Saturday, December 26, 2020

عبادت گزار بندہ اور انار کا درخت

 ▪️ *ایک عبادت گزار بندہ اور انار کا درخت* ▪️


ایک واقعے کی تصدیق و حوالہ مطلوب ھے : کہ ایک شخص بہت زیادہ عبادت گزار تہا اس نے اللہ سے کہا:کہ خدایا! میں یکسو ہوکر تیری عبادت کرنا چاہتا ہوں, تو میرے لیے کہانے پینے کا بند و بست فرمادے چنانچہ وہ شخص ایک ٹیلے پر قیام پذیر ہوگیا اور اللہ نے وہاں ایک شیریں پانی کا چشمہ جاری کردیا اور انار کا درخت اگادیا وہ شخص دن رات عبادت کرتا اور کہانے پینے کیلیے خدا کے عطا کردہ چشمۂ شیریں اور انار سے غذا حاصل کرتا اس کو پانچ سو برس اسی طرح گزر گئے ۔ اسکی جب وفات ہوئی تو اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا: کہ میرے اس بندے کو میرے فضل و رحمت سے جنت میں داخل کردو! اس عابد بندے کے دل میں خیال آیا کہ میں نے صدیوں خدا کی عبادت کی ھے لیکن اس کا تذکرہ تک نہیں ہورہا تو اس نے اللہ سے کہا: بار الہ! میری عبادت کا کیا بنا ؟ کیا میری اس عبادت کے صلے جنت میں داخلہ نہ ہوگا؟ اللہ نے اس کے متعلق فرشتوں سے کہا: اس کو دوزخ کی طرف سیر کراکر لاؤ تاکہ اس کو وہاں کی گرمی لگ سکے ایسا ہی کیا گیا اور اس بندے کی پیاس کی شدت ناقابل برداشت تہی اس نے پانی مانگا تو جواب ملا: پانی کی کیا قیمت ادا کروگے؟ اس نے کہا: میری پانچ سو سالہ عبادت پانی کی قیمت ھے۔ اس کو ایک گھونٹ پانی دیدیا گیا ۔ تب خدا نے کہا:کہ اب بتا کہ جنت میں کس بنا پر جایئگا جبکہ تونے اپنی عبادت تو پانی کی قیمت میں خرچ کردی ھے تب اس بندے کو معلوم ہوا کہ واقعتا فضل خداوندی اور رحمت رب شامل حال ہو تو جنت ملیگی ورنہ نہیں ۔


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


یہ واقعہ تفصیل سے حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیبؒ کے خطبات " خطبات حکیم الاسلام" میں موجود ھے : 



🔰 خطبات حکیم الاسلام 🔰



شیخ جلال الدین سیوطی نے ایک کتاب آخرت کے احوال پر لکھی ھے اس میں پچھلی امتوں میں سے بنی اسرائیل کا ایک بڑا عجیب واقعہ لکہا ھے کہ ایک عابد تہا جو دن رات اللہ کی عبادت میں لگا رہتا تہا؛ مگر بہر حال جب آدمی دنیا میں رہتا ھے تو کھانے پکانے کی ضرورت ھے ,بچے ہیں , گھر بھی ہیں رشتہ دار بہی ہیں کچھ نہ کچھ ان میں مشغولی ہوتی ہے اس عابد کو یہ بھی ناگوار تہا کہ اتنی دیر بھی بیوی بچوں میں کیوں لگے ؟ یہ وقت بہی اللہ کی عبادت میں لگنا چاہئے تو اس نے یہ کیا کہ بیوی بچے رشتہ دار مال جایئداد کو ترک کرکے سمندر کے بیچ میں ایک ٹیلے پر جاکر بیٹھ گیا کہ بس اب میں فارغ ہوگیا ہوں اور چوبیس گھنٹے ﷲ کے ذکر میں مشغول رہونگا ( اس زمانے میں یہ چیز جائز تہی اسلام نے اس کو ختم کردیا ؛ لیکن پچھلی امتوں میں رہبانیت گوشہ گیری کرنا اور پہاڑوں پر چلے جانا جائز تہا یہ بھی پہونچ گیا) اور ایسی جگہ پہونچا کہ کوئی دوسرا شخص وہاں نہ پہونچے سمندر اور اسکے بیچ میں ایک ٹیلہ تہا اس پر  جاکر بیٹھ گیا اور ایک چھپر ڈال لیا ﷲ نے فضل کیا اسی پہاڑ کے ٹیلے پر ایک انار کا درخت اگ آیا اور اس پر میٹھے انار لگنے لگے , اور اسی کڑوے پانی کے اندر اس پہاڑ میں سے ﷲ نے ایک چشمہ جاری کردیا ۔

