Monday, November 27, 2017

نفاس والی کو کھجور

◾نفاس والی کو کھجور ◾

  کیا یہ بات درست ھے کہ حاملہ کو کھجور کھلایئں اس سے بردبار اور نیک اولاد پیدا ہوتی ھے؟
➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

   یہ بات درست نہیں ھے؛ عبد الرحمن ابن الجوزی رح نے اپنی کتاب " الموضوعات " میں اسکو غیر صحیح بتایا ھے۔
➗➗➗➗➗➗
حديث سلمة بن قيس مرفوعا: أطعموا نساءكم في نفاسهن التمر فإنه من كان طعامها في نفاسها التمر خرج ولدها ذلك حليما، فإنه كان طعام مريم حين ولدت عيسى، ولو علم الله طعاما هو خير لها من التمر أطعمها إياه.

📝المصدر: الموضوعات
الراوی: سلمہ بن قیس
المحدث: ابن الجوزی
المجلد: 3
الصفحہ: 26
الباب: اطعام النفساء التمر
الناشر: المکتبہ السلفیہ, بالمدینہ المنورہ.
حکم الروایہ:  قال ابن الجوزي في الموضوعات: لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. اهـ( موضوع)

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

اسلام میں عمر کے مدارج

◾اسلام میں عمر کے مدارج

   مجھے ایک روایت کی تحقیق درکار ھے جسکے الفاظ یہ ہیں: 

⬅  جب انسان حالت اسلام میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو (تین قسم کی بیماریوں سے) محفوظ کردیتے ہیں یعنی جنون اور جذام اور برص سے۔ جب پچاس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب ہلکا کردیتے ہیں۔ جب ساٹھ سال کو پہنچتا ہے تو اللہ اس کو اپنی طرف رجوع کی توفیق دے دیتے ہیں۔ جب ستر سال کو پہنچتا ہے تو سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حسنات کو لکھتے ہیں اور سیئات کو معاف فرما دیتے ہیں پھر جب نوے سال کی عمر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیتے ہیں اور اس کو اپنے اہل بیت کے معاملے میں شفاعت کرنے کا حق دیتے ہیں اور اس کی شفاعت قبول فرماتے ہیں اور اس کا لقب امین اللہ اور اسیر اللہ فی الارض (یعنی زمین میں اللہ کا قیدی) ہوجاتا ہے (کیونکہ اس عمر میں پہنچ کر عموماً انسان کی قوت ختم ہوجاتی ہے کسی چیز میں لذت نہیں رہتی، قیدی کی طرح عمر گزارتا ہے اور جب ارذل عمر کو پہنچ جائے تو اس کے تمام وہ نیک عمل نامہ اعمال میں برابر لکھے جاتے ہیں جو اپنی صحت و قوت کے زمانے میں کیا کرتا تھا اور اگر اس سے کوئی گناہ ہوجاتا ہے تو وہ لکھا نہیں جاتا۔
➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

   جی یہ بات درست ھے؛ یہ عبارت "معارف القرآن شفیعی" سے ماخوذ ھے.
  
⚫معارف القرآن, جلد:6, صفحہ:242, سورہ: حج, آیت:5, پارہ:17, ط: کتب خانہ نعیمیہ, دیوبند.
➗➗➗➗➗➗

🔵 اس روایت کا ماخذ: 

یہ روایت " مسند ابو یعلی" میں حضرت انس بن مالک رض سے مروی ھے, جسکے الفاظ یہ ہیں:

⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇

      عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((ما مِن مُعمَّر يُعمَّر في الإسلام أربعين سنة إلا دفع الله عنه أنواع البلاء: الجنون، والجذام، والبرص، فإذا بلغ الخمسين هوَّن الله عليه الحساب، فإذا بلغ الستين رزقه الله الإنابة إلى الله بما يحب الله، فإذا بلغ السبعين أحبه الله وأحبه أهل السماء، فإذا بلغ الثمانين كُتبت حسناتُه ومُحيت سيئاته، فإذا بلغ التسعين غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر، وكان أسيرَ الله في أرضه، وشفع في أهل بيته)).

المصدر: مسند أبي يعلي، 
الراوی: أنس بن مالک 
المحدث: احمد بن علی 
المجلد:7
رقم الحديث: 4249,
رقم الصفحہ: 243
الناشر: دار المامون للتراث, دمشق.
حکم الروایہ: قال حسين سليم أسد: إسناده ضعيف.

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

🔘 خلاصۂ کلام: 

👈🏻 یہ روایت حافظ ابن کثیر نے مسند ابو یعلی سے نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے ھذا حدیث غریب جدا وفیہ نکارة شدیدة (یعنی یہ حدیث غریب ہے اور اس میں سخت نکارت ہے) پھر فرمایا و مع ھذا قد رواہ الامام احمد بن حنبل فی مسندہ موقوفاً و مرفوعاً (یعنی اس غرابت و نکارت کے باوجود امام احمد نے اپنی مسند میں اس کو موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح روایت کیا ہے؛ لہذا اس روایت کو فضائل میں بیان کرنا درست اور جائز ھے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Saturday, November 25, 2017

◾درود تنجینا کا حکم◾ Darood e tanjeena



◾درود تنجینا کا حکم◾

 کیا ھم درود تنجینا پڑھ سکتے ہیں؟
 جسکے الفاظ یہ ہیں:
◀اللهم صل على سيدنا محمد ، وعلى آل سيدنا محمد ، صلاة تنجينا بها من جميع الأهوال والآفات ، وتقضي لنا بها جميع الحاجات ، وتطهرنا بها من جميع السيئات ، وترفعنا بها عندك أعلى الدرجات ، وتبلغنا بها أقصى الغايات من جميع الخيرات ، في الحياة وبعد الممات انک علی کل شئی قدیر.
➖➖➖➖➖➖➖➖
••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

(۱) درود شریف سب سے افضل اور بہتر وہ ہیں جن کے الفاظ احادیث میں منقول ہیں اورایسے بعض درودوں کا مجموعہ بزرگوں نے یکجا کرکے رسالہ اور کتاب کی شکل میں چھاپ دیا ہے، مثلاً ”زاد السعید“، یہ احادیث میں منقول وماثور درودوں کا مجموعہ ہے۔
(۲) بعض درود ایسے ہیں جن کے الفاظ احادیث میں منقول نہیں ہیں، مگر معنی کے لحاظ سے تنوع پیدا کرنے کے لیے بزرگوں سے منقول ہیں، جیسے ”دلائل الخیرات“ان کا پڑھنا بھی جائز ہے، البتہ فضیلت نمبر ایک کی ہے۔ 
(۳) بعض درود شریف ایسے ہیں جن کے الفاظ بھی حدیث میں منقول نہیں ہیں اور معنی کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہیں یا ناشرین نے غیرمستند فضائل ان درودوں کے لکھ کر عوام میں پھیلادیا.

🔘 درود تنجینا دوسرے نمبر والا ھے۔ کہ اسکا پڑھنا جائز ھے۔

⚫ درود تنجینا کا ماخذ:
   مشہور ادیب اور مؤرخ امام عبد الرحمن الصفوری الشافعی رح نے اپنی مشہور کتاب" نزھت المجالس" میں اس درود کو ذکر فرمایا ھے کہ کسی اللہ والے کو سمندری سفر پیش آیا , کہ سخت طوفان شروع ہوگیا اور سب غرق ہونے کو تہے کہ ان اللہ والوں کو نیند کا جہونکا آیا اور حضور پاک صلی ﷲ علیہ وسلم کی زیارت سے شرفیابی ہوئی۔حضور نے فرمایا: کہ سب سواروں سے کہو! کہ یہ (درود تنجینا)پڑھیں۔  چنانچہ میری آنکھ کھلی اور ہم تمام لوگوں نے مذکورہ درود پڑھا ۔ ﷲ کے حکم سے طوفان تھم گیا. 
   آگے مزید لکھا ھے: کہ کثرت سے نبی کریم پر درود پڑھا کریں؛ کیونکہ اس کی برکت سے رکے معاملات حل ھوجاتے ہیں اور مصائب دور ھوجاتے ہیں۔

🔷 نزھت المجالس ومنتخب النفائس/ جلد:2. صفحہ: 86,


   وﷲ تعالی اعلم۔
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Wednesday, November 22, 2017

