Saturday, September 26, 2020

بچے کی فاتحہ سے عذاب کا ٹلنا

 ••• *بچے کی فاتحہ سے عذاب کا ٹلنا*•••

 

یہ بات کافی مشہور ھے : 

کسی قوم پر حتمی عذاب کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے کہ انکے بچوں میں سے ایک بچہ قرآن میں سے پڑھتا ہے الحمد للّه ربّ العالمین پس الله اسکو سنتے ہیں اور ان سے 40 سال تک عذاب ہٹالیتے ہیں  نیز دوسری روایت میں ہے کہ اللّه زمین والوں پر عذاب بھیجنے کا ارادہ کر چکا ہوتا ہے لیکن بچوں کے قرآن پڑھنے کی آواز سنتا ہے تو ان سے عذاب ٹال دیتا ہے ۔



(موسوعة الحافظ ابن حجر ٢۵١، ٢۵٢)


اسکی تحقیق و حوالہ درکار ھے!!!


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


 یہ روایت " تفسیر کشاف" میں زمخشری نے سورہ فاتحہ کی فضیلت میں ذکر کی ھے؛ لیکن یہ مستند نہیں ھے ؛ کیونکہ حافظ ابن حجر نے اسکے غیر مستند ہونے کی جانب اشارہ کیا ھے:


🔰 عن حذيفة بن اليمان أن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن القوم ليبعث الله عليهم العذاب حتما مقضيا فيقرأ صبي من صبيانهم في الكتاب الحمد لله رب العالمين فيسمعه الله تعالى فيرفع عنهم بذلك العذاب أربعين سنة.


قلت: أخرجه الثعلبي  : إلا أن دون أبي معاوية من لا يحتج به.

وله شاهد في مسند الدارمي عن ثابت بن عجلان قال: كان يقال: إن الله ليريد العذاب باهل الارض فاذا سمع تعليم الصبيان بالحكمة صرف ذلك عنهم، يعني بالحكمة: القرآن.وحديث ابي بن كعب في فضائل القرآن سورة سورة، اخرجه الثعلبي من طرق عن ابي بن كعب، كلها ساقطة، واخرجه ابن مردويه من طريقين،واخرجه الواحدي في الوسيط، وله قصة ذكرها الخطيب، ثم ابن الصلاح عمن اعترف بوضعه، ولهذا روي عن ابي عصمة: أنه وضعه.


٭ المصدر: موسوعة الحافظ ابن حجر العسقلاني 

٭ المجلد: 4

٭ الصفحة: 252

٭ الطبع: غير مكتوب


♻️ تفسير شربيني 


تفسیر خطیب شربینی ( السراج المنیر)میں بہی اس روایت کو خطیب شربینی نے موضوع لکھا ھے: 


وما رواہ البیضاوی عن حذيفة بن اليمان ان النبی  قال: «إن القوم ليبعث الله عليهم العذاب حتما مقضيّا فيقرأ صبيّ من صبيانهم في الكتاب: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ فيسمعه الله عزّ وجلّ فيرفع عنهم ذلك العذاب أربعين سنة»  *حدیث موضوع*.


* المصدر: تفسير الخطيب الشربيني المسمي بـ السراج المنير

* المفسر: الامام الخطيب الشربيني المصري

* المجلد: 1

* الصفحة: 22

* الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


🔷 كشف الخفا ميں


امام عجلونی نے کشف الخفا میں بہی اسکو غیر ثابت قرار دیا ھے: 


ومثله ما اخرجه الثعلبي وكثير من المفسرين عن حذيفة رفعه بلفظ "«إن القوم ليبعث الله عليهم العذاب حتما مقضيّا فيقرأ صبيّ من صبيانهم في الكتاب: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ فيسمعه الله عزّ وجلّ فيرفع عنهم ذلك العذاب أربعين سنة»" فإنه موضوع، كما قاله الحافظ العراقي وغيره.وقيل: إنه ضعيف.انتهي.


٭ المصدر: كشف الخفا

٭ المحدث: العجلوني 

٭ المجلد: 1

٭ الصفحة: 254

٭ الرقم: 672

٭ الطبع: مكتبة العلم الحديث.


والله تعالي اعلم

✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*

26 ستمبر: 2020

Wednesday, September 23, 2020

قبر کو بوسہ دینا

 ••• *قبر کو بوسہ دینا* •••


 قبر کو بوسہ دینے کے متعلق ایک روایت گردش میں ھے: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ رسول اللہ علیہ السلام میں نے آستانِ جنت چومنے کی قسم کھائی تھی حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ماں کے پاوں اور باپ کی پیشانی چومے مروی ہے کہ اس نے عرض کیاکہ اگر میرے ماں باپ نہ ہوں تو فرمایا ان دونوں کی قبروں کو بوسہ دے عرض کیا کہ اگر قبریں معلوم نہ وہں تو فرمایا دو خط کھینچ اور نیت کر کہ ایک ان میں سے ماں کی قبر ہے اور دوسری باپ کی ، ان دونوں کو بوسہ دے تیری قسم اتر جائے گی۔۔


اس روایت کا حوالہ اور قبر بوسی کے مسئلہ کی تحقیق مطلوب ھے!!!!



