Thursday, January 30, 2020

حضرت خدیجہ کا کفن و غسل

• *حضرت خدیجہؓ کا کفن و غسل* •

 یہ بات بہت مشہور ہے: کہ حضور اکرمؐ نے اپنی زوجۂ اول حضرت سیدہ خدیجہ الکبریؓ کی وفات کے بعد بذاتِ خود بنفسِ نفیس ان کو غسل دیا تہا؟
نیز حضرت خدیجہؓ کا کفن کا کپڑا جنت سے ﷲ تعالی نے بہجوایا تہا؟...

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  یہ بات کہ حضرت خدیجہؓ کو خود حضور اکرمؐ نے غسل دیا تہا یہ صحیح نہیں ھے؛ بلکہ حضورؐ نے ان کے غسل  کفن اور دفن کا انتظام کیا تہا جیساکہ شوہر کرتا ہی ھے۔ غسل تو حضرت ام ایمنؓ اور ام الفضلؓ ( حضورؐ کی چچی) نے دیا تہا۔

🔘 وكانت التي غسلت خديجة "ام ايمن وام الفضل زوجة عباس.

٭ المصدر: إمتاع الأسماع
٭ المؤلف: المقريزيؒ
٭ المجلد: 6
٭ الصفحة: 30
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


▪ *انساب الاشراف میں*▪

 علامہ بلاذریؒ نے بہی یہی بات لکہی ھے: کہ سیدہ خدیجہ کبری کو حضرت ام ایمن اور حضرت ام الفضل نے غسل دیا تہا۔

▫ وقال الكلبي وغيره: غسلتها ام ايمن و ام الفضل.

٭ المصدر: انساب الأشراف
٭ المؤلف: البلاذري
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 35
٭ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.



💠 *کفن کے متعلق*💠

یہ جو مشہور ھے : کہ سیدہ کا کفن جنت سے اللہ نے بہجوایا تہا اسکو ایک شیعی غالی مصنف نے بلا کسی سند و حوالہ ذکر کیا ہے جسکا کوئی اعتبار نہیں ۔

📘 فلمّا تُوفّيت خديجة أخذ رسول الله (صلى الله عليه وآله في تجهيزها وغسّلها وحنّطها، فلمّا أراد أن يكفّنها هبط الأمين جبرائيل وقال: يا رسول الله، إنّ الله يقرئك السلام ويخصّك بالتحية والإكرام ويقول لك: يا محمّد إنّ كفن خديجة من عندنا، فإنّها بذلت مالها في سبيلنا. فجاء جبرائيل بكفن وقال: يا رسول الله، هذا كفن خديجة، وهو من أكفان الجنّة أهداه الله إليها. فكفّنها رسول الله‏ صلى الله عليه وآله بردائه الشريف أوّلاً، وبما جاء به جبرائيل ثانياً، فكان لها كفنان: كفن من الله، وكفن من رسوله.

• نام كتاب: شجرة طوبيٰ
•نام مؤلف: محمد مهدي الحائري
• جلد نمبر: 1
•  صفحة: 224
• طبع: مكتبة حيدرية، قم، إيران.


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Tuesday, January 28, 2020

قصہ فرعون کی باندی کا

• *قصہ فرعون کی ایک باندی کا* •

ایک واقعہ بہت مشہور ھے جو وعظاء و خطباء خدا کی راہ میں آزمائشوں و مصیبتوں کے سلسلے میں بیان کرتے ہیں ہمیں اسکا حوالہ و تحقیق مطلوب ھے
واقعہ اس طرح ھے:

 حضور اکرمؐ  شب معراج میں بیت المقدس کی طرف جاتے ہوئے مصر کے قریب ایک مقام سے گزرے تو انہیں نہایت ہی اعلیٰ اور زبردست خوشبو آنے لگی ۔
آپؐ نے حضرت جبرئیلؑ سے پوچھا کہ یہ خوشبو کیسی ہے ؟
جواب ملا
"فرعون کی بیٹی کی باندی مُشاطہ( کنگھی کرنیوالی)   اور اس کی اولاد کی قبر سے آرہی ہے.."
 پھر حضرت جبرئیلؑ نے اس کا قصہ بیان کیا کہ"مشاطہ فرعون کی بیٹی کی خادمہ تھی اور وہ خفیہ طور پر اسلام لا چکی تھی ایک دن فرعون کی لڑکی کو کنگھی کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے اتفاقاً کنگھی گر پڑی ۔ وہ اٹھانے لگی تو اس کی زبان سے بے ساختہ بسم اللہ نکل گیا۔ اس پر شہزادی نے کہا کہ تو نے آج عجیب کلمہ بولا رب تو میرے باپ فرعون ہی ہیں تو پھر تم نے یہ کس کا نام لیا ہے؟اس نے جواب دیا:" فرعوں رب نہیں بلکہ رب وہ الله ہے جو مجھے اور تجھے اور خود فرعون کو روزی دیتا ہے ۔
"شہزادی نے کہا اچھا تو میرے باپ کے سوا کسی اورکو اپنا رب مانتی ہے ؟
اس نے جواب دیا:
" ہاں ہاں میرا تیرا اور تیرے باپ ،سب کا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے "شہزادی نے اپنے باپ سے کہلوایا ۔وہ سخت غضبناک ہوا اور اسی وقت اسے برسر دربار بلوا بھیجا اور کہا،کیا تو میرے سوا کسی اور کو اپنا رب مانتی ہے ؟اس نے کہاکہ.." میرا اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے جو بلندیوں اور بزرگی والا ہے، فرعون نے اسی وقت حکم دیا کہ تانبے کی جو گائے بنی ہوئی ہے ،اس کو خوب تپایا جائے اور جب بالکل آگ جیسی ہوجائے تو اس کے بچوں کو ایک ایک کرکے اس میں ڈال دیا جائے، آخر میں خود اسے بھی اسی میں ڈال دیا جائے
چناچہ وہ گرم کی گئی ۔
جب آگ جیسی ہوگئی تو حکم دیا کہ اس کے بچے کو ایک ایک کرکے اس میں ڈالنا شروع کرو!
اس نے کہا" بادشاہ!  ایک درخواست میری منظور کر! وہ یہ کہ میری اور میرے ان بچوں کی ہڈیاں ایک ہی جگہ ڈال دینا ۔"اس نے کہا:" اچھا ٹھیک ہے ۔اسکی دونوں بچے اسکی آنکھوں کے سامنے اس میں ڈال دئیے گئے اور وہ فورا" جل کر راکھ ہوگئے پھر سب سے چھوٹے کی باری آئی جو ماں کی چھاتی سے لگا ہوا دودھ پی رہا تھا...فرعون کے سپاہیوں نے اسے گھسیٹا تو اس نیک بندی کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا..اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو اسی وقت زبان دے دی اور اس نے باآواز بلند کہا: " اماں جان ! افسوس نہ کر ،اماں جان ذرا بھی پس و پیش نہ کرو ۔حق پر جان دینا ہی سب سے بڑی نیکی ہے.،چنانچہ انہیں صبر آگیا ۔اس بچے کو بھی آگ میں ڈال دیا گیا ۔ اور آخر میں ان کی ماں کو بھی اسی آگ میں جلا کر مار دیا.""یہ خوشبو کی مہکیں اسی کے جنتی محل سے آرہی ہیں۔

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  یہ واقعہ مستند ھے اور احادیث طیبہ میں معتبر سند کے ساتھ موجود ہے:

🔰 *صحیح ابن حبان میں*


عَنِ ‏‏ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما ‏‏قَالَ ‏ :قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ‏‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (‏ ‏لَمَّا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الَّتِي ‏‏أُسْرِيَ ‏‏بِي فِيهَا ، أَتَتْ عَلَيَّ رَائِحَةٌ طَيِّبَةٌ ، فَقُلْتُ : يَا ‏جِبْرِيلُ ‏،‏ مَا هَذِهِ الرَّائِحَةُ الطَّيِّبَةُ ؟ فَقَالَ : هَذِهِ رَائِحَةُ ‏‏مَاشِطَةِ ابْنَةِ فِرْعَوْنَ ‏‏وَأَوْلادِهَا ، قَالَ : قُلْتُ : وَمَا شَأْنُهَا ؟ قَالَ : بَيْنَا هِيَ تُمَشِّطُ ابْنَةَ ‏‏فِرْعَوْنَ ‏‏ذَاتَ يَوْمٍ ، إِذْ سَقَطَتْ ‏‏الْمِدْرَى ‏‏مِنْ يَدَيْهَا ، فَقَالَتْ : بِسْمِ اللَّهِ ، فَقَالَتْ لَهَا ابْنَةُ ‏ ‏فِرْعَوْنَ :‏ ‏أَبِي ؟ قَالَتْ : لا ، وَلَكِنْ رَبِّي وَرَبُّ أَبِيكِ اللَّهُ ، قَالَتْ : أُخْبِرُهُ ‏‏بِذَلِكَ ! قَالَتْ : نَعَمْ ، فَأَخْبَرَتْهُ ، فَدَعَاهَا فَقَالَ : يَا فُلانَةُ ؛ وَإِنَّ لَكِ رَبًّا غَيْرِي ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ؛ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ ، فَأَمَرَ بِبَقَرَةٍ مِنْ نُحَاسٍ فَأُحْمِيَتْ ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا أَنْ‏ ‏تُلْقَى هِيَ وَأَوْلادُهَا فِيهَا ، قَالَتْ لَهُ : إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً ، قَالَ : وَمَا حَاجَتُكِ ؟ قَالَتْ : أُحِبُّ أَنْ تَجْمَعَ عِظَامِي وَعِظَامَ وَلَدِي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَتَدْفِنَنَا ، قَالَ : ذَلِكَ لَكِ عَلَيْنَا مِنْ الْحَقِّ ، قَالَ : فَأَمَرَ بِأَوْلادِهَا فَأُلْقُوا بَيْنَ يَدَيْهَا وَاحِدًا وَاحِدًا إِلَى أَنْ انْتَهَى ذَلِكَ إِلَى صَبِيٍّ لَهَا مُرْضَعٍ ، وَكَأَنَّهَا تَقَاعَسَتْ مِنْ أَجْلِهِ ، قَالَ : يَا ‏‏أُمَّهْ ؛‏ ‏اقْتَحِمِي فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ ، فَاقْتَحَمَتْ ) . ‏‏قَالَ ‏‏ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما : ‏تَكَلَّمَ أَرْبَعَةُ صِغَارٍ : ‏‏عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ‏‏عَلَيْهِ السَّلام ،‏ ‏وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ ،‏ ‏وَشَاهِدُ ‏‏يُوسُفَ ‏، ‏وَابْنُ ‏مَاشِطَةِ ابْنَةِ فِرْعَوْنَ .


