Friday, July 31, 2020

بکری کی سری

▪️ *بکری کی سِری* ▪️

   کسی صَحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بطورِہَدِیّہ ( یعنی بطور تُحفہ)  ایک صَحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے گھر بکری کی سری بھیجی تو اُنہوں نے یہ فرما کر کہ فُلاں میرا اسلامی بھائی اِس سری کا مجھ سے زیادہ ضَرورت مَند ہے ،  وہ سری اُس کے گھر بھیج دی تو اُنہوں نے کہا کہ فُلاں مجھ سے بھی زیادہ حاجت مند ہے اور یوں وہ  سری اُس صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  کے گھر بھجوا دی ۔ اِس طرح ایک نے دوسرے کے گھر اور دوسرے نے تیسرے کے گھر اُس سری کو بھیجا یہاں تک کہ وہ بکری کی سری سات گھروں میں گھومتی ہوئی پھر سے پہلے ہی صَحابی کے پاس پَہُنچ گئی۔

اس کا حوالہ مطلوب ھے:!!!

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

   جی ایثار و ہمدردی کے تحت یہ واقعہ حدیث میں مذکور ھے۔اور امام حؔاکم نیشاپوریؒ نے مستدرک میں اسکو ذکر کیا ھے:

🔰 حدثنا علي بن حمشاذ العدل ، ثنا محمد بن المغيرة السكري بهمدان ، ثنا القاسم بن الحكم العرني ، ثنا عبيد الله بن الوليد ، عن محارب بن دثار ، عن ابن عمر رضي الله عنهما قال : أهدي لرجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم رأس شاة ، فقال : " إن أخي فلانا وعياله أحوج إلى هذا منا " قال : فبعث إليه فلم يزل يبعث إليه واحدا إلى آخر حتى تداولها سبعة أبيات حتى رجعت إلى الأول فنزلت :
ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة
إلى آخر الآية " هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه .

قال الذهبي في ذيله: (قلت) عبيد الله، ضعفوه.

★ المصدر: اؔلمستدرك علي الصحيحين
★ المجلد: 2
★ الصفحة: 570
★ الرقم: 3856
★ الطبع: دار الحرمين للطباعة والنشر، قاهرة، مصر.

واللّٰه تعالٰي أعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
‌۳۱ جولائی: ؁۲۰۲۰ء

Thursday, July 30, 2020

پھر امت کو مرجانا چاھئے

▪️ *پھر امت کو مرجانا چاھئے* ▪️

  ایک پوسٹ کے متعلق استفسار کرنا تہا: ہارون رشیدؒ نے امام مالکؒ سے پوچھا: کسی جگہ حضور ﷺ  کی شان میں گستاخی ہوجائے تو حضورﷺ  کی امت کیا کرے؟ امام مالکؒ نے فرمایا: امت مسلمہ اسکا بدلہ لے, پھر پوچھا : اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر؟ امام مالک نے جو تاریخی جملہ ادا کیا وہ پوری امت یاد کرلے ؛ آپؒ نے فرمایا: " پھر امت کو چاہئے وہ مرجائے ؛ اسکو جینے کا بھی کوئی حق نہیں۔

اس کا حوالہ مطلوب ھے!!!

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق*:

امام مالکؒ کا ارشاد اس طرح ھے: ہارون رشیدؒ نے امام مالکؒ سے ایسے شخص کے متعلق معلوم کیا جس نے حضورﷺ کی شان میں گستاخی کی ہو( اور ان سے یہ بہی بتایا گیا کہ فقہائے عراق کا فتوی یہ ھے کہ ایسے گستاخ کو کوڑے مارکر سزا دی جائے , امام مالکؒ یہ سن کو غصہ ہوئے, اور فرمایا: امیر المومنین! ایسی امت کا کیا جینا جسکے نبیؑ کی شان میں گستاخی کی گئ ہو, جو انبیاءؑ کی شان میں زبان درازی کرے اسکو قتل کردیا جائے اور جو صحابہؓ پر بھونکے اسکو کوڑے مارے جایئں۔

🔰 سأل الرشيد مالكا في رجل شتم النبي صلى الله عليه وسلم وذكر له أن فقهاء العراق أفتوه بجلده فغضب مالك وقال:" يا أمير المؤمنين ما بقاء الأمة بعد شتم نبيها؟ من شتم الأنبياء قتل، ومن شتم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم یجلد"

٭ المصدر: الشفا بتعريف حقوق المصطفٰي
٭ المؤلف: الؔقاضي عياض المالكيؒ
٭ الصفحة: 777
٭ الطبع: جائزة دبئ الدولية للقرآن الكريم، الإمارات المتحدة، دبئ.

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۳۰ جولائی: ۲۰۲۰؁ء

Wednesday, July 29, 2020

قربانی اور سلف صالحین

▪️ *قربانی اور سلف صالحین*▪️

قربانی کے واجب و سنت ہونے کے متعلق ایک پوسٹ فیس بک اور واٹس ایپ پر نشر ہورہی ھے جس میں ایک شعیب نامی انجان بندہ چند۔کتب فقہیہ و حدیثیہ کے حوالے سے یہ باور کرارہا ھے کہ قربانی کی کوئی اہمیت نہیں وہ نہ واجب ھے نہ ضروری ھے ؛ بلکہ زیادہ سے زیادہ سنت ہوسکتی ھے اس سے یہ بہی لگتا ھے کہ سنت کی موصوف کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ھے۔ وہ پوسٹ درج ذیل ھے: آپ سے اسکا جواب مطلوب ھے!!!!

شعیب محمد صاحب کی وال سے......ان کی تحریر مکمل حوالوں سے عبارت ہے.....اہلِ علم سے درخواست ہے کہ اگر آپ کوہی جواب دینا چاہتے ہیں تو مکمل حوالہ جات سے مزین دلیل دیجیے........لیجیے پڑھیے تحریر...........!
قربانی اور سلف صالحین
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1) سیدنا ابو سریحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر دونوں میرے پڑوسی تھے اور دونوں قربانی نہیں کرتے تھے۔

(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی: 198/7 حدیث 5633 و سندہ حسن، و حسنہ للنووی فی المجموع شرح المہذب: 383/8، و قال ابن کثیر فی مسند الفاروق: 332/1 "و ھٰذا اسنادہ صحیح)

امام نووی نے کہا: حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے صحیح ثابت ہے کہ وہ اس ڈر سے قربانی نہ کرتے تھے کہ لوگ اسے واجب نہ سمجھ لیں۔
(المجموع شرح المہذب: 383/8)

2) حضرت عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "میں نے ارادہ کیا کہ قربانی چھوڑدوں، حالانکہ میں تم سب سے زیادہ استطاعت والا ہوں، کہ کہیں لوگ قربانی کو واجب نہ سمجھنے لگیں۔"
 (مصنف عبدالرزاق، کتاب المناسک، رقم 8148)

3) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قربانی کوئی شے نہیں یا کہ واجب نہیں۔ تم میں سے جو کوئی قربانی کرنا چاہے کر لے اور جو چاہے نہ کرے۔"
(مصنف عبدالرزاق، کتاب المناسک، رقم 8137)

 4) مشہور تابعی فقیہ حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی تھی، اگر تم اسے ترک کر دیتے ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔"
(مصنف عبدالرزاق، کتاب المناسک، رقم 8135)

 5) حضرت علقمہ فرماتے: "میں قربانی نہ کروں، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اسے خود پر لازم سمجھوں۔"
(مصنف عبدالرزاق، کتاب المناسک، رقم 8147)

6) حضرت سوید بن غفلہ روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے سنا کہ مَیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا کہ اگر مَیں کوئی مرغ قربان کروں یا اس کی قیمت کسی یتیم اور مسافر پر خرچ کروں، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اس کی قربانی کروں۔
(مصنف عبدالرزاق، کتاب المناسک، رقم 8156)

نوٹ: راوی کو یقین نہیں کہ آخری کہی گئی بات بھی حضرت بلال کے قول کا حصہ ہے یا حضرت سوید کا اپنا بیان ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ ایک صحابی یا تابعی کا مئوقف بنتا ہے، جو روایت ہوا ہے۔

مشہور فقیہ و شارح سنن ترمذی علامہ ابن عربی نے تو یہاں تک کہہ رکھا ہے کہ "قربانی کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔" (عارضۃ الاحوذی)

اس پر ماضی قریب کے مشہور عالم و شارح علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری نے یہی قول نقل کرنے کے بعد فرمایا: "بات ایسے ہی ہے، جیسے علامہ ابن عربی نے کہی ہے۔" (تحفۃ الاحوذی، ج2 ص353)

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  احناف کا مذہب کتب فقہیہ میں یہ لکہا ھے: کہ قربانی واجب ھے اور اسکے وجوب کی کچھ شرطیں ہیں جنکا یہاں ذکر کرنے کا موقع بہی نہیں ھے: جبکہ تین بقیہ امام قربانی کو سنت کے لفظ سے تعبیر کردیتے ہیں اور ایسی سنت ھے جسکا ترک جائز نہیں ھے یعنی یہ اختلاف محض لفظی ھے؛ کیونکہ واجب ایک فقہی اصطلاح ہے جسکا درجہ فرض اور سنت مؤکدہ کے درمیان ھے یہ اصطلاح احناف نے تجویز کی ھے جبکہ ائمہ ثلاثہ کے یہاں واجب کا خانہ نہیں ھے وہ ان احکام کو جو دلائل سے واجب ہیں ادھر ادھر کردیتے ہیں بعض کو فرض اور بعض کو سنت کا نام دیدیتے ہیں مثلا: صدقہ فطرہ کو وہ فرض کہتے ہیں اس لیے کہ حدیث میں فرض کا لفظ ھے اور وتر عیدین و قربانی کو سنت کہتے ہیں؛ کیونکہ ان کے متعلق احادیث میں فرض کا لفظ نہیں آیا پس قربانی کو واجب کہو یا سنت کہو کرنی تو ضروری ھے یہ اختلاف محض لفظی ھے حقیقت وجوب کے تو سب قائل ہیں :

• نام کتاب: قربانی محض سنت نہیں واجب ھے
• مؤلف: مولانا ندیم انصاری
• صفحہ: 26
• طبع: الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن انڈیا۔

🔖 *سوالیہ پوسٹ کی روایات*🔖

1) عن ابي سريحة: رايت ابابكر و عمر ومايضحيان .