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


 اولا ہم قبر بوسی کے عدم جواز کے متعلق فقہی عبارات پیش کرینگے:


🔷 *فتاوی قاسمیہ جلد :3, صفحہ: 143. طبع: مکتبہ اشرفیہ, دیوبند*🔷



*قبر کو بوسہ دینا*


سوال ]٦٥٤[:کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں :کہ کیا قبر کا بوسہ شرک ہے ؟

المستفتی: محمد رضوان الحق ، عمری کلاں، مرادآباد


*باسمہ سبحانہ تعالیٰ*

*الجواب وباللّٰہ التوفیق:*


اگر عبادت اور تعظیم کے طریقہ سے بوسہ دیتاہے تو موجب کفر اور شرک ہے اور اگر جوش محبت میں بوسہ دیتاہے تو شرک وکفر نہیں ہے؛ بلکہ گناہ کبیرہ ہے اس سے احتراز لازم ہے ۔


وکذا مایفعلونہ من تقبیل الأرض بین یدی العلماء والعظماء فحرام والفاعل والراضی بہ آثمان لانہ یشبہ عبادۃ الوثن وہل یکفر؟ إن علیٰ وجہ العبادۃ والتعظیم کفر وإن علیٰ وجہ التحیۃ لا: وصار آثما مرتکبا لکبیرۃ الخ۔


 (الدر المختار ،کتاب الخطر والإباحۃ ، باب الاستبراء کراچی۶/۳۸۳، زکریا۹/۵۵۰، تبیین الحقائق ،کتاب الکراہیۃ ، فصل فی الإستبراء وغیرہ ،کوئٹہ۶/۲۵، زکریا ۷/۵۶)


وفی الجامع الصغیر تقبیل الأرض بین یدی العظیم حرام الخ۔ 


(الفتاویٰ الہندیہ ، قدیم ۵/۳۶۹، جدید ۵/۴۲۵، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۱۳/۱۳۱)


 فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم 

کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ

۲۵؍ذی الحجہ۱۴۱۱ھ

(الف فتویٰ نمبر۲۷/۲۴۹۶).



🔰 *امداد الفتاوی جدید, جلد:11. صفحہ: 455. طبع: اشرفیہ دیوبند*🔰



( *قبر کو بوسہ دینے سے متعلق شبہ کا جواب* )



سوال (۳۲۵۵) : قدیم ۵/۳۱۳-:


 ایک مسئلہ کے متعلق شبہ ہے اس کی تحقیق سے سرفراز فرماویں ۔ وہ یہ ہے کہ آنحضور نے نشر الطیب میں جواز توسل کے مقام پر روایت نقل فرمائی ہے کہ قبر شریف بھی بوجہ ملابس ہونے کے مورد رحمت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ملا بست بھی سبب ورودِ رحمت ہے جس طرح ملبوسات یعنی کپڑا وغیرہ اولیاء اللہ کا بوجہ ملابستہ قابل تقبیل ہے اور اس کا چومنا اور آنکھ سے لگانا  جائز اسی طرح مزارات اولیا اللہ بھی بوجہ ملابستہ اس کا بھی چومنا آنکھ سے لگانا جائز ہونا چاہئے حالانکہ ہمارے فقہاء علیہم الرحمۃ قبور کے بوسہ وغیرہ کو حرام فرماتے ہیں خواہ قبر کسی بزرگ کی ہو یا والدین کی اور بظاہر بوجہ ملابست بوسہ وغیرہ جائز ہونا چاہئے جیسا کہ کپڑے کا بوسہ، تحقیق اس میں کیا ہے اور ماخذ حرمت حضرات فقہاء علیہم الرحمۃ کی کونسی حدیث ہے۔ مدّلل تحریر فر ما کر عزت بخشیں ۔


*الجواب:*


 یہ ضرور نہیں کہ تمام ملابسات سب احکام میں متساوی ہوں ۔ تقبیل ثوب میں کوئی دلیل نہی کی نہیں ۔ اس لئے اباحت اصلیہ پر ہے بخلاف قبور کے کہ اس کی تقبیل پر دلیل نہی موجود ہے فافترقا۔ اور وہ دلیل نہی ہم مقلدوں کے لئے تو فقہاء کا فتویٰ ہے اور فقہاء کی دلیل تفتیش کرنے کا ہم کو حق حاصل نہیں مگر تبرّعاًکہا جاتا ہے کہ وہ دلیل مشابہت ہے نصاریٰ کی۔ کما قالہ الغزالی (۱) اور احتمال ہے افضاء الی العبادۃ کا چنانچہ قبور کو سجدہ وغیرہ کیا جاتا ہے حتیٰ کہ اگر ثوب میں کہیں ایسا احتمال ہو تو وہاں بھی یہی حکم ہوگا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کا شجرۂ حدیبیہ کو قطع کرادینا اس کی دلیل ہے(٢)۔ 

۱۹ ربیع الاول ۱۳۳۱؁ ھ (تتمہ ثانیہ ص ۲۰)


_______________

(١) والمستحب في زیارۃ القبور أن یقف مستدبر القبلۃ مستقبلا بوجہہ المیت و أن یسلم ولایمسح القبر ولایمسہ ولایقبلہ فإن ذٰلک من عادۃ النصاریٰ۔


 (إحیاء علوم الدین للعلامۃ غزالي، ربح المنجیات، کتاب المراقبۃ والمحاسبۃ، المقام الأول من المربطۃ: المشارطۃ، دار المعرفۃ بیروت ۴/۴۹۱)


قال أبو موسیٰ الحافظ الأصبہاني: قال الفقہاء الخراسانیون: لایمسح القبر ولایقبلہ ولایمسہ فإن کل ذٰلک من عادۃ النصاریٰ، قال: وما ذکروہ صحیح، وقال الزعفراني: لایستلم القبر بیدہ ولایقبلہ، قال: وعلی ہذا مضت السنۃ ومایفعلہ العوام الآن من البدع المنکرۃ شرعا۔ 


(البنایۃ، کتاب الصلاۃ، قبیل باب التشہد، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ۳/۲۶۱- ۲۶۲)


قال الحافظ أبو موسیٰ الأصفہاني: قال الفقہاء المتبحرون الخراسانیون: ولایمسح القبر بیدہ ولایقبلہ ولایمسہ فإن ذٰلک عادۃ النصاریٰقال: وما ذکروہ صحیح … وقال الشیخ ابن تیمیہ: اتفق السلف والأئمۃ علی أن من سلم علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم أو غیرہ من الأنبیاء والصالحین فإنہ لایتمسح بالقبر ولایقبلہ بل اتفقوا أنہ لایستلم ولایقبل إلا الحجر الأسود والرکن الیماني، یستلم ولایقبل علی الصحیح۔