حلال جانور کے کون کون سے اجزاء حرام ہیں؟
سوال(۴۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: حلال جانور کی جو سات چیزیں کھانی مکروہِ تحریمی ہیں، اُس سلسلہ میں یہاں کچھ غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں، اُمید کہ اُنہیں دور فرماکر شکریہ کا موقع دیںگے، آپ کے مسائل اور ان کا حل ۴؍۲۵۵ میں بحوالہ مصنف عبد الرزاق مراسیل ابی داؤد، اور سنن کبریٰ بیہقی حلال جانور کی سات چیزوں کو مکروہ تحریمی لکھا ہے: (۱) بہتا ہوا خون (۲) غدود (۳) مثانہ (۴) پتہ (۵) نرکی پیشاب گاہ (۶) مادہ کی پیشاب گاہ (۷) کپورے۔
اور تذکرۃ الرشید میں مذکور ہے کہ حلال جانور کی سات چیزیں کھانی منع ہیں: (۱) ذکر (۲) فرج مادہ (۳) مثانہ (۴) غدود (۵) حرام مغز (جو پشت کے مہرے میں ہوتا ہے) (۶) خصیہ (۷) پتہ۔
اور آگے تحریر ہے کہ خون سائل قطعی حرام ہے، بعض روایات میں گردہ کی بھی کراہت لکھتے ہیں، اور کراہتِ تنزیہی پر حمل کرتے ہیں، نیز فتاویٰ رحیمیہ ۲؍۲۳ میں یوں ہے، سات چیزیں حلال جانور کی کھانی منع ہیں: (۱) ذکر (۲) فرج مادہ (۳) مثانہ (۴) غدود، یعنی حرام مغز جو پشت کے مہرے میں ہوتا ہے (۵) خصیہ (۶) پتہ مرارہ جو کلیجی میں تلخ پانی کا ظرف ہے ، اور خون سائل قطعی حرام ہے، مگر بعض روایات میں کٹروے پتے کی کراہت لکھتے ہیں، اور کراہت تنزیہی پر حمل کرتے ہیں۔ کفایت المفتی ۶؍۲۸۷، میں لکھا ہے کہ حرام مغز نہ حرام ہے نہ مکروہ، مذکورہ فتاویٰ کے پیشِ نظر چند باتیں قابلِ استفسار ہیں: 
(۱) مغز حرام کا کیا حکم ہے؟ کفایت المفتی اور تذکرۃ الرشید کی عبارت میں ٹکراؤ معلوم ہورہا ہے، نیز تطہیر مادۂ منویہ کے قائل حضرات کی اِس بارے میں کیا رائے ہے؟
(۲) غدود اور حرام مغز ایک ہی چیز ہے یا علیحدہ علیحدہ؛ کیوں کہ فتاویٰ رحیمیہ میں غدود پر نمبر (۴) کا عدد ڈال کر اور لکھ کر اُس کی گویا تشریح حرام مغزسے کی گئی ہے۔ 
(۳) آپ کے مسائل وغیرہ میں پتے کو مکروہ تحریمی لکھا ہے، اور فتاویٰ رحیمیہ میں بعض روایات کے حوالہ سے اِس کو کراہتِ تنزیہی پر محمول کیا ہے، اِس طرح مکروہِ تحریمی کی فہرست سے ایک چیز ہٹ کر چھ چیزیں باقی رہ جائیںگی۔ 
(۴) گردہ کھانے کے سلسلہ میں مفتی بہ قول کیا ہے؟ 
(۵) اُمید کہ لفظ غدود اور حرام مغز کی ذرا کھل کر تشریح فرماتے ہوئے حلال جانور کی سخت پیلی رگوں کا حکم بھی تحریر فرمائیں؟
(۶) بعض حضرات قوت مرد انگی اور قوتِ باہ میں اِضافہ کرنے کے لئے کپورے ہوٹلوں میں اسپیشل پکاکر کھلایا کرتے ہیں، اِس کا کیا حکم ہے؟ کیا مسلم قصائی کپورے فروخت کرسکتا ہے؟ 
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ 
الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) حرام مغز کی کراہت کے بارے میں قرآن وحدیث سے کوئی صریح دلیل دستیاب نہیں ہو سکی، بعض فقہی کتابوں میں ’’نخاع الصلب‘‘ کی کراہت کا ذکر ہے، مگر اُس کی دلیل مذکور نہیں، اِسی وجہ سے کفایت المفتی میں یہ لکھا گیا ہے کہ ’’حرام مغز نہ حرام ہے نہ مکروہ‘‘، یہ دراصل حرام مغز کے بارے میں شرعی حکم کا اظہار ہے، اور تذکرۃ الرشید میں حرام مغز کو مکروہات میں شمار کیا ہے، غالباً اِس سے مراد طبعی کراہت ہے، اِس اعتبار سے دونوں کتابوں میں تطبیق دی جاسکتی ہے۔ 
لما روی الأوزاعي عن واصل بن جمیلۃ عن مجاہد قال: کرہ رسول اللّٰہ 
صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الشاۃ: الذکر والأنثیین والقبل والغدۃ والمرارۃ والمثانۃ والدم۔ (شامي ۱۰؍۴۷۷ زکریا)
الحدیث نص في کراہۃ ہٰذہ الأشیاء السبع، وہو مذہب الحنفیۃ، فإن قلت لا یجوز أن تکون الکراہۃ طبعیۃ لا شرعیۃ، قلنا: لو کان کذلک لکانت الأمعاء أولی بالکراہۃ، فدل ذٰلک علی أنہا لیست بطبعیۃ بل شرعیۃ۔ (إعلاء السنن ۱۷؍۱۴۴ بیروت، ۱۷؍۱۳۰ إدارۃ القرآن کراچی)
اور حرام مغز کے بارے میں تطہیر مادہ منویہ کے قائل حضرات کی کیا رائے ہے، ہمیں معلوم نہیں۔ 
(۲) غدود اور حرام مغز دونوں الگ الگ چیز ہیں، دونوں کو ایک قرار دینا بے دلیل ہے، تذکرۃ الرشید جس کا فتاویٰ رحیمیہ میں حوالہ دیا گیا ہے، اُس میں بھی دونوں کو الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔ (تذکرۃ الرشید ۱۷۴) 
(۳) پتہ کھانا مکروہ تحریمی ہے، اور فتاویٰ رحیمیہ میں بعض حضرات کے حوالہ سے اُس کو جو مکروہ تنزیہی کہا گیا ہے، وہ مفتی بہ نہیں ہے۔ 
وقیل: إن الکراہۃ في الأجزاء الستۃ تنزیہًا، لکن الأوجہ کما في الدر المختار: أنہا تحریمیۃ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۵؍۱۵۳، الدر المختار مع رد المحتار ۱۰؍۴۷۸)
(۴) گردہ کھانا مطلقاً حلال ہے؛ اِس لئے کہ اس کو حدیث میں مکروہ اعضاء میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ 
کرہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الشاۃ: الذکر والأنثیین والقبل والغدۃ والمرارۃ والمثانۃ والدم۔ (شامي ۱۰؍۴۷۷ زکریا)
(۵) غدود غدہ کی جمع ہے، اِس کے معنی جمے ہوئے خون کی گٹھلی کے ہیں۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۱۷؍۲۹۷ ڈابھیل)
اور حرام مغز اس گودے کو کہتے ہیں جو ریڑھ کی ہڈی میں ہوتا ہے۔  (فیروز اللغات ۵۶۵)اور حلال جانور کی پیلی رگیں جنہیں پٹھہ بھی کہا جاتا ہے، حرام یا مکروہ قرار نہیں دی جائیں گی؛ اِس لئے کہ وہ مستثنیات میں داخل نہیں ہیں۔ 
(۶) کپورے کھانا کسی حال میں جائز نہیں ہے، اور اس کی بیع بھی مکروہ ہے، اور اس کو کھانے پکانے والے اور اس کا کاروبار کرنے والے سب گنہگار ہوںگے۔ 
وأما بیع الخمر وشراء ہا فحرام أیضًا عند الفقہاء بأسراہم۔ (تکملۃ فتح الملہم ۱؍۵۵۰)
إن الذي حرم شربہا حرم بیعہا۔ (مستفاد: تکملۃ فتح الملہم ۱؍۵۵۳) فقط واللہ تعالیٰ اعلم 
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۸؍۱۱؍۱۴۲۶ھ 
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ

Tuesday Wednesday dua بدھ کے دن ظہر و عصر کے درمیان دعا قبول ہونے کی حقیقت

بدھ کے دن ظہر و عصر کے درمیان دعا قبول ہونے کی حقیقت

کیا بدھ کے دن ظہر و عصر کے درمیان مانگی جانیوالی دعا قبول ہوتی ھے؟
  جبکہ غیر مقلدین کہتے ہیں اس مضمون کی روایت غیر معتبر ھے اور اس سے استدلال جائز اور درست نہیں!
➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

     بدھ کے دن ظہر و عصر کے مابین دعا کے قبول ہونے کا ذکر احادیث میں ھے؛لیکن شرط یہ ھے کہ دعا کی تمام شرائط کی رعایت ہو یعنی  حرام  لقمے  سے پرھیز ھو, دعا معصیت اور گناہ والی نہ ہو غرضیکہ ان تمام شرائط دعا کی رعایت ہو جو احادیث و آثار میں مذکور ہیں۔
➗➗➗➗➗
  
  🔷 بدھ کے دن والی روایت:

 أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم دَعَا في مسجِدِ الفتحِ ثلاثًا يومَ الاثنينِ ويومَ الثلاثاءِ ويومَ الأربعاءِ فاسْتُجِيبَ لَهُ يَومَ الأربعاءِ بينَ الصلاتَيْنِ فَعُرِفَ البِشْرُ في وجهِهِ قال جابِرٌ فلَمْ ينزلْ بي أَمْرٌ مُهِمٌّ غليظٌ إلَّا تَوَخَّيْتُ تِلْكَ الساعَةِ فأَدْعُو فيها فأعرِفُ الإِجابَةَ.
⬅ (ترجمہ) حضرت جابر سے مروی ھے:کہ حضور پاک نے "مسجد فتح" میں تین دن دعا مانگی, یعنی پیر,منگل اور بدھ کے دن۔تو آپ کی دعا بروز بدھ ظہر و عصر کے درمیان قبول ہوئی, پھر میں نے آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھے, تو حضرت جابر فرماتے ہیں: پھر جب بہی مجھے کوئی اہم معاملہ در پیش ہوتا تو میں اس وقت کا انتظار کرتا اور دعا کرتا, تو مجھے قبولیت کے آثار محسوس ہوتے۔

    الراوي: جابر بن عبدالله 
    المحدث: الهيثمي
    المصدر:  مجمع الزوائد
    الصفحة :12
    المجلد:4
    الطبع: دار الکتاب العربی بیروت لبنان۔
  خلاصة حكم المحدث:  *رجاله ثقات* 
_______________________   المصدر: وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی۔
المحدث: السہمودی
الراوی:  جابر 
المجلد: 3
الصفحہ: 53
الطبع: دار الکتب العلمیہ, بیروت لبنان۔

⚫ خلاصۂ کلام: 
  مذکورہ روایت کی سند درست ھے۔ اور اسکا مضمون بالکل صحیح ھے؛ لیکن دعا میں آداب کی رعایت ہو۔ رہا غیر مقلدین کا کہنا: کہ یہ روایت قابل استدلال نہیں ھے تو یہ بات درست نہیں.کیونکہ مسند احمد جلد:22, صفحہ: 425, حدیث : 14563, طبع: مؤسسہ الرسالہ, بیروت , لبنان. میں بھی یہ روایت ھے اور اسکے متعلق محقق شعیب الارنؤوط صاحب کا کہنا ھے: یہ ضعیف روایت ھے اور ضعیف روایت فضائل میں مقبول ہوتی ہیں۔

وﷲ تعالی اعلم۔
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Tuesday, November 21, 2017

Masjid mein bethna sitting مسجدمیں بیٹھنا جنت میں بیٹھنے سے افضل

مسجدمیں بیٹھنا جنت میں بیٹھنے سے افضل

  مجھے واٹس ایپ پر ایک میسیج موصول ھوا جس میں لکھا تہا : کہ حضرت علی رض کا فرمان ھے: کہ مجھے مسجد میں بیٹھنا جنت میں بیٹھنے سے زیادہ افضل ھے؛ کیونکہ جنت میں بیٹھنے سے تو میرا نفس خوش ہوگا اور مسجد میں بیٹھنے سے میرا رب خوش ہوگا۔

   اس مقولے کی سندی حیثیت واضح فرمادیں!
➖➖➖➖➖➖
••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

   یہ مقولہ اور فرمان اہل السنت والجماعت یعنی چاروں اماموں کے متبعین میں سے کسی بہی محدث یا مصنف کی کتاب میں موجود نہیں ھے؛ کیونکہ ایسی بات کہنا جناب حضرت امیر المؤمنین سیدنا علی کرم ﷲ وجہہ کی جانب سے عقلا و نقلا غلط ھے؛ کیونکہ اس میں دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا لازم آرہا ھے, تو یہ روایت اور مقولہ کہاں سے آیا ہم اسکو واضح کرتے ہیں:

🔘 مذکورہ مقولے کا ماخذ:

  یہ بات شیعی کتابوں مثلا: بحار الانوار , وسائل الشیعہ, عدة الداعي’ مستدرك الوسائل اور!«ارشاد القلوب»  میں بلا کسی سند کے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جانب منسوب ھے.

⬅ شیعی کتابوں کی عبارت:

 انہ علیہ السلام قال:  الجلسة في المسجد خير لي من الجلسة في الجنة ، فإن الجنة فيها رضا نفسي ، والجامع فيه رضا ربی۔

ترجمہ: حضرت علی نے فرمایا: کہ مسجد میں بیٹھنا مجھے زیادہ پسند ھے جنت میں بیٹھنے سے؛ کیونکہ جنت میں میرے نفس کی خوشی ھے اور مسجد میں میرے رب کی۔
➗➗➗➗➗➗

المصدر: ارشاد القلوب
الراوی: الحسن بن ابی الحسن محمد الدیلمی.
المجلد: 2
الصفحہ: 23
الناشر: دار الاسوہ للطباعہ والنشر, طہران, ایران۔

⚫ خلاصۂ کلام: مسجد میں بیٹھنے اور ذکر کرنے کے فضائل اپنی جگہ تسلیم ہیں؛ لیکن مذکورہ بات حضرت علی کی جانب منسوب کرنا غلط ھے۔یہ سب شیعی واعظین کی من گھڑت باتیں ہیں۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Monday, November 20, 2017

Khanay say pehlay ki dua , Pray before Lunch dinnerکھانے سے پہلے کی دعا

کھانے سے پہلے کی دعا

   مجھے کسی نے کہا: کہ کہانے سے قبل جو دعا پڑھی جاتی ھے, ★بسم الله وعلي بركة الله ★یہ ثابت بالحدیث نہیں ھے؛ لہذا مجھے اس کی اصل بتاکر مشکور ہوں!!
➖➖➖➖➖➖
••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق* 

    کھانے سے قبل جومشہور دعا ھے اسکا پڑھنا بلا شبہ جائز اور درست ھے؛ وہ بہی ثابت بالحدیث ھے, البتہ احادیث صحیحہ میں اس دعا کے الفاظ اس سے مختلف بھی وارد ہوئے ہیں, مثلا: ٭بسم الله وبركة الله٭ 
لہذا اس باب میں شدت اختیار نہ کیجائے, ثبوت دونوں دعاؤں کا حدیث پاک سے ھے۔
➗➗➗➗➗➗➗

   🔷 حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی ایک کتاب ھے" اسلام اور ہماری زندگی" اس میں بہی یہی مشہور دعا مذکور ھے, بطور حوالہ ہم حضرت شیخ الاسلام مدظلہ کی عبارت نقل کرتے ہیں:
⬇⬇⬇⬇⬇⬇