( مصنف عبد الرزاق، جلد: 4،حديث: 8139)

{ جواب }
 حضرت ابو سریحہ نے جو شیخین کے متعلق فرمایا: کہ وہ قربانی نہیں کرتے تھے اسکے متعلق شیخ ظفر تہانوی نے لکہا: کہ اسکا مطلب ھے: کہ وہ اپنی جانب سے تو واجبی قربانی کیا کرتے تھے اور ابن سریحہ کی بات واجبی قربانی کے متعلق ھے ہی نہیں بلکہ اسکا مطلب ھے: کہ وہ دونوں حضرات اپنے اہل خانہ کی جانب سے قربانی نہیں کرتے تھے؛ (وسعت مالی نہ پاتے ہوں)

÷ المصدر: اعلاء السنن
÷ المؤلف: الشیخ ظفر العثمانی
÷ المجلد: 17
÷ الصفحہ: 215
÷ الطبع : مکتبہ اشرفیہ, دیوبند

2)  حضرت عقبہ بن عمرو والی روایت کہ میں قربانی کے چھوڑنے کا ارادہ رکہتا ہوں جبکہ میں تم میں صاحب وسعت ہوں؛ کبہی لوگ واجب نہ سمجھ لیں.

[ مصنف عبد الرزاق, جلد:4, صفحہ: 383. حدیث: 8148.)

( جواب )

شیخ ظفر تہانوی نے اسکا جواب لکہا ھے: کہ اس طرح کی روایات واجبی قربانی سے متعلق بالکل نہیں ہیں ؛ بلکہ یا تو اہل و عیال کی جانب سے قربانی کی بات ھے یا حج کے دوران قربانی کی بات ھے یا سفر میں عید قربان آگئ ھوگی اس لیے انہوں نے ایسا فرمایا۔

* اعلاء السنن
* جلد:17
* صفحہ: 215
* طبع: مکتبہ اشرفیہ, دیوبند


3) ابن عمر کا یہ کہنا واجب نہیں یعنی فرض نہیں ھے

( مصنف عبد الرزاق,جلد:4, صفحہ: 381. حدیث:8137)

( ابن عمر نے لیس بواجب کہہ کر فرض کی نفی کی ھے یعنی قربانی فرض نہیں ھے کہ ہر کوئی کرے اور یہ حج یا سفر پر ہی محمول ھے اسی لیے ابن عمر نے اختیار دیا ھے کہ جسکا جی چاہے کرے اور جسکا نہ چاہے نہ کرے؛کیونکہ ترمذی میں ابن عمر نے قربانی کو عمومی حالات میں موسیرین کیلیے واجب کہا ہے:


 -  أنَّ رجلًا سألَ ابنَ عمرَ عن الأضحيةِ أواجبةٌ هي فقال ضحَّى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ والمسلِمونَ فأعادها عليهِ فقال أتعقِلُ ضحَّى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ والمسلِمونَ.

 المصدر:  سنن الترمذي
 الصفحة: 169
 الرقم:  1506
 خلاصة :  حسن صحيح
الطبع: دار الغرب الاسلامي، بيروت، لبنان.

《 تشريح》

حضرت جبلہ بن سحیم فرماتے ہیں: ایک شخص نے ابن عمر سے سوال کیا: کیا قربانی واجب ھے؟ تو حضرت ابن عمر نے جواب دیا: نبی کریم اور سارے مسلمانوں نے قربانی کی ھے اس نے دوبارہ معلوم کیا: کہ یہ واجب ھے یا نہیں؟ حضرت نے فرمایا: تجھے عقل ھے؟ حضور نے اور سارے مسلمانوں نے قربانی کی ھے مطلب یہ تہا کہ تم اس بحث میں مت پڑو کہ اصطلاحا قربانی واجب ھے سنت ھے یا فرض ۔ حضرت ابن عمر نے واجب ہونیکی علامت بتادی کہ اگر واجب کہہ دوں تو تم واجب اور فرض میں فرق نہیں کرسکوگے ؛بلکہ فرض سمجھ لوگے ؛ بس اسلیے کہا کہ حضور نے اور سارے اہل اسلام نے قربانی کی ھے گویا حضرت نے واجب ہی کہدیا ۔

% درس ترمذی
% الشیخ تقی عثمانی
% جلد: 2
% صفحہ: 160
% طبع: کتب خانہ نعیمیہ, دیوبند

4) تابعی سعید بن مسیب کی روایت کہ حضور نے قربانی کی لیکن اگر تو نہ کرے تو تجھ پر حرج نہیں ۔

( مصنف عبد الرزاق, جلد:4, ص: 380)

[ جواب ]

 سعید بن مسیب نے ایک شخص سے یہ بات کہی تہی کسی مجمع سے وہ مخاطب نہ تھے اب وہ شخص غریب رہا ہوگا اسی لیے اسکو فرمایا : دیکہو نبی کریم نے تو ہمیشہ قربانی کی ھے ؛ لیکن تمہاری مالی حالت ایسی نہیں کہ تم پر قربانی واجب ہو لہذا اگر تم نہیں کروگے تو تم پر حرج نہیں ھے۔

کیونکہ سعید بن مسیب ایک امر واجبی کو ایسے ہلکے میں نہیں بتاسکتے ہیں کیونکہ صاحب وسعت شخص کیلیے قربانی نہ کرنے پر تو وعید وارد ھے:


 عن ابي هريرة: من كانَ لَه سَعةٌ ولم يضحِّ فلا يقربنَّ مصلَّانا.


(ترجمہ)

وسعت مالی کے ہوتے ہوئے کوئی قربانی نہیں کرتا تو وہ مسلمانوں کی عیدگاہ میں بھی نہ آئے۔

  کس قدر ناراضگی کا اظہار زبان نبوت سے صادر ہوا کہ ایسے شخص کو جو واجب کا تارک ہو مسلمانوں کے پاس پھٹکنے کی ضرورت نہیں ۔اتنی سخت وعید ترک سنت پر نہیں؛ بلکہ ترک واجب پر ہوتی ھے۔

 (ابن ماجه، حديث: 3123، طبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.)

5) حضرت علقمہ کی روایت کہ میرا قربانی نہ کرنا بتارہا ھے کہ یہ مجھ پر واجب نہیں ھے.

( مصنف عبد الرزاق, جلد: 4,حدیث: 8147)

( جواب)  حضرت علقمہ پر قربانی واجب نہ رہی ہوگی یا وہ بحالت سفر ہونگے اس لیے یہ ارشاد فرمایا۔ کیونکہ صحابہ فقط حاجی یا مسافر کو ہی قربانی چھوڑنے کی رخصت دیتے تھے ورنہ مالدار ہو مقیم ہو تو سب قربانی کرتے تھے جیساکہ اوپر ابن عمر کی روایت گزرگئ ھے۔

(مستفاد: اعلاء السنن, جلد:17. صفحہ: 215, طبع: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)

6) سوید بن غفلہ کی روایت کہ سیدنا بلال حبشی نے مرغی کی قربانی یااسکی قیمت کو غرباء میں صدقہ کرنے کو قربانی سے بہتر جانا ۔ یہ تو خود ظاہر ھے: کہ سیدنا بلال حبشی مالدار نہ تھے تو یہ واجبی قربانی کی نفی بالکل نہیں ؛ بلکہ نفلی قربانی پر انہوں نے اسکو ترجیح دی اور یہ جائز ھے۔

7) ابن عربی کا جو مقولہ محترم مبارکپوری نے نقل فرمایا ھے: اسکا مطلب یہ تو بالکل نہیں ھے کہ اس موضوع پر کوئی صحیح سند نہیں ھے تو یہ بالکل فضول کام ھے ؛ بلکہ خود مبارکپوری روایت کو حسن درجہ کی مانتے ہیں ۔


تنبيه :

قال ابن العربي في شرح الترمذي : ليس في فضل الأضحية حديث صحيح انتهى . قلت : الأمر كما قال ابن العربي . وأما حديث الباب فالظاهر أنه حسن وليس بصحيح۔
 والله تعالى أعلم .