٭ المصدر: صحيح ابن حبان
٭ الراوي: ابن عباس
٭ المحقق: شعيب الارنؤوط
٭ المجلد: 7
٭ الصفحة: 163
٭ الرقم: 2903
٭ الدرجة: إسناده قوي
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
28 جنوری 2020ء

Saturday, January 25, 2020

گھر کی خیر و برکت میں اضافہ

• *گھر کی خیر و برکت میں اضافہ* •

 ایک روایت بیان کی جاتی ھے: کہ جو شخص کہانے سے پہلے اور کہانے کے بعد ہاتھ دھویئگا اس کے گھر فقر و فاقہ نہ ہوگا
کیا یہ بات صحیح ھے؟

 برائے کرم اس پر مفصل روشنی ڈالیں!!!

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  کہانا کہانے کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ بہی ھے : کہ کہانے سے پہلے دونوں ہاتھ دھوئے جایئں اور کہانے کے بعد بہی ہاتھوں کو دھویا جائے۔ نیز حدیث میں ھے : کہ کہانے میں اس سے برکت ہوتی ھے:

🔹  عن سلمان الفارسي قال: قَرَأتُ في التَّوراةِ أنَّ بَرَكةَ الطَّعامِ الوُضوءُ قَبلَه، فذَكَرتُ ذلك لِلنَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، فقال: بَرَكةُ الطَّعامِ الوُضوءُ قَبلَه، والوُضوءُ بَعدَه..

( ترجمہ) حضرت سلمان فارسیؓ نے کہا: میں نے "تورات" میں پڑھا ہے کہ کہانے کی برکت اس سے پہلے ہاتھ کو دھونے میں ھے میں نے یہ بات حضورؐ کو بتائی تو حضورؐ نے فرمایا: کہانے کی برکت کہانے سے قبل و بعد دونوں مرتبہ دھونے میں ھے۔

   • الراوي: سلمان الفارسيؓ
   • المحدث:أبوداودؒ
   • المحقق: شعيب الارنؤوطؒ
   • المصدر: سنن أبي داود
   • المجلد: 5
   • الصفحة: 586
   • الرقم:  3761
   • خلاصة:  إسناده ضعيف
   • الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.


💎 *ابن ماجہ میں*💎

 «سنن ابن ماجہ» میں بھی اسی مضمون کی تائید ہوتی ھے ؛ تاہم اس روایت کی سند ضعیف ھے:

▪  من أحبَّ أن يكثُرَ الله خيرَ بيتِه فليتوضأ إذا حضرَ غداؤُه وإذا رُفِعَ.


    الراوي: أنس بن مالكؓ
    المحدث: ابن ماجهؒ
    المصدر: سنن ابن ماجه
    الصفحة: 750
    الرقم: 3260
    خلاصة: ضعيف
    الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان
 

🔘 *فائدہ* 🔘

اس کے تعلق سے ایک روایت یہ بیان کی جاتی ھے: کہ کہانے سے پہلے ہاتھوں کا دھونا فقر کو ختم کرتا ھے اور بعد میں ہاتھ دھونا گناہ صغیرہ کو ختم کرتا ھے اور بینائی میں اضافہ کرتا ھے یہ روایت بہت کمزور ھے اسکی نسبت حضورؐ کی جانب نہ کی جائے۔تاہم فقر کی نفی والی بات کی تائید اوپر ذکر کردہ روایت سے ہوتی ھے تو معنوی لحاظ سے یہ بات ٹھیک معلوم ہوتی ھے۔

🔰  الوضوءُ قبلَ الطعامِ يَنفي الفقرَ وبعدَهُ يَنفي اللممَ ويصلحُ البصرَ.

    المحدث: الصغانيؒ
    المصدر:  الدر الملتقط
    الصفحة: 25
    الرقم: 21
    خلاصة : فيه: نهشل بن سعيد وهو متروك.
    الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
   

💡 *الحاصل* 💡

 کہانے سے پہلے و بعد میں دونوں ہاتہوں کا دھونا مسنون عمل ھے اور سنتوں پر عمل کرنے  سے خیر و برکت کا حصول ہوتا ھے نیز  جب برکت کا حصول ہوگا تو طے ھے کہ فقر کا خاتمہ ہوگا؛ لہذا کہا جاسکتا ھے کہ کہانے سے پہلے و بعد میں ہاتھ دھونا فقر و فاقے کے خاتمے اور برکت کے نزول کا سبب ھے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۲۵ جنوری: ؁ء۲۰۲۰

Tuesday, January 21, 2020

جب حضور بہی رو پڑے

• *جب حضورؐ بہی رو پڑے*•

ایک واقعہ بہت مشہور ھے ہمیں اسکی تحقیق درکار ھے:

ایک صحابی رسول ایک دن حضور کے سامنے بڑے ہی مغموم بیٹھے تھے, تو آپ نے دریافت کیا : کہ ہوا اتنے غمگین کیوں ہو؟ تو ان صحابی نے کہا: یارسول خدا! میرا غم اس وجہ سے ھے کہ زمانہ جاہلیت میں اسلام لانے سے قبل مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہوا ھے اور مجہے خدا کا خوف دامن گیر ہے کہ میری اس گناہ کی وجہ سے مغفرت روک دی جائے, خواہ میں اسلام لاچکا ہوں!! حضور نے کہا: مجہے اپنا گناہ بتاؤ تو سہی! تو انہوں نے اپنا واقعہ سنایا: میرا شمار ان لوگوں میں سے ھے جو اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کیا کرتے تہے ؛ چنانچہ میرے گھر بہی خدا نے ایک چاند سی بیٹی عطا کی تہی میری اہلیہ نے مجھ سے خوب منت سماجت کی کہ میں اس بیٹی کو نہ ماروں اور زندہ رہنے دوں! چنانچہ میں نے اہلیہ کی بات مان لی اور میری بیٹی جوان ہوگئ اور وہ انتہائی حسین و جمیل تہی چنانچہ اسکے رشتے آنے لگے اور مجھ میں جاہلی حمیت جاگ گئ مجہے کسی کو داماد بنانا اور اپنی بیٹی دیکر خود کو کسی کے سامنے کمزور بنانا منظور نہ ہوا , میرے دل نے گوارا نہ کیا کہ میں اسکی شادی کراؤں اور نہ ہی یہ گوارا ہوا کہ اسکو یونہی کنوارا رہنے دوں! ایک دن میں اپنی بیوی سے بولا: کہ میں اپنے فلاں رشتے دار کے ہاں جارہا ہوں تم لڑکی کو بہی میرے ساتھ روانہ کردو! بیوی کو بہت خوشی ہوئی کہ اسکا شوہر اپنی بیٹی کو سفر میں لیجانا چاہتا ھے, تو اس نے بیٹی کو خوب آراستہ کیا خوب تیار کیا اور اسکو نیا جوڑا پہنایا , زیورات پہنائے ؛ لیکن اس نے روانگی سے قبل مجھ سے خوب عہد و قرار لیا کہ میں وعدہ خلافی نہ کروں یعنی بیٹی کو کوئی زک نہ پہونچاؤں! الغرض! میں اسکو لیکر نکلا اور راستے میں ایک کنواں پڑتا تہا میں اسکو وہاں لے گیا میں نے کنویں میں جہانکا میری لڑکی میرا ارادہ بہانپ گئ کہ میں اسکو کنویں میں ڈالنا چاہتا ہوں وہ مجھے لپٹ گئ اور رو رو کر خوب دہائی دینے لگی : بابا جان! تم یہ کیا کر رھے ہو؟ مجہے رحم آگیا اور میں کنویں میں دیکھنے لگا مجھ پر پھر وہی جاہلیت والی غیرت سوار ہوگئ لڑکی دوبارہ مجہے چپٹ کر رو رو کر کہنے لگی : بابا جان! میں امی جان کی امانت ہوں مجہے یوں ضائع مت کرو!  میں تہا کہ کبہی کنویں کو دیکہتا اور کبہی گڑگڑاتی ہوئی اپنی لخت جگر کو دیکہتا مجہے اسکی حالت اور بے کسی پر رحم بہی آرہا تہا ؛ لیکن میرے رحم کے مقابلہ میں مجھ پر شیطان غالب آگیا اور میں نے اس بیچاری کو اٹھا کر کنویں میں اوندھے منہ ڈال دیا, کنویں سے اسکی چیخیں مجہے سنائی دیتی رہیں ابا جان! ابا جان! مجہے یوں نہ زندگی سے محروم کرو! لیکن مجھ پر اسکی کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا میں اسکے موت کی آغوش میں جانے تک وہیں ٹہرا رہا یہاں تک کہ مر چکی تہی پھر میں وہاں سے لوٹ آیا ۔یہ واقعہ سن کر نبی کریم بہی رو پڑے اور جو صحابہ سن رہے تھے سب رو پڑے , حضور نے فرمایا: اگر میں زمانۂ جاہلیت کے کیے ہوئے کسی جرم کی سزا دینے کا مجاز ہوتا تو تمکو اس جرم کی سزا ضرور دیتا۔

 •• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ واقعہ متعدد کتب تفسیر میں مذکور ہے؛ لیکن سند وہاں بہی مذکور نہیں ھے۔چنانچہ اس واقعہ کو حتمی نہیں مانا جاسکتا ھے۔

🔘  *تفسیر قرطبی میں*

روي أن رجلا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يزال مغتما بين يدي رسول الله
صلى عليه وسلم: (مالك تكون محزونا) ؟ فقال: يا رسول الله، إن أذنبت ذنبا في الجاهلية فأخاف ألا يغفره الله لي وإن أسلمت ! فقال له: (أخبرني عن ذنبك).
فقال: يا رسول الله، إن كنتُ، من الذين يقتلون بناتهم، فولدت لي بنت فتشفعت إلى امرأتي أن أتركها فتركتها حتى كبرت وأدركت، وصارت من أجمل النساء فخطبوها، فدخلتني الحمية ولم يحتمل قلبي أن أزوجها أو أتركها في البيت بغير زوج، فقلت للمرأة: إني أريد أن أذهب إلقبيلة كذا وكذا في زيارة أقربائي فابعثيها معي، فسرت بذلك وزينتها بالثياب والحلي، وأخذت علي المواثيق بألا أخونها، فذهبت بها إلى رأس بئر فنظرت في البئر ففطنت الجارية أني أريد أن ألقيها في البئر، فالتزمتني وجعلت تبكي وتقول: يا أبت ! إيش تريد أن تفعل بي ! فرحمتها، ثم نظرت في البئر فدخلت علي الحمية، ثم التزمتني وجعلت تقول: يا أبت لا تضيع أمانة أمي، فجعلت مرة أنظر في البئر ومرة أنظر إليها فأرحمها، حتى غلبني الشيطان فأخذتها وألقيتها في البئر منكوسة، وهي تنادي في البئر: يا أبت، قتلتني.
فمكثت هناك حتى انقطع صوتها فرجعت.
فبكى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه وقال: (لو أمرت أن أعاقب أحدا بما فعل في الجاهلية لعاقبتك).