بزرگانِ محترم و برادرانِ عزیز! حضور اقدس ﷺ نے مختلف مواقع پر جو دعائیں تلقین فرمائیں ہیں ، ان کا بیان ایک عرصہ سے چل رہاہے۔ اس سے پہلے اس دعا کی تشریح بیان کی تھی جو دعا حضور اقدس ﷺ کھانا سامنے کے وقت پڑھا کرتے تھے۔ جب آپ کھانا شروع فرماتے تو اس وقت آپ یہ دعا پڑھتے:

(بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی بَرَکَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی)

⬅ اسلام اور ہماری زندگی/صفحہ:218, جلد :10
مؤلف : حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
ناشر : ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور پاکستان.
___________________

 حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان منصورپوری مدظلہ العالی بھی اسی مشہور دعا کو ثابت بالحدیث قرار دیتے ہیں۔

⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇

کھانا شروع کرتے وقت " بسم الله وعلي بركة الله " پڑھنا آنحضرت صلیﷲ علیہ وسلم سے ثابت ھے۔

⬅ کتاب النوازل/16, صفحہ: 35.ط: المرکز العلمی للنشر والتحقیق, لال باغ مرادآباد۔
===================

🔘   وہ روایات کہ جن میں لفظ "علی" کی زیادتی نہیں ھے,

خرَج أبو بكرٍ بالهاجرةِ فسمِع بذاك عمرُ فخرَج فإذا هو بأبي بكرٍ فقال يا أبا بكرٍ ما أخرَجك هذه السَّاعةَ فقال أخرَجني واللهِ ما أجِدُ من حاقِّ الجوعِ في بطني فقال وأنا واللهِ ما أخرَجني غيرُه فبينما هما إذ خرَج عليهما النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم فقال ما أخرَجكما هذه السَّاعةَ فقالا أخرَجنا واللهِ ما نجِدُ في بطونِنا من حاقِّ الجوعِ فقال النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم وأنا والَّذي نفسي بيدِه ما أخرَجني غيرُه فانطَلقوا حتَّى أتَوْا بابَ أبي أيُّوبَ الأنصاريِّ وكان أبو أيُّوبَ ذكَر لرسولِ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم طعامًا أو لبنًا فأبطَأ يومئذٍ فلم يأتِ لحينِه فأطعَمه أهلَه وانطَلَق إلى نخلِه يعمَلُ فيه فلمَّا أتَوْا بابَ أبي أيُّوبَ خرَجَتِ امرأتُه فقالَتْ مرحبًا برسولِ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم وبمَن معه فقال لها رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم فأين أبو أيُّوبَ قالَت يأتيك يا نبيَّ اللهِ السَّاعةَ فرجَع رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم فبصُر به أبو أيُّوبَ وهو يعمَلُ في نخلٍ له فجاء يشتَدُّ حتَّى أدرَك رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم فقال مرحبًا بنبيِّ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم وبمَن معه فقال يا رسولَ اللهِ ليس بالحينِ الَّذي كُنْتَ تجيئُني فيه فردَّه فجاء إلى عِذْقِ النَّخلةِ فقطَعه فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم ما أرَدْتُ إلى هذا قال يا رسولَ اللهِ أرَدْتُ أن تأكُلَ من رُطَبِه وبُسْرِه وتمرِه وتَذْنُوبِه ولأذبَحَنَّ لك مع هذا قال إن ذبَحْتَ فلا تذبَحَنَّ ذاتَ درٍّ فأخَذ عَناقًا أو جَدْيًا فذبَحه وقال لامرأتِه اختَبِزي وأطبُخُ أنا فأنتِ أعلمُ بالخبزِ فعمَد إلى نصفِ الجَدْيِ فطبَخه وشوى نصفَه فلمَّا أدرَك الطَّعامُ وضَعه بين يدَيْ رسولِ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم وأصحابِه فأخَذ رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم من الجَدْيِ فوضَعه على رغيفٍ ثُمَّ قال يا أبا أيُّوبَ أبلِغْ بهذا إلى فاطمةً فإنَّها لم تُصِبْ مثلَ هذا منذ أيامٍ فلمَّا أكَلوا وشبِعوا قال النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم خبزٌ ولحمٌ وبُسْرٌ ورُطَبٌ ودمَعَت عيناه ثُمَّ قال هذا من النَّعيمِ الَّذي تُسأَلونَ عنه يومَ القيامةِ فكبُر ذلك على أصحابِه فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم إذا أصَبْتُم مثلَ هذا وضرَبْتُم بأيديكم فقولوا ★بسمِ اللهِ وبركةِ اللهِ★ وأنعَمَ وأفضَلَ فإنَّ هذا كَفافٌ بهذا وكان رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم لا يأتي أحدٌ إليه معروفًا إلَّا أحبَّ أن يُجازِيَه فقال لأبي أيُّوبَ ائتِنا غدًا فلم يسمَعْ فقال له عمرُ إنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم يأمُرُك أن تأتيَه فلمَّا أتاه أعطاه وليدةً فقال يا أبا أيُّوبَ استَوصِ بها خيرًا فإنَّا لم نرَ إلَّا خيرًا ما دامَت عندنا فلمَّا جاء بها أبو أيُّوبَ قال ما أجِدُ لوصيَّةِ رسولِ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم خيرًا من أن أعتِقَها فأعتَقَها .

الراوي: عبدالله بن عباس 
المحدث: الهيثمي 
المصدر: مجمع الزوائد 
الصفحة:318
المجلد:10
الناشر: دار الكتاب العربي بيروت.لبنان
خلاصة حكم المحدث: فيه عبد الله بن كيسان المروزي وقد وثقه ابن حبان وضعفه غيره وبقية رجاله رجال الصحيح‏‏.

المصدر: المعجم الاوسط
الراوي:ابن عباس
المحدث:الطبراني
المجلد: 2
الصفحة: 365
الحديث:2247
الناشر:دار الحرمين للطباعة والنشر مصر.

المصدر: المستدرك
الراوي:ابن عباس
المحدث: حاكم
المجلد: 4
الصفحة:208
رقم الحديث: 7163
الناشر:دار الحرمين للطباعة والنشر والتوزيع مصر.


⚫ خلاصۂ کلام: 

     کھانے سے قبل دعا کا پڑھنا مسنون ھے۔ خواہ بسمﷲ الرحمن الرحیم یا بسمﷲ وعلی برکتﷲ ہو یا بسم ﷲ وبرکتﷲ ہو ۔ سب احادیث سے ثابت ہیں۔ البتہ کچھ کا ثبوت صحیح حدیث سے ھے اور کچھ کا ضعیف حدیث سے؛ لیکن فضائل میں ضعیف حدیث بہی مقبول کیجاتی ہیں۔ لہذا تشدد برتنا مناسب نہیں۔


وﷲتعالی اعلم

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Sunday, November 19, 2017

Hazrat suleman As Qisa Story. قصہ حضرت سلیمان کی دعوت کا

قصہ حضرت سلیمان کی دعوت کا

  میں نے آج ایک خطیب کو سنا جو ﷲ تعالی کے رزاق ہونے کے متعلق بیان فرمارھے تہے اور دوران بیان انہوں نے حضرت سلیمان ع کا ایک قصہ سنایا مجھے اس قصے کی سند مطلوب ھے!!
  وہ قصہ کچھ اس طرح ھے:

⬇⬇⬇⬇⬇⬇

​ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ۔۔۔

ﻣﺠﮭﮯ ﺁﺭﺯﻭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺗﯿﺮﯼ ﺳﺎﺭﯼ ﻣﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﺟﺘﻨﮯ ﺑﮭﯽ ﺫﯼ ﺭﻭﺡ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺿﯿﺎﻓﺖ ﮐﺮﻭﮞ ۔۔۔ ”

ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺟﺐ ﮨﻔﺖِ ﺍﻗﻠﯿﻢ ﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﺖ ﻋﻄﺎ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﯾﮧ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔۔۔

ﻧﺪﺍ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ” ﺍﮮ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ۔۔۔

ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺭﻭﺯﯼ ﭘﮩﻨﭽﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ۔۔۔ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﻮﺟﻮﺩﺍﺕ ﻣﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻼ ﺳﮑﺘﮯ ۔۔۔ ”

ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ” ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ۔۔۔ ﺗﻮ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﻧﻌﻤﺖ ﺩﯼ ﮨﮯ ۔۔۔ ﺗﯿﺮﯼ ﻋﻨﺎﯾﺖ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮨﮯ ۔۔۔ ﺍﮔﺮ ﺗﯿﺮﺍ ﺣﮑﻢ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﺎ ﻃﻌﺎﻡ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﻭﮞ ۔۔۔ ”

ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺰﺕ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻟﯽ ﺷﺎﻥ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﻨﻮﺍﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮐﺸﺎﺩﮦ ﺭﮐﮭﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﺟﺲ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﻭ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺎ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺁ ﺳﮑﮯ ۔۔۔

ﺣﮑﻢ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻋﻤﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯼ ﺟﺲ ﮐﻮ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﯿﺎً ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﺁﭨﮫ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻟﮓ ﮔﺌﮯ ۔۔۔

ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺸﺎﺩﮦ ﺍﺱ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮧ ﺍﻓﺮﺍﻁ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻭ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻣﮩﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ۔۔۔ ﮐﻢ ﻭ ﺑﯿﺶ ﺑﺎﺋﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﮔﺎﺋﯿﮟ ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﮐﺜﯿﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮕﯿﮟ ﭘﮑﺎﺋﯽ ﮔﺌﯿﮟ ۔۔۔ ﻣﺸﺮﻭﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺗﺎﻻﺏ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﺟﻨﺎﺕ ﺳﮯ ﮐﺮﻭﺍﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﭘﺮ ﺗﮑﻠﻒ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ۔۔۔

ﺟﺐ ﺿﯿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺗﯿﺎﺭﯾﺎﮞ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﯽ ﻣﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺎﺩﯼ ﮐﺮﺍ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﮮ ﺩﯼ ۔۔۔

ﺳﺎﺭﯼ ﻣﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﺍﻧﺴﺎﻥ ۔۔ ﺟﻦ ۔۔ ﭼﺮﻧﺪ ۔۔۔ ﭘﺮﻧﺪ ۔۔۔ ﺩﺭﻧﺪﮮ ۔۔۔ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﮐﯿﮍﮮ ﻣﮑﻮﮌﮮ ۔۔ ﺧﺸﮑﯽ ۔۔ ﺗﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺍﮌﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﮕﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﭘﮧ ﺁ ﭘﮩﻨﭽﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ ۔۔۔ ﺍﺏ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﺍﻭﺭ ﻗﺪﺭﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺟﻤﻊ ﺷﺪﮦ ﻣﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﮐﺎ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ ۔۔۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﮨﻮﺍ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﺨﺖِ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮨﺮ ﻣﺘﻨﻔﺲ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻈﺮ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺕِ ﮐﺎﻣﻠﮧ ﮐﺎ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ ۔۔۔ !

ﻋﯿﻦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺟﺐ ﺗﺨﺖ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﻠﻖ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻧﮯ ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺳﺮ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ ” ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺒﯽّ ۔۔۔ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﭘﮑﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﻋﻮﺕ ﭘﮧ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ۔۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮩﺖ ﺑﮭﻮﮐﯽ ﮨﻮﮞ ﻟﮩﺬٰﺍ ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺩﮮ ﺩﯾﺠﺌﮯ ۔۔۔ ”

ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ” ﺗﻢ ﺫﺭﺍ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺁ ﻟﯿﻨﮯ ﺩﻭ۔۔۔ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﺘﻨﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﻮ ﮐﮭﺎ ﻟﯿﻨﺎ ۔۔۔ ”

ﻭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺑﻮﻟﯽ ” ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺒﯽّ ﻣﯿﮟ ﺧﺸﮑﯽ ﭘﮧ ﺍﺗﻨﯽ ﺩﯾﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭨﮭﮩﺮ ﺳﮑﻮﮞ ﮔﯽ ﮐﮧ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻭﮞ۔۔۔۔ ”

ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ” ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﭨﮭﮩﺮﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎ ﻟﻮ ﺍﻭﺭ ﺟﺘﻨﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺟﯽ ﭼﺎﮨﮯ ﮐﮭﺎ ﻟﻮ۔۔۔ ”

ﯾﮧ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺩﺭﯾﺎ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻧﻤﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺘﻨﺎ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻟﻘﻤﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎ ﮔﺌﯽ ۔۔۔ ﭘﮭﺮ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﮍﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﻟﮕﯽ ۔۔۔

ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻣﺘﻌﺠﺐ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ ” ﺍﮮ ﻣﭽﮭﻠﯽ ۔۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻧﻮﺍﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎ ﻟﯿﺎ ۔۔۔ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﭘﯿﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺮﺍ ﺟﻮ ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ۔۔۔؟ ”

ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺑﻮﻟﯽ ” ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺒﯽّ ۔۔۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺗﯿﻦ ﻟﻘﻤﮯ ﺭﺯﻕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻟﻘﻤﮧ ﮨﻮﺍ ۔۔۔ ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﻭ ﻟﻘﻤﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﮯ ﺗﺐ ﮐﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﯿﭧ ﺑﮭﺮﮮ ﮔﺎ ۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﮩﻤﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻮﮐﯽ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺎﻗﯽ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ( ﻣﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ) ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻧﺎﺣﻖ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﺑﻠﻮﺍﯾﺎ ۔۔۔ ”

ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺕ ﺯﺩﮦ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ۔۔۔ ﭼﮑﺮﺍﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻏﺸﯽ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ۔۔۔ ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﮨﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﻧﺪﺍﻣﺖ ﺳﮯ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﭘﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ

” ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻗﺼﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﯼ ﺩﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺩﺍﻧﯽ ﮐﯽ ۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺩﺍﻥ ﻭ ﻣﺴﮑﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ۔۔۔ ﺑﯿﺸﮏ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﮮ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﻮ ﺭﺯﻕ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺻﺮﻑ ﺗﻮ ﮨﯽ ﮨﮯ ۔۔
➖➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

یہ قصہ ہمیں کتب حدیث میں تلاش بسیار کے بعد بہی نہیں مل سکا؛ البتہ مشہور و معروف مؤرخ و ادیب امام " عبد الرحمان الصفوری الشافعی رح" نے اپنی مشہور کتاب
«نزهة المجالس»
میں ایک حکایت اور محض واقعے کی حیثیت سے بلا کسی سند و حوالے کے نقل کیا ھے؛ لہذا اسکو حدیث نہیں مانا جاسکتا ھے؛ 
__________________
1⃣ لیکن کوئی بات اگر حدیث نہ ہو اور وہ شرعی نقطہ نظر سے کسی نص  سے متصادم نہ ہو تو اسکو حدیث کا عنوان دئیے بغیر بیان کیا جاسکتا ھے, حکایات میں سند کی تفتیش جبکہ اس میں کوئی الزام یا خرابی نہ ہو بے جا غلو ھے, حکمت کی باتیں جہاں بہی ملیں ان کو لے لو, محدثین نے خود حکایات کے باب میں سند کے متعلق نرم پہلو اختیار کیا ھے۔

2⃣کیونکہ سند کی اہمیت خاص طور پر وہاں ھے جہاں امر شرعی بیان کیا جارہا ہو۔سند مل جائے تو عمدہ بات ھے ورنہ چشم پوشی کی جائے۔

1⃣قال الصغانی: اذا علم ان حدیثا متروک او موضوع, فلیروہ ولکن لا یقول علیہ: قال رسولﷲ صلیﷲ علیہ وسلم۔

ترجمہ: اگر کسی روایت کے متعلق معلوم ہو کہ وہ متروک یا منگھڑت ھے لیکن وہ نص شرعی سے متصادم نہ ہو تو اسکو حدیث کا عنوان دئیے بغیر بیان کرنا درست ہوگا۔

( تذکرة الموضوعات/صفحة: 8. مؤلف: الادیب الفاضل اللبیب العلامہ محمد طاہر پٹنی الہندی رح.
مطبع: ادارہ الطباعة المنيرية.مصر )

2⃣ واما اخبار الصالحین وحکایات الزاھدین والمتعبدین ومواعظ البلغاء وحکم الادباء, فالاسانید زینة لها.وليست شرطا لتاديتها. 

( نوادر الحديث/41. للشيخ يونس الجونفوري رح. ط:اداره افادات اشرفيه دوبگه هردوي روڈ لکہنؤ )

➗➗➗➗➗➗➗

🔷 نزهة المجالس كي عربي عبارت:

فقال: قال سليمان عليه السلام لنملة: كم رزقك في كل سنة؟ قالت: حبة حنطة. فحبسها في قارورة وجعل عندها حبة حنطة فلما مضت السنة فتح القارورة فوجدها قد أكلت نصف الحبة فسألها عن ذلك فقالت: كان اتكالي على الله قبل الحبس، وبعده كان عليك فخشيت أن تنساني فادخرت النصف إلى العام الآتي. فسأل ربه أن يضيف جميع الحيوانات يوما واحدا فجمع طعاما كثيرا فأرسل الله تعالى حوتا فأكله أكلة واحدة، ثم قال: يا نبي الله؛ إني جائع. فقال: رزقك كل يوم أكثر من هذا؟ قال: بأضعاف كثيرة. وفي حادي القلوب الطاهرة قال: إني آكل كل يوم سبعين ألف سمكة. وكان طعام سليمان عليه السلام لعسكره كل يوم خمسة آلاف ناقة وخمسة آلاف بقرة وعشرين ألف شاة. اهـ.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

‌‌ (نزهة المجالس / ص:213)

والله تعالي اعلم

✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*

Saturday, November 18, 2017

Hazrat Adam As son betay ko nashiat advise حضرت آدم کی اپنے بیٹے کو نصیحت

حضرت آدم کی اپنے بیٹے کو نصیحت

  حضرت آدم نے اپنے بیٹے شیث ع کو پانچ باتوں کی نصیحت فرمائی, اور کہا: کہ تم اپنی اولاد کو بھی یہی نصیحت کرنا!
1) عارضی دنیا پر مطمئن نہ ہونا؛میں جاودانی جنت میں مطمئن تہا, ﷲ تعالی نے مجھے وہاں سے نکال دیا.
2) عورتوں کی خواہشات پر کام نہ کرنا, میں نے اپنی بیوی کی خواہش پر شجر ممنوعہ کھالیا اور شرمندگی اٹھائی.
3) ہر ایک کام کرنے سے پہلے انجام سوچ لو! اگر میں سوچ لیتا تو جنت سے نہ نکالا جاتا
4) جس کام سے تمہارا دل مطمئن نہ ھو اس کام کو نہ کرنا؛ کیونکہ جب میں نے شجر ممنوعہ کھایا تو میرا دل مطمئن نہیں تہا؛ مگر میں اسکے کھانے سے باز نہ رہا
5) کام کرنے سے پہلے مشورہ کرلیا کرو؛کیونکہ اگر میں فرشتوں سے مشورہ کرلیتا تو مجھے یہ تکلیف نہ اٹھانی پڑتی۔

______________________
••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

  یہ پانچ نصیحتیں "مکاشفة القلوب " للامام الغزالي میں بلا سند منقول ہیں؛ لہذا اس کو حدیث ماننے میں تامل ھے؛کیونکہ امام غزالی رح نے مذکورہ کتاب میں ہر طرح کی روایات جمع کی ہیں.انکی صحت و سقم کے بغیر, البتہ یہ باتیں شیعی کتب میں بکثرت موجودہیں۔

🔷 مکاشفت القلوب/78, باب :26, عنوان: طول امل۔

➖➖➖➖➖➖➖

◾حضرت مجاہد حضرت ابن عمر رض سے روایت کرتے ہیں: جب صبح کرو تو شام کی فکر نہ کرو! اور جب شام کرو تو دوسری صبح کی فکر نہ کرو! موت سے پہلے زندگی کو اور بیماری سے۔پہلے تندرستی کو غنیمت جانو!کیونکہ پتہ نہیں کل تمہارا کیا ھو!!

 یہ روایت بخاری, حلیہ الاولیاء, اور صحیح ابن حبان میں مذکور ھے۔

⬅ روایت :

أخَذ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم بمَنكِبِي - أو قال بمَنكِبَيَّ - فقال : ( كُنْ في الدُّنيا كأنَّك غريبٌ أو عابرُ سبيلٍ ) قال:فكان ابنُ عُمَرَيقولُ : إذا أصبَحْتَ فلا تنتظِرِالمساء وإذا أمسَيْتَ فلا تنتظِرِ الصَّباحَ وخُذْ مِن صحَّتِكَ لِمرضِكَ ومِن حياتِكَ لِموتِكَ .

الراوي: عبدالله بن عمر 
المحدث: ابن حبان - المصدر: صحيح ابن حبان - الصفحة :472
المجلد:2
رقم الحدیث:698
خلاصة حكم المحدث: صحیح
==============
مکاشفت القلوب
الراوی: ابن عمر
المحدث: الغزالی
الصفحہ: 78

وﷲ تعالی اعلم.

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

https://majlisulemaedeoband.blogspot.com

Friday, November 17, 2017

Hazrat Musa As Aur Jari booti, Wild plant ◼حضرت موسی اور جڑی بوٹی◼

◼حضرت موسی اور جڑی بوٹی◼

   میں نے ایک واعظ صاحب کو سنا, انہوں نے دوران وعظ ایک واقعہ حضرت موسی ع کا سنایا: کہ ایک بار حضرت موسی ع کو پیٹ میں درد کی شکایت ہوئی, تو وہ کوہ طور پر تشریف لے گئے اور ﷲ تعالی سے دعا کی تو ﷲ نے فرمایا: موسی! جاؤ! فلاں جڑی بوٹی ھے اسکا استعمال کرو؛ تمہارا درد ختم ہوجائیگا۔
   انہوں نے استعمال کیا تو درد جاتا رہا.   پھر ایک روز درد کی شکایت ہوئی تو اس مرتبہ موسی ع طور پر نہیں گئے اور سابقہ علاج از خود کیا تو اس بار شفا نہ ملی, تو اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا:کہ موسی! شفا دینا یا نہ دینا سب ہمارے قبضہ قدرت میں ھے تم کو ہم سے پوچھ کر ہی دوبارہ وہ علاج کرنا تہا. 

مجھے اس واقعے کی سند مطلوب ھے!

*باسمہ تعالی* 
*الجواب وبہ التوفیق:* 

     بعینہ ان الفاظ میں یہ واقعہ تہ ملا؛ البتہ ایک واقعہ اسی کے بالکل قریب ھے وہ درج ذیل ھے۔
  کہ حضرت موسی کو کوئی عارضہ لاحق ھوا جسکی دوا قوم موسی کو معلوم تہی, قوم نے کہا: کہ حضرت فلاں دوا اور جڑی بوٹی استعمال کیجئے شفا ہوجائیگی, تو حضرت موسی ع نے فرمایا:   میں وہ دوا استعمال نہ کرونگا تاآنکہ ﷲ خود ہی بلا دوا کے مجھے شفایاب نہ کردے. چنانچہ حضرت موسی ع کی بیماری طویل ہوگئی اور شفا نہ ہوئی, تو ﷲ نے وحی بھیجی! کہ موسی تم اپنے توکل سے میری حکمت کو باطل کرنا چاھتے ہو, جاؤ! قوم کی بتائی ہوئی دوا کا استعمال کرو تب ہی ہم شفا دینگے, چنانچہ حضرت موسی نے تعمیل کی اور شفا حاقل ہوئی, تب ﷲ نے فرمایا: کہ تمام دواؤں اور جڑی بوٹیوں میں شفا فقط میں نے رکھی ھے, تمہارا دوا کا استعمال کرنا توکل کےخلاف نہیں ھے۔

 حضرت موسی کا قصہ ھے اسکی اصل عربی عبارت یہ ھے:

◼وفي الاسرائيليات: " ان موسى بن عمران (ع) اعتل بعلة، فدخل عليه بنو إسرائيل، فعرفوا علته، فقالوا له: لو تداويت بكذا لبرئت، فقال: لا اتداوى حتى يعافيني الله من غير دواء. فطالت علته، فاوحى الله إليه: وعزتي وجلالي! لا ابرؤك حتى تتداوى بما ذكروه لك. فقال لهم: داووني بما ذكرتم. فداووه، فبرىء. فاوجس في نفسه من ذلك، فاوحى الله ـ تعالى ـ اليه: اردت أن تبطل حكمتي بتوكلك علي، فمن أودع العقاقير منافع الأشياء غيري؟ ". 