• تحفة الاحوذي
• عبد الرحمن مباركپوري
• جلد: 5
• صفحة: 56
• طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

💠 وجوب والی روایات💠

شیخ ظفر تہانوی نے اس بارے میں بہت عمدہ بحث لکہی ھے وہاں روایات جمع کی ہیں اور ان پر جو اعتراضات وارد ہوئے ہیں ان کا شافی جواب دیا ھے۔

( اعلاء السنن, جلد:17,ص:221, طبع: مکتبہ اشرفیہ دیوبند۔)

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
29جولائی,2020

Tuesday, July 28, 2020

انگوٹھوں میں رگ محبت ھے؟

▪️ *انگوٹھوں میں رگِ محبت ھے؟*▪️
 مفتی صاحب! میں نے کسی صاحب سے مصافحہ کیا تو انہوں نے کہا : محترم! مصافحہ کرتے وقت انگوٹھوں کی رگ کو بہی دبایا کرو؛ اس میں محبت کی ایک رگ ھے اسکے دبانے سے محبت بڑھتی ھے۔

کیا واقعتا ان صاحب کا یہ فرمانا محقق اور ثابت ھے؟»
از راہ کرم تسلی بخش جواب دیکر مشکور ہوں!!

••• *باسمہ تعالی*  •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 مصافحے کی بہت سی سنن و آداب ہیں؛ ان کو یہاں ذکر کرنے کا موقع نہیں ھے, اگر جاننے کی  خواہش دامن گیر ہو تو " اسلام کا نظامِ سلام و مصافحہ " نامی کتاب کا مطالعہ فرمایئں!

• نام کتاب: اسلام کا نظام سلام و مصافحہ
• نام مؤلف: مفتی تبریز عالم قاسمی
• طبع: جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد,

🔰 *آمدم بر سرِ مطلب* 🔰

سوال میں جو بات معلوم کی گئ ھے کہ مصافحہ کرتے ہوئے انگوٹھے کی رگ دبادیں؛ تاکہ محبت میں اضافہ ہو اس کے متعلق مفتی طارق امیر خان صاحب نے لکہا ھے: انگوٹھوں میں رگِ محبت ھے یہ حدیث من گھڑت ھے, مزید لکہا ھے: کہ رد المحتار میں بحوالہ قہستانی مصافحہ کرتے وقت انگوٹھوں کو پکڑنا سنت نقل کیا گیا ھے کہ حدیث میں ھے: انگوٹھوں میں رگ محبت ھے اسکو دبانا محبت کو ابہارتا ھے:

🔖 *ردالمحتار کی عبارت*🔖

قوله:( وتمامه الخ) ونصه: وهي إلصاق صفحة الكف بالكف وإقبال الوجه بالوجه فأخذ الأصابع ليس بمصافحة خلافا للروافض، والسنة أن تكون بكلتا يديه، وبغير حائل من ثوب أو غيره وعند اللقاء بعد السلام وأن يأخذ الإبهام، فإن فيه عرقا ينبت المحبة، كذا جاء في الحديث ذكره القهستاني وغيره اھ.

{ترجمة:}

 مصافحہ یہ ھے: کہ ہتہیلی کو ہتہیلی سے ملایا جائے, اور چہرہ چہرے کے سامنے ہو, محض انگلیوں کا پکڑ لینا مصافحہ نہیں کہلاتا یہ رافضیوں کا عمل ھے, اور سنت یہ ھے کہ مصافحہ دونوں ہاتہوں سے ہو, ہاتہوں میں دستانے وغیرہ ہوں تو اتارکر مصافحہ ہو, سلام پہلے ہو اور ملاقات کے وقت مصافحہ ہو, اور انگوٹھوں کو پکڑا جائے کیونکہ ان میں ایک رگ محبت ھے جسکو دبانے سے محبت ابہرتی ھے جیساکہ حدیث میں ھے۔

• الرد المحتار (الؔشامي)
• المؤلف: العلامة ابن عابدينؒ
• المجلد: 9
• الصفحة: 548
• الطبع: دار عالم الكتب، الرياض، السعودية.

☢️ *خلاصۂ کلام*☢️

مصافحہ کے دوران انگوٹھوں کا پکڑنا یا اسکی رگ کا دبانا ثابت نہیں ؛ «مفتی طارق امیر خان صاحب» کی تحقیق کے مطابق روایت ہذا کی سند و و تذکرہ کتب حدیث میں نہ مل سکا۔

• نام كتاب: من گھڑت روایات پر تعاقب
• نام مؤلف: مفتی طؔارق امیر خان صاحب
• صفحة: 135/134
• روايت نمبر: 45/44
• طبع: مكتبه عمر فاروقؓ، شاه فيصلؒ كالوني، كراچي، پاكستان.

واللّٰه تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
28 جولائي: ؁ء2020

Monday, July 27, 2020

قبولیت دعا کا وظیفہ

▪️ *قبولیت دعا کا وظیفہ*▪️
بکھرے موتی نامی کتاب کے حوالے سے مذکور ھے :
‏حضرت سعید بن مسیب ؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ مسجد میں آرام کر رہا تھا، اچانک غیب سے آواز آئی، اے سعید! ان کلمات کو پڑھ کر تو جو دعاء مانگے گا اللہ تعالٰی قبول کرے گا،حضرت سعید ؒ فرماتے ہیں کہ ان جملوں کے بعد میں نے جو دعاء مانگی ہے وہ قبول ہوئی ہے۔وہ کلمات یہ ہیں: اللَّهُمَّ إِنَّكَ مَلِيكٌ مُقْتَدِرٌ مَا تَشَاءُ مِنْ أَمْرٍ يَكُونُ.
《بکھرے موتی ج:١ ،ص :١٠٩》

اس كا حواله تحقيق مطلوب هے.

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*


حضرت سعید ابن مسیب سے یہ دعا بسند ضعیف منقول ھے؛ لیکن یہ ثابت بالحدیث نہیں ھے, یہ ان کا مجرب عمل مانتے ہوئے پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

🔰 *دعا کا حوالہ*🔰

یہ دعا "مصنف ابن شیبہ" میں مذکور ھے:

حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، قَالَ سَعِيدٌ :  دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَأَنَا أَرَى أَنِّي قَدْ  أَصْبَحْتُ ، وَإِذَا عَلَيَّ لَيْلٌ طَوِيلٌ ، فَإِذَا لَيْسَ فِيهِ أَحَدٌ غَيْرِي ، فَقُمْتُ فَسَمِعْتُ حَرَكَةً خَلْفِي فَفَزِعْتُ ، فَقَالَ : أَيُّهَا الْمُمْتَلِئُ قَلْبُهُ فَرْقًا ، لَا تَفْرَقْ ، وَلَا تَفْزَعْ ، وَقُلِ : *اللَّهُمَّ إِنَّكَ مَلِيكٌ مُقْتَدِرٌ مَا تَشَاءُ مِنْ أَمْرٍ يَكُونُ*، ثُمَّ سَلْ مَا بَدَا لَكَ ، قَالَ سَعِيدٌ : فَمَا سَأَلْتُ اللَّهَ شَيْئًا إِلَّا اسْتَجَابَ لِي.

• المصدر: مصنَّف ابن ابي شيبة
• المجلد: 15
• الصفحة: 162
• الرقم: 29932
• الطبع: دار قرطبة، بيروت، لبنان.

☢️  *ایک اور وظیفہ* ☢️

مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت علی سے ایک اور دعا منقول ھے جو صحیح سند سے ثابت ھے:

حدثنا أبو الأحوص عن منصور عن ربعي عن عبد الله بن شداد عن عبد الله بن جعفر قال  : قال لی علی  : ألا أعلمك كلمات لم أعلمها حسنا ولا حسينا ، إذا طلبت حاجة وأحببت أن تنجح فقل : *لا إله إلا الله وحده لا شريك له العلي العظيم ولا إله إلا الله وحده لا شريك له الحكيم الكريم* ثم سل حاجتك .

ترجمہ: حضرت علی سے مروی ھے: کہ جب تمکو کوئی حاجت ہو اور تم اس میں کامیاب ہونا چاہو تو یہ کلمات پڑھو: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ الْحَكِيمُ الْكَرِيمُ. پھر اپنی حاجت کا اللہ سے سوال کرو!

٭ المصدر: مصنف ابن ابي شيبة
٭ المجلد: 15
٭ الصفحة: 162
٭ الرقم: 29931
٭ الطبع: دار قرطبة، بيروت، لبنان.

واللّٰه تعالي اعلم
✍🏻...كتبه *محمد عدنان وقار صديقي*
27 جولائي: 2020

Saturday, July 25, 2020

زمزم اور آتش جہنم

سلسلہ نمبر: 165

▪️ *زمزم اور آتش جہنم* ▪️

ایک روایت بیان کی جاتی ھے:کہ
  آب زم زم اور آتش جہنم ایک پیٹ میں جمع نہیں ہو سکتی؟؟

کیا یہ روایت درست ھے؟

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 ماء زمزم کی فضیلت میں یہ بات بیان کرنا درست نہیں؛ کیونکہ یہ من گھڑت روایت ھے۔

🔰 لا يجتمع ماء زمزم ونار جهنم في جوف عبد أبدا. فيه مقاتل بن سليمان، كذاب.