 (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۴۳/۳۱۲، ہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب السادس عشر في زیارۃ القبور وقرأۃ القرآن في المقابر قدیم زکریا ۵/۳۵۱، جدید زکریا ۵/۴۰۵)


(٢) أخبرنا عبد الوہاب بن عطاء أخبرنا عبد اللہ بن عون عن نافع قال: کان الناس یأتون الشجرۃ التي یقال لہا شجرۃ الرضوان فیصلون عندہا، قال: فبلغ ذٰلک عمر بن الخطاب فأوعدہم فیہا و أمر بہا فقطعت۔ 


(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، غزوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الحدیبیۃ، دار الکتاب العلمیۃ بیروت ۲/۷۶، دار الفکر بیروت ۱/۴۱۶)


عن نافع قال: بلغ عمر بن الخطاب أن ناسا یأتون الشجرۃ التي بویع تحتہا، قال: فأمر بہا فقطعت۔


 (المصنف لابن أبي شیبۃ، الصلاۃ، في الصلاۃ عند قبر النبي صلی اللہ علیہ وسلم وإتیانہ، مؤسسۃ علوم القرآن ۵/۱۷۹، رقم: ۷۶۲۷)


ثم وجدت عند ابن سعد بإسناد صحیح عن نافع أن عمر بلغہ أن قوما یأتون الشجرۃ فیصلون عندہا فتوعدہم ثم أمر بقطعہا فقطعت۔ 


(فتح الباري، کتاب المغازي، باب غزوۃ الحدیبۃ، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ۷/۵۶۹، تحت رقم الحدیث: ۴۱۶۵)



✳️  *فتاوی عالمگیری میں*✳️


فتاوی عالمگیری ( ہندیہ) میں ھے: کہ قبر کو بوسہ نہ دے؛ 



ولا یمسح القبر ولا یقبلہ فإن ذلک من عادة النصاری ولا بأس بتقبیل قبر والدیہ کذا في الغرائب۔


* المصدر : فتاوی عالمگیری

* المجلد: 5

* الصفحہ: 405

* الطبع: دار الفکر, بیروت, لبنان.


⚠️ *فتاوی ہندیہ کی عبارت پر اعتراض*


فتاوی ہندیہ کی عبارت جو اوپر گزری اس میں لکہا ھے: کہ "ولا باس بتقبیل قبر والدیہ". کہ والدین کی قبر کو چوما جاسکتا ھے ؟


اسکا جواب " فتاوی رشیدیہ " میں موجود ھے: 


*قبر کو بوسہ دینا*


سوال: بوسہ لینا قبر کا جائز ہے یا حرام؟


(جواب:)


بوسہ لینا قبر کا حرام ہے؛ فی المدارج و بوسہ دادن قبر راوسجدہ کردن آنر اور سر نہادن حرام و ممنوع ست و دربوسیدن قبر والدین روایت فقہی نقل میکنذ و صحیح آنست کہ لایجوز انتہی و ادنی لا یجوز گناہ صغیرہ است و اصرار برآن کبیرہ است ہکذافی شرح عین العلم۔


( ترجمہ) 


بوسہ لینا قبر کا حرام ہے، مدارج میں ہے: اور بوسہ دینا قبر کا اور اس کو سجدہ کرنا اور سر رکھنا حرام اور ممنوع ہے اور والدین کی قبروں کو بوسہ دینے میں ایک فقہی روایت نقل کرتے ہیں، اور صحیح یہ ہے کہ لا یجوز (جائز نہیں) اور لا یجوز کا ادنی گناہ، گناہ صغیرہ ہے اور اس پر ا صرار کرنا گناہ کبیرہ ہے۔


• نام کتاب: فتاوی رشیدیہ

• نام مؤلف: حضرت مفتی رشید احمد گنگوہی 

• صفحہ:154

• طبع : دار الاشاعت, اردو بازار, کراچی,پاکستان.


💠 *اعتراض کا دوسرا جواب فتاوی رحیمیہ میں*💠


*قبر کو بوسہ دینے کا کیا حکم ہے؟:*

(سوال٣٦ ) جو مضمون پہلے سوال میں نقل کیا گیا ہے ، اس کے بعد ایک عنوان ہے ۔ قبر کو بوسہ دینا اس عنوان کے تحت تحریر ہے :۔

’’کنز العباد‘‘ میں بحوالہ ’’ شعبی کرت تحریر ہے ، اپنے والدین کی قبروں کو بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ *نیز شعبی سے ایک روایت یہ بھی ہے ۔ ایک صحابی نے دربار رسالت میں آکر یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے قسم کھائی ہے کہ میں ’’باب الجنہ‘‘ اور ’’حور جنت‘‘ کو بوسہ دوں گا اب مجھے یہ قسم کیسے ادا کرنی چاہئے* ۔ *حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر تو اپنے والدہ کے قدم اور والد کی جبین چوم لے تو تیری قسم ادا ہوجائے گی ۔ اس شخص نے کہا ۔ میرے والدین نہ ہوں تو کیا کروں ؟ حضورﷺ نے فرمایاان کی قبروں کو چوم لے ۔ اس نے کہا کہ ان کی قبروں کو بھی نہ جانتا ہوں تو ؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ زمین پر دوخط کھینچ کر ایک کو والدہ کی اور دوسری کو والد کی قبر سمجھ کر دونوں خط چو م لو ۔ تیری قسم ادا ہوجائے گی۔* اس روایت کو دلیل بنا کر امام طحطاوی نے لکھا ہے کہ اس طریقہ سے استاد و مرشد کی قبر چومنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس لئے کہ ان کا درجہ والدین سے بڑھ کرہے ۔ ’’ طوالع الا نوار‘‘شرح درمختار میں لکھا

ہے کہ قرآن مجید کے علاوہ اور اشیاء انبیاء ، شہداء اور صالحین کی قبروں کو برکت حاصل کرنے کی خاطر بوسہ دینے کے بارے میں علماء امت میں سخت اختلاف ہے


(الجواب)


صحیح یہ ہے کہ والدین کی قبر کو بوسہ دینا بھی منع ہے اور قول صحیح کو ترک کر کے قول ضعیف پر عمل کرنا مذموم ہے ۔ حضرت شاہ اسحاق محدث دہلوی کی فارسی کتاب ’’ مأۃ مسائل ‘‘ میں فتویٰ ہے کہ :۔


(سوال ۳۷) *بوسہ گرفتن قبر والدین چہ حکم دارد؟ جائز یا گناہ ؟ کدام گناہ* !