 ⚫ واقعہ کی تحقیق: 
 یہ واقعہ " جامع السعادات" میں بلا کسی سند مذکور ھے, اور خود صاحب کتاب نے اس واقعہ کو از قبیل اسرائیلیات کہا ھے, نیز کتاب کے مصنف ایک شیعہ ہیں.

حوالہ : 

[المصدر: جامع السعادات
المجلد/3,
 الصفحہ: 228, 
المؤلف: محمد مہدی النراقی- *العالم الشیعی*-
الطبع: مؤسسہ علمی مطبوعات, بیروت, لبنان]

  ◀   اسرائیلیات وہ باتیں جو بنی اسرائیل یعنی یہودیوں سے بکثرت منقول ہیں یا نصاریٰ سے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے رقم فرمایا کہ:

"اسرائیلیات یا اسرائیلی روایات ان روایات کو کہتے ہیں جو یہودیوں یا عیسائیوں سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے بعض براہِ راست بائبل یا تالمود سے لی گئی ہیں بعض منشاءاوران کی شروح سے اوربعض وہ زبانی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سینہ بسینہ نقل ہوتی چلی آئی ہیں اور عرب کے یہود ونصاری میں معروف ومشہور تھیں"۔ (علوم القرآن:۳۴۵)

⚫  *اسرائیلیات کا حکم*⚫

   اس سلسلہ میں تقریباًً علمائے امت نے ایک ہی جواب دیا ،الفاظ وتعبیرات اگر چہ مختلف ہیں؛ لیکن حکم ایک ہی ہے، آگے ہم مختلف علماء کرام کی تحریریں پیش کریں گے، 
سب سے پہلے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انہوں نے علامہ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں کہ: 
(۱)پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہوچکی ہے مثلا: فرعون کا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔ (۲)دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہوچکا ہے،مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ) بت پرستی میں مبتلا ہوگئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔
⚫ (۳) تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "لا تصدقوھا ولاتکذبوھا"۔ اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جاسکتی ہے *اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں*۔ (علوم القرآن:۳۶۴).


واللہ تعالی اعلم۔

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Thursday, November 16, 2017

Pan Khana ◼پان کھانا

◼پان کھانا

   کیا پان کھانا حدیث سے ثابت ھے؟

زید کہتا ہے کہ پان کھانے کی بہت تعریف حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے قول زید صحیح ہے یا غلط ہے؟

➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

جو شخص پان کھانے کی فضیلت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ثابت بتاتا ہے وہ بڑا جاہل بلکہ بے دین ہے اس کی بات بھی نہ سننا چاہیے۔

🔵 فتاوی رشیدیہ/123, ط: دار الاشاعت,اردو بازار, ایم اے جناح روڈ, کراچی۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

لکڑھارے کی بیوی

لکڑھارے کی بیوی

   کیا یہ بات درست ھے: کہ جنت میں سب سے پہلے جو خاتون جائنگیں وہ کسی لکڑھارے کی اہلیہ ہونگی؛ کیونکہ ان کا ایک عمل ایسا ھے: کہ جس کی وجہ سے وہ سیدہ فاطمہ رض سے بھی سبقت لے گئیں, کہ لکڑھارے کی بیوی اپنے شوہر کی انتہائی مطیع اور فرمانبردار تہی اس کا یہی عمل جنت میں عورتوں میں سب سے قبل جانے کا سبب بنا.

  وہ عمل فرمانبرداری کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ھے: 

⭕ڈائنا ڈی سوزا D.Disvza ھندوستان کی ایک مسیحی محقق ہیں۔ وہ فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرکے اس پر تبصرہ کرتی ہے۔ واقعہ یوں ہے، ایک دن حضرت محمدؐ نے اپنی صاحبزادی فاطمہؑ سے فرمایا، کیا کوئی ایسی خاتون ہے جس کی دعا آسمان تک پھنچنے سے پھلے ھی مقام قبولیت تک پھنچ جائے؟ حضرت فاطمہؑ اپنے والد بزرگوار کے بیان کیے ھوئے اس معیار پر اترنے والی خاتون سے ملاقات کی آرزومند تھیں۔ ایک دن آپ ایک لکڑھارے کی بیوی سے ملاقات کی خاطر ان کے ھاں گئیں۔ جونھی ان کے گھرکے سامنے پھنچی آپ نے اندر داخل ھونے کے لیے اس سے اجازت طلب کی۔ اس خاتون نے یہ کھہ کر آپ سے معذرت خواھی کی کہ میرے شوھر ابھی یھاں نھیں ہیں اور میں نے ان سے آپ کو گھر لانے کی اجازت بھی نھیں لی ہے لھذٰا آپ واپس چلی جائیے اور کل تشریف لائیے تاکہ میں ان سے اس حوالے سے اجازت لے سکوں۔ حضرت فاطمہؑ واپس لوٹ آئیں۔ جب اس عورت کا شوھر رات کو گھر آیا تو اس نے حال چال دریافت کیا۔ اتنے میں اس خاتون نے کھا کہ اگر پیغمبر اکرم کی بیٹی حضرت فاطمہؑ ھمارے ھاں آنا چاھے تو کیا ان کے لیے اجازت ہے؟ اس نے جوابا کھا، وہ آ سکتی ہیں۔ اگلے روز حضرت فاطمہؑ حضرت امام حسینؑ کو اپنے ھمراہ لیے دوبارہ اس کے پاس آئیں اور حسب سابق ان سے اندر داخل ھونے کی اجازت مانگی۔ اس خاتون نے دوبارہ یہ کھہ کر معذرت کی کہ میں نے صرف آپ کے لیے میرے شوھر سے اجازت لی ہے لیکن آپ کے ساتھ اس وقت آپ کا صاحبزادہ بھی ہے لھذٰا میں اجازت نھیں دے سکتی ھوں۔ حضرت فاطمہ دوبارہ لوٹ آئی۔ رات کو جب اس عورت کا شوھر واپس لوٹ آیا اور حال احوال دریافت کیا تو اس کی بیوی نے پوچھا: کیا پیغمبر اکرمؐ کے گھرانے سے کوئی ھمارے ھاں آئے تو اس کے لیے اجازت ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اس طرح حضرت فاطمہ تیسری مرتبہ لوٹ آئیں اور اس لکڑھارے کی بیوی سے ملاقات کی۔ 

🔷 اس واقعے کی عربی عبارت:

{ أمرأة الحطاب~تسبق فاطمه بنت رسول الله الى الجنةماذا فعلت؟}


السيدة فاطمة جاءت إلى الرسول عليه الصلاة والسلام وسألته : يا رسول الله من أول النساء دخولاً إلى الجنة؟ فيقول صلى الله عليه وسلم: إنها امرأة الحطاب، فمن هي امرأة الحطاب ؟ ماذا كانت تفعل حتى تستبق بنت سيدنا محمد عليه الصلاة والسلام إلى الجنة عندما سئلت امرأة الحطاب كيف أنت مع زوجك؟ وهي امرأة أمية وليست حاصلة على ليسانس أو بكالوريوس أو دكتوراه فالجنة ليست بكالوريوس أو بالجنسية الأمريكية، الجنة بتقوى الله " إن أكرمكم عند الله أتقاكم " امرأة حطاب تسبق بنت سيدنا إلى الجنة؟! عندما سئلت زوجة الحطاب كيف أنت مع زوجك ؟ قالت : إذا خرج إلى الجبل يبحث عن رزقنا أشعر بالعناء الذي يلقاه في سبيل رزقنا وأشعر بحرارة عطشه كأنها في حلقي ! فأعد له الماء البارد حتى إذا جاء وجدني وقد رتبت منامي وطهيت طعامي وغيرت ثيابي حتى إذا ما ولج من الباب استقبلته كما تستقبل العروس عروسها الذي تعشقه ثم إذا أراد الراحة أعنته عليها وإذا أرادني كنت بين يديه كصبية صغيرة يتلهى بها أبوها، هكذا وصلت إلى أن تسبق بنت سيدنا محمد عليه الصلاة والسلام.

مجھے اس بارے میں تشفی بخش جواب سے نوازیں!
➖➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

  آپ کے سوال کے تین اجزاء ہیں: 
1) جنت میں سب سے پہلے جانیوالی عورت.
2) اردو زبان میں ارسال کردہ واقعہ.
3) عربی میں ارسال کردہ عبارت۔

1⃣ پہلی بات کے متعلق اتنا عرض ھے: کہ عورتوں میں  سب سے پہلے  جنت میں جانی والی خاتون لکڑھارے کی بیوی کے متعلق کسی بہی روایت میں مذکور نہیں؛ البتہ " مستدرک حاکم" میں ایک روایت ھے: کہ جنت میں سب سے پہلے خواتین میں سے جانیوالی " حضرت فاطمہ بنت رسول صلیﷲ علیہ وسلم" ہونگی؛ اور اس روایت پر امام ذہبی رح کا کلام ھے کہ یہ روایت منکر ھے. 
➗➗➗➗➗➗➗

⬅ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَمْرٍو الْبَجَلِيُّ ، ثَنَا الأَجْلَحُ الْكِنْدِيُّ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَنَا وَفَاطِمَةُ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَمُحِبُّونَا ؟ قَالَ : " مِنْ وَرَائِكُمْ " . 

 📝 ترجمہ: حضرت علی سے مروی ھے: کہ مجھے حضور کریم نے خبر دی کہ جنت میں سب سے پہلے میں, فاطمہ, اور حسن و حسین جاینگے, تو میں نے عرض کیا: یا رسولﷲ! اور ہمارے چاہنے والے؟ (کب داخل ہونگے)
 تو آپ نے جواب دیا: کہ تمہارے سب کے بعد میں۔

◀ یہ روایت چونکہ منکر یعنی زیادہ ضعیف ھے؛ لہذا اس کو بیان کرنے میں احتیاط کرنی چاھئے۔
===============
المصدر: المستدرک علی الصحیحین.
المحدث: حاکم
الراوی: علی 
المجلد:3
الصفحہ:177
رقم الحدیث:4786
الناشر: دار الحرمین للطباعہ والنشر والتوزیع, مصر.
~~~~~~~~~~~~~~~
 البتہ اتنا ضرور ھے: کہ سیدہ فاطمہ جنت میں عورتوں کی سردار ہونگی۔

⏪عَنْ حُذَيْفَةَ ، عن النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ( إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلِ الأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ ، اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الجَنَّةِ ، وَأَنَّ الحَسَنَ وَالحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الجَنَّةِ)۔
📝 ترجمہ: ایک (طویل )روایت میں ھے: کہ حضور نے فرمایا: کہ یہ فرشتہ آج سے قبل زمین پر نہیں آیا, اس نے ﷲ سے زمین پر آکر مجھے سلام پیش کرنے اور یہ خوشخبری سنانے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہونگی, اور حضرات حسنین رض جنتی نوجوانوں کے سردار ہونگے۔

المصدر: الترمذی
المحدث: ابو عیسی 
الراوی: حذیفہ
المجلد:5
الصفحہ: 661
رقم الحدیث: 3781
الناشر: شرکہ ومطبعہ مصطفی البابی الحلبی. مصر۔
خلاصہ حکم المحدث: صحیح
~~~~~~~~~~~~~~
المصدر: المستدرک
المحدث: حاکم
الراوی:حذیفہ
المجلد:3
رقم الحدیث:4784
الناشر: دار الحرمین للطباعہ والنشر والتوزیع مصر.
➖➖➖➖➖➖➖➖

