

٭ المجلد: 2

٭ الصفحة: 259

٭ الرقم:  395

٭ الطبع: دار ابن حزم، بيروت، لبنان.


☢️ *شعب الايمان ميں* ☢️


امام بیہقیؒ نے بہی اسکی نسبت حضرت حبیب بن ابی عَمرہؒ کی جانب فرمائی ھے: 



أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنا أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ الْفَقِيهُ، حدثنا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ جَلِيسٌ كَانَ لِبِشْرِ بْنِ الْحَارِثِ ح، وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ، حدثنا أَبُو عَمْرٍو مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ النَّحْوِيُّ، حدثنا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، حدثنا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ شَيْخٌ لَهُ قَالَ: سَمِعْتُ بِشْرَ بْنَ الْحَارِثِ، يَقُولُ: حدثنا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، قَالَ: " إِذَا خَتَمَ الرَّجُلُ الْقُرْآنَ قَبَّلَ الْمَلَكُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ " قَالَ بِشْرُ بْنُ مُوسَى: وقَالَ لِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: " فَحَدَّثْتُ بِهِ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، فَقَالَ: لَعَلَّ هَذَا مِنْ  مُخَبَّآتِ سُفْيَانَ وَاسْتَحْسَنَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ جِدًّا " لَفْظُ حَدِيثِ الْفَقِيهِ.

( ترجمہ)


 حضرت سفیان ثوریؒ حبیب بن ابی عمرہؒ سے روایت کرتے ہیں : کہ جب مرد قرآن کریم ختم کرتا ھے تو فرشتہ اسکی پیشانی کو چومتا ھے , بشر بن موسی نے کہا: مجھ سے عمر بن عبد العزیز نے فرمایا: کہ یہ بات میں نے امام احمد بن حنبلؒ سے بتائی تو حضرت نے فرمایا: یہ حضرت سفیان ثوری کے اسرار و روحانی فیوضات میں سے ھے اور اس بات کو حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے پسند فرمایا۔


٭ المصدر: شعب الايمان

٭ المحدث: الامام البيهقيؒ

٭ المجلد: 3

٭ الصفحة: 423

٭ الرقم: 1910

٭ الطبع: مكتبة الرشد، الرياض، السعودية.


( *خلاصہ کلام* )


 یہ بات حدیث کے عنوان سے تو بیان نہ کی جائے ؛ البتہ بزرگوں کا مقولہ کہہ کر بیان ہوسکتا ھے۔


وﷲ  تعالی اعلم

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

4 اکتوبر , 2020؁ء