ترجمہ:۔ والدین کی قبر کو بوسہ دینا کیساہے ؟ جائز ہے یا گناہ؟ اور گناہ ہے تو کون سا ؟ 


(الجواب)


بوسہ دادن قبر والدین غیر جائز ست علے الصحیح وفی مدارج النبوہ وبوسہ دادن قبر را وسجدہ کردن آں راورخسار نہادن حرام و ممنوع است ۔ ودر بوسہ دادن قبر والدین روایت فقہی نقل می کنند وصحیح آنست کہ لایجوز ! انتہیٰ و ادنی ٰ لا یجوز گناہ صغیرہ است و اصرار برآن گناہ کبیرہ است کما تقدم !

ترجمہ:۔ صحیح یہ ہے کہ والدین کی قبر کو بھی بوسہ دینا جائز نہیں ۔’’ مدارج النبوۃ‘‘ میں ہے قبر کو چومنا سجدہ کرنا ،رخسار لگانا حرام اور ممنوع ہے اور والدین کی قبر کو بوسہ دینے میں روایت فقہی نقل کرتے ہیں ۔ حالانکہ صحیح یہ ہے کہ ناجائز ہے اور ناجائز کا ادنیٰ مرتبہ گناہ صغیرہ ہے اور اس پر اصرار گناہ کبیرہ ہے ۔


(مأۃ مسائل ص ۷۱)


رضاخانی کتاب ’’ بہارِشریعت‘‘میں ہے ۔مسئلہ ، قبر کو بوسہ دینا بعض علماء نے جائز کہا ہے۔مگر صحیح یہ ہے کہ منع ہے(مشکوٰۃ) بہار شریعت ج ۵ ص ۱۵۷۔

مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کا فتویٰ یہ ہے کہ احادیث صحاح مرفوعہ محکمہ کے مقابل بعض ضعیف قصے یا محتمل واقعے یا متشابہہ پیش کرتے ہیں ۔ انہیں اتنی عقل نہیں یا قصداً بے عقل بنتے ہیں کہ صحیح کے سامنے ضعیف، متعین کے آگے محتمل ، محکم کے حضور متشابہ واجب الترک ہے ۔(احکام شریعت ۱ ص ۳۴) اس بارے میں جو حدیث بیان کی گئی ہے ، حدیث کی کتابوں میں اس کا نام و نشان نہیں ہے ۔ ایسی روایت بے اصل پر بھروسہ کرنا غلط ہے اور حدیث رسول مان لینا آنحضرت ﷺ پر بہتان دھرنے کے برابر ہے ۔ آپ کا فرمان ہے کہ جو آدمی جان بوجھ کر غلط باتوں کو میری طرف منسوب کرے اس کو چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کرے ۔ (معاذﷲ ) فقط ۔ وﷲ اعلم بالصواب۔


÷ نام کتاب : فتاوی رحیمیہ

÷ جلد :2

÷ صفحہ : 104

÷ طبع : دار الاشاعت, اردو بازار, کراچی, پاکستان.


♻️*سوال میں معلوم کردہ روایت کا ماخذ*


فتاوی رحیمیہ کے حوالے سے معلوم ہوگیا ھے کہ سوال میں معلوم کی گئ روایت کا حدیث کی کتابوں میں نام و نشان تک نہیں ھے اور واقعتا ایسا ہی ھے؛ ہم نے معمولی سی تلاش کے بعد یہ روایت شیعی کتاب میں پائی ھے: 


وعن كفاية الشعبي، وفتاوي الغرائب، ومطالب المومنين وخزانة الرواية ما هذا لفظه: لا باس بتقبيل قبر الوالدين؛ لان رجلا جاء الي النبي، فقال یارسول الله! انی حلفت ان اقبل عتبۃ باب الجنۃ وجبهة حور العين،  فامره النبی ان یقبل رجل الام  ووجبهة الاب،  قال یارسول الله ان لم یکن ابواي حيين؟ فقال:  قبل قبرھما، قال: فان لم اعرف قبرھما؟ قال: خط خطین وانو بان احدھما قبرالام والآخر قبرالاب فقبلهما! فلا تحنث فی یمینک.


٭ المصدر: كشف الارتياب في أتباع محمد بن عبد الوهاب

٭ المؤلف: محسن امين العاملي

٭ الصفحة: 440

٭ الطبع: قُم،  إيران.



وﷲ تعالی اعلم

✍🏻...کتبہ : *محمد عدنان وقار صدیقی*

23 ستمبر:2020

Monday, September 21, 2020

کیا یہ فرضی مسئلہ ہے؟

 *کیا یہ فرضی مسئلہ ہے؟؟*


حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ (806ھ) اپنے ساتھی ابو الطیب المغربی سے بیان کرتے ہیں کہ ایک مغربی عالم دین، نہایت سادہ تھے اور لوگوں سے ملنا جلنا کم تھا، بس اپنے والد کے پاس علم حاصل کیا، اور پھر تدریس کرنے لگے اور اپنے درس میں نماز چھوڑنے کے مسئلے پر بات کر رہے تھے تو فرمانے لگے یہ فرضی مسئلہ ہے، جسے علماء نے گھڑ لیا ہے وگرنہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ مسلمان ہو اور جان بوجھ کر نماز چھوڑتا ہو.( یعنی ان کو مسلمان کے متعلق یہ وہم بہی نہ تہا کہ کوئی بندہ مسلمان ہو اور جان بوجھ کر نماز چھوڑدے)