2⃣ دوسرا جزء: 
 اردو میں ارسال کردہ واقعہ ایک غیر مسلمہ مؤرخہ کی جانب سے۔ھےجیساکہ خود آپ کی پوسٹ سے ظاہر ھے, لیکن اس میں کہیں بہی یہ مذکور نہیں کہ لکڑھارے کی بیوی جنت میں سب سے پہلے داخل ہوگی۔ اور مذکورہ واقعہ بہی بے سند ھے. شیعوں کے مضامین و مقالات میں مذکور ھے۔

(نقد و بررسی شخصیت حضرت فاطمہ زہراؑ از نگاہ مستشرقان با رویکرد قرآنی، *محمد عسکری*، ص۱۲۱تا۱۲۲۔ ۹۹تا ۱۱۳)
••••••••••••••••••••••
3⃣ تیسرا جزء: 
ارسال کردہ عربی عبارت کسی نے مذکورہ اردو واقعے کی تعریب کی ھے, جسکی عبارت لکہنے والے کے مبلغ علم کی جانب مشیر ھے:کہ وہ  ایک طفل مکتب ھے, عربیت سے زیادہ شناسائی نہیں ھے۔البتہ اس عربی عبارت میں عنوان ڈالا گیا ھے کہ لکڑھارے کی بیوی جنت میں حضرت فاطمہ سے قبل داخل ہوگی, اور آخر میں نتیجہ کے طور پر اس عورت کو حضرت فاطمہ سے بڑھا ہوا بہی بتلایا ھے, جس سے حضرت فاطمہ کی شان مجروح ضرور ہوتی ھے کہ ایک عام عورت لخت جگر رسول سے پہلے جنت میں جائیگی , لہذا اس بات کو ہرگز نہ مانا جائے اور نہ ہی بیان کیا جائے۔


وﷲ تعالی اعلم

✍🏻کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Wednesday, November 15, 2017

◼ستر ہزار پردوں کا فاصلہ◼

◼ستر ہزار پردوں کا فاصلہ◼

واٹس ایپ اور فیس بک پر ایک بات بہت مشہور ھے اسکی کیا حقیقت ھے؟
   ⬅ کہ ایک بار حضرت موسی نے ﷲ سے پوچھا: کہ جتنا میں آپ سے قریب ہوں " آپ سے بات کرسکتا ہوں اتنا کوئی اور بہی آپ کے قریب ھے؟
  ﷲ نے فرمایا: کہ اے موسی! آخری زمانے میں ایک امت آئیگی - وہ امت محمدیہ ہوگی- اور اس امت کو ایک ماہ ایسا ملیگا جس میں وہ سوکھے ہونٹوں, پیاسی زبان, سوکھی ہوئی آنکھیں, اور بہوکے پیٹ کے ساتھ جب افطار کرنے بیٹھے گی , تب میں ان کے بہت قریب رہونگا, 
 موسی! تمہارے اور میرے بیچ میں ستر ہزار پردوں کا فاصلہ ھے؛ لیکن افطار کے وقت اُس امت اور میرے درمیان ایک بھی پردے کا فاصلہ نہیں ھوگا۔

  اور وہ جو دعایئں مانگے گیں, اسے قبول کرنا میری ذمہ داری رہیگی۔
اگر میرے بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ھے, تو وہ سب تمنا کرتے کہ کاش پورا سال رمضان ہی ہو!!
➖➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  یہ روایت دو باتوں پر مشتمل ھے:
1⃣ حضرت موسی ع اور ﷲ تعالی کے درمیان ستر ہزار حجابات کا حائل ہونا اور امت محمدیہ و خدا تعالی کے درمیان بوقت افطار ایک بہی پردے کا نہ ہونا,

2⃣ افطار کے وقت مانگی جانیوالی دعا کا قبول ہونا۔

➗➗➗➗➗➗➗

⚫ پہلی بات کی تحقیق:

  یہ بات ہمارے عقیدے کے لحاظ سے قطعا درست نہیں ھوسکتی؛ کیونکہ اس میں ایک عظیم القدر , جلیل الشان رسول و پیغمبر کی تقصیر لازم آرھی ھے؛ کیونکہ امتی خواہ کسی بھی امت کا ہو؛ لیکن وہ انبیاء سے مراتب اور درجات میں نہیں بڑھ سکتا ھے۔اگر ایسا ممکن ہوتا تو حضرت ابوبکر صدیق رض سے زیادہ اس رتبے کا مستحق کوئی نھیں تہا؛ لیکن وہ پھر افضل البشر بعد الانبیاء ( انبیاء کے بعد افضل ترین بشر) ہیں۔ 
تو ایک عام امتی روزہ رکھ کر حضرت موسی ع سے کس طرح بڑھ سکتا ھے؟
لہذا اب یہی کہا جائیگا کہ اس بات کا بیان کرنا یا نشر کرنا کسی بھی صورت جائز نہیں۔

  ◾مذکورہ روایت کا ماخذ: 

  یہ روایت بلا سند مشہور مؤرخ و ادیب " عبد الرحمن بن عبد السلام الصفوری الشافعی رح نے اپنی کتاب•• « نزهة المجالس و منتخب النفائس »•• میں  رمضان کی فضیلت اور اس ماہ میں اعمال صالحہ کی ترغیب کے تحت ذکر کی ھے. 


🔵 نزهة المجالس كي اصل عبارت:

◀" أن موسى عليه الصلاة والسلام قال : يا رب ! لقد شرفتني بالتكلم معك بلا ترجمان , فهل أعطيت هذا الشرف لغيري ؟ فيقول الله سبحانه وتعالى : يا موسى ! سوف أرسل أمة من الأمم - والتي هي أمة محمد صلى الله عليه وسلم - وهم ذو شفاه وألسن جافة , وأجسام نحيلة هزيلة ، وسوف يدعونني فيكونوا أقرب إلي منك . يا موسى ! بينما أنت تتكلم معي ، هناك 70000 حجاب بيني وبينك , لكن عند وقت الإفطار سوف لن يكون هناك أي حجاب بيني وبين أمة محمد صلى الله عليه وسلم "
يا موسي طوبي لمن اعطش كبده واجاع بطنه في رمضان. 

وقال كعب الاحبار: اوحي الله الي موسي اني كتبت علي نفسي ان ارد دعوة صائم رمضان. 

(نزهة المجالس/1.ص:165)


2⃣ مذکورہ بات کا دوسرا جزء:

🔷  *روزے دار کی دعا کا افطار کے وقت قبول ہونا*

  یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ھے: کہ روزے دار کی دعا بوقت افطار قبول کی جاتی ھے, رد نہیں کیجاتی ھے۔

 عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( ثَلَاثٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ، الإِمَامُ العَادِلُ، *وَالصَّائِمُ حِينَ يُفْطِر*ُ، وَدَعْوَةُ المَظْلُومِ يَرْفَعُهَا فَوْقَ الغَمَامِ، وَتُفَتَّحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ ) 

 حضرت ابوہریرہ رض سے (ایک طویل حدیث) میں مروی ھے: کہ تین لوگوں کی دعا رد نہیں کیجاتی,
 1) انصاف پرور بادشاہ کی, 
2) روزے دار کی جب وہ افطار کرے,
 3) مظلوم کی دعا جب وہ اللہ سے گہار لگائے تو اسکی دعا بادلوں سے اوپر  جاتی ھے, جسکی وجہ سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں, اور ﷲ تبارک و تعالی قسم کہاکر اسکی مدد اور فریاد رسی کا وعدہ کرتے ہیں.

المصدر: جامع الترمذی
المحدث: ابوعیسی الترمذی
الراوی: ابوہریرة
المجلد: 4
الصفحة: 672
رقم الحدیث: 2526
خلاصةحکم المحدث: صحیح
مکان الطبع: شرکة و مطبعة مصطفی البابی الحلبی , مصر.

والله تعالي اعلم

✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*

Kids five habbits بچوں کی پانچ عادتیں

بچوں کی پانچ عادتیں

     لوگوں میں یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ نبی ﷺ کو بچوں کی پانچ عادتیں محبوب تھیں۔

روایت کا متن اس طرح سے ہے :

⚫   إنِّي‌ أُحِبُّ مِنَ الصِّبْيَانِ خَمْسَةَ خِصَالٍ: الاَوَّلُ أَنَّهُمْ البَاكُونَ، الثَّانِي‌: عَلَي‌ التُّرَابِ يَجْتَمِعُونَ، الثَّالِثُ: يَخْتَصِمُونَ مِنْ غَيْرِ حِقْدٍ، الرَّابِـعُ: لاَ يَدَّخِرُونَ لِغَدٍ، الخَامِسُ: يَعْمُرُونَ ثُمَّ يُخْرِبُونَ.

مفہوم روایت :

⬅ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مجھے بچوں کی پانچ عادتیں بہت پسند ہیں۔
(1)وہ رو کر مانگتے ہیں اور اپنی بات منوالیتے ہیں۔
(2)وہ مٹی سے کھیلتے ہیں اور غرور تکبر خاک میں ملادیتے ہیں۔
(3)جو مل جائے کھا لیتے ہیں زیادہ جمع یا ذخیرہ کرنے کی ہوس نہیں رکھتے
(4)لڑتے ہیں جھگڑتے ہیں اور پھر صلح کرلیتے ہیں یعنی دل میں حسد ، بغض اور کینہ نہیں رکھتے۔
(5)مٹی کے گھر بناتے ہیں۔ کھیل کر گرادیتے ہیں یعنی وہ بتاتے ہیں کہ یہ دنیا باقی رہنے والی نہیں بلکہ ختم ہوجانے والی ہے۔

➖➖➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  یہ بات کسی بھی حدیث کی کتاب میں موجود نہیں ھے, یہاں تک کہ کسی موضوع و من گھڑت روایت میں بہی اسکا ذکر نہیں ملا۔
➗➗➗➗➗➗➗

🔵 اس بات کا ماخذ: 

 یہ بات شیعوں کی کتاب           " الروح المجرد" میں مذکور ھے, جسکا مصنف ایک غالی اور متشدد شیعہ ھے, اس کتاب میں شیخین رض اور ائیمہ اربعہ بالخصوص امام اعظم ابوحنیفہ رح کی ذات پر کیچڑ اچھالا ھے۔ 
  
⭕ "الروح المجرد " کی اصل عبارت:
⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇

كان الحداد يقول: لشدة ما يفرحني كلام رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم هذا، فهو يبهجني ويبعث في السرور كلما ذكرته، فقد قال:

{ *إني أحب من الصبيان خمسة خصال: الأول أنهم الباكون، الثاني: على التراب يجتمعون، الثالث: يختصمون من غير حقد، الرابع: لا يدخرون لغد، الخامس:يعمرون ثم يخربون*.}

والمراد بذلك إن الأطفال باعتبار قربهم من الفطرة ، أي قربهم من التوحيد، خالون من الأنانية الجوفاء والاستكبار الواهي والشخصية المجازية، لذا فلا يوجد لديهم الضحك الباعث على الغفلة، والعمارة الباعثة على البهجة، والأحقاد المستحكمة بالرغم من كونها بلا داع، وينعدم لديهم حب اكتناز الأموال وادخارها على أساس من الوهم والتخيل ، والاعتماد على الدنيا والتعلق بها، أي أنهم بأجمعهم من أهل التوحيد بالفطرة، كما أن فنائهم في ذات الله سبحانه أشد ، فصاروا بذلك مورد اهتمام النبي وحبه الشديد.

أما حين يصل هؤلاء إلى فترة غرور الشباب والكهولة وإلى زمن الهرم فسيكتنفهم غرور الشهوة والغضب ،والأوهام والاعتباريات وسيملأ عقولهم حب المال والجاه والاعتبار، فيفقدون جميع تلك الغرائز النقية والفطرة السليمة البكر ، ويعشقون الباطل في مقابل الحق ويبيعون عمرهم وحياتهم وثروتهم العلمية وقدرتهم وأمنهم مجانا بل مقابل خسائر عظيمة .