٭ المصدر : تفسير قرطبي
٭ المفسر : أبو عبد الله القرطبيؒ
٭ المجلد: 9
٭ الصفحة: 49
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

💠 *تفسیر سمر قندی میں*

یہ واقعہ «امام ابواللیث سمرقندیؒ» نے اپنی مشہور تفسیر " بحر العلوم "میں بلا سند ذکر کیا ھے:

• المصدر: بؔحر العلوم
• المفسر: أبو الليث السمرقنديؒ
• المجلد: 1
• الصفحة: 516
• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

والله تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
۲۱ جنوری: ؁۲۰۲۰ء

Thursday, January 16, 2020

اہل محبت کا درود

▪ *اہلِ محبت کا درود* ▪

 ایک روایت بہت بیان کی جاتی  ھے کہ سرکارِ مدینہ ،راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے : ’’اَسْمَعُ صَلٰوۃَ اَھْلِ مَحَبَّتِیْ وَاَعْرِفُھُمْ ،

یعنی اہلِ محبت کادُرُود میں  خُود سنتا ہوں  اور انہیں   پہچانتا ہوں

 ،وَتُعْرَضُ عَلَیَّ صَلٰوۃُ غَیْرِھِمْ عَرْضًا ،

جبکہ دوسروں  کا دُرُود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘

کیا یہ روایت مستند ھے؟!!


•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*

آپؐ کی خدمت عالیہ میں درود پاک کے پہونچنے کے  متعلق جو مستند روایات ہیں وہ اس طرح ہیں:

🔹 عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (مَا مِن أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلا رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيهِ السَّلَامَ) .

ترجمہ: جو بھی مجھ پر سلام کا نذرانہ پیش کرتا ھے تو میں اسکا جواب دیتا ہوں؛ کیونکہ میں اپنی قبر میں باحیات ہوں۔


÷ نام کتاب: سنن أبوداود
÷ نام محدث: الامام ابوداودؒ
÷ المجلد: 1
÷ الصفحة: 295
÷ رقم الحديث: 2041
÷ درجة: حسن
÷ طبع: مكتبة رحمانية، لاهور، پاكستان.

💠 عن أبي هريرة: لاتجعلوا بيوتكم قبوراً ولا تجعلوا قبري عيداً وصلّوا عليّ فإنّ صلاتكم تبلغني حيث كنتم.

ترجمة: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ھے: کہ آقائے کریمؑ کا ارشاد ھے : تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ! اور میری قبر کو عید نہ بناؤ! اور مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو! کیونکہ تمہاری درود مجھ تک پہونچادی جاتی ھے خواہ تم کہیں بہی ہو۔

* نام کتاب: سنن أبو داود
* نام محدث: الامام ابوداودؒ
* المجلد: 1
* الصفحة: 295
* رقم الحديث: 2042
* الدرجة: صحيح
* الطبع: مكتبة رحمانية، لاهور، پاكستان.

🔘 عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( إن لله ملائكة سياحين في الأرض يبلغوني من أمتي السلام )

(ترجمہ: حضرت سیدنا ابن مسعودؓ سے مروی ھے : کہ آپ نے ارشاد فرمایا: کہ ﷲ کی جانب سے کچھ فرشتے دنیا میں مقرر ہیں جو ساری دنیا میں گھومتے پھرتے ہیں اور امتیوں کا سلام مجھ تک پہونچاتے ہیں۔

• نام كتاب: سنن نسائي
• نام محدث: الامام نسائيؒ
• الصفحة: 151
• رقم الحديث: 1282
• درجة: صحيح
• طبع: بيت الأفكار الدولية، الاردن.

۞ عن ابی بکر الصدیق :أكْثِرُوا الصلاةَ عليَّ ، فإنَّ اللهَ وكَّلَ بي ملَكًا عند قبري ، فإذا صلَّى عليَّ رجلٌ من  أُمَّتِي قال لي ذلك المَلَكُ : يا محمدُ إنَّ فلانَ بنَ فلانٍ صلَّى عليك الساعةَ.


(ترجمہ:) حضرت ابوبکر صدیقؓ سے مروی ھے: کہ حضورؐ کا ارشاد ھے: مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو! کیونکہ ﷲ نے میری قبر کے پاس ایک فرشتہ مقرر کیا ہوا ھے چناچہ جب کوئی امتی مجھ پر درود پڑھتا ھے تو وہ فرشتہ مجھ سے کہتا ھے: حضرت! فلاں بن فلاں نے آپ کو ابہی ابہی درود کا نذرانہ پیش کیا ھے۔

+ نام کتاب: السلسلة الصحيحة
+ نام محدث: البانيؒ
+ مجلد: 4
+ صفحة: 43
+ رقم الحديث: 1530
+ درجة: حسن
+ طبع: مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، رياض.

💡 جبکہ سوال میں معلوم کردہ روایت کہ میں اہل محبت کا درود خود سنتا ہوں اور بقیہ کا درود مجھ تک پہونچایا جاتا ھے یہ روایت " دلائل الخیرات " میں -شیخ ابوعبد اللہ محمد بن سلیمان الجزولی- نے بلا کسی سند ذکر کی ھے:

✧ قيل لرسول الله صلي الله عليه وسلم: أرأيت صلاة المصلين عليك ممن غاب عنك ومن ياتي بعدك؟ ما حالهما عندك؟ فقال: أسمع صلاة أهل محبتي وأعرفهم، وتعرض عليَّ صلاة غيرهم عرضا.

( ترجمہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: جو آپ پر نزدیک سے اور دور سے درود بھیجتے ہیں اور بعد میں آنے والے بھی بھیجیں گے، کیا یہ سب درود آپ پر پیش کیے جاتے ہیں اور پیش کیے جائیں گے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اہل محبت کا درود سنتا اور انہیں پہچانتا ہوں جبکہ دیگر کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ھے۔“

• نام كتاب: دلائل الخيرات
• نام مؤلف: محمد بن سلیمان الجزوليؒ
• صفحة: 12
• درجة: بدون سند
• طبع: مكتبة جامعة الملك سعود،  السعودية.


⚠ *الحاصل*⚠

 حضورؑ پر امتیوں کا درود و  سلام  پہونچایا جاتا ھے اس کام کے لیے خدا کی جانب سے فرشتے مقرر ہیں, نیز جو بندہ قبر اطہر کے قریب سے درود پڑھتا ھے تو خود نبی کریمؑ اسکو سنتے ہیں؛ تاہم سوال میں معلوم کردہ روایت کہ جس میں اہل محبت و غیر اہل محبت کا فرق ھے وہ روایت بلا سند ھے لہذا اسکی نسبت نبی کریمؑ کی جانب نہ کیجائے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
16جنوری: 2020؁ء

Tuesday, January 14, 2020

حضرت ام شریک کی کرامت

•• *حضرت ام شریکؓ کی کرامت* ••


حضرت ابن عباسؓ سے مروی ھے: کہ ام شریک کے دل میں اسلام گھر کر گیا اور وہ اس وقت مکہ مکرمہ میں سکونت پذیر تہیں اولا تو وہ قریشی خاتون ہیں ؛ لیکن بعد میں ان کا نکاح ابو العکر دوسی سے ہوگیا الغرض! قبول اسلام کے بعد وہ قریش کی خواتین میں در پردہ تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دینے لگیں تاآنکہ انکا یہ راز فاش ہوگیا تو کفار مکہ نے انکو پکڑ لیا  اور کہا: اگر ہمکو تمہاری قوم و خاندان کا پاس و لحاظ نہ ہوتا تو ہم تمہارے ساتھ وہ سب کرتے جو قبول اسلام کی پاداش میں دیگروں کے ساتھ کیا جاتا ھے ؛ لیکن بس تمکو رعایت دی جاتی ھے اور تمہیں ہم تمہاری قوم کے حوالہ کردینگے۔
ام شریک فرماتی ہیں: ان لوگوں نے مجہے مکہ سے باہر کردیا اور ایک برہنہ پشت اونٹ پر سوار کیا اور تین دن تک مجہے نہ کہانا دیا نہ پانی, تین دن مسلسل اسی طرح فاقے کیساتھ گزر گئے چنانچہ وہ لوگ دوران سفر جہاں پڑاؤ ڈالتے تو خود ہی کہاتے پیتے اور مجہے کچھ نہ دیتے اور سفر یونہی ہوتا رہا, یہی حالت جاری تہی کہ مجہے ٹھنڈک کا احساس ہوا تو پایا کہ ایک ڈول ھے جو مجہے پانی پلاتا ھے
میں نے پانی پیا اور کچھ پانی بدن و کپڑوں پر چھڑک لیا ۔وہ لوگ جب آرام سے بیدار ہوئے تو انہوں نے میرے اوپر پانی کے اثرات دیکھے اور میری حالت ظاہری میں بہی تبدیلی پائی,
تو وہ کہنے لگے: کہ تم نے رسیوں سے ہاتھ پاؤں چھڑا کر ہمارے پانی کے برتن کھول پانی پیا ھے؟ میں نے کہا: نہیں! بخدا میں نے ایسا نہیں کیا ھے؛ بلکہ جو واقعہ پیش آیا کہ ایک غیبی ڈول سے ان کو پانی پلایا گیا وہ سب ماجرا کہہ سنایا, تو وہ لوگ کہنے لگے اگر تو سچ بول رہی ھے تو تیرا مذہب ہی سچ اور برحق ھے, پھر انہوں نے اپنے پانی کے مشکیزے اور برتن چیک کیے تو وہ پانی جوں کا توں تہا اس میں کچھ کم نہ ہوا تہا تو ان کو ام شریک کی تصدیق کرنی پڑی اور سب اس واقعہ سے متاثر ہوکر مشرف باسلام ہوگئے۔

اس واقعہ کا حوالہ مطلوب ھے!!


•• *باسمہ تعالی*••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ واقعہ چند کتب میں مذکور ھے:

💠 *صُفوة الصَّفوة ميں*

 امام ابن الجوزیؒ نے اس واقعے کو " صفوۃ الصفوۃ " میں ذکر کیا ھے:

★  عن ابن عباس قال: ووقع في قلب أم شريك الإسلام وهي بمكة وهي إحدى نساء قريش ثم إحدى بني عامر بن لؤي وكانت تحت أبي العكر الدوسي فأسلمت ثم جعلت تدخل على نساء قريش سرا فتدعوهن وترغبهن في الإسلام حتى ظهر أمرها لأهل مكة فأخذوها وقالوا لها: لولا قومك لفعلنا بك وفعلنا ولكنا سنردك إليهم.