٭ المصدر: تذكرة الموضوعات
٭ المحدث: العلامة طاهر پٹَّنيؒ
٭ الصفحة: 74
٭ الطبع: إدارة الطباعة المنيرية،دمشق.

💠  *الفوائد المجموعة ميں*💠

لا يجتمع ماء زمزم، ونار جهنم في جوف عبد أبدا.
في إسناده: كذاب.

٭ المصدر: الفوائد المجموعة
٭ المحدث: الامام الشوكانيؒ
٭ الصفحة: 112
٭ الرقم: 26
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

❇️ تنزيه الشريعة ميں❇️

لا يجتمع ماء زمزم و نار جهنم في جوف عبد أبدا ... من حديث ابن عباس، وفيه مقاتل بن سليمان.

※ المصدر: تنزيه الشريعة
※ المحدث: الكنانيؒ
※ المجلد: 2
※ الصفحة: 175
※ الرقم: 21
※ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت لبنان.

واللّٰه تعالي أعلم
✍🏻...كتبه:  *محمد عدنان وقار صؔديقي*
25 جولائي: ؁ء2020

قبولیت دعا کے متعلق



▪️ *قبولیت دعا کے متعلق* ▪️

ایک پوسٹ گردش کررہی ھے جس میں قبولیت دعا کے متعلق چند مواقع درج ہیں :

نبی کریمؑ نے ارشاد فرمایا: ان موقعوں پر دعا مانگا کرو؛ ان موقعوں پر دعا رد نہیں ہوتی ھے:
1) جب دھوپ میں بارش ہورہی ہو۔
2) جب اذان ہورہی ہو۔
3) سفر کے دوران۔
4) جمعہ کے دن۔
5) مصیبت کے وقت۔
6) فرض نمازوں کے بعد۔

نبی کریمؑ نے فرمایا: ﷲ اسکے چہرے کو روشن کرے جو میری حدیث دوسروں تک پہونچائے۔

اسکی تصدیق و تحقیق مطلوب ھے!!!

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

 قبولیت دعا کے احادیث میں متعدد مواقع بیان ہوئے ہیں؛ جن میں سے چند مواقع یہ بہی ہیں جو سوالیہ پوسٹ میں ھیں؛ البتہ اس پوسٹ میں تصحیح کی ضرورت ھے جو کہ درج ذیل ھے: 

1) جب دھوپ میں بارش ہو تب قبولیت دعا کا ذکر حدیث میں نہیں ھے؛ بلکہ حدیث میں یہ ھے کہ جب بارش ہو تو دعا مانگ لیا کرو اس وقت چونکہ رحمت کا نزول ھوتا ھے دعا کی قبولیت ہوگی۔

🔰  اطلبوا إجابةَ الدعاءِ عندَ التقاءِ الجيوشِ ، وإقامةِ الصلاةِ ، ونزولِ المطر.


• الراوي: مكحول 
• المحدث: الألباني
• المصدر:  السلسلة الصحيحة
•المجلد:3
 •الصفحة: 453
• الرقم:  1469 
•خلاصة:  حسن لشواهده
• الطبع:مکتبہ المعارف للنشر والتوزیع, ریاض۔

2) *جب اذان ہورہی ہو*

 روایت میں یہ لفظ وارد نہیں؛ بلکہ روایت اس طرح ھے: کہ اذان و اقامت کے درمیان دعا رد نہیں ہوتی۔( معلوم ہوا کہ اذان کے بعد قبولیت دعا کی بات ھے نہ کہ اذان ہوتے وقت) 

💠   الدعاءُ لا يُردُّ بين الأذانِ والإقامةِ.


。 الراوي: أنس بن مالك 
。 المحدث: الترمذي
。 المصدر:  سنن الترمذي
。 الصفحة : 253
。 الرقم:  212 
。 خلاصة :  حسن صحيح
。 الطبع: دار الغرب الاسلامی, بیروت لبنان۔

3) *سفر کے دوران*

 دوران سفر یعنی مسافر کی دعا کی قبولیت کی بات بہی حدیث میں کہی گئ ھے: 

⏺️  ثلاثُ دَعَواتٍ مُستجاباتٌ لا شَكَّ فيهن: دعوةُ الوالِدِ، ودَعوةُ المسافرِ، ودعوةُ المظلومِ.

• المصدر:  سنن الترمذي
• المجلد: 3
• الصفحة: 469
• الرقم: 1905
• الدرجة: حسن
• الطبع: دار الغرب الاسلامي، بيروت لبنان.

4) *جمعہ کے دن* 

 حدیث میں بروز جمعہ قبولیت دعا کا ذکر ھے : کہ جمعہ کے دن ایک ساعت ایک گھڑی ایسی بہی ہوتی ھے کہ بندہ اس میں جو مانگے قبول ہوتا ھے اب وہ گھڑی کونسی ھے اسکی صراحت دو طرح ھے: جمعہ کی نماز سے واپسی تک اور اگلی روایت میں ھے: عصر کے بعد۔

  إن في الجمعةِ ساعةٌ لا يسألُ اللهَ العبدُ فيها شيئا إلا آتاهُ اللهُ إيّاه قالوا يا رسولَ اللهِ أيّةُ ساعةٍ هِيَ قال حينَ تُقامَ الصلاةُ إلى الانصرافِ منها.

 •الراوي: عمرو بن عوف المزني 
 •المحدث: الترمذي
 •المصدر:  سنن الترمذي
 •الصفحة
 •الرقم: 490 
 •خلاصة:  حسن غريب
 •الطبع: دار الغرب الاسلامي، بيروت، لبنان.


 ❇️  التمِسوا الساعةَ التي تُرجى في يوم الجمعةِ، بعد العصرِ إلى غيبوبةِ الشمسِ.


÷ الراوي: أنس بن مالك 
÷ المحدث: الترمذي
÷ المصدر:  سنن الترمذي
÷ الصفحة : 500 
÷ الرقم:  489 
÷ خلاصة:  غريب من هذا الوجه و[فيه] محمد بن أبي حميد يضعف
÷ الطبع: دار الغرب الاسلامي، بيروت، لبنان.

5) *مصیبت کے وقت*

مصییت کے وقت دعا کرنے کی تلقین وارد ھے : 

🟣    من فتحَ له منكم باب الدعاءِ ، فتحتُ لهُ أبوابِ الرحمةِ ، وما سُئِل اللهُ شيئا – يعني : أحبّ إليهِ - من أن يُسأَلَ العافيةَ وقال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم إن الدعاءَ ينفعُ ممّا نزَلَ ومما لم يَنْزِلْ فعليكم عبادَ اللهِ بالدعاء.


 •الراوي: عبدالله بن عمر 
 •المحدث: الترمذي
 •المصدر:  سنن الترمذي
 •الصفحة : 515
 •الرقم:  3548 
 •خلاصة:  غريب لا نعرفه إلا من حديث عبدالرحمن بن أبي بكر وهو ضعيف الحديث.
•الطبع: دار الغرب الاسلامی بیروت لبنان۔

        
    
☢️ عن عمر بن کثیر بن افلح سَمِعْتُ ابْنَ سَفِينَةَ  ، يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ سَلَمَةَ  ، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ  عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، تَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : مَا مِنْ عَبْدٍ تُصِيبُهُ مُصِيبَةٌ ، فَيَقُولُ : {  إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ } ، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي ، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا ، إِلَّا أَجَرَهُ اللَّهُ فِي مُصِيبَتِهِ ، وَأَخْلَفَ لَهُ خَيْرًا مِنْهَا ، قَالَتْ : فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو سَلَمَةَ ، قُلْتُ : كَمَا أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَخْلَفَ اللَّهُ لِي خَيْرًا مِنْهُ ، رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔

• المصدر: مسلم
• المجلد: 3
• الصفحة: 260
• الرقم: 2125
• الطبع: مكتبة البشري، كراچي، پاكستان.

6) *فرضوں کے بعد*

 فرض نماز کے بعد بہی د
عا قبول ہونے کی بات ھے:

✳️ عن ابي امامة: قِيلَ يا رسولَ اللهِ : أيُّ الدعاءِ أسمَعُ قال جَوفَ الليلِ الآخِرِ ودُبُرَ الصلواتِ المكتوباتِ.

٭ المصدر: سنن الترمذي 
٭ المجلد: 5
٭ الصفحة: 479
٭ الرقم: 3499
٭ الطبع: دار الغرب الاسلامي، بيروت، لبنان.


2️⃣ *حدیث بیان کرنے کی فضیلت* 

ﷲ اسکے چہرے کو روشن و تر و تازہ رکھے جو حدیث سن کر دوسروں تک پہونچائے ۔ یہ مضمون روایت میں وارد ھے : 

☪️ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيْثًا فَبَلَّغَهُ؛ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَحْفَظُ مِنْ سَامِعٍ.

★ المصدر: سنن ابن ماجه
★الصفحة: 76
★ الرقم: 232
★ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.