اگر آج یہ عالم دین زندہ ہوتے اور مسلمانان عالم کے حالات دیکہتے تو شاید وہ صدمہ سے دوچار ہوتے۔کہ آج دنیا کے دو تہائی مسلمان اس معصیت میں مبتلا ہیں کہ اذانوں کی آوازوں سے بہی ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ھے۔



💠 حتى لقد بلغني عن بعض علماء المغرب فيما حكاه لي صاحبنا الشيخ الإمام أبو الطيب المغربي أنه تكلم يوما في ترك الصلاة عمدا، ثم قال: وهذه المسألة مما فرضها العلماء ولم تقع لان احدا من المسلمين لا يتعمد ترك الصلاة، وكان ذلك العالم غير مخالط للناس، ونشا عند ابيه مشتغلا بالعلم من صغره حتي كبر، درَّس فقال ذلك في درسه.


٭ المصدر:  طرح التثريب 

٭ المؤلف: الحافظ زين العراقي

٭ المجلد: 2

٭ الصفحة: 150

٭ الطبع: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان.


والله اعلم 

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*

Thursday, September 17, 2020

حیض میں استغفار کی فضیلت

 ••• *حیض کی حالت میں استغفار کی فضیلت* •••


 «فتاوی رحیمیہ» میں "مجالس الابرار" کے حوالے سے لکہا ھے: کہ حالت حیض میں اگر حائضہ نماز کے وقت وضو کرکے مصلے پر بیٹھ جائے اور جتنی دیر میں نماز پڑھی جاتی ھے اتنی دیر تک " سبحانک استغفرﷲ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم " پڑھے تو اسکے نامۂ اعمال میں ہزار رکعات لکھی جاتی ہیں اور ستر ہزار گناہ معاف ہوتے ہیں اور درجات بڑھ جاتے ہیں اور استغفار کے ہر لفظ پر ایک نور ملتا ھے اور جسم کے ہر رگ کے عوض حج و عمرہ لکھے جاتے ہیں۔( مجالس الابرار عربی ص:567) نیز فتاوی رحیمیہ کے محشی نے لکہا ھے: یہ استغفار کی فضیلت مجھے مجالس الابرار میں مل نہیں رہی ھے, 


سوال یہ ھے : کیا اس حدیث کا ثبوت و حوالہ مل سکتا ھے؟ نیز کیا واقعتا یہ بات مجالس الابرار میں مذکور نہیں ھے؟


از راہ کرم روشنی ڈالیں!!!


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


 1) یہ بات فتاوی رحیمیہ میں بحوالہ مجالس ابرار مذکور ھے:


÷  نام کتاب : فتاوی رحیمیہ

÷ مؤلف : مفتی عبد الرحیم لاجپوریؒ

÷ محشی : مفتی صالح صاحب

÷ جلد : 4

÷ صفحہ: 49

÷ طبع: دار الاشاعت, اردو بازار, کراچی, پاکستان۔



✳️ مجالس الابرار کی عبارت


فتاوی رحیمیہ کے محشی صاحب نے اس روایت کے متعلق لکہا : مجھے یہ مجالس الابرار میں مل نہیں رہی ھے ؛( ہوسکتا ھے حضرت کی نظر میں وہ عبارت نہ آئی ہو) البتہ یہ روایت مجالس الابرار میں ہی مجلس 98 پر موجود ھے:


🔰 ويستحب لها اذا دخل وقت الصلاة ان تتوضأ وتجلس في مسجد بيتها وتسبح وتهلل قدر أداء الصلاة كيلا يزول عنها عادة العبادة، وقد روي انه عليه الصلاة السلام قال: اذا استغفرت الحائض في وقت كل صلاة سبعين مرة كتب له الف ركعة، وغفر لها سبعون ذنبا، ورفع لها درجة، واعطي لها لكل حرف من استغفارها نور، وكتب بكل عرق في جسدها حج وعمرة.



💠 روایت کا درجہ 💠


 یہ روایت "شؔیخ احمد رومیؒ" نے بصیغہ تمریض "روی" سے ذکر کی ھے اور کتاب کے مؔحقق "شیخ ارشاد اثری" نے حاشیہ میں لکہا ھے: مجھے یہ روایت نہیں مل سکی.


٭ المصدر: مجالس الابرار

٭ المؤلف: الشيخ احمد الروميؒ

٭ المحقق: إرشاد الحق الاثري

٭ الصفحة: 777

٭ الطبع: سهيل اكيڈمی،لاهور، پاكستان.



🔷 حائضہ کا مصلے پر بیٹھنا


 فقہی کتب میں لکہا ھے : کہ حیض کے دوران خاتون باوضو ہوکر جانماز پر بیٹھ جائے اور جتنی دیر میں وہ عموما نماز پڑھتی ھے اتنی دیر ذکر و اذکار کرلیا کرے ایسا کرنا مستحب ھے ؛ تاکہ عبادت کی عادت برقرار رھے۔


♻️ وأما أئمتنا، فقالوا: إنه يستحب لها ان تتوضأ لوقت كل صلاة وتقعد علي مصلاها،تسبح وتهلل وتكبر، وفي رواية: يكتب لها ثواب احسن صلاة كانت تصلي، وصحح في الظهيرية: أنها تجلس مقدار اداء فرض الصلاة كيلا تنسي العادة.