قالت: فحملوني على بعير ليس تحتي شيء موطأ ولا غيره ثم تركوني ثلاثا لا يطعموني ولا يسقوني. قالت: فما أتت علي ثلاث حتى ما في الأرض شيء أسمعه فنزلوا منزلا وكانوا إذا نزلوا أوثقوني في الشمس واستظلوا وحبسوا عني الطعام والشراب حتى يرتحلوا فبينما أنا كذلك إذ أنا بأثر شيء على برد منه ثم رفع ثم عاد فتناولته فإذا هو دلو ماء فشربت منه قليلا ثم نزع مني ثم عاد فتناولته فشربت منه قليلا ثم رفع ثم عاد أيضا ثم رفع فصنع ذلك مرارا حتى رويت ثم أفضت سائره على جسدي وثيابي. فلما استيقظوا فإذا هم بأثر الماء ورأوني حسنة الهيئة فقالوا لي: انحللت فأخذت سقاءنا فشربت منه. فقلت: لا والله ما فعلت ذلك كان من الأمر كذا وكذا فقالوا: لئن كنت صادقة فدينك خير من ديننا فنظروا إلى الأسقية فوجدوها كما تركوها وأسلموا بعد ذلك.

÷ نام کتاب : صؔفوة الصفوة
÷ نام مؤلف: ابن الجوزيؒ
÷ صفحة: 302
÷ طبع: دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان.

 🔹 *الإصابة ميں*🔹

 اس واقعہ کو علامہ ابن حجر عسقلانیؒ نے ابونعیمؒ کے حوالے سے "الإصابة في تمييز الصحابةؓ" میں ذکر کیا ھے: جسکی سند اس طرح ھے:

۩ أخرج أبونعيم من طريق محمد بن مروان السدي - أحد المتروكين ـ وأبوموسي من طريق إبراهيم بن يونس عن زياد عن بعض أصحابه عن ابن الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس قال:

اسکی سند میں ایک راوی " محمد بن مروان سدی" کو ابن حجرؒ نے متروک کہا ھے۔

•المصدر: الإصابة في تمييز الصحابةؓ
• المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ
• المجلد: 8
• الصفحة: 416
• الرقم: 12103
• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


🔰 *معرفة الصحابة ميں*🔰

 امام ابونعیم اصفہانیؒ نے بہی اسکو "معرفة الصحابةؓ " میں ذکر کیا ھے اور اسکی سند وہی ھے جو ابن حجر نے ذکر کی ھے:

% نام کتاب: معرفة الصحابة
% نام مؤلف: أبونعيم الاصبهانيؒ
% صفحة: 3518
% رقم: 4112
% طبع: دار الوطن للنشر، رياض،


⚠ *محمد بن مروان پر کلام*

 جیساکہ ابن حجرؒ کے حوالہ سے ہم ذکر کر چکے کہ " محمد بن مروان سدی" متروک راوی ہیں اور ان پر جرح کی گئ ھے , ابن عدیؒ نے "الکامل" میں ان کے متعلق جرح ذکر کی ھے:

۞ حدثنا ابن حماد، ثنا عباس، ثنا يحيٰ، قال: السدي الصغير صاحب الكلبي محمد بن مروان مولي الخطابيين ليس بثقة.
حدثنا الجنيدي، حدثنا البخاري، حدثنا: محمد بن مروان الكوفي،سكتوا عنه.
سمعت ابن حماد يقول: قال السعدي: محمد بن مروان السُّدي ذاهب.
قال النسائي: محمد بن مروان الكوفي،روي عن الكلبي متروك الحديث.


٭ المصدر: الكامل في ضعفاء الرجال
٭ المؤلف:  ابن عديؒ
٭ المجلد: 6
٭ الصفحة: 263
٭ الرقم: 1742
٭ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.

🔘 *تقریب التہذیب میں*

امام  ابن حجر عسقلانیؒ نے " محمد بن مروان سدی صغیر" کو متروک اور متہم بالکذب لکہا ھے:

محمد بن مروان بن عبد الله بن إسماعيل السُدِّي ـ بضم المهملة والتشديد ـ وهو الاصغر، كوفي، متهم بالكذب، من الثامنة.

》المصدر: تقريب التهذيب
》المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ
》الصفحة: 563
》الرقم: 6284
》الطبع: بيت الأفكار الدولية، الأردن،

▪ *ابن الکلبی کے متعلق*▪

 " محمد ابن سائب کلبی " کے متعلق بہی - ابن حجرؒ - نے تقریب التہذیب میں لکہا ھے: کہ یہ بہی کذب کے الزام میں متہم ہیں نیز رافضیت کا الزام بہی ان پر لگا ھے:

💡 محمد بن السائب بن بشر الكلبي ابو النضر الكوفي، النسابة المفسر: متهم بالكذب، ورمي بالرفض،من السادسة، مات سنة ست وأربعين.

٭ المصدر: تقريب التهذيب
٭ المحدث: ابن حجرؒ
٭ الصفحة: 535
٭ الرقم: 5901
الطبع:  بيت الأفكار الدولية، الأردن.

💠 *ابن عدی کا قول*

 ابن الکلبی کے متعلق "ابن عدیؒ " کہتے ہیں : کہ ان کو نسائیؒ نے متروک الحدیث کہا ھے, اور سفیان ثوریؒ نے کہا کہ ابن کلبی ابو صالح سے جو روایت بیان کرے وہ کذب ہوتی ہیں؛ لیکن ابن عدی نے خلاصہ یہ لکہا ھے: ابن الکلبی بالخصوص جب ابو صالح عن ابن عباسؓ روایت بیان کرتے ہیں تو اس میں منکر روایات بکثرت ہوتی ہیں؛ چونکہ ابن الکلبی ضعفاء روات میں مشہور ہیں تو ان کی روایت لکھ دی جاتی ہیں۔

÷ نام کتاب : مختصر الؔکامل فی الضعفاء
÷  المحدث: تقي الدين المقريزيؒ
÷ الصفحة: 651/ 653
÷ الرقم: 1626
÷ الطبع: مكتبة السنة، قاهرة، مصر.

⭕ *خلاصہ کلام*⭕

 مذکورہ واقعہ بلحاظ سند اگر چہ ضعیف جدا یعنی بہت زیادہ ضعیف ھے ؛ لیکن در اصل یہ واقعہ و روایت کسی حکم شرعی کے اثبات کیلیے نہیں ھے  فقط ایک صحابیؓ کی کرامت کا واقعہ ھے جسکے بیان کیلیے اسناد کا قوی ہونا شرط نہیں ھے؛ بلکہ خطیب بغدادی کے حوالے سے " شیخ یونس جونپوریؒ " لکہتے ہیں: اور صالحین کے واقعات, اور زاہدین و عابدین کی حکایتیں, اور بلغاء و ادباء کی حکمت و نصیحت کی باتیں تو ان میں اسناد فقط زینت ہیں انکے بیان کرنے میں اسناد کی ضرورت نہیں۔

⚄ وأما أخبار الصالحين، وحكايات الزهاد والمتعبدين، ومواعظ البلغاء وحكم الادباء، فالأسانيد زينة لها، وليست شرطا لتأديتها.

٭ نام كتاب: نوادر الحديث
٭ نام مصنف: الشيخ يونس الجونفوريؒ
٭ صفحة: 41
٭ طبع: إدارة إفاداتِ أشرفية، دو بگہ، هردوئي روڈ، لکہنؤ، انڈیا.


🌷 *فائدہ* 🌷

 بعض لوگ اسناد کے باب میں اتنا غلو کرتے ہیں کہ حکایاتِ اولیاء میں بہی اس طرح لازم کردیتے ہیں جس طرح حدیث میں لازم سمجہی جاتی ھے اگر کسی نے تاریخ کی کتاب سے کوئی عبرت کا واقعہ سنایا یا زاہدوں کے واقعات کا تذکرہ کیا گیا تو وہ سند کا مطالبہ کرتے ہیں اور سند مقبول نہیں ملی تو اس واقعہ کا انکار کردیتے ہیں؛ بلکہ ناقل یا کتاب کی تنقید بھی کرتے ہیں اسے غلو اور بیجا تشدد ہی کہا جاسکتا ھے۔

• نام کتاب: موضوع حدیث سے بچئے
• نام مؤلف: سعید احمد مجادری
• صفحة : 174
• طبع: إدارة الصديق، ڈابہیل، گجرات، انڈیا.


والله تعالي اعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

14 جنوری: 2020؁ء

مٹی کے برتنوں کی فضیلت

• *مٹی کے برتنوں کی فضیلت*•

 یہ روایت کتب فقہ میں ہم نے پڑھی ھے: کہ کہانے پینے کے برتن مٹی کے ہوں تو بہتر ھے؛ کیونکہ اس میں اسراف اور دکھاوا نہیں ہوتا نیز حدیث کے حوالہ سے یہ بہی پڑھا ھے: جس گھر میں مٹی کے برتن ہوں فرشتے اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں

کیا یہ روایت درست ھے ؟!!

•• *باسمہ تعالی*••
*الجواب وبہ التوفیق:*

یہ بات تو درست ھے  کہ مٹی کے برتن سادگی کی علامت ہیں اور ان میں فضول خرچی اور دکہاوا وغیرہ نہیں ہوتا ہے جیساکہ کتب فقہ میں مصرح ھے نیز بلحاظ طب بہی مٹی کے برتن اہمیت کے حامل ہیں ؛ لیکن مٹی کے برتنوں کی جو فضیلت کتب فقہ میں بحوالہ حدیث درج ھے کہ "جس گھر میں مٹی کے برتن ہوں اس گھر کی زیارت کو فرشتے آیا کرتے ہیں " یہ روایت بقول «امام قاسم ابن قطلوبغا حنفيؒ» ملي هي نهيں ؛ لہذا اس کو حدیث نہ مانا جائے۔اور نہ ہی مذکورہ فضیلت معتبر مانی جائے۔

🌷 حديث: من اتخذ أواني بيته خزفا، زارته الملئكة.
قلتُ: ولم أقف عليه ايضا.

٭ المصدر: التعريف والإخبار بتخريج أحاديث الاختيار
٭ المحدث: حؔافظ قاسم ابن قطلوبغاؒ
٭ الصفحة: 2465
٭ الرقم: 1732
٭ الدرجة: لم أقف عليه
٭ الطبع: جامعة أم القري، مكة.


