بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بندے نے اپنی والدہ کو کاندھوں پر بیٹھا کر حج کروایا تھا.... جب اس بات کا ذکر اللہ کے نبی کے سامنے کیا تو اللہ کے نبی نے فرمایا آپ نے ماں کی تکالیف والی ایک رات کا بھی حق ادا نہیں کیا......
اس روایت کی کیا حقیقت ہے؟
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
اس طرح کی روایت اور واقعہ کتبِ حدیث میں موجود ھے اور والدین کی فضیلت میں بیان کے قابل ہے :
💟 *المعجم الصغیر* 💟
حدثنا إبراهيم بن محمد الدستوائي التستري ، حدثنا يعقوب بن إسحاق القلوسي أبو يوسف ، حدثنا عمرو بن يوسف القطعي ، حدثنا الحسن بن أبي جعفر ،عن ليث بن أبي سليم ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن أبيه ، " أن رجلا جاء إلى النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - فقال : يا رسول الله ، إني حملت أمي على عنقي فرسخين في رمضاء شديدة ، لو ألقيت فيها بضعة من لحم لنضجت ، فهل أديت شكرها ؟ فقال : " لعله أن يكون بطلقة واحدة " .
لم يروه عن علقمة بن مرثد إلا ليث ، ولا عن ليث إلا الحسن بن أبي جعفر ، تفرد به عمرو بن يوسف .
★ ترجمة ★
حضرت بریدہ بیان کرتےہیں ایک مرتبہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتاہے :یار سول اللہ میں اپنی بوڑھی ماں کو پیٹھ پر بیٹھا کر ایسے گرم اور تپتے ہوئے پتھروں پر دو فرسخ مسافت تک چلتا ہوں اگر ان پر گوشت ڈالاجائے تووہ جل کر کباب بن جائے ،کیا میں نے اپنی ماں کا حق اداکردیا؟
توآپﷺ نے جواب دیا:شاید تو نے ان جھٹکوں میں سے ایک جھٹکے کا حق ادا کیا ہے جو جھٹکے تیری ماں نے تیری پیدائش کے وقت دردوں کی شدت کی وجہ سے جھیلے تھے
• المصدر: المعجم الصغير
• المحدث: الطبراني
• المجلد: 1
• الصفحة: 92
• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
🔅 *الأدب المفرد* 🔅
حدثنا آدم،قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا سعيد بن أبي بردة، قال: سمعت أبي يحدث: أنه شهد ابن عمر، ورجل يمانيٌّ يطوف بالبيت، حمل أمه وراء ظهره، يقول:
إني لها بعيرها المذلل * إن أذعرت ركابها، لم أذعر
ثم قال يا ابن عمر! أتراني جزيتها؟ قال: لا، ولا بزفرة واحدة ...
÷ ترجمہ ÷
حضرت ابن عمر نے کسی یمانی شخص کو دیکھا کہ وہ اپنی والدہ کو پیٹھ پر اٹھائے کعبہ کا طواف کر رہا تہا اور شعر گنگنا رہا تہا کہ میں اپنی والدہ کا اطاعت گزار اونٹ ہوں , ان کی بقیہ سواریاں گو بدک جاتی ہوں ؛ لیکن میں کبھی بدک کر سرکشی نہیں کرتا ہوں, پھر وہ ابن عمر سے پوچھنے لگا: کیا ماں کو کمر پر بٹھاکر طواف کرانے سے ماں کا حق دیا جاسکتا ھے؟
حضرت ابن عمر نے کہا: بالکل بھی نہیں ؛ ماں کا حق تو کہیں زیادہ ھے اس طواف سے تم نے حالت زچگی کی ایک آہ کا بھی بدل نہیں دیا ھے۔
٭ المصدر: الأدب المفرد
٭ المحدث: الإمام البخاري
٭ الصفحة: 13
٭ الرقم: 11
٭ الدرجة: صحيح
٭ الطبع: المطبعة السلفية، القاهرة، مصر.
💠 *مجمع الزوائد* 💠
وعن بريدة: أن رجلا جاء إلى النبي ﷺ فقال: يا رسول الله! إني حملت أمي على عنقي فرسخين، في رمضاء شديدة، لو ألقيت فيها بضعة من لحم، لنضجت، فهل أديت شكرها؟ فقال: «لعله أن يكون لطلقة واحدة»
رواه الطبراني في الصغير، وفيه الحسن بن أبي جعفر، وهو ضعيف من غير كذب، وليث بن أبي سليم مدلس.
وعنه: أن رجلا كان في الطواف حاملا أمه، فسأل النبي ﷺ: هل أديتُ حقها؟ قال: «لا ، ولا بركزة واحدة» أو كما قال
رواه البزار بإسناد الذي قبله.
٭ المصدر: مجمع الزوائد
٭ المجلد: 16
٭ الصفحة: 466 / 467
٭ الرقم: 13415/ 13416
٭ الطبع: دار المنهاج، جدة، السعودية.
والله تعالي أعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*
31 مارچ، 2023