والله تعالي اعلم
✍🏻...كتبه *محمد عدنان وقار صؔديقي*
۲۵ جولائی: ؁۲۰۲۰ء

Thursday, July 23, 2020

تحفت الالمعی کی ایک عبارت

▪️ *تحفة الالمعي كي ايك عبارت*▪️

سال رواں میں متعدد اہل علم اور بہت سے ممتاز علمائے کرام اس دنیا سے پردہ فرماگئے؛ اس کے تناظر میں ایک بات بحوالہ" تحفہ الالمعی" شرح ترمذی کافی نشر ہورھی ھے: جب بیوی اپنے شوہر کو ستاتی ھے تو ﷲ تعالی شوہر کو اپنے پاس بلالیتے ہیں, اور جب امت اپنے علماء کو ستاتی ھے تو ﷲ تعالی علماء کو اپنے پاس بلالیتے ہیں ۔

اس کی تحقیق و حوالہ مطلوب ھے!!!

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 اس سے پہلے ہم چاہیں گے کہ اصل روایت آپ کے پیش نظر کردی جائے : ترمذی میں ھے: جو عورت اپنے شوہر کو ستاتی ھے تو جنت میں جو حور اس شوہر کی زوجہ بنے گی وہ اس دنیوی ستانے والی بیوی کو بددعا دیتی ھے تیرا ناس ہو اسکو مت ستا؛ یہ تیرے پاس چند دن کا مہمان ھے عنقریب وہ تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آجایئگا۔

🔰 ترمذی کی روایت 🔰

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( لَا تُؤْذِي امْرَأَةٌ زَوْجَهَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا قَالَتْ زَوْجَتُهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ : لَا تُؤْذِيهِ قَاتَلَكِ اللهُ ؛ فَإِنَّمَا هُوَ عِنْدَكِ دَخِيلٌ يُوشِكُ أَنْ يُفَارِقَكِ إِلَيْنَا ) .

• المصدر: سنن الترمذي
• المجلد: 2
• الصفحة: 464
• الرقم: 1174
• الدرجة: حسن
• الطبع: دار الغرب الاسلامي، بيروت، لبنان.

💠 *تحفۃ الالمعی کی عبارت*💠

تحفۃ الالمعی میں اس حدیث کی تشریح میں حضرت محدث پالنپوریؒ لکہتے ہیں:

"دنیا و آخرت کے درمیان ایک پردہ ھے جس سے ایک طرف سے نظر آتا ھے جیسے : کاروں میں کالا شیشہ ہوتا ھے اندر سے باہر نظر آتا ھے ؛ مگر باہر سے اندر نظر نہیں آتا اسی طرح اِدھر سے نظر نہیں آتا اور اُدھر سے نظر آتا ھے؛ چنانچہ جنت کی حوروں کو دنیا کی بیوی کے معاملات نظر آتے ہیں اور وہ اس کو کوستی ہیں ؛ پس دنیا کی بیوی کو حوروں کی بد دعا سے بچنا چاہئے۔"

( سوال:)

دنیا کی عورت جب حور کی بات سنتی نہیں تو اسکا کسا فائدہ؟

(جواب ) :

 یہ غیب کی باتیں ہیں جو مخبر صادق رسول ﷲؐ نے بتائی ہیں پس جس طرح امور غیبیہ پر ایمان لانا ضروری ھے اور وہ ایمان مفید ھے اسی طرح اس پر بہی ایمان لانا ضروری ھے جیسے وزیر اعظم کی تقریر اخبار میں چھپی اور ہم نے پڑھی , یہ کافی ھے براہ راست وزیر اعظم کے منہ سے سننا ضروری نہیں اسی طرح رسول ﷲؐ نے حوروں کی وہ بات ہمیں بتادی بس یہی کافی ھے؛ براہ راست ان کی بات سننا ضروری نہیں ۔

۩۞ *فائدہ*:۩۞

 *میں نے اس حدیث سے یہ بات سمجہی ھے کہ اگر بیوی بلاوجہ شوہر کو پریشان کرے گی تو مرد کا پہلے انتقال ہوجایئگا اور بیوی پیچھے ٹھوکریں کھایئگی اور اسکے برعکس بہی ہوگا یعنی اگر شوہر بلا وجہ بیوی کو پریشان کرے گا تو وہ پیچھے رہ جایئگا اور دھکّے کھایئگا؛ مگر یہ قاعدہ کلیہ نہیں ھے*۔

÷ نام کتاب: تحفة الألمعي
÷ نام مؤلف: الشيخ سعيد احمد پالنپوريؒ
÷ المجلد: 3
÷ الصفحة: 614
÷ الطبع: زمزم پبلشرز، نزد: مقدس مسجد، اردو بازار، كراچي، پاكستان.

🔖 *خلاصۂ کلام* 🔖

«ترمذی شریف» کی روایت کے مطابق اتنا ثابت ھے کہ حور ناحق شوہر کو ستانے والی بیوی کو بد دعا دیتی ھے؛ لیکن شوہر کا مرجانا یہ خود مؤلف کے مطابق ثابت بالحدیث نہیں ھے اور نہ ہی کوئی قاعدہ کلیہ ھے کہ ایسا ہونا ضروری ہو۔نیز امت کے ستانے کی وجہ سے علماء کی وفات کا ذکر نہ روایت میں ملا نہ تحفۃ الالمعی میں۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۲۳ جولائی: ؁ء۲۰۲۰

Tuesday, July 21, 2020

عورت کو گھریلو کام کاج کرنے پر ثواب

سلسلہ نمبر; 162

▪️ *عورت کو گھریلو کام کاج کرنے پر ثواب* ▪️

مسند الفردوس کے حوالہ سے ایک روایت نظر سے گزری کہ حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ھے: کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کے کپڑے دھوتی ھے ﷲ تعالی اسکے لیے ہزار نیکیاں لکہتے ہیں , اور اسکے دو ہزار گناہ معاف کرتے ہیں, اور اسکے واسطے وہ تمام مخلوقات استغفار کرتی ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ھے, اور ایسی عورت کیلیے ﷲ تعالی ہزاروں درجات بلند کرتے ہیں۔

اس کا حوالہ و تحقیق مطلوب ھے!!!!

 ••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ روایت " مسند الفردوس " میں حضرت عبدﷲ بن مسعودؓ سے مروی ھے؛ لیکن اسکی سند اس قابل نہیں ھے کہ یہ روایت بیان کی جاسکے یا یہ فضیلت معتبر مانی جاسکے؛ لہذا اسکے بیان و نشر سے رُکا رہنا چاہئے۔

❇️ *مسند الفردوس* ❇️

عن ابن مسعود: إذا غسلت المرأة ثياب زوجها كتب الله لها ألف حسنة، و غفر لها ألفي خطيئة، و استغفر لها كل شيء طلعت عليه الشمس.

٭ المصدر: مؔسند الفردوس
٭ المحدث: أبو شجاع الديلميؒ
٭ المجلد: 1
٭ الصفحة: 332
٭ الرقم: 1319
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت لبنان.

🔖 *روایت کا درجہ*🔖

"کشف الخفاء" میں امام عجلونیؒ نے ذکر کیا ھے: یہ روایت من گھڑت ھے؛ اسکا بیان جائز نہیں ؛ البتہ کوئی بیان کرے تو واضح کردے کہ یہ من گھڑت ھے:

🟣 *کشف الخفاء کی عبارت*🟣

"إذا غسلت المرأة ثياب زوجها كتب الله لها ألفي حسنة وغفر لها ألفي سيئة واستغفر لها كل شيء طلعت عليه الشمس ورفع لها ألفي درجة .

قال ابن حجر المكي في فتاواه الحديثية نقلا عن الحافظ السيوطي أنه كذب موضوع لا يحل روايته إلا لبيان أنه كذب مفترى على النبي صلى الله عليه وسلم.

★ نام كتاب: كشف الخفاء
★نام محدث: الامام العجلونيؒ
★ جلد: 1
★صفحة: 125
★حديث نمبر: 300
★درجه: موضوع
★ طبع: مكتبة العلم الحديث، دمشق.

والله تعالي اعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
۲۱ جولائی: ؁ء۲۰۲۰

Sunday, July 19, 2020

صحابیہ کی دعا پر فوت شدہ بچے کا زندہ ہونا

▪️ *صحابیہؓ کی دعا پر فوت شدہ بچے کا زندہ ہونا* ▪️

ایک حدیث سنتے آرہے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے  کہ مدینہ میں ایک بچہ فوت ہو گیا تھا ۔ اس کی والدہ کو جب علم ہوا تو اس نے دعا کی کہ کفار مجھے طعنہ دیں گے کہ اسلام میں داخل ہوئی ہو اور اپنا بچہ گنوا دیا ہے۔ تو وہ بچہ زندہ ہو گیا اور رات کا کھانا اپنی والدہ کے ساتھ کھایا۔

کیا یہ روایت ٹھیک ہے؟ اور اس کو آگے بیان کرنے کا کیا حکم ہے؟.