والله تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

14جنوری: 2020؁ء

Monday, January 13, 2020

حضرت عبد ﷲ بن حذافہ کا واقعہ

*٭حضرت عبداللہ بن حذافہؓ کا واقعہ٭*


(حکومت، دولت اور شہزادی ٹھکرانے والے صحابیؓ کی داستان)

  حضرت عبداللہ بن حذافہؓ کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کو رومی کافروں نے قید کرلیا اور اپنے بادشاہ کے پاس پہنچا دیا۔بادشاہ نے آپ سے کہا تم نصرانی بن جاؤ، میں تمہیں راج پاٹ میں شریك كرليتا هوں، اور اپنی بیٹی سے تمہارا نکاح بہی کرادونگا عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عن نے جواب دیا .
کہ یہ تو کیا اگر تو اپنی بادشاہت مجھے دے دے اور تمام عرب کا راج بھی مجھے سونپ دے اور چاہے کہ میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اپنے دینِ محمد ﷺ سے پھر جاؤں تو بھی یہ ناممکن ہے۔بادشاہ نے کہا پھر تجھے قتل کردوں گا حضرتِ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ہاں یہ تجھے اختیار ہے۔چنانچہ اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا اور انہیں صلیب پر چڑھا دیا اور تیراندازوں نے قریب سے بحکم بادشاہ ان کے ہاتھ پاؤں چھیدنا شروع کردیا،بار بار کہا جاتا کہ اب بھی نصرانیت قبول کرلو،
اور آپ پورے صبر و استقلال کے ساتھ فرماتے جاتے تھے ہرگز نہیں۔ آخر بادشاہ نے حکم دیا اسے سولی سے اتار لو(اور پیتل کی بنی ہوئی دیگ خوب تپا کر آگ بنا کر لاؤ)چنانچہ وہ پیش ہوئی۔بادشاہ نے ایک اور مسلمان قیدی کی بابت حکم دیا کہ اسے اس میں ڈال دو۔اسی وقت حضرتِ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں آپ کے دیکھتے ہوئے اس مسلمان قیدی کو اس میں ڈال دیا گیا۔
وہ مسکین صحابی اسی وقت چرمر ہو کر رہ گئے،گوشت پوست جل گیا اور ہڈیاں چمکنے لگیں۔پھر بادشاہ نے حضرتِ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ دیکھو اب بھی وقت ہےبات مان لو اور ہمارا مذہب قبول کرلو ورنہ اسی آگ کی دیگ میں اسی طرح تمہیں بھی ڈال کر جلا دیا جائے گا ۔آپ نے پھر بھی ایمانِ جوش سے کام لے کر فرمایا کہ ناممکن ہے کہ میں اللہ کے دین کو چھوڑ دوں۔
اسی وقت بادشاہ نے حکم دیا کہ انہیں چرخی پر چڑھا کر اس میں ڈال دوں۔جب یہ اس آگ کی دیگ میں ڈالے جانے کے لیے چرخی پر اٹھائے گئے تو بادشاہ نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسؤ نکل رہے ہیں۔اس وقت اس نے حکم دیا کہ رک جائیں اور انہیں اپنے پاس بلا لیا،اس لیے کہ اب اسے امید بندھ گئی تھی کہ شاہد اس عذاب کو دیکھ کر اس کے خیالات بدل گئے ہوں، میری بات مان لے گا اور میرے مذہب کو قبول کرکے میری دامادی میں آکر میری سلطنت کا ساجھی بن جائے گا۔
لیکن بادشاہ کی یہ تمنا بے سود نکلی حضرتِ عنداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صرف اس وجی سے رویا تھا کہ آہ! ایک جان ہے جسے اللہ کی راہ میں اس عذاب کے ساتھ قربان کر رہا ہوں،کاش میرے روئیں روئیں میں ایک ایک جان ہوتی تو آج سب میں سب جانیں اللہ کی راہ میں ایک ایک کرکے فدا کردیتا۔
 بعض روایات میں ہے کی آپ کو قیدخانے میں رکھا اور کھانا پینا بند کردیا کئی دن کے بعد شراب اور خنزیر کا گوشت بھیجا،لیکن آپ نے اس بھوک پر بھی اس کی طرف توجہ نہ فرمائی۔بادشاہ نے آپ کو بلا بھیجا اور اسے نہ کھانے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا :"اس حالت میں میرے لیے جائز تو ہوگیا ہے لیکن میں تجھ جیسے دشمن کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتا"۔
اب بادشاہ نے کہا :اچھا تم میرے سر کا بوسہ لے لو، تو میں تمہیں اور تمہارے ساتھ کے تمام قیدیوں کو رہا کردیتا ہوں۔آپ نے اسے قبول فرما لیا اور اس کے سر کا بوسہ لے لیا اور بادشاہ نے بھی اپنا وعدہ پورا کیا۔آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو چھوڑ دیا۔جب حضرتِ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ یہاں سے آزاد ہوکر حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے .
تو آپ نے انُہیں بڑے ادب کے ساتھ منبرِ رسول ﷺ پر بٹھایا اور فرمایا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ ہم کو سناؤ۔چنانچہ جب آپ نے شروع کیا تو خلیفہ المسلمین رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تو آپ نے فرمایا ہر مسلمان پر حق ہے کہ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کی پیشانی چومے اور میں ابتداء کرتا ہوں یہ فرما کر آپ نے ان کے سر کا بوسہ لیا اور پھر دیگر مسلمانوں نے.


اس واقعہ کا حوالہ مطلوب ھے!!

   *باسمه تعالي*
*الجواب وبه التوفيق*:

 یہ واقعہ چند کتب میں موجود ھے: مثلا: شعب الایمان, سیر اعلام النبلاء, الاصابہ, تاریخ ابن عساکر, المحن وغیرہ میں؛ البتہ واقعے کی سند پر کلام ھے ؛ جسکی وجہ سے اسکی سند کافی کمزور ہوجاتی ھے ؛ تاہم اسکا ایک ضعیف شاہد موصولا عن ابن عباس موجود ھے جسکی وجہ سے اتنا کہا جاسکتا ھے کہ اس واقعہ کی کوئی اصل ضرور ھے یعنی اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ھے۔

🔘 *شعب الایمان میں*

أخبرنا أبو الحسين محمد بن الفضل القطان، أخبرنا أبو سهل بن زياد القطان، حدثنا سعيد بن عثمان الأهوازي، حدثنا عبد الله بن معاوية الجمحي، وأخبرنا أبو نصر عمر بن عبد العزيز بن عمر بن قتادة، أخبرنا أبو محمد يحيى بن منصور القاضي، حدثنا أبو الفضل أحمد بن سلمة، حدثنا عبد الله بن معاوية الجمحي، حدثنا عبد العزيز بن محمد القسملي، حدثنا ضرار بن عمرو، عن أبي رافع، قال:
’’ وجه عمر بن الخطاب رضي الله عنه جيشا إلى الروم، وفيهم رجل يقال له عبد الله بن حذافة من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فأسره الروم فذهبوا به إلى ملكهم، فقالوا: إن هذا من أصحاب محمد، فقال له الطاغية: هل لك أن تتنصر وأشركك في ملكي وسلطاني؟
فقال له عبد الله: " لو أعطيتني جميع ما تملك، وجميع ما ملكته العرب - وفي رواية القطان: وجميع مملكة العرب - على أن أرجع عن دين محمد صلى الله عليه وسلم طرفة عين، ما فعلت "،
قال: إذا أقتلك، قال: " أنت وذاك "، قال: فأمر به فصلب، وقال للرماة: ارموه قريبا من يديه قريبا من رجليه وهو يعرض عليه، وهو يأبى،
ثم أمر به فأنزل، ثم دعا بقدر وصب فيها ماء حتى احترقت،
ثم دعا بأسيرين من المسلمين، فأمر بأحدهما فألقي فيها وهو يعرض عليه النصرانية وهو يأبى، ثم أمر به أن يلقى فيها، فلما ذهب به بكى، فقيل له: إنه بكى فظن أنه رجع، فقال: ردوه فعرض عليه النصرانية فأبى، قال: فما أبكاك؟ قال: " أبكاني أني قلت هي نفس واحدة تلقى هذه الساعة في هذا القدر فتذهب، فكنت أشتهي أن يكون بعدد كل شعرة في جسدي نفس تلقى هذا في الله عز وجل "،
قال له الطاغية: هل لك أن تقبل رأسي وأخلي عنك؟ قال عبد الله: " وعن جميع أسارى المسلمين؟ " قال: وعن جميع أسارى المسلمين، قال عبد الله: " فقلت في نفسي عدو من أعداء الله أقبل رأسه ويخلي عني وعن أسارى المسلمين لا أبالي قال فدنا منه وقبل رأسه "، فدفع إليه الأسارى، فقدم بهم على عمر فأخبر عمر بخبره، فقال: حق على كل مسلم أن يقبل رأس عبد الله بن حذافة، وأنا أبدأ فقام عمر فقبل رأسه.

٭ المصدر: شعب الايمان
٭ المحدث: بيهقيؒ
٭ المجلد: 3
٭ الصفحة: 179
٭ الرقم: 1522
٭ الطبع: مكتبة الرشد، رياض، السعودية.


⚠ اس سند میں ایک راوی " ضرار بن عمرو " ہیں جن کے متعلق کچھ کلام ھے :

 ۞ ضرار بن عمرو، يقال: من اهل ملطية، قال ابن معين: ليس بشيئ، ولا يكتب حديثه، وقال ابن عدي: هو منكر الحديث.

٭ المصدر: مختصر الكامل لابن عدي
٭ المؤلف: تقي الدين المقريزي
٭ الصفحة: 436
٭ الرقم: 949
٭ الطبع: مكتبة السنة، قاهرة، مصر.


🔰 *تاريخ ابن عساكر ميں*

تاریخ ابن عساکر میں یہ واقعہ تین طرح سے مروی ھے: ایک سند تو وہی ھے جو امام بیہقی کے حوالہ سے اوپر ذکر کی گئ ھے اور ایک سند موصولا حضرت ابن عباس سے مروی ھے جس میں ایک راوی متکلم فیہ ہیں ۔اور تیسری سند مرسلا عن زھری مذکور ھے:

+ نام کتاب: تاریخ ابن عساکر
+ نام مؤلف: حافظ ابن عساکرؒ
+ جلد: 27
+ صفحة: 358 تا 360
+ طبع:  دار الفكر، بيروت، لبنان.

⚠ ابن عساکر نے جو روایت ابن عباسؓ سے موصولا ذکر کی ھے اسکی سند میں  ایک راوی" عطاء بن عجلان" ہیں جنکے متعلق ائمہ کے اقوال سخت ہیں :

  ۩ عطا بن عجلان العطار بصري، قال ابن معين: ليس بشيئ، كذاب، يحدث عنه مروان الفزاري، ومرة قال: يروي عنه اسماعيل بن عياش، لم يكن بشيئ، كان يوضع له الحديث .
وقال البخاري: منكر الحديث.
وقال السعدي: كذاب.
وقال ابن عدي: عامة رواياته غير محفوظة.

٭ المصدر : مختصر الكامل في الضعفاء
٭ تقي الدين المقريزيؒ
٭ الصفحة: 610
٭ الرقم: 1523
٭ الطبع: مكتبة السنة، قاهرة، مصر.

💠 ابن عساکرؒ نے جو روایت مرسلا ذکر کی ھے  اس میں ایک راوی" یزید بن سمرہ ابو ھزان" ہیں جنکی بابت ابن حبانؒ نے کہا: کہ بسا اوقات یہ خطا کرجایا کرتے تہے۔

۞ يزيد بن سمرة أبو هزان الدهان، يروي عن عطاء الخراساني، روي عنه هشام بن عمار، ربما أخطأ.

* المصدر: كتاب الثقات
* المحدث:  ابن حبانؒ
* المجلد: 9
* الصفحة: 272
* الطبع: دائرة المعارف العثمانية، حيدرآباد، الهند.