وهذا ما يوجب البعد عن رحمة الله ، والإقصاء والناي عن وادي المحبة،
إلا من عصمه الله وقليل ما هم.
~~~~~~~~~~~~~~~

المصدر: الروح المجرد
الراوی: ھاشم الموسوی الحداد
المؤلف: محمد حسین حسینی طہرانی۔
الصفحہ: 596
مکان الطبع: مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی,

خلاصہ حکم الراوی والمؤلف: کلاھما عالمان رافضان۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Monday, November 13, 2017

آیات قرآنی سے جواب دینے والی عورت, قصہ، Qisa ki tehqiq, Story reality

آیات قرآنی سے جواب دینے والی عورت

   ایک عورت کا قصہ جو بہت مشہور ھے: کہ وہ ہر بات کا جواب قرآنی آیات سے دیا کرتی تہیں اس واقعہ میں کتنی صداقت ھے؟

➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

  سب سے پہلے تو یہ بات معلوم ہونی ضروری ھے کہ وہ محض ایک حکایت اور واقعہ کی حیثیت سے کتب میں ذکر کیا جاتا ھے. جن لوگوں نے بہی اسکو ذکر کیا ھے کسی نے بھی روایت حدیث یا آثار صحابہ کی حیثیت سے نقل نہیں کیا؛
  مذکورہ واقعے کے متعلق شیخ عثیمن حنبلی رح کا قول یہ ھے: کہ یہ واقعہ غلط ھے؛ کیونکہ اس عورت کو اپنی ہر بات کے لئے آیت قرآنی ملنی مشکل ھے, اور اگر ملتی بہی ہو تو اس سے اپنی بات کا استنباط اور افہام مشکل ھے۔ 
 أنكر الشيخ ابن عثيمين قصة المرأة المتكلمة بالقرآن من حيث فعلها جدا .

ولا أظنها تصح ، ولا يمكن أن تجد لكل شيء آية من كتاب الله

وما قد تجده ستتكلف في الاستدلال له أو الاقتباس۔


⚫ مذکورہ واقعے کی عربی عبارت: 


 ⬅ قال عبد الله بن المبارك: خرجت حاجاً إلى بيت الله الحرام , وزيارة قبر نبيه عليه الصلاة والسلام, فبينما انا في الطريق إذا بسواد, فتميزت ذاك؛ فإذا هي عجوز عليها درع من صوف وخمار من صوف فقلت: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته, فقالت "سلام قولاً من رب رحيم" فقلت لها يرحمك الله ماتصنعين في هذا المكان؟ قالت: "ومن يضلل الله فلا هادي له" فعلمت أنها ضاله الطريق فقلت لها أين تريدين؟؟ قالت: "سبحان الذي اسرى بعبده ليلاً من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى"، فعلمت أنها قد قضت حجتها وهي تريد بيت المقدس, فقلت لهل انت كم لك في هذا الموضع؟؟ قالت: "ثلاث ليالٍ سويا" فقلت ما أرى معاك طعاماً تأكلين؟! ,قالت: "هو يطعمني ويسقين"، فقلت بأي شئ تتوضئين؟؟ قالت: "فلم تجدوا ماءً فتيمموا صعيداً طيباً" فقلت لها إن معي طعاماً, قالت: "ثم اتموا الصيام إلى الليل" فقلت هذا ليس شهر رمضان, فقالت: "ومن تطوع خيراً فإن الله شاكرٌ عليم" فقلت قد أبيح لنا الأفطار في السفر!! فقالت: "وأن تصوموا خير لكم إن كنتم تعلمون"، فقلت: لم لا تكلميني مثل ما أكلمك؟؟ قالت: "ما يلفظ من قول إلا لديه رقيب عتيد" فقلت :فمن أي الناس أنت؟؟ قالت"ولا تقف ماليس لك به علم أن السمع والبصر والفؤاد كل أولئك كان عنه مسئولا"، فقلت: أخطأت فاجعليني في حلٍ, قالت: "لا تثريب عليكم اليوم يغفرالله لكم"، فقلت فهل لك أن أحملك على نافتي فتدركي القافله؟؟ فقالت: "وماتفعلوا من خير يعلمه الله"، فأنخت ناقتي، قالت:"قل للمؤمنين يغضوا من أبصارهم"، فغضضت بصري, وقلت لها أركبي، فلما أرادت أن تركب نفرت الناقه, فمزقت ثيابها فقالت : "وما أصابكم من مصبيه فبما كسبت أيديكم"، فقلت لها أصبري حتى أعقلها، قالت"ففهمناها سليمان"، فعقلت الناقه وقلت لها أركبي فلما ركبت, قالت: "سبحان الذي سخر لنا هذا وماكنا له مقرنين وإنا إلى ربنا لمنقلبون"، فأخذت بزمام الناقه وجعلت أسرع وأصيح فقالت: "وأقصد في مشيك واغضض من صوتك"، وجعلت أمشي رويداً رويداً وأترنم بالشعر؛ فقالت: "فاقرءوا ماتيسر من القران"، فقلت لها:لقد أوتيت خيراً كثيراً, وقالت: "ومايذكر إلا أولوا الألباب" فلما مشيت بها قليلا قلت: ألك زوج؟؟ فقالت: "يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبدَ لكم تسؤكم" فسكت, ولم أكلمها حتى أدركت بها القافله، فقلت لها: هذه القافله فمن لك فيها؟ فقالت: "المال والبنون زينة الحياة الدنيا"، فعلمت أن لها أولاداً ,فقلت ماشأنهم في الحج؟؟ قالت:"وعلامات وبالنجم هم يهتدون"، فعلمت أنم أدلاء الركب، فقصدت بها القباب والعمارات فقلت: هذه القباب من لك فيها؟؟ فقالت: "واتخذ الله إبراهيم خليلا","وكلم الله موسى تكليما", "يا يحيى خذ الكتاب بقوة" فناديت: يا إبراهيم, يا موسى, يا يحيى.. فإذا بشبان كأنهم الأقمار قد أقبلوا, فلما استقر بهم الجلوس, قالت: "ابعثوا أحدكم بورقكم هذا إلى المدينه فلينظر ايها أزكى طعاماً فليأتكم برزق منه" فمضى أحدهم فاشترى طعاماً فقدموه بين يدي, وقالت :"كلوا واشربوا هنيئاً بما اسلفتم في الأيام الخاليه"، فقلت: الآن طعامكم على حرام حتى تخبروني بأمرها. فقالوا: هذه أُمنا منذ أربعين سنه لم تتكلم إلا بالقرآن, مخافة أن تزل فيسخط عليها الرحمن, فسبحان القادر على ماشاء فقلت "ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم".

 قرآنی آیات پڑھنے والی عورت کا واقعہ معتبر سند کے ساتھ کسی کتاب میں نہیں ملا۔ شہاب الدین محمد بن احمد الفتح الابشیھی (پیدائش۷۹۰ھ وفات ۸۵۰ھ) نے بغیر کسی سند اور بغیر حوالے کے یہ قصہ امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ (متوفی ۱۸۱ھ ) سے نقل کیاہے ۔ اس قصے میں عورت کا نام مذکور نہیں ہے ۔ دیکھئے المستطف فی کل فن مستظرف ( ج ۱ ص ۵۶، ۵۷ حکایۃ المتکلمۃ بالقرآن ، الباب الثامن فی الأجوبۃ المسلتۃ والمستحسنۃ )
یہ بلا سند حوالہ مردود اور موضوع کے حکم میں ہے ۔ یہاں بطورِ تنبیہ عرض ہے کہ کتاب ’’ المتسرف ‘‘ فضول ،بے اصل اور موضوع قصوں والی کتاب ہے لہذا س کتاب پر اعتماد کرنا غلط ہے ۔

اس سے ملتا جلتا  واقعہ " حلیہ الاولیاء" میں عبد ﷲ بن داود الواسطی سے مروی ھے۔ 


  دیکھئے! 
حلیہ الاولیاء/10, صفحہ:182, ط: دار الفکر, بیروت لبنان۔
_____________

  اور "حلیہ "واقعہ   "روضہ العقلاء" میں اصمعی سے مروی ھے, 

قال الإمام ابن حبان: أنبأنا عمرو بن محمد الأنصاري، حدثنا الغلابي، حدثنا ابرهيم بن عمرو بن حبيب، حدثنا الأصمعي قال: بينا أنا أطوف بالبادية إذا بأعرابية تمشي وحدها على بعير لها، فقلت: يأ أمة الجبار، من تطلبين؟ فقالت: {من يهد الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له}، قال: فعلمت أنها قد أضلت أصحابها، فقلت لها: كأنك قد أضللت أصحابك؟ فقالت: {ففهمناها سليمان وكلا أتينا حكماً وعلماً}، فقلت لها: يا هذه، من أين أنت؟ قالت: {سبحان الذي أسرى بعبده ليلاً من المسجد الحرام إلى المسجد الأقصى الذي باركنا حوله}، فعلمت أنها مقدسية، فقلت لها: كيف لا تتكلمين؟ قالت: {ما يلفظ من قول إلا لديه رقيب عتيد}، فقال أحد أصحابي: ينبغي أن تكون هذه من الخوارج! فقالت: {ولا تقف ما ليس لك به علم إن السمع والبصر والفؤاد كل أولئك كان عنه مسؤولاً}، فبينما نحن نماشيها، إذ رفعت لنا قباب وخيم، فقالت: {وعلامات وبالنجم هم يهتدون}، قال: فلم أفطن لقولها، فقلت: ما تقولين؟ فقالت: {وجاءت سيارة فأرسلوا واردهم فأدلى دلوه قال يا بشرى هذا غلام}، قلت: بمن أصوت وبمن أدعو؟ قالت: {يا يحيى خذ الكتاب بقوة}، {يا زكريا إنا نبشرك}، {يا داوود إنا جعلناك خليفة في الأرض}، قال فإذا نحن بثلاثة إخوة كاللآلىء، فقالوا: أمنا ورب الكعبة، أضللناها منذ ثلاث، فقالت: {الحمد لله الذي أذهب عنا الحزن إن ربنا لغفور شكور}، فأومأت إلى أحدهم فقالت: {فابعثوا أحدكم بورقكم هذه إلى المدينة فلينظر أيها أزكى طعاماً فليأتكم برزق منه}، فقلت: إنها أمرتهم أن يزودونا، فجاؤوا بخبز وكعك، فقلت: لا حاجة لنا في ذلك، فقلت للفتية: من هذه منكم؟ قالوا: هذه أمنا، ما تكلمت منذ أربعين سنة إلا من كتاب الله، مخافة الكذب، فدنوت منها، فقلت: يا أمة الله أوصني، فقالت: {ما أسألكم عليه أجرأً إلا المودة في القربى}، فعلمت أنها شيعية، فانصرفت.أ.ه.

دیکھئے! 
روضہ العقلاء لابن حبان, صفحہ: 49, ط: المکتبہ السنہ المحمدیہ۔


⚫ خلاصہ کلام:
 اصمعی سے منسوب روایت بھی موضوع(من گھڑت) ہے؛ لہذا ایسی باتوں کو سچ نہیں مانا جاسکتا ھے۔


 وﷲ تعالی اعلم۔

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

◼رزق کی بارش◼ Rizq ki barish ,Maximum income Amount

◼رزق کی بارش◼

  ایک شخص حضور کی خدمت میں حاضر ھوا اور عرض کیا: کہ یا رسول ﷲ!  دنیا نے مجھ سے پیٹھ پھیر لی ھے, تو حضور نے فرمایا: کیا تجھے فرشتوں کی تسبیح معلوم نہیں ھے؟ جس سے روزی کی فراوانی ہوگی. 
  وہ تسبیح یہ ھے: سبحان ﷲ وبحمدہ سبحان ﷲ العظیم,  استغفر ﷲ ۔ 
  جو اسکو 100 بار پڑھے گا دنیا اسکے پاس چلی آئیگی۔
  ابہی سات دن نہ گزرے تہے کہ وہ شخص دوبارہ حاضر خدمت ہوا اور بولا: کہ اے ﷲ کے نبی ! میرے پاس دنیا اس قدر آگئی ھے کہ اب مجھ سے نہیں سنبہلتی کہ کہاں رکھوں,

👆🏻 اس روایت کی تحقیق مطلوب ھے۔

➖➖➖➖➖➖➖

  ••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

   یہ روایت متعدد کتب حدیث میں منقول ھے؛ لیکن اسکے تمام طرق ضعیف ھیں, لہذا اس پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جاسکتا ھے۔ 

_____________
🔵  قال رجلٌ: يا رسولَ اللهِ إنَّ الدنْيا أَدْبرَتْ عنِّي ، فقال: أين أنتَ من صلاةِ الملائكةِ ، وتسبيحِ الخلائِقِ وبه تُرزَقُون ، قُلْ عندَ طلوعِ الفجرِ: سبحانَ اللهِ العظيمِ وبحمْدِه ، سبحانَ اللهِ العظيمِ ، أستغفرُ اللهَ مِئةَ مرةٍ: تأْتِكَ الدنيا صاغِرةً راغِمَةً.


    الراوي: عبدالله بن عمر 
    المحدث: ابن حجر العسقلاني
    المصدر:  لسان الميزان
    الصفحة أو الرقم:  5/133 
    خلاصة حكم المحدث:  [فيه] عبد الرحمن بن محمد اليحمدي شيخ مجهول.



⚫ هذا الحديث ضعيف ، لا يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم .

رواه الديلمي في "مسند الفردوس" (3731) ، ونقله الحافظ في "لسان الميزان" وقال : أخرجه الدارقطني في "الرواة عن مالك" ، وعزاه السيوطي في "الخصائص الكبرى" (2/262) للخطيب البغدادي في "رواة مالك" . 