• المصدر: البحر الرائق

• المصنف: ابن نجيم المصريؒ

• المجلد: 1

• الصفحة: 336

• الطبع : دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


__*خلاصۂ کلام*__


 فقہی رو سے حائضہ خاتون مصلے پر بیٹھ کر ذکر و اذکار اور اوراد پڑھ سکتی ھے تاکہ اسکی عبادت کی عادت برقرار رھے؛لیکن یہ بہی ضروری نہیں ھے  ؛ البتہ استغفار کی جو فضیلت مؔجالس الابرار کے حوالے سے منقول ھے اسکو تسلیم کرنے میں تامل ھے؛ کیونکہ اسکی سند و حوالہ سے "شیخ احمد رومیؒ" نے سکوت کیا ھے ؛ لہذا اس فضیلت کی نسبت نبی کریم کی جانب نہ کیجائے۔


وﷲ تعالی اعلم

✍🏻...کتبہ : *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

17 ستمبر :2020؁ء

Sunday, September 13, 2020

مساجد کو آباد کرنے والے آفات سے محفوظ

 ••• *مساجد کو آباد کرنے والے آفات (کورونا) سے محفوظ* •••


 حضرت مفتی صاحب! سال رواں ساری دنیا میں کورونا ( وباء) کی ہلچل رہی؛ اس تناظر میں عالمی پیمانے پر لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا, جو کہ تمام تر اداروں و تعلیم گاہوں ومساجد وغیرہ کو محیط تہا؛ اس تناظر میں یہ بات سننے میں آئی کہ اگر ایسی آفات و مصائب سے محفوظ رہنا ھے تو خانۂ خدا( مساجد) کو آباد رکہیں ؛ کیونکہ فرمان رسولﷲؐ ھے: مساجد کو آباد رکہنے والے لوگ مصیبتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔


اس روایت کی تحقیق و حوالہ مطلوب ھے!!!


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


  جی یہ روایت کتب حدیث میں ھے:


امام بیہقیؒ نے "۔شعب الایمان" میں اس کو ذکر فرمایا ھے: 


💠عن أنس بن مالكؓ قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إذا عاهةٌ من السَّماءِ أُنزِلتْ صُرِفتْ عن عُمَّارِ المساجدِ.

 

قال البيهقي: هذه الاسانيد عن أنس بن مالك في هذا المعني، اذا ضممتهن إلي ما روي في هذا الباب عن غيره أحدث قوة. والله أعلم. 


٭ المصدر: شعب الإيمان 

٭ المحدث: البيهقيؒ 

٭ المجلد: 3

٭ الصفحة: 82

٭ الرقم: 2947

٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


★ *ضعيف الجامع ميں* ★


عن انسؓ: إذا عاهة من السماء أنزلت، صُرفت عن عُمَّار المساجد.


① المصدر: ضعيف الجامع

② المحدث: الالبانيؒ 

③ الصفحة: 85

④ الرقم: 593

⑤ الدرجة: ضعيف

⑥ الطبع: المكتب الاسلامي، بيروت، لبنان.



⚠️ *_خلاصۂ کلام_* ⚠️


مذکورہ روایت ضعیف ھے؛ لہذا اسکو بیان و نشر کیا جاسکتا ھے, اور مصیبتوں کے وقت مساجد کی جانب رخ کرنیوالے حضرات کیلیے یہ خوشخبری معتبر ھے.


وﷲ تعالی اعلم

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

13 ستمبر: 2020؁ء

نیک بیوی کا مقام

 ••• *نیک بیوی کا مقام* •••


ایک حدیث میں آپ کا ارشاد ھے: کہ جو عورت اپنے شوہر کی تابعدار ہو اس کے لیے پرندے ہوا میں استغفار کرتے ہیں اور مچھلیاں دریا میں استغفار کرتی ہیں اور فرشتے آسمانوں میں استغفار کرتے ہیں اور درندے جنگلوں میں استغفار کرتے ہیں۔


( بکھرے موتی بحوالہ معارف القرآن, جلد:2. ص: 399)


 اسکی تحقیق مطلوب ھے!!!



••• *باسمہ تعالی*•••

*الجواب وبہ التوفیق:*


  یہ روایت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ نے معارف القرآن میں مذکورہ صفحے و جلد میں تفسیر " بحر محیط" کے حوالے سے نقل کی ھے: 


* نام کتاب : مؔعارف القرآن

* نام مفسر: مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ 

* جلد: 2

* صفحہ: 399

* طبع : مکتبہ معارف القرآن, کراچی پاکستان.


🔷 تفسیر بحر محیط 🔷


تفسیر بحر محیط میں ابو حیان اندلسی نے اس روایت کو بلا کسی سند و حوالہ ذکر کیا ھے: 


رُوِيَ في الحَدِيثِ: (يَسْتَغْفِرُ لِلْمَرْأةِ المُطِيعَةِ لِزَوْجِها الطَّيْرُ في الهَواءِ، والحِيتانُ في البَحْرِ، والمَلائِكَةُ في السَّماءِ، والسِّباعُ في البَرارِيِّ) .


• المصدر: البحر المحیط 

•  المفسر : ابو حیان الاندلسیؒ

• المجلد : 3

• الصفحة: 250

• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


🔰 *خلاصۂ کلام*🔰


یہ روایت کتب تفسیر میں بلا سند و حوالہ منقول ھے نیز دیگر دواوین حدیث میں بہی یہ روایت تلاش بسیار کے باوجود نہیں مل سکی؛ لہذا اس کو بیان نہ کیا جائے۔


وﷲ تعالی اعلم

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

13 ستمبر: ؁ء2019

Thursday, September 10, 2020

ایک جوان کی شرمندگی

 ••• *ایک جوان کی شرمندگی* •••

 

مکاشفۃ القلوب کے حوالے سے ایک حکایت بیان کی جاتی ھے: حضرت عمرؓ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کی ایک گلی سے گزر رھے تھے آپؓ نے ایک جوان کو دیکہا جو کپڑوں کے نیچے شراب کی بوتل چھپائے چلا جارہا تہا آپؓ نے پوچھا: اے جوان! اس بوتل میں کیا لیے جارھے ہو؟ جوان بہت شرمندہ ہوا کہ میں کیسے کہوں اس بوتل میں شراب ھے,  اس وقت اس نوجوان نے دل ہی دل میں دعا مانگی اےﷲ! مجھے حضرت عمرؓ کے رو برو شرمندگی اور رسوائی سے بچا! میرے عیب کو ڈھانپ لے میں پھر کبہی شراب نہیں پیوں گا جوان نے حضرت عمرؓ کو جواب دیا: امیر المومنین! یہ سرکہ ہے آپؓ نے فرمایا مجھے دکھاؤ! چنانچہ آپؓ نے دیکہا تو وہ سرکہ تہا, اے انسان! ذرا غور کر! ایک بندہ بندے کے ڈر سے خلوصِ دل سے تائب ہوا تو ﷲ نے اسکی شراب کو سرکہ میں تبدیل کردیا اسی طرح اگر کوئی گنہگار اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوکر توبہ کرلیتا ھے تو ﷲ تعالی اس کی نافرمانیوں کی شراب کو فرمانبرداری کے سرکے میں تبدیل کردیتا ھے ۔


اس کی سند و حقیقت مطلوب ھے!!!