🌷 *سير أعلام النبلاء ميں*

یہ واقعہ امام ذھبیؒ نے بہی عبدﷲ بن حذافہ کے ترجمہ کے تحت  سیر اعلام میں ذکر فرمایا ھے:

÷ نام کتاب: سير أعلام النبلاء
÷ نام محدث: الامام ذهبيؒ
÷ الصفحة: 2365
÷ الرقم : 3192
÷ الطبع: بيت الافكار الدولية، لبنان.


💎  *الإصابة ميں*

ؔعلامہ «ابن حجر عسقلانی» نے اس واقعہ کو "الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ" میں حضرت عبد ﷲ بن حذافہؓ کے مناقب میں  ذکر کیا ھے:

٭ المصدر: الإصابة في تمييز الصحابةؓ
٭ المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ
٭ المجلد : 4
٭ الصفحة: 52
٭ الرقم: 4641
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

📘 *كتاب المحن ميں*

اؔبو العرب تمیمی نے اس واقعہ کو آزمائشوں کے واقعات میں ذکر کیا ھے:

• المصدر: كتاب المحن
• المؤلف: أبو العرب محمد التميميؒ
• الصفحة: 306
• الطبع: دار الغرب الاسلامي، بيروت، لبنان.

 🔹 *خلاصۂ کلام*

 اس واقعہ کی کوئی نہ کوئی اصل ھے اسکو من گھڑت نہیں کہا جاسکتا ھے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۱۳ جنوری: ؁۲۰۲۰ء

Thursday, January 9, 2020

ایک عجیب طلاق کا واقعہ

• *ایک عجیب طلاق کا واقعہ*•

ایک واقعہ بہت مشہور ھے: کہ ایک دیہاتی صحابیؓ نے اپنی اہلیہ کو طلاق دیدی اور طلاق کے الفاظ اس طرح کہے: انت طالق حتی حین( تجہے طلاق ہے وقت تک)  اسکے بعد انکو ندامت ہوئی اور انہوں نے اہلیہ سے رجعت کرنا چاہی لیکن وہ اپنے کہے ہوئے کلمہ "حتی حین " کی مراد میں پریشان تہے کہ اس سے کتنے عرصہ تک کے لیے بیوی کو طلاق پڑی چنانچہ وہ حضورؐ کی خدمت میں آئے ؛ لیکن حضور پاکؐ سے اس وقت ملاقات نہ ہوسکی تو وہ صدیق اکبرؓ کی خدمت میں پہونچے اور ان سے اپنا مسئلہ معلوم کیا, صدیق اکبر نے کہا: تیری بیوی تجھ پر حرام ہوچکی ھے اب رجعت کی کوئی سبیل نہیں ھے۔

وہ وہاں سے حضرت عمر فاروقؓ کی خدمت میں آئے ان سے بہی اپنا یہی سوال دہرایا تو حضرت فاروق اعظم کا جواب یہ تہا کہ تیری بیوی تجھ پر چالیس سال کے لیے حرام ہوگئ ھے ۔ وہ شخص حضرت عثمان غنیؓ کے پاس گیا اور ان سے بہی معلوم کیا انہوں نے اسکا جواب یہ بتایا کہ تیری زوجہ تیرے حق میں ایک سال کے لیے حرام ہوئی ھے وہ وہاں نکل کر حضرت علیؓ حیدر کی خدمت میں آیا اور ان سے بہی اپنا سوال رکہا حضرت علی نے جواب دیا کہ تیری بیوی فقط ایک رات کے لیے تجھ پر حرام ہوئی ہے۔ وہ شخص یہ چار مختلف جوابات سن کر حیرانی میں مبتلاء ہوا اور سیدھا نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ حضورؐ اس وقت کسی باغ میں تشریف رکہتے تھے اس شخص نے حضورؐ سے اپنا سارا ماجرا کہہ سنایا تو حضورؐ نے اسکو بٹھایا اور کسی صاحب کو بہیجا کہ وہ چاروں یاران باصفا کو بلا لائے چاروں حضرات آگئے تو حضورؐ نے حضرت صدیقؓ سے معلوم کیا کہ تم نے جو جواب دیا کہ تاعمر حرام ہوگئ ھے کس دلیل کی بنیاد پر دیا؟ صدیق اکبر نے کہا: میری دلیل قرآنی آیت ھے " فمتعناھم حتی حین" یہاں حین سے مراد موت ھے  لہذا اس شخص نے بہی لفظ حین استعمال کیا تہا تو اس رو سے تاعمر حرام کا جواب دیا گیا۔

حضور سن کر خاموش رھے اور حضرت عمر کی جانب متوجہ ہوئے ان سے بہی یہی کہا کہ تمہارا جواب کس دلیل کی بنیاد پر تہا؟ حضرت فاروق اعظم نے بہی کہا کہ میرے جواب کی بنیاد بہی قرآن کی آیت ھے " ھل اتی علی الانسان حین من الدھر" یہاں حین کی مراد چالیس برس ھے اسی لیے میرا جواب چالیس سال کے لیے حرام ہونے کا تہا۔

حضور خاموش رھے اور حضرت عثمان غنی سے انکے جواب کی دلیل معلوم کی ۔حضرت غنی ذوالنورین نے کہا: میرا جواب بہی آیت قرآنی پر۔مبنی ہے " مثل کلمہ طیبہ کشجرہ طیبہ تؤتی اکلہا کل حین" یہاں حین سے مراد ایک سال ھے اسی لیے میرا جواب ایک سال تہا۔

حضور خاموش رھے اور سیدنا علی سے انکے جواب کی دلیل طلب کی ۔حضرت حیدر کرار نے عرض کیا: حضرت میرا جواب بہی قرآنی آیت سے ثابت ھے " فسبحان ﷲ حین تمسون" یہاں حین سے مراد ایک رات ھے اسی لیے میرا جواب تہا کہ بیوی فقط ایک رات کے لیے حرام ہوئی ھے۔
حضور اپنے پیارے اصحاب کے جوابات سن کر بہت مسرور ہوئے  اور سائل سے فرمایا : جواب تو سارے ہی درست ہیں ؛ تاہم تیرے حق میں زیادہ آسانی علی کے جواب کو لینے میں ھے تو علی کی رائے کو عمل میں لے آ!

اس واقعہ کی اصل مطلوب ھے!!

٭٭ *باسمه تعالي* ٭٭
*الجواب وبه التوفيق*:

یہ واقعہ ہمکو کسی حدیث کی کتاب میں تلاشِ بسیار کے بعد بھی نہیں مل سکا, نیز حدیث کے متعلق تحقیقات کرنے والے ایک ادارے کا جواب بہی یہی ھے: کہ اس واقعہ کا کوئی ثبوت نہیں ھے؛ لہذا اسکی نسبت کسی صحابیؓ یا نبی کریمؐ کی جانب نہ کیجائے اور نہ ہی اسکو بیان و نشر کیا جائے۔یہ بہی ممکن ھے کہ مذکورہ واقعہ شیعوں نے گھڑا ہو؛ تاکہ وہ حضرت علی کی دیگر خلفائے ثلثہ پر فوقیت علمی ظاہر کرائیں!

*عربی عبارت میں*

قال الصحابي لامرأته: أنت طالق إلى حين! ثم لما هدأ وأراد ردها استحى أن يكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكلم الصديق رضي الله عنه، فأجاب الصديق: يا رجل موعد ردها يوم القيامة ألم تقرأ قوله سبحانه {فآمنوا فمتعناهم إلى حين} (الصافات 148) والحين يوم القيامة.
فذهب الرجل إلى ابن الخطاب رضي الله عنه، فأجابه بقوله: المسألة أقرب من ذلك، لأن الله تعالى قال {هل أتى على الإنسان حين من الدهر لم يكن شيئاً مذكوراً} (الإنسان 1) وأخبرنا النبي صلى الله عليه وسلم أن الحين هو المدة التي قضاها آدم وهو منجدل في طينة. قال الرجل: كم ؟ قال ابن الخطاب: أربعون سنة، فقطع الرجل فرحته وذهب إلى ابن عفان رضي الله عنه فأجابه: هون عليك فإن الأمر أهون، لأن الله قال عن الأرض {تؤتي أكلها كل حين بإذن ربها} (إبراهيم 25) فالحين هنا سنة زراعية. فرح الرجل وأراد تصديق النبي على حكم عثمان بأن تكون المدة فقط سنة، فذهب إليه مسرعاً والتقى على بابه ابن أبي طالب فقال: استأذن لي لأحدث النبي فقال: وما بالك اليوم منشرحاً؟ فقص عليه الخبر وقال: الحين عند الأول يوم القيامة، وعند الثاني أربعون سنة، وعند الثالث سنة واحدة، فأجابه بسؤال: متى طلقتها؟ قال بالأمس! فقال له ردها اليوم ولا تثريب عليك، فغر الرجل فاه وقال كيف يا ابن عم رسول الله؟ قال: ألم يقل ربنا {فسبحان الله حين تمسون وحين تصبحون} (الروم 17) فالحين قد يكون يوماً وقد يكون ليلة وأنت قضيت اليوم والليلة، فجرى الرجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فجمع النبي الأربعة واستمع إلى رأي كلٍ منهم وقال لكل واحد: «صدقت»، والرجل عيناه تدور بينهم في ترقب وخوف، فإذا بالنبي يبتسم له ويقول: «خذ برأي علي فهو أيسر عليك».


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۹جنوری: ؁۲۰۲۰ء

Sunday, January 5, 2020

سخی کی فضیلت

▪ *سخی کی فضیلت* ▪

ایک روایت ذکر کی جاتی ھے: کہ جو شخص لوگوں کو کہانا کہلاتا ھے ﷲ تعالی فرشتوں کے سامنے اس پر فخر کرتا ھے۔

اس روایت کا درجہ و تحقیق مطلوب ھے!!!

•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  یہ روایت «امام غزالی» نے "احیاء العلوم "میں ذکر کی ھے؛ لیکن احیاء العلوم کی روایات کی تحقیق و تخریج کرنیوالے ؔعلامہ "عراقی" نے کہا: کہ یہ روایت ملتی نہیں ھے۔لہذا اسکے بیان کو موقوف رکہا جائے۔

🔹 *احیاء العلوم میں*

 ۞ قال ابن مسعود قال صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الرزق إلى مطعم الطعام أسرع من السكين إلى ذروة البعير وإن الله تعالى لباهى بمطعم الطعام الملائكة عليهم السلام.

ترجمہ: ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ کھانا کھلانے والے کے پاس رزق اتنی جلدی پہونچتا ھے کہ اتنی جلدی اونٹ کی گردن پر چھری بہی مؤثر نہیں ہوتی اور ﷲ تعالی اپنے فرشتوں کے سامنے کہانا کہلانیوالے پر فخر کرتا ھے۔

• نام كتاب: احياء العلوم مؔترجم
• نام مؤلف: الامام الغزاليؒ
• جلد: 3
• صفحة: 382
• طبع: دار الاشاعت، اردو بازار، كراچي، پاكستان.