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ واقعہ " شیخ یوسف کاندھلویؒ" نے بہی _حیات الصحابۃؓ_ میں نقل کیا ھے؛ لیکن اسکی سند میں انقطاع ھے ؛ لہذا روایت ضعیف اور ناقابل بیان ھے۔

☢️  حیات الصحابۃؓ میں ☢️


عن عبد الله بن عون، عن أنس قال: أدركت في هذه الأمة ثلاثا لو كانت في بني إسرائيل لما تقاسمها الأمم. قلنا: ما هي يا أبا حمزة؟ قال: كنا في الصفة عند رسول الله - ﷺ - فأتته امرأة مهاجرة ومعها ابن لها قد بلغ فأضاف المرأة إلى النساء، وأضاف ابنها إلينا فلم يلبث أن أصابه وباء المدينة فمرض أياما ثم قبض، فغمضه النبي - ﷺ - وأمر بجهازه، فلما أردنا أن نغسله. قال: « يا أنس إئت أمه فأعلمها » فأعلمتها. قال: فجاءت حتى جلست عند قدميه فأخذت بهما ثم قالت: اللهم إني أسلمت لك طوعا، وخالفت الأوثان زهدا، وهاجرت لك رغبة، اللهم لا تشمت بي عبدة الأوثان، ولا تحملني من هذه المصيبة ما لا طاقة لي بحملها. قال: فوالله ما انقضى كلامها حتى حرك قدميه وألقى أثوب عن وجهه وعاش حتى قبض الله رسوله ﷺ، وحتى هلكت أمه.

▪️ *ترجمہ*

حضرت عبداللہ بن عون کہتے ہیں: حضرت انس ؓ نے فرمایا: میں نے اس اُمّت میں ایسی تین باتیں پائی ہیں کہ وہ اگر بنی اسرئیل میں ہو تیں توکوئی اُمّت ان کا مقابلہ اور ان کی برابری نہ کرسکتی۔ ہم نے کہا: اے ابوحمزہ! وہ تین باتیں کیا ہیں؟ انھوں نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم لوگ صُفَّہ میں حضورﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک مہاجر عورت حضور ﷺ کی خدمت میں آئی اور اس کے ساتھ اس کا ایک بیٹا بھی تھا جو کہ بالغ تھا۔ حضور ﷺ نے اس عورت کو (مدینہ کی) عورتوں کے سپرد کردیا اور اس کے بیٹے کو ہمارے ساتھ شامل کردیا۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد وہ مدینہ کی وبامیں مبتلاہوگیا اور چند دن بیمار رہ کر فوت ہوگیا۔ حضور ﷺ نے اس کی آنکھیں بند کیں اور ہمیں اس کا جنازہ تیار کرنے کا حکم دیا۔ جب ہم نے اسے غسل دینا چاہا تو حضورﷺ نے فرمایا: جاکر اس کی والدہ کو بتادو۔ چنانچہ میں نے اسے بتادیا۔ وہ آئی اور بیٹے کے پیروں کے پاس بیٹھ گئی اور اس کے دونوں پاؤں پکڑ کر اس نے یہ دعامانگی: اے اللہ! میں اپنی خوشی سے مسلمان ہوئی اور میرے دل کا میلان بتوں سے
بالکل ہٹ گیا۔ اس لیے میں نے انھیں چھوڑاہے، اور تیری وجہ سے بڑے شوق سے میں نے ہجرت کی۔ اور مجھ پر یہ مصیبت بھیج کر بتوں کے پوجنے والوں کو خوش نہ کر اور جو مصیبت میں اٹھا نہیں سکتی وہ مجھ پر نہ ڈال۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں: ابھی اس کی والدہ کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ اس کے بیٹے نے اپنے قدموں کو ہلایا اور اپنے چہرے سے کپڑاہٹایا (اور زندہ ہوکر بیٹھ گیا) اور بہت عرصہ تک زندہ رہا یہاں تک کہ حضورﷺ کا انتقال ہوگیا اور اس کے سامنے اس کی ماں کا بھی انتقال ہوا۔

٭ المصدر: حياة الصحابةؓ
٭ المؤلف: الشيخ یوسف الكاندهلويؒ
٭ الصفحة: 821
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

💠 *دلائل النبوة ميں*💠

٭امام بیہقیؒ٭ نے بہی یہ واقعہ «دلائل النبوۃ» میں ذکر فرمایا ھے: اور اسکو دو طرح روایت کیا ھے: ایک سند " صالح بن بشیر مری" کی وساطت سے ھے اور اس راوی پر محشی نے محدثین کا کلام نقل کیا ھے کہ یہ راوی منکر الحدیث, واعظ فقط, اور کمزور ھے۔

دوسری سند عیسی بن یونس سے ھے لیکن انقطاع اسمیں بہی ھے :

* نام كتاب: دلائل النبوة
* محدث: الامام البيهقيؒ
* المجلد: 6
* الصفحة: 51
* الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


🔰 *البداية والنهاية* ميں🔰

عؔلامہ "ابن کثیر" نے بہی اسکو ذکر کیا ھے؛ لیکن انہوں نے خود صراحت کی ھے کہ یہ روایت منقطع ھے:

÷ نام كتاب: البداية والنهاية
÷ المحدث: ابن كثير ؒ
÷ المجلد: 6
÷ الصفحة: 154
÷ الطبع: مكتبة المعارف، بيروت، لبنان.

🔖 *منقطع روايت كا حكم*🔖

شیخ محمد بن صالح الؔعثیمن نے مصطلح الحدیث میں لکہا ھے: کہ منقطع روایت غیر مقبول ہے سوائے چار طرح کی منقطعات کے ( ان چار طرح میں مذکورہ روایت نہیں ھے)

★ ومنقطع السند بجميع اقسامه  مردود للجهل بحال المحذوف، سوي ما ياتي:1) مرسل الصحابي 2) مرسل كبار التابعين عند كثير من أهل العلم، إذا عضده مرسل آخر، أو عمل صحابي، أو قياس. 3) المعلق إذا كان بصيغة الجزم في كتاب التزمت صحته، كصحيح البخاري، 4) ماجاء متصلا من طريق آخر، وتمت فيه شروط القبول.

٭ المصدر: مصطلح الحديث
٭ المؤلف: محمد بن صالح العثيمين
٭ الصفحة: 14
٭ الطبع: مكتبة العلم، قاهرة، مصر.


🔘 *تيسير مصطلح الحديث* 🔘

منقطع روایت کا حکم یہ ھے کہ وہ بالاتفاق ضعیف ہوتی ہے:

وحكمه: المنقطع ضعيف بإجماع العلماء لفقده شرطا من شروط القبول، وهو اتصال السند، وللجهل بحال الراوي المحذوف.

٭ المصدر: تيسير مصطلح الحديث
٭ المؤلف: د/ محمود الطحان
٭ الصفحة: 95
٭ الطبع: مكتبة المعارف، الرياض، السعودية.


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۱۹ جولايئ: ؁ء۲۰۲۰

حج میں ماری جانیوالی کنکریاں کہاں جاتی ہیں

▪️ *حج میں شیطان کے ماری جانیوالی کنکریاں کہاں جاتی ہیں* ▪️

السلام علیکم مفتی صاحب!
مجھے یہ معلوم کرنا ھے: کہ حج میں جو جمرات پر لاکھوں حجاج کرام کنکریاں مارتے ہیں وہ کہاں چلی جاتی ہیں مجہے کسی نے بتایا تہا کہ جن حاجیوں کی کنکریاں مقبول ہوجاتی ہیں وہ فرشتے اٹھا لیجاتے ہیں اور جنکی مقبول نہیں ہوتیں وہ وہیں پڑی رہ جاتی ہیں۔

کیا یہ بات حدیث سے ثابت ھے؟
 از راہ کرم روشنی ڈالیں!!!!

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

اس بارے میں امام بیہقی نے روایت ذکر کی ھے:

⏺️ عن أبي الطفيل: سالت ابن عباس عن الحصي الذي يرمي في الجمار منذ قام الاسلام، فقال: ما تقبل منهم رفع، وما لم يتقبل منهم ترك، ولولا ذلك، لسد ما بين الجبلين.

★ ( ترجمة)  حضرت ابو الطفیل نے حضرت ابن عباس سے معلوم کیا: کہ وہ کنکریاں جو جمرات میں شیطان کو ماری جاتی ہیں وہ کہاں چلی جاتی ہیں؟ تو حضرت نے جواب دیا: جنکا حج مقبول ہوجائے انکی کنکریاں اٹھالی جاتی ہیں اور جنکا حج مقبول نہ ہو ان کی کنکریاں چھوڑ دی جاتی ہیں, اور اگر ایسا نہ ہو تو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ بھر جائے۔

🔰 وروينا عن سفيان الثوري عن ابي خيثم، عن ابي الطفيل عن ابن عباس قال:  وكل به ملك، ما تقبل منه رفع، وما لم يتقبل منه ترك.

★ ( ترجمة)  ابن عباس سے مروی ھے: کہ ایک فرشتہ اس کام پر مقرر ھے: جو قبول ہوجاتی ہیں وہ اٹھالی جاتی ہیں اور جو قبول نہ ہوں وہ چھوڑ دی جاتی ہیں۔

☢️ وعن سفيان قال: حدثني سليمان العبسي، عن ابي نعيم، قال: سألت أباسعيد عن رمي الجمار؟ فقال لي: ما تقبل منه رفع، ولولا ذلك، كان أطول من ثبير.