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


 یہ حکایت و واقعہ امام غزالیؒ نے اپنی کتاب " مکاشفۃ القلوب " میں ذکر فرمایا ھے : 


🔷 حكي عن عمر بن الخطابؓ أنه مر وقتا من الأوقات في سكك المدينة,فاستقبله شاب وهو حامل قارورة تحت ثيابه،فقال عمرؓ: ايها الشاب 

ماالذى تحمل تحت ثيابك ؟ وكان خمرا فخجل الشاب أن يقول خمرا،وقال في سره، إلهى لا

تخجلني عند عمر ولا تفضحني واسترني عنده، فلا أشرب الخمر أبدا،ثم قال ياأمير المؤمنين الذى

أحمل خلي ، فقال: أرني حتى أراه ، فكشفهابين يديه فرآها عمر،  صارت خلا،فانظر الي مخلوق تاب من خوف مخلوق 

 فبدل الله تعالى خمره بالخل، لما علم منه اخلاص التوبة، فلو تاب العاصي المفلس عن الاعمال الفاسدة توبة نصوحا، وندم علي ذنبه، بدل الله سبحانه تعالي خمر سياته بخل الطاعة.


٭ المصدر: مكاشفة القلوب

٭ المؤلف: الامام الغزاليؒ 

٭ الصفحة: 22

٭ الطبع: غير مكتوب.


 💠 *حکایات کا حکم* 💠


حکایات جنکا تعلق احکام سے نہ ہو بلکہ وہ نیک لوگوں کے واقعات ہوں تو ان کے لیے سند کی ضرورت نہیں ھے؛ سند مل جائے تو بہت عمدہ ؛ ورنہ چشم پوشی کی جایئگی۔ جیساکہ نوادر الحدیث میں حضرت شیخ یونس جونپوریؒ نے لکہا ھے: 


🔰 وأما اخبار الصالحين وحكايات الزهاد والمتعبدين ومواعظ البلغاء وحكم الادباء، فالأسانيد زينة لها، وليست شرطا في تاديتها.


٭ المصدر: نوادر الحديث

٭ المحدث: الشيخ يونس الجونفوريؒ

٭ الصفحة: 41 

٭ الطبع: إدارة إفادات أشرفية، دوبگه، هردوئي روڈ، لکہنؤ، الهند.



••• *خلاصۂ تحریر* •••


مذکورہ حکایت کا تعلق کسی امر و نہی یعنی احکام شرعیہ سے نہیں ھے ؛ لہذا اسکو وعظ و نصیحت میں حکایت کے عنوان سے بیان کیا جاسکتا ھے۔


وﷲ تعالی اعلم

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

10 ستمبر:؁ء 2020

Friday, September 4, 2020

کیا حضرت عمر نے امام کو قتل کروایا

 ••• *کیا حضرت عمر نے کسی امام کو قتل کروایا؟*•••


 فیس بک پر ایک رؔضاخانی عالم کے پیج پر ایک ویڈیو کلپ سنی جس میں ایک صاحب حضرت عمرؓ کا ایک واقعہ بیان کر رھے تھے کہ حضرت عمرؓ کو کسی نے خبردی کہ فلاں امام جب نماز پڑھاتا ھے تو ہر نماز میں سورہ عبس کی تلاوت کرتا ھے حضرت عمرؓ نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ایسا ہی ھے ؛ حضرت عمرؓ نے اسکے قتل کا حکم صادر فرمایا ؛کیونکہ وہ شخص یہ باور کرانا چاہتا تہا کہ خدا نے اپنے نبیؑ کو عتاب کیا ھے ۔


کیا یہ واقعہ ثابت ھے ؟


••• *باسمہ تعالی* •••

 *الجواب وبہ التوفیق*


یہ واقعہ تفسیر " روح البیان" اور تفسیر " حدائق الروح والریحان" میں مذکور ھے: 


💠  *روح البیان*💠


 روى ان عمر ابن الخطاب رضى الله عنه بلغه ان بعض المنافقين يؤم قومه فلا يقرأ فيهم الا سورة عبس فارسل اليه فضرب عنقه لما استدل بذلك على كفره ووضع مرتبته عنده وعند قومه.


• نام كتاب: رؔوح البيان

• مفسر: اسماعيل حقيؒ

• جلد: 10

• صفحة: 331

• طبع: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان.



🔷 حدائق الروح والريحان 🔷


ولذلك روى ان عمر ابن الخطاب رضى الله عنه بلغه ان بعض المنافقين يؤم قومه فلا يقرأ فيهم الا سورة عبس فارسل اليه فضرب عنقه لما استدل بذلك على كفره ووضع مرتبته عنده وعند قومه.


٭ المصدر: حؔدائق الروح والريحان

٭ المفسر: محمد امين الشافعيؒ

٭ المجلد: 31

٭ الصفحة: 119

٭ الطبع: دار طوق النجاة،بيروت، لبنان.