وقال الحافظ ابن حجر في "لسان الميزان" (3/434) في ترجمة عبد الرحمن بن محمد اليحمدي ، ويقال التميمي : " شيخ مجهول ، روى عنه أحمد بن محمد بن غالب المعروف بغلام خليل وهو تالف ، وأخرج الدارقطني في " الرواة عن مالك " عن داود بن حبيب ، عن أحمد بن محمد بن غالب ، عنه ، عن مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر قال : قال رجل : يا رسول الله ! وذكر الحديث 
قال الحافظ ابن حجر : وأخرجه الخطيب من طريق أبي الفتح الأزدي ، عن عبد الله بن غالب ، عن غلام خليل ، عن عبد الرحمن بن محمد التميمي به .
وأخرج من طريق أبي حمة محمد بن يوسف ، عن يزيد بن أبي حكيم ، عن إسحاق بن إبراهيم الطهوي ، عن مالك نحوه ، وقال : لا يصح عن مالك ، ولا أظن إسحاق لقي مالكا . وقد رواه جماعة بأسانيد كلها ضعاف " انتهى باختصار.

وﷲ تعالی اعلم۔
✍🏻کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

شوہر کی اطاعت Shor ki attat , Obey Husband

شوہر کی اطاعت

  کیا یہ روایت درست ھے:کہ زمانۂ نبوی میں ایک عورت کے شوہر باہر گئے تو انہوں نے جاتے ہوئے اپنی بیوی کو پابند کیا کہ گھر سے باہر مت نکلنا, اور ان خاتون کے گھر کے پائیں مکان(نچلے حصے) میں انکے والد قیام پذیر تہے تو ان کے والد کو بیماری کا عارضہ ہوا تو ان خاتون نے حضور کریم سے معلوم کرایا کہ کیا میں والد کی عیادت کو جاسکتی ہوں جبکہ شوہر مجھے باہر جانے سے منع کرگئے ہیں؟
  تو حضور نے ارشاد فرمایا: کہ نہیں؛ بلکہ تم شوہر کی اطاعت کرو۔
  تبہی کچھ عرصہ بعد ان کے والد کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے پھر حضور سے معلوم کرایا: تب بہی یہی جواب ملا کہ نہیں جاسکتیں؛ اور شوہر کی ہی اطاعت کریں۔ تو ﷲ نے ان خاتون کی فرمانبرداری کے سبب ان۔کے والد کی مغفرت فرمادی۔

➖➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  جی یہ واقعہ درست ھے, اور حقیقت بہی یہی ھے کہ بیوی کو شوہر کی اتباع اور فرمانبرداری کرنا لازم ھے, بشرطیکہ وہ امر معصیت نہ ہو۔ یہی وجہ ھے کہ نبی کریم نے فرمایا: کہ اگر خدا کے بعد کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو کہتا کہ تم اپنے شوہروں کو سجدہ کرو!

⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇


🔵 واقعہ کا ماخذ: 

1⃣  أنَّ رجلًا خَرَجَ وأَمَرَ امرأتَهُ أن لا تخرجَ من بيتِها وكان أبوها في أسفلِ الدارِ وكانتْ في أعْلَاهَا فمَرِضَ أبُوها فَأَرْسَلَتْ إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فذَكَرَتْ لَهُ ذَلِكَ فقال أَطِيعِي زَوْجَكِ فماتَ أَبُوهَا فَأَرْسَلَتْ إِلَى النَّبِيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فقال أَطِيعِي زَوْجَكِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إنَّ اللهَ قَدْ غَفَرَ لِأَبِيهَا بطاعَتِهَا لِزَوجِهَا.


    الراوي: أنس بن مالك 
    المحدث: الهيثمي
    المصدر:  مجمع الزوائد
    الصفحة أو الرقم:  4/316 
    خلاصة حكم المحدث:  فيه عصمة بن المتوكل وهو ضعيف. 
__________________
2⃣  یہ روایت  " معجم الاوسط للامام طبرانی " میں  بھی مذکور ھے۔
المصدر: المعجم الاوسط
المحدث: الطبرانی
 رقم الحدیث 7648.
 رقم المجلد:7.
مکان الطبع: دار الحرمین, قاہرہ مصر۔

⚫ خلاصہ کلام: 

 یہ روایت " مجمع الزوائد" اور " المعجم الاوسط" میں ضعیف سند کے ساتھ مروی ھے؛ لیکن چونکہ یہ بات فضائل سے متعلق ھے تو اسکو بیان بہی کیا جاسکتا ھے اور آگے نشر بہی کیا جاسکتا ھے۔


 وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

گلاب کی حقیقت Gulab ki haqiqat Rose reality

گلاب  کی حقیقت

کیا یہ صحیح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معراج شریف سے واپسی پر میرے پسینہ کا ایک قطرہ زمین پر گر پڑا اور اس سے گلاب کا پھول پیدا ہوا، جو کوئی چاہتا ہے کہ میری خوشبو کو سونگھے تو وہ گلاب کے پھول کو سونگھ لے، ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائشِ مبارک کا قطر زمین پر گرا، زمین ہنسی اور گلاب کا پھول اُگ آیا۔ حوالہ: مدارج النوبت ، جلدنمبر/ ۱، صفحہ/۴۰۔
➖➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

یہ سب باتیں بے اصل ہیں؛ اس سلسلے میں کوئی روایت نہیں ھے, اور جو روایات بیان کی جاتی ہیں ان پر محدثین کا کلام ھے. لہذا ایسی باتوں کو نہ تو خود مانے اور نہ ہی آگے نشر یا بیان کرے.

⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇
عن أنس رضی اللہ عنہ مرفوعاً لما عرج بی الی السماء بکت الارض من بعدی فنبت اللصف من مائھا فلما رجعت قطر من عرقی علی الارض فنبت ورد احمر ألا من اراد ان یشم رائحتی فلیشم الورد الاحمر.

قال النووی: لایصح ,
وقال ابن حجر : موضوع .

 المصدر: المقاصد الحسنہ
المحدث: السخاوی
الراوی: انس بن مالک
الصفحہ:215
رقم الحدیث: 261
مکان الطبع: دار الکتاب العربی بیروت, لبنان۔

وﷲ تعالی اعلم۔
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

۔Aurat ,Girl ,Female ,Hell,Jhanumکیا ایک عورت کی بے پردگی کی وجہ سے 4 آدمی یعنی باپ, بہائی, بیٹا, اور شوہر جہنم میں جاینگے

کیا ایک عورت کی بے پردگی کی  وجہ سے 4 آدمی یعنی باپ, بہائی, بیٹا, اور شوہر جہنم میں جاینگے؟

➖➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

   بعینہ ان الفاظ میں کوئی روایت نہیں ملتی ھے کہ ایک عورت کی وجہ سے چار آدمیوں کو جہنم میں جانا پڑےگا؛ لہذا اس بات کو حدیث نہیں مانا جاسکتا ھے؛ البتہ بخاری شریف کی ایک روایت ھے جو امام مسلم نے بہی اپنی صحیح میں ذکر فرمائی ھے: کہ تم میں سے ہرکوئی ذمہ دار ھے, اور اپنی ذمہ داری کی بابت اس سے روز قیامت باز پرس ہوگی,  امام اپنی رعایا, شوہر اپنے اہل و عیال, اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور عزت, جبکہ خادم اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ھے,اگر ان ذمہ داریوں میں غفلت اور کوتاہی سے کام لیا گیا تو اسکا سوال قیامت میں کیا جائیگا۔
⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇
حديث : ( أربعة يُسألون عن حجاب المرأة : أبوها، وأخوها، وزوجها، وابنها ) فلا نعلم له أصلا . 
_____________________
  بخاری کی روایت: 
⬅ما رواه البخاري (893) - واللفظ له - ومسلم (1829) عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ( كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا ، وَالْخَادِمُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ) قَالَ : وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ : ( وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ) .

 •••••••••••••••••••••
   🔵 اس موضوع سے متعلق بہترین بات معارف القران کے حوالے سے:

قرآن کی ایک آیت ھے: 
*يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ*
(پارہ/28. سورہ تحریم, 66.آیت: 6)

     اے ایمان والو ! بچاؤ اپنی جان کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے جس کی چھٹیاں ہیں آدمی اور پتھر اس پر مقرر ہیں فرشتے تند خو زبردست نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جو بات فرمائے ان کو اور وہی کام کرتے ہیں جو ان کو حکم ہو ۔
=============
⚫ معارف ومسائل:

قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ ، الآیة، 
اس آیت میں عام مسلمانوں کو حکم ہے کہ جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی پھر نار جہنم کی ہولناک شدت کا ذکر فرمایا اور آخر میں یہ بھی فرمایا کہ جو اس جہنم کا مستحق ہوگا وہ کسی زور طاقت جتھہ یا خوشامد یا رشوت کے ذریعہ ان فرشتوں کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا جو جہنم پر مسلط ہیں جنکا نام زبانیہ ہے۔

لفظ اَهْلِيْكُمْ میں اہل و عیال سب داخل ہیں جن میں بیوی، اولاد، غلام، باندیاں سب داخل ہیں اور بعید نہیں کہ ہمہ وقتی نوکر چاکر بھی غلام باندیوں کے حکم میں ہوں۔ 
ایک روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر بن خطاب نے عرض کیا یا رسول اللہ اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کی فکر تو سمجھ میں آگئی (کہ ہم گناہوں سے بچیں اور احکام الٰہی کی پابندی کریں) مگر اہل و عیال کو ہم کس طرح جہنم سے بچائیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے ان کاموں سے ان سب کو منع کرو اور جن کاموں کے کرنے کا تم کو حکم دیا ہے تم ان کے کرنے کا اہل ویعال کو بھی حکم کرو تو یہ عمل انکو جہنم کی آگ سے بچا سکے گا .
(روح المعانی) 

🔵 *بیوی اور اولاد کی تعلیم و تربیت ہر مسلمان پر فرض ہے*

  حضرات فقہا نے فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال و حرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لئے کوشش کرے۔
 ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر اپنی رحمت نازل کرے جو کہتا ہے اے میرے بیوی بچو، تمہاری نماز، تمہارا روزہ، تمہاری زکوٰة، تمہارا مسکین، تمہارا یتیم، تمہارے پڑوسی، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اسکے ساتھ جنت میں جمع فرمائیں گے۔ تمہاری نماز، تمہارا روزہ وغیرہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کا خیال رکھو اس میں غفلت نہ ہونے پائے اور مسکینکم یتیمکم وغیرہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جو حقوق تمہارے ذمہ ہیں ان کی خوشی اور پابندی سے ادا کرو.

 اور بعض بزرگوں نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب میں وہ شخص ہوگا جس کے اہل و عیال دین سے جاہل وغافل ہوں (روح) .

 [معارف القران شفیعی/8, صفحہ: 502,ط: مکتبہ معارف القران, کراچی]

 وﷲ تعالی اعلم۔

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*