🔰 *روايت كي تحقيق*

 اس روایت کے متعلق اؔمام "زین الدین عراقیؒ" فرماتے ہیں: ابن مسعودؓ سے مروی یہ روایت مل نہ سکی۔

* نام کتاب : المغني عن حمل الاسفار
* نام محدث: زين الدين العراقيؒ
* صفحة: 902
* رقم: 3297
* درجة: لم أجده من حديث ابن مسعود
* طبع: مكتبة طبرية، رياض.


🔘 اس روایت کو بلا کسی سند و حوالہ شؔیعی مصنف دؔیلمی نے بہی {ارشاد القلوب} میں ذکر کیا ھے:

وقال صلي الله عليه وآله:  الرزقُ إلى السخي أسرعُ من السكينِ إلى ذروةِ البعيرِ وإنَّ اللهَ تعالَى يُباهي بمُطْعِمِ الطعامِ الملائكة.

٭ المصدر: إرشاد القلوب
٭ المؤلف: أبو الحسن الديلمي
٭ المجلد: 1
٭ الصفحة: 271
٭ الطبع: دار الأسوة للطباعة والنشر، طهران، إيران.

   
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۵ جنوری: ؁۲۰۲۰ء

Friday, January 3, 2020

شب معراج میں جوتا اتارنے کا واقعہ

*شبِ معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتا اتارنے کا واقعہ*

مشہور ہے: کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عرش معلیٰ پہونچے, تو آپ نے اپنے نعلین مبارک اتارنے چاہے,  آپ کے پیش نظر سورۂ طہ کی آیت "فاخلع نعليك إنك بالواد المقدس طوى” تہی جس سے  استدلال کرتے ہوئے اپنا جوتا نکالنا چاہا تو حق جل شانہ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ اپنے جوتے نہ نکالئے؛ تاکہ عرش کو آپ کے نعل مقدس سے مس ہونے کا شرف مل سکے, اور یہ اس کے لئے باعثِ فخر ہو, پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم عرش پر اپنے نعلین کے ساتھ پہونچے۔

 کیا یہ واقعہ درست ہے؟!!!

•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*

☜ یہ واقعہ بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے, بل کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کا معراج کی روایات میں نعلین کاذکر کسی روایت میں وارد ہی نہیں ہے, اور نہ ہی یہ مذکور ھے کہ آپ عرش معلی پر گئے۔

"علامہ احمد مقری مالکی, علامہ رضی الدین قزوینی, علامہ زرقانی اور عبدالحی لکھنوی" رحمہم اللہ نے اس واقعہ کو من گھڑت قرار دیا ہے۔


۞ ﻭﻟﻨﺬﻛﺮ ﻫﻬﻨﺎ ﺑﻌﺾ اﻟﻘﺼﺺ اﻟﺘﻲ ﺃﻛﺜﺮ ﻭﻋﺎﻅ ﺯﻣﺎﻧﻨﺎ ﺫﻛﺮﻫﺎ ﻓﻲ ﻣﺠﺎﻟﺴﻬﻢ اﻟﻮﻋﻈﻴﺔ ﻭﻇﻨﻮﻫﺎ ﺃﻣﻮﺭا ﺛﺎﺑﺘﺔ ﻣﻊ ﻛﻮﻧﻬﺎ ﻣﺨﺘﻠﻘﺔ ﻣﻮﺿﻮﻋﺔ.

۩ ﻓﻤﻨﻬﺎ: ﻣﺎ ﻳﺬﻛﺮﻭﻥ ﻣﻦ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﻟﻤﺎ ﺃﺳﺮﻱ ﺑﻪ ﻟﻴﻠﺔ اﻟﻤﻌﺮاﺝ ﺇﻟﻰ اﻟﺴﻤﻮاﺕ اﻟﻌﻠﻰ ﻭﻭﺻﻞ ﺇﻟﻰ اﻟﻌﺮﺵ اﻟﻤﻌﻠﻰ ﺃﺭاﺩ ﺧﻠﻊ ﻧﻌﻠﻴﻪ ﺃﺧﺬا ﻣﻦ ﻗﻮﻟﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻟﺴﻴﺪﻧﺎ ﻣﻮﺳﻰ ﺣﻴﻦ ﻛﻠﻤﻪ: ((ﻓﺎﺧﻠﻊ ﻧﻌﻠﻴﻚ ﺇﻧﻚ ﺑﺎﻟﻮاﺩ اﻟﻤﻘﺪﺱ ﻃﻮﻯ))  .
 ﻓﻨﻮﺩﻱ ﻣﻦ اﻟﻌﻠﻲ اﻷﻋﻠﻰ: ﻳﺎ ﻣﺤﻤﺪ! ﻻ ﺗﺨﻠﻊ ﻧﻌﻠﻴﻚ ﻓﺈﻥ اﻟﻌﺮﺵ ﻳﺘﺸﺮﻑ ﺑﻘﺪﻭﻣﻚ ﻣﺘﻨﻌﻼ ﻭﻳﻔﺘﺨﺮ ﻋﻠﻰ ﻏﻴﺮﻩ ﻣﺘﺒﺮﻛﺎ، ﻓﺼﻌﺪ اﻟﻨﺒﻲ ﺇﻟﻰ اﻟﻌﺮﺵ ﻭﻓﻲ ﻗﺪﻣﻴﻪ اﻟﻨﻌﻼﻥ ﻭﺣﺼﻞ ﻟﻪ ﺑﺬﻟﻚ ﻋﺰ ﻭﺷﺄﻥ.

↤ ﻭﻗﺪ ﺫﻛﺮ ﻫﺬﻩ اﻟﻘﺼﺔ ﺟﻤﻊ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻤﺪاﺋﺢ اﻟﺸﻌﺮﻳﺔ ﻭﺃﺩﺭﺟﻬﺎ ﺑﻌﻀﻬﻢ ﻓﻲ ﺗﺄﻟﻴﻒ اﻟﺴﻨﻴﺔ ﻭﺃﻛﺜﺮ ﻭﻋﺎﻅ ﺯﻣﺎﻧﻨﺎ ﻳﺬﻛﺮﻭﻧﻬﺎ ﻣﻄﻮﻟﺔ ﻭﻣﺨﺘﺼﺮﺓ ﻓﻲ ﻣﺠﺎﻟﺴﻬﻢ اﻟﻮﻋﻈﻴﺔ. ﻭﻗﺪ ﻧﺺ ﺃﺣﻤﺪ اﻟﻤﻘﺮﻱ اﻟﻤﺎﻟﻜﻲ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺑﻪ ﻓﺘﺢ اﻟﻤﺘﻌﺎﻝ ﻓﻲ ﻣﺪﺡ ﺧﻴﺮ اﻟﻨﻌﺎﻝ، ﻭاﻟﻌﻼﻣﺔ ﺭﺿﻲ اﻟﺪﻳﻦ اﻟﻘﺰﻭﻳﻨﻲ، ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺒﺎﻗﻲ اﻟﺰﺭﻗﺎﻧﻲ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ اﻟﻤﻮاﻫﺐ اﻟﻠﺪﻧﻴﺔ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻫﺬﻩ اﻟﻘﺼﺔ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺑﺘﻤﺎﻣﻬﺎ ﻗﺒﺢ اﻟﻠﻪ ﻭاﺿﻌﻬﺎ ﻭﻟﻢ ﻳﺜﺒﺖ ﻓﻲ ﺭﻭاﻳﺔ ﻣﻦ ﺭﻭاﻳﺎﺕ اﻟﻤﻌﺮاﺝ اﻟﻨﺒﻮﻱ ﻣﻊ ﻛﺜﺮﺓ ﻃﺮﻗﻬﺎ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﻛﺎﻥ ﻋﻨﺪ ﺫﻟﻚ ﻣﺘﻨﻌﻼ، ﻭﻻ ﺛﺒﺖ ﺃﻧﻪ ﺭﻗﻲ ﻋﻠﻰ اﻟﻌﺮﺵ ﻭﺃﻥ ﻭﺻﻞ ﺇﻟﻰ ﻣﻘﺎﻡ ﺩﻧﺎ ﻣﻦ ﺭﺑﻪ ﻓﺘﺪﻟﻰ {ﻓﻜﺎﻥ ﻗﺎﺏ ﻗﻮﺳﻴﻦ ﺃﻭ ﺃﺩﻧﻰ} ، ﻓﺄﻭﺣﻰ ﺭﺑﻪ ﺇﻟﻴﻪ ﻣﺎ ﺃﻭﺣﻰ.

 ↢ ﻭﻗﺪ ﺑﺴﻄﺖ اﻟﻜﻼﻡ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﻤﺮاﻡ ﻓﻲ ﺭﺳﺎﻟﺘﻲ ﻏﺎﻳﺔ اﻟﻤﻘﺎﻝ ﻓﻴﻤﺎ ﻳﺘﻌﻠﻖ ﺑﺎﻟﻨﻌﺎﻝ۔

 ﻓﻠﺘﻄﺎﻟﻊ!!

• نام کتاب : الآثار المرفوعة
• نام مؤلف: العلامة عبد الحي اللكنوي
• الصفحة: 92
• الدرجة: موضوع
• الطبع: دار القرآن والسنة، هوسي، شهباز گڑھی، مردان،


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

۳جنوری: ؁۲۰۲۰ء

ساری مخلوق کے برابر عمل کا ثواب

•• *ساری مخلوق کے برابر عمل کا ثواب*••

 حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں: میں رسول ﷲؐ کے پاس تہا ایک شخص آیا سلام کیا, رسول ﷲ نے جواب دیا اور آپ کا چہرہ انور خوشی سے دمک اٹھا آپؐ نے اسکو اپنے برابر میں بٹھایا, پھر جب وہ صاحب اپنا کام پورا کرکے کچھ دور چلے گئے تو رسولﷲؐ نے مجھ سے فرمایا: ابوبکر! یہ ایسا شخص ہے کہ روزانہ تمام روئے زمین کے رہنے والوں کے برابر اس اکیلے تنہاء کے عمل ﷲ کے یہاں پہونچائے جاتے ہیں, حضرت صدیق اکبرؐ نے حضور سے عرض کیا :  یا رسول ﷲ! اسکو روزانہ اتنا ثواب کیوں ملتاھے؟ آپ نے فرمایا: یہ جب صبح سوکر اٹھتا ھے تو مجھ پر دس مرتبہ ایسا درود پڑھتا ھے جو بلحاظ ثواب ساری مخلوق کے درودوں کے برابر ھے, میں نے عرض کیا: وہ کونسا درود ھے؟ آپؐ نے فرمایا وہ یہ درود پڑھتا ھے:

اللهم صل على محمد النبي عدد من صلى عليه من خلقك، وصل على محمد النبي كما ينبغي لنا أن نصلي عليه، وصل على محمد النبي كما أمرتنا أن نصلي عليه.