••• خلاصہ کلام •••


 یہ واقعہ ایک منافق امام کے متعلق ھے ؛ تاہم دونوں کتابوں میں بلا کسی سند و حوالہ مذکور ھے؛ لہذا اس کو بیان و نشر نہ کیا جائے۔


وﷲ تعالی اعلم 

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

4 ستمبر: 2020؁ء

Thursday, September 3, 2020

تہمت کی سزا

 *‏تہمت کی سزا:*


غسل کے دوران مدینہ کی ایک عورت نے مردہ عورت کی ران پر ہاتھ رکھتے ہوئے یہ الفاظ کہے  کہ اس عورت کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے.

بس یہ بات کہنا تھا کہ اللہ تعالی نے اپنی ڈھیل دی ہوئی رسی کھینچ دی اس عورت کا انتقال مدینہ کی ایک بستی میں ہوا تھا اور غسل کے دوران جوں ہی غسل دینے والی عورت نے‏ مندرجہ بالا الفاظ کہے تو اس کا ہاتھ میت کی ران کے ساتھ چپک گیا۔ چپکنے کی قوت اس قدر تھی کہ وہ عورت اپنا ہاتھ کھینچتی تو میت گھسیٹتی تھی مگر ہاتھ نہ چھوٹتا تھا۔

جنازے کا وقت قریب آ رہا تھا اس کا ہاتھ میت کے ساتھ چپک چکا تھا اور بے حد کوشش کے باوجود جدا نہیں ہو رہا تھا، تمام عورتوں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر کھینچا، مروڑا، غرض جو ممکن تھا کیا مگر سب بے سود رہا!‏دن گزرا ، رات ہوئی، دوسرا دن گزرا، پھر رات ہوئی سب ویسا ہی تھا، میت سے بدبو آنے لگی اور اس کے پاس ٹھہرنا ،بیٹھنا مشکل ہو گیا!

مولوی صاحبان، قاری صاحبان اور تمام اسلامی طبقے سے مشاورت کے بعد طے ہوا کہ غسال عورت کا ہاتھ کاٹ کر جدا کیا جائے‏اور میت کو اس کے ہاتھ سمیت دفنا دیا جائے۔ مگر اس فیصلے کو غسال عورت اور اس کے خاندان نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہم اپنے خاندان کی عورت کو معذور نہیں کر سکتے لہذا ہمیں یہ فیصلہ قبول نہیں!

دوسری صورت یہ بتائی گئی کہ میت کے جسم کا وہ حصہ کاٹ دیا جائے اور ہاتھ کو آزاد کر کے میت‏ دفنا دی جائے، مگر بے سود. اس بار میت کے خاندان نے اعتراض اٹھایا کہ ہم اپنی میت کی یہ توہین کرنے سے بہر حال قاصر ہیں.اس دور میں امام مالک قاضی تھے. بات امام مالک تک پہنچائی گئی کہ اس کیس کا فیصلہ کیا جائے! امام مالک اس گھر پہنچے اور صورت حال بھانپ کر غسال عورت سے سوال کیا‏ "اے عورت! کیا تم نے غسل کے دوران اس میت کے بارے میں کوئی بات کہی؟"

غسال عورت نے سارا قصہ امام مالک کو سنایا اور بتایا کہ اس نے غسل کے دوران باقی عورتوں کو کہا کہ اس عورت کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے.

امام مالک نے سوال کیا "کیا تمھارے پاس اس الزام کو ثابت کرنے کے‏لیے گواہ موجود ہیں" عورت نے جواب دیا کہ اس کے پاس گواہ موجود نہیں. امام مالک نے پھر پوچھا "کیا اس عورت نے اپنی زندگی میں تم سے اس بات کا تذکرہ کیا؟" جواب آیا "نہیں"

امام مالک نے فوری حکم صادر کیا کہ اس غسال عورت نے چونکہ میت پر تہمت لگائی ہے لہذا ‏اس کو حد مقررہ کے مطابق 80 کوڑے لگائے جائیں!

حکم کی تعمیل کی گئی اور 70 بھی نہیں 75 بھی نہیں 79 بھی نہیں پورے 80 کوڑے مارنے کے بعد اس عورت کا ہاتھ میت سے الگ ہوا.

آج ہم تہمت لگاتے وقت ذرا بھی نہیں سوچتے. 


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


  یہ واقعہ متعدد کتب میں ھے؛ لیکن یہ قابل بیان نہیں ھے؛ کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی " یعقوب بن اسحاق عسقلانی" ہیں جن کو کذاب لکہا گیا ھے: 


💠 *یعقوب بن اسحاق*💠


يعقوب بن اسحاق العسقلاني، كذاب...


 وقد وجدت له حكاية تشبه ان تكون من وضعه، قرأت بخط الحافظ قطب الدين الحلبي ما نصه : وسيدي أبي عبد الرحمن بن عمر بن محمد بن سعيد وجدت بخط عمي بكر بن محمد بن سعيد بن يعقوب بن إسحاق بن حجر العسقلاني إملاء قال : ثنا إبراهيم بن عقبة ، حدثني المسيب بن عبد الكريم الخثعمي ، حدثتني أمة العزيز امرأة أيوب بن صالح صاحب مالك قالت : غسلنا امرأة بالمدينة فضربت امرأة يدها على عجيزتها فقالت : " ما علمتك إلا زانية أو مأبونة " . فالتزقت يدها بعجيزتها ، فأخبروا مالكا ، فقال : " هذه المرأة تطلب حدّها ، فاجتمع الناس ، فأمر مالك أن تُضرب الحدّ فضربت تسعة وسبعين سوطا ، ولم تنتزع اليد ، فلما ضربت تمام الثمانين انتزعت اليد ، وصلي على المرأة ودفنت.


٭ المصدر: لسان الميزان

٭ المحدث: ابن حجر العسقلاني

٭ المجلد: 8

٭ الصفحة: 525

٭ الرقم: 8631

٭ الطبع: دار البشائر الإسلامية، بيروت، لبنان.


••• *خلاصه كلام* •••


یہ واقعہ بیان نہ کیا جائے, اسکی سند اس قابل نہیں ھے۔


وﷲ تعالی اعلم 

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

۳ ستمبر: ۲۰۲۰؁ء