★ (ترجمة ) حضرت ابو سعید نے ابونعیم کے سوال( کہ جمرات کی کنکریاں کہاں جاتی ہیں) کے جواب میں ارشاد فرمایا : جو قبول ہوجاتی ہیں وہ اٹھالی جاتی ہیں اگر ایسا نہ ہو تو یہ پہاڑ کی طرح ڈھیر بن جائے۔

• المصدر: السنن الكبري
• المحدث: البيهقيؒ
• المجلد : 5
• الصفحة: 209
• الرقم: 9543
• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

❇️ *روایت کا درجہ*❇️

ہمکو «فتاوی دار العلوم زکریا» میں اس روایت کے متعلق یہ ملا: یہ روایت ضعیف ھے ؛ لہذا اس معاملہ کے متعلق یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا ھے ؛ بلکہ ممکن اور گمان کے درجے میں یہ بات مانی جاسکتی ھے۔

÷ نام کتاب: فتاوي دار العلوم زكريا
÷ افادات : مفتي رضاء الحق
÷ مجلد: 1
÷ صفحة: 308
÷ طبع: زمزم پبلشرز، نزد: مقدس مسجد، اردو بازار، كراچي، پاكستان.


🟣 *ابن حجرؒ كي تصريح*🟣

موسوعہ حافظ ابن حجر میں بہی اسی طرح کی روایت ذکر ھے؛ جس کو ضعیف لکہا گیا ھے۔

🔖 روى الدارقطني والحاكم من طریق عبد الرحمن بن أبي سعيد عن ابیہ قلنا: يارسول الله، هذه الجمار التي یرمي بها كل عام، فنحسب أنها تنقص، فقال: إنہ مايقبل منها یرفع، ولولا ذلك لرأيتها أمثال الجبال»

وفيه أبوفروة يزيد بن سنان، وهو ضعيف.

٭ المصدر: موسوعة الؔحافظ ابن حجر العسقلانيؒ الحديثية
٭ المؤلف: وليد الزبيدي وغيره
٭ المجلد:  2
٭ الصفحة: 283
٭ الرقم: 399
٭ الطبع: سلسلة إصدارات الحكمة.

والله تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
۱۹ جولايی: ؁۲۰۲۰ء

Friday, July 10, 2020

موت لیجاتی ہے وہاں جہاں مرنا ہو

▪️ *موت لیجاتی ھے وہاں جہاں مرنا ہو* ▪️

  ایک واقعہ کی تصدیق مطلوب ھے:  مروی ھے: کہ ایک آدمی حضرت سلیمانؑ کے پاس گیا اور عرض کیا : اے ﷲ کے نبی! مجھے ہندوستان کی سر زمین میں کچھ کام ھے آپ سے درخواست ھے کہ آپ " ہوا" کو حکم دیں کہ وہ مجھے اٹھاکر ہندوستان لے جائے۔ حضرت سلیمان نے دیکہا کہ اسکے ساتھ ملک الموت بہی ہیں اور مسکرارھے ہیں حضرت سلیمان نے ملک الموت سے معلوم کیا مسکرانے کی کیا وجہ ھے؟ فرمایا: مجہے اس بات پر تعجب ھے کہ مجھے اس بندہ کی اس گھڑی میں ہندوستان میں روح قبض کرنے کا حکم دیا گیا  ھے اور یہ اس وقت آپ کے پاس نظر آرہا ھے, روایت ھے کہ اس وقت ہوا اسے اٹھا کر ہندوستان لے گئ اور وہاں اس کی روح قبض کرلی گئ ۔

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق* :

  یہ واقعہ چند کتب میں مذکور ھے؛ لیکن اسکی سند حضورؑ تک یا صحابیؓ تک نہیں پہونچتی ھے یہ واقعہ ایک تابعیؒ سے منقول ھے یعنی بلحاظ سند مقطوع ھے اور ضعیف ھے۔ ممکن ھے اسرائیلیات سے ہو الغرض اس واقعے کو نبی کریمؐ کی جانب نسبت نہ کی جائے۔

▪️کتاب الزھد میں▪️

حَدَّثَنَا عبد الله حدثنا ابي، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ خَيْثَمَةَ، وَعَنْ حَمْزَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ:«دَخَلَ مَلَكُ الْمَوْتِ عَلَى سُلَيْمَانَ عليه السلام فَجَعَلَ يَنْظُرُ إِلَى رَجُلٍ مِنْ جُلَسَائِهِ؛ يُدِيمُ النَّظَرَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا خَرَجَ قَالَ الرَّجُلُ: مَنْ هَذَا؟قَالَ: هَذَا مَلَكُ الْمَوْتِ. قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْظُرُ إِلَيَّ كَأَنَّهُ يُرِيدُنِي!قَالَ: فَمَا تُرِيدُ؟قَالَ: أُرِيدُ أَنْ تَحْمِلَنِي الرِّيحُ، فَتُلْقِيَنِي بِالْهِنْدِ!قَالَ: فَدَعَا بِالرِّيحِ، فَحَمَلَهُ عَلَيْهَا، فَأَلْقَتْهُ بِالْهِنْدِ.ثُمَّ أَتَى مَلَكُ الْمَوْتِ سُلَيْمَانَ عليه السلام فَقَالَ: إِنَّكَ كُنْتَ تُدِيمُ النَّظَرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ جُلَسَائِي؟ قَالَ: كُنْتُ أَعْجَبَ مِنْهُ؛ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَقْبِضَ رُوحَهُ بِالْهِنْدِ، وَهُوَ عِنْدَكَ».

٭ المصدر: كتاب الزهد
٭ المؤلف: الامام احمد بن حنبلؒ
٭ الصفحة: 147
٭ الطبع: دار النهضة العربية، بيروت، لبنان.


🔰 مصنف ابن ابي شيبة🔰

٭ المصدر: مصنف ابن ابي شيبة
٭ المجلد: 19
٭ الصفحة:  35
٭ الرقم: 35409
٭ الطبع: دار قرطبة، بيروت، لبنان.


💠 الحبائك في أخبار الملائك💠

٭ المصدر: الحبائك في أخبار الملائك
٭ المصنف: السيوطيؒ
٭ الصفحة: 51
٭ الرقم: 167
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


🟣 ان تینوں کتب کی روایات کا حاصل یہ ھے کہ ان کی سند " شہر بن حوشبؒ " تک پہونچتی ھے جو کہ تابعی ہیں ؛ لیکن انکے متعلق محدثین کے اقوال مختلف ہیں بعض کے نزدیک یہ ضعیف ہیں۔

• نام کتاب : ميزان الاعتدال
• نام محدث: الامام الذهبيؒ
• جلد: 3
• رقم: 3761
• صفحة: 389
•  طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


⏺️ *اس مضمون کی روایت*⏺️

یہ مضمون " سنن ابن ماجہ" میں وارد ھے: کہ انسان کو جہاں موت آنی ھے اسکو ضرورت یا حاجت اسی جگہ لے جاتی ھے یعنی کوئی نہ کوئی ذریعہ ایسا بن جاتا ھے کہ وہ بندہ اسی جگہ چلا جاتا ھے جہاں مرنا مقدر ھوتا ھے .

🔖    إذا كانَ أجلُ أحدِكُم بأرضٍ أتَت لهُ إليها حاجةٌ فإذا بلغَ أقصَى أثرَهُ فتوفَّاهُ فتقولُ الأرضُ يومَ القيامةِ يا ربِّ هذا ما استَودَعتَني.

٭ الراوي: ابن مسعودؓ
٭ المحدث: ابن ماجةؒ
٭ المصدر: سنن ابن ماجه
٭ الرقم: 4263
٭ الصفحة: 969
٭ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.


___ *خلاصۂ کلام*___

یہ واقعہ نبی کریمؐ یا صحابیؓ کی جانب منسوب کیے بغیر بیان ہوسکتا ھے۔


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

Wednesday, July 8, 2020

والدین کیلیے وقت پر نکاح نہ کرنے کی وعید

▪️ *والدین کیلیے وقت پر نکاح نہ کرنے کی وعید*▪️

ہمکو معلوم ھے کہ شرع مبین کی رو سے نکاح میں جلدی ممدوح ہے اور بلاوجہ شرعی تاخیر میں گناہ ھے؛ لیکن نکاح میں تاخیر کے متعلق ایک روایت سنی ھے اسکی تحقیق و حوالہ درکار ھے:
 روایت یہ ھے: نبی کریمؐ نے فرمایا : جس جسکی لڑکی بالغ ہوچکی ھے , حد بلوغ میں پہنچ چکی ھے ماں باپ اسکی شادی کیلیے کوشش نہیں کرتے تو لڑکی کو جتنی ماہواری آتی ہے ایک ایک نبی کےقتل کا گناہ ماں باپ کے حصے میں لکھا جارہا ھے  نبی کے قتل کا گناہ لعنتوں کی بارش ہوتی ھے۔ یعنی ہر ماہواری پر ایک نبی کے قتل کے گناہ کے والدین حصہ دار ہونگے۔

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 سوال میں معلوم کردہ جو وعید حدیث کے حوالہ سے معلوم کی گئ ھے ہمکو تلاش بسیار کے بعد بہی کتب حدیث میں مل نہیں سکی؛ اسلیے اسکے بیان سے محتاط رہا جائے الا یہ کہ اسکا کسی حدیث سے حوالہ مل جائے؛ تاہم یہ بات " خطبات دین پوری " میں مذکور ھے:

• نام کتاب: خطبات دؔين پوري
• نام خطيب: عبد الشكورؒ دین پوری
• جلد: 3
• صفحه: 177
• طبع: کتب خانہ نعیمیہ, دیوبند۔

💠 *دیگر وعیدیں* 💠

البتہ نکاح کے مواقع میسر ہونے کے باوجود خواہمخواہ کی تاخیر کرنے پر وعید وارد ہوئی ہیں :

__*ترمذی میں*__

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ( إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ).