 اس درود اور اسکی مذکورہ فضیلت, اجر و ثواب کی تحقیق مطلوب ھے؟!!!

•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*

   یہ درود کنز العمال وغیرہ میں مذکور ھے؛ لیکن اسکی سند پر کچھ کلام محدثین نے کیا ھے جسکا خلاصہ یہ ھے: کہ اس درود کی یہ فضیلت مستند نہیں ہے ؛ لہذا اسکی نسبت نبی کریمؐ یا صحابیؓ کی جانب نہ کیجائے؛ البتہ درود پاک کے الفاظ درست ہیں ان کو درود پاک کی حیثیت سے پڑھنا جائز ھے۔

💎 *کنز العمال میں*

❊ عن أبي بكر قال: كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم فجاءه رجل فسلم فرد عليه النبي صلى الله عليه وسلم، وأطلق وجهه وأجلسه إلى جنبه، فلما قضى الرجل حاجته نهض فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا أبا بكر هذا رجل يرفع له كل يوم كعمل أهل الأرض قلت: ولم ذاك؟ قال: إنه كلما أصبح صلى علي عشر مرات كصلاة الخلق أجمع، قلت: وما ذاك؟ قال: يقول: اللهم صل على محمد النبي عدد من صلى عليه من خلقك، وصل على محمد النبي كما ينبغي لنا أن نصلي عليه، وصل على محمد النبي كما أمرتنا أن نصلي عليه.

≈  ثم عزاه إلى رواية الدارقطني في الأفراد وابن النجار في تاريخه، ثم قال: قال الدارقطني: غريب من حديث أبي  بكر تفرد به سليمان بن الربيع النهدي عن كادح بن روحة. قال الذهبي في الميزان: سليمان بن الربيع أحد المتروكين، وكادح قال الأزدي وغيره كذاب، زاد الحافظ ابن حجر في اللسان وقال ابن عدي: عامة أحاديثه غير محفوظة ولا يتابع في أسانيده ولا في متونه. وقال الحاكم وأبو نعيم: روى عن مسعر والثوري أحاديث موضوعة انتهى. قلت: وقد أدخلت هذا الحديث في  كتاب الموضوعات فلينظر، فإن وجدنا له متابعا أو شاهدا خرج عن حيز الموضوع. انتهى.

÷ نام كتاب: كنز العمال
÷ نام مؤلف: علاء الدين الهنديؒ
÷  جلد: 2
÷ صفحة:  266
÷ حديث نمبر: 3981
÷ مؤسسة الرسالة بيروت، لبنان.

🔰 *الفوائد المجموعة ميں*

٭ "عؔلامہ شوکانیؒ" نے اس روایت کو من گھڑت قرار دیا ھے:

قال: فی اسنادہ کذاب و متروک.

• نام کتاب: الفوائد المجموعة
• نام مؤلف: الامام الشوكانيؒ
• الصفحة: 329
• الرقم: 39
• الدرجة: في اسناده كذاب، ومتروك
• الطبع: غير مذكور

🌷 *الدر المنثور ميں*

۞ اؔمام «جلال الدين السوطيؒ» نے اس درود کو تفسیر " در منثور" میں نقل کیا ھے:

=نام کتاب: تفؔسیر در منثور
=نام مؤلف: جلال الدین سیوطیؒ
=جلد: 6
=صفحہ: 648
=طبع: دار الفکر , لبنان , بیروت.

🔘 *الجامع الکبیر میں*

اس روایت کو "جمع الجوامع المعروف بالجامع الکبیر" میں بھی امام سیوطیؒ نے ذکر فرمایا ھے, اور کنز العمال میں ذکر کردہ تفصیل نقل فرمائی ھے جسکا خلاصہ یہی ہے کہ اسکی نسبت حضور اکرمؐ کی جانب نہ کیجائے۔

* نام كتاب: جؔمع الجوامع
* نام محدث: السيوطيؒ
* مجلد: 14
* صفحة: 93
* طبع: دار السعادة، قاهرة، مصر.

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۳جنوری: ؁۲۰۲۰ء

ڈاڑھی منڈوانے کی وعید

*ڈاڑھی منڈوانے کی وعید*


ایک طالب علم کسی ملک کے ایک مدرسے میں علم حاصل کررہا تھا ،اس ملک کے بادشاہ کی ایک بیٹی تھی ، شہزادی کافی خوبصورت ، حسین اور جوان تھی ، طالب علم بھی جوان تھا اب جوانی کا عالم تھا دل بادشاہ کے بیٹی پر فدا ہوا اب طالب علم کی حیثیت یہ نہ تھی کہ بادشاہ سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگ لے ، طالب علم کافی پریشان رہنے لگا، ساتھیوں سے مشہورہ کیا کہ کیا جائے ساتھیوں نے زبردست تنقید کا نشانہ بناکر کہا تمھارا دماغ خراب ہوا ہے بادشاہ سلامت کو اگر معلوم ہوا تو وہ تجہکو زندہ تیل میں جلادیگا ، اب طالب علم بہت زیادہ پریشان ہوا کچھ سمجھ میں نہیں آرھا تھا بالآخر اس نے فیصلہ کرلیا کہ اس پریشانی سے اچھا یہ ہوگا کہ بادشاہ سلامت کی خدمت میں درخواست کروں پھر قسمت ہے تیل میں جلانا نصیب ہو یا بادشاہ کی بیٹی نصیب ہو ، اب طالب علم نے بادشاہ کے دربار میں حاضری لگائی ، بادشاہ نے آنے کی وجہ پوچھی تو طالب علم نے گھبراہٹ کے عالم میں اپنا قصہ سنادیا کہ بادشاہ سلامت مجھے آپ کی بیٹی پر دل آگیا ہے آپ میرے اوپر احسان فرما کر اپنا بیٹی مجہے نکاح میں دیدو ، بادشاہ کو کافی غصہ آیا کہ اس عام طالب علم کی حیثیث دیکھو اور میرے شہزادی کیلئے رشتہ لانا دیکھو، اب بادشاہ سلامت نے سوچنا شروع کردیا کہ کیسا جواب دیا جائے طالب علم کو تاکہ یہ رشتہ مانگنے سے انکار کردے ،چنانچہ بادشاہ نے ایک شرط رکھی کہ اگر تو نے اس شرط کو پورا کیا تو میں اپنے شہزادی کا نکاح تجھ سے کرادونگا ، شرط یہ رکہی کہ آپ نے دو بوری زندہ بچھوں لانے ہیں پھر بادشاہ آپ کا نکاح اپنے شہزادی سے کرائے گا ، بادشاہ نے یہ شرط اس وجہ سے رکہی کہ اتنے زیادہ بچھوں یہ طالب علم کہاں سے لائے گا یقینا یہ طالب علم اس شرط کو پورا کرنا ناممکن سمجھے گا اور دوبارہ رشتہ نہیں لائے گا ، اب طالب علم یہ شرط سن کر بہت زیادہ پریشان ہوگیا ، خیر طالب علم نے مدرسے کا رخ کرلیا اور اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگیا لیکن پڑھائی میں اب وہ مزہ نہیں آرہا تھا جو عشق سے پہلے آرہا تھا ، طالب علم کا ایک استاد تھا جو کافی دنوں سے اس پر نظر رکھ رہا تھا اور استاد یہ دیکھ رہا تھا کہ اس طالب علم کو کیا ہوا ہے ھر وقت پریشان رہتا ہے ، ایک دن استاد نے اسے اپنے پاس بلا لیا پریشان ہونے کی وجہ پوچھی تو طالب علم نے پورا قصہ سنا دیا اور بادشاہ کی شرط سے آگاہ کیا ، استاد نے طالب علم کو سمجھاتے ہوئے کہا  پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں آپ کو بچھو جمع کرنے کا طریقہ بتا دیتا ہوں ، استاد نے کہا شام کو میرے پاس آنا میں آپ کو بچھو جمع کرنے کا طریقہ بتادونگا , طالب علم خوشی کے مارے شام ہونے کا انتظار کررہا تھا ، بلآخر شام ہوگئ اور طالب علم بھی اپنے استاد کے پاس پہنچ گیا ،استاد نے دو بوریاں لانے کو کہاں جب طالب علم دو بوریاں لےآیا تو استاد نے قبرستان میں ایک قبر کا پتہ بتاکر کہا: کہ فلاں قبر پر جاؤ قبر سے ساری مٹی نکالو اور آخر میں جب اینٹیں رہ جائیں تو شروع کی ایک اینٹ نکال کر بوری کا منہ سوراخ پر رکھ لو جب بوری بھر جائے تو اس بوری کا منہ کسی رسی سے باند لو اور پھر دوسری بوری آگے کردو اس کے بھر جانے پر بھی بوری کا منہ باند لو ، اس کے بعد قبر کو اچھی طرح بند کردینا اور بوریاں بادشاہ کے پاس لے جانا ، طالب علم نے استاد کے کہنے پر اسی طرح کیا جس طرح استاد نے بتایا تھا ، طالب علم نے بچھو سے بھری بوریاں بادشاہ کے دربار میں پیش کردیں ، بادشاہ بڑا حیران ہوا اور اپنے وعدے کے مطابق اپنی شہزادی طالب علم کے نکاح میں دیدی اور طالب علم کو پاس بلا کر بچھو جمع کرنے کا راز پوچھا کہ آپ نے اتنے سارے پچھو کہاں سے جمع کئے ، طالب علم نے بتایا کہ میرا ایک استاد ہے اس نے قبرستان میں ایک قبر کا پتہ بتایا اور میں نے قبر کھود کر بتائے ہوئے طریقے کے مطابق بچھو سے بوریاں بھرلیں ، بادشاہ نے استاد کو حاضر کرنے کا حکم دے دیا ،اگلے دن استاد بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا بادشاہ نے استاد سے فرمایا کہ تمہیں کیسے معلوم تھا کہ فلاں قبر میں اتنے سارے بچھو موجود ہیں ، استاد نے بتایا کہ یہ فلاں آدمی کی قبر ہے یہ آدمی زندگی میں ڈاڑھی منڈواتا تھا اور مرتے وقت بھی داڑھی منڈوایا تھا ، " حضور ص کا ارشاد ہے جو شخص اس حالت میں مرے کہ ڈاڑھی منڈوایا ہو قبر میں اس کی ڈاڑھی کے ہر بال پر ایک ایک بچھو مسلط کیا جاتا ہے ۔

 حضور ص کی بات کبھی جھوٹی نہیں ہوسکتی اس لیے میں نے اس قبر سے بچھو جمع کرنے کو کہا اور قبر کا پتہ بتایا۔

•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 مذکورہ واقعہ تو محض ایک کہانی ہی ھے؛ لیکن اس میں ڈاڑھی منڈوانے کی جو وعید حدیث پاک کے نام سے ذکر کی گئ ھے ان الفاظ میں کوئی روایت نہیں ملتی ؛ لہذا اس کو نشر و بیان کی اجازت نہ ہوگی۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

۳جنوری: ؁۲۰۲۰ء