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ھے: آقا کریمؐ کا ارشاد ھے: جب تمہارے پاس ایسا رشتہ ہو جسکے دین و اخلاق یعنی حسن معاشرت سے آپ راضی ہوں تو فورا نکاح کرادو ورنہ بڑا فساد رونما ہوگا یعنی زنا وغیرہ میں پڑجانے اور رشتہ داریاں ختم ہونے کا اندیشہ قوی ہے اور مرد و زن بلا شادی کے رہ جاینگے۔

• نام كتاب: ترمذي
• جلد: 2
• حديث: 1084
• صفحه: 380
• طبع: دار الغرب، الإسلامي، بيروت، لبنان.

__*کنز العمال میں*__

  ثلاثٌ لا تُؤخِّرْهنَّ : الصلاةُ إذا أتتْ ، والجنازةُ إذا حضرتْ ، والأيِّمُ إذا وجدت كفؤًا.

( ترجمہ)

تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو، نماز میں جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ میں  جب حاضر ہوجائے اور غیر شادی شدہ لڑکی کے نکاح میں جب اس کا کفو (جوڑ کا رشتہ) مل جائے۔

  الراوي: علي بن أبي طالبؓ
  المحدث: علاء الدين الهنديؒ
  المصدر:   كنز العمال
  الصفحة: 513
  الرقم: 7668
  الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.


__*مشکات المصابیح میں*__

 منْ وُلِد لهُ ولدٌ ؛ فلْيُحسنِ اسمَهُ وأدبَه، فإذا بلغ فلْيُزوِّجهُ، فإن بلغ ولم يُزوِّجْهُ فأصاب إثمًا ؛ فإنما إثمهُ على أبيهِ.

(ترجمه)

جب اولاد بالغ ہوجائے اور والدین ان کی شادی نہ کریں ،اگر اس وقت اولاد کسی گناہ کی مرتکب ہوجائے تو باپ بھی اس کے گناہ میں برابر کا شریک ہوگا۔( چنانچہ لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد دینی و اخلاقی اعتبار سے اچھے لڑکے کا رشتہ ملنے پر جلد از جلدشادی کردینی چاہیئے، تعلیم وغیرہ کے مکمل ہونے کے انتظار میں تاخیر کرنا درست نہیں ہے۔)


 الراوي: أبو سعيد الخدريؓ وابن عباسؓ
 المصدر: مرقاة المفاتيح
 المجلد: 6
 الصفحة : 273
 الرقم:  3138
 درجة:  ضعيف
الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
   

والله تعالي أعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
۸ جولائی؁ء۲۰۲۰

Sunday, July 5, 2020

حضرت علی کا اصحاب کہف کو زندہ کرنا

▪️ *حضرت علیؓ کا اصحاب کہف کو زندہ کرنا* ▪️

  ایک واقعہ بطور معجزاتِ خلیفہ رابع سیدنا علی (کرم ﷲ وجہہ) مشہور ھے: کہ ایک بار خلفائے ثلثہ( صدیق اکبرؓ, عمر فاروقؓ, اور عثمان غنیؓ) حضورؐ کی خدمت میں آئے اور یہ کہا: کہ حضرت! آپ ہر معاملے میں ہم پر علی کو ہی فضیلت و فوقیت اور برتری دیتے ہیں اور ہماری کوئی اہمیت و فضیلت علی کے ہوتے ہوئے نظر ہی نہیں آتی!!! حضور نے فرمایا: کہ علی کو فضیلت دینا میرا کام نہیں ھے؛ بلکہ یہ تو خود خدا تعالی کا حکم ھے۔ اس پر تینوں خلفاء نے یقین نہ کیا اور بولے: علی کی فضیلت کی دلیل پیش کیجئے!
تو نبی اکرمؐ نے کہا: اصحاب کہف کو اللہ جسکے لیے زندہ کردے اور اصحاب کہف اسکی بات کا جواب دیں تو وہ افضل ہوگا,  انہوں نے کہا: جی ٹھیک ھے,(یعنی علی اصحاب کہف کو زندہ کردیں ہم علی کی فضیلت خود پر تسلیم کرلینگے) تو حضور نے ایک بڑی چادر منگوائی,اور اس پرحضرت علی کو بٹھایا, اور تینوں خلفاء کو بہی اسکے کونے میں بٹھادیا اور راوی قصہ یعنی حضرت سلمان فارسیؓ کو چوتھے کنارے پر بٹھادیا, اور ہوا کو حکم دیا: ان کو اصحاب کہف کے پاس لیجا اور واپس بہی لیتی آنا!
ہوا ان سب کو لیکر غار تک لے گئی, حضرت علی کے سوا سب سے نماز پڑھ کر دعا کی لیکن ایک بہی اصحاب کہف میں سے نہ بیدار ہوا نہ جواب دے پایا, پھر علی نے ایسا کیا تو غار چیخ پڑا اور اصحاب کہف بہی لبیک لبیک کہتے ہوئے بیدار ہوگئے, سلام کیا اور کہنے لگے کہ علی! آپ کی ولایت پر ایمان لانا ہم پرواجب ھے جیسے خدا و رسول پر ایمان لانا واجب ھے۔


اسکی حقیقت و حوالہ مطلوب ھے!!!

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

یہ واقعہ از روئے شرع و عقائد بہت ہی غلط باتوں پر مشتمل ھے؛ لہذا اسکو بیان کرنا یا سچا جاننا گمراہی کا سبب ہے۔

💠 *واقعہ کا حوالہ* 💠

یہ واقعہ ايك مؔسيحي مفكر  " جورج طرابیشی " نے اپنی کتاب "المعجزہ او سبات العقل فی الاسلام" میں نقل کیا ھے:اسکے علاوہ " سید ہاشم بحرانی" شیعی مصنف نے بہی اپنی کتاب " مدینۃ المعاجز " میں اسکو جگہ دی ھے,اس میں شیخین کی صراحتا مفضولیت مذکور ھے مثلا: اصحاب کہف نے علی سے  کہا: کہ ہم فقط انبیاء یا اوصیاء کی بات کا ہی جواب دیتے ہیں اسلیے آپ کی بات کا جواب دیا, وغیرہ وغیرہ۔


🔰 عن سلمان الفارسي أنه قال: دخل أبو بكر وعمر وعثمان على رسول الله (ص) فقالوا يا رسول الله مالك تفضل عليا علينا في كل الأفعال والأشياء ولا يرى لنا معه فضل، قال لهم: ما أنا فضلته بل الله فضله فقالوا: وما الدليل على ذلك؟
فقال :إذا لم تقبلوا مني فليس شيء عندكم أصدق من أهل الكهف  فمن أحيا الله أصحاب الكهف له وأجابوه كان الأفضل، قالوا رضينا يا رسول الله، فأمر رسول أن يبسط بساط له ودعا بعلي فأجلسه في البساط واجلس كل واحد منهم قرنةً قال سلمان: واجلسني القرنة الرابعة، وقال :ياريح! احمليهم إلى أصحاب الكهف ، ورديهم إلي،
فدخلت الريح وسارت بنا فإذا نحن في كهف عظيم فحطت عليه قال علي يا سلمان هذا الكهف والرقيم فقل للقوم يتقدمون أو أتقدم فقالوا نحن نتقدم فقام كل واحد منهم صلى ودعى وقال السلام عليكم يا أصحاب الكهف فلم يجبه أحد فقام بعدهم امير المومنين،  فصلى ركعتين ودعا بدعوات خفيات فصاح الكهف وصاح القوم من داخله بالتلبية فقال امير المومنين السلام عليكم أيها الفتية الذين آمنوبربهم وزادهم هدى فقالوا وعليك السلام يا أخا رسول الله ووصيه
لقد أخذ الله العهد علينا بعد إيماننا بالله وبرسوله محمد، ولك يا أمير المؤمنين
بالولاية إلى يوم الدين، فسقط القوم لوجوههم.

1️⃣• نام کتاب: المعجزة أو سُبات العقل في الإسلام
• نام مؤلف: جورج طؔرابيشي
• صفحة: 90
• طبع: دار الساقي، بيروت، لبنان.


2️⃣  • نام كتاب: مدينة المعاجز
       • نام مصنف: هاشم بؔحراني
       • جلد: 1
       • صفحة: 84
       • طبع: مؤسسة النعمان، بيروت، لبنان.

•• *خلاصۂ کلام* ••

مذکورہ واقعہ شؔیعی قلمکاروں کا خود تراشیدہ ھے اسکا مقصد فقط یہ ہیکہ وہ اپنے گمراہ کن عقائد کی نشر و اشاعت کریں, ایسے واقعات قابل بیان ہرگز نہیں ہیں الا یہ کہ مقصد ان کی تردید ہو۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
5 جولائی 2020؁ء