اس عابد کا کام یہ تہا کہ ایک انار روز کھالیا اور ایک کٹورا پانی پی لیا اور چوبیس گھنٹے نماز میں مشغول نہ رات کو سونا نہ دن میں کہیں جانا, دن بھر نماز رات بھر نماز پانچ سو برس اس نے اسی طرح گزارے اور یہ عبادت بھی خالص ؛ وہاں دکھلاوا بہی کس کو ہوتا وہاں دیکہنے والا کوئی نہ تہا ,شہرت اور نام آوری مقصود نہ تھی وہاں کون نام سننے والا تہا , تن تنہاء یہ بندہ اور خدا , اور خالص پانچ سو برس کی عبادت, پانچ سو برس گزر کر جب اس کے انتقال کا وقت آیا تو اس نے ﷲ سے دعا کی : کہ مجھے نماز پڑھتے ہوئے سجدے کی حالت میں موت دیجئے,اور میرے اس بدن کو سجدے کی حالت میں قیامت تک محفوظ رکھئے ؛ تاکہ قیامت میں تیرا سجدہ گزار بندہ سمجہا جاؤں کم سے کم سجدہ کرنے والے کی صورت ہی بنی رہے تو میری لاش سجدے کی حالت میں قیامت تک محفوظ رھے یہ دعا قبول ہوگئ اور حدیث میں ھے اسکو عین سجدے کی حالت میں موت آئی اور حضور فرماتے ہیں : آج تک اس کی لاش سجدے کی حالت میں محفوظ ھے, آپ نے ارشاد فرمایا : جب اس کی روح نکل گئ اور بارگاہِ حق میں اس کی پیشی ہوئی تو ﷲ نے فرمایا: اے بندے! میں نے اپنے فضل و کرم سے تجھے بخشا, اور تجھے جنت کا مقامِ رفیع عطا کیا, تو ابد الآباد کیلیے اب چین میں رہ! اور ملائکہ کو حکم دیا اسکو جنت میں لیجاؤ! یہ میرا مقبول بندہ ھے ؛ میں نے اسکو اپنے فضل و کرم سے نجات دی

اس عابد کے دل میں کھٹکا پیدا ہوا کہ پانچ سو برس میں نے عبادت کی , بیوی بچے رشتے دار, مال و دولت میں نے چھوڑا , اور اب بھی اپنے فضل و کرم سے بخشا, کم سے کم میری تسلی کیلیے کہہ دیتے کہ تیری نمازوں کی وجہ سے تجھے نجات دے دی, تونے گھر بار چھوڑا تہا,تیرے اس عمل کے طفیل نجات دیدی , تو ذرا میرا دل خوش ہوجاتا, کہ میرے عمل کی کچھ قدر کی , اتنی میں نے  محنت کی, ساری دنیا کو میں نے ترک کیا,اور اب بہی بخشا تو اپنے فضل و کرم سے بخشا,گویا میں نے کچھ کیا ہی نہیں , یہ ایک وسوسہ اس کے دل میں پیدا ہوا, ﷲ تعالی تو دلوں کی کھٹک کو جانتے ہیں ,  { وﷲ  علیم بذات الصدور} اس لیے ملائکہ سے فرمایا: اس کو جنت کی بجائے جہنم کے راستے پر لیجاؤ! جہنم میں ڈالنا نہیں ھے؛ لیکن اتنی دور جہنم سے دور کھڑا کرو جہاں سے جہنم پانچ سو برس کے راستے پر ہو اس کو وہاں پہونچا دیا گیا, وہاں جو جہنم کی ایک لو اور لپٹ آئی ھے تو سر سے پیر تک یہ عابد خشک ہوگیا, اس کو کانٹے چبہنے لگے اور پیاس پیاس چلانا شروع کیا, جہنم کا ایک جھونکا لگتے ہی اس کی ساری روح خشک ہوگئ حدیث میں ھے: کہ ایک ہاتھ غیب سے نمایاں ہوا, جس میں ٹھنڈے پانی کا کٹورا تھا, یہ عابد دوڑتا ہوا گیا اے ﷲ  کے بندے یہ پانی مجھے دیدے, یہ آگے گیا اور ہاتھ پیچھے ھٹ گیا, اس نے کہا: خدا کیلیے مجھے پانی دے۔

جواب یہ ملا: آواز آئی کہ اس پانی کی قیمت ھے اس عابد نے پوچھا : کہ کیا قیمت ھے؟ کہ پانچ سو برس کی عبادت جو خالص کی ہو, وہ اگر قیمت میں ادا کردی جائے تو یہ پانی کا کٹورا مل سکتا ھے, ورنہ نہیں اس نے کہا: میرے پاس پانچ سو برس کی عبادت ہے اور وہ جلدی سے پیش کردی ,کٹورا لے کر پیا تو کچھ دم میں دم آیا,حق تعالی نے کہا: اس عابد کو لوٹا لاؤ! پھر ہمارے سامنے پیش کرو ,پھر پیشی ہوئی , حق تعالی نے فرمایا: اے بندے تیری پانچ سو برس کی عبادت سے تو ہم چھوٹ گئے تو نے پانچ سو برس کی عبادت کی تھی اس کی قیمت ایک کٹورا پانی مل گیا اور وہ قیمت خود تونے تجویز کی ,ہم نے نہیں کی تو نے ہی کہا کہ میں پانچ سو برس کی عبادت دیتا ہوں اور کٹورا خریدتا ہوں ؛ اس لیے ہم پانچ سو برس کی عبادت سے ادا ہوئے , معاملہ برابر سرابر ہوگیا,

اب ان لاکھوں کٹوروں پانی کا حساب دے جو دنیا میں تونے پئے! ان کے بدلے میں تو کیا کیا عمل لیکر آیا اور وہ جو تونے دنیا میں لاتعداد اناروں کے دانے کھائے ہیں, ایک ایک دانے کا حساب دے ان کے بدلے میں کتنے سجدے کتنے رکوع کیے, کتنی عبادتیں کیں؟ اور دانہ پانی تو الگ ھے وہ جو تیری آنکہوں میں روشنی تہی جس سے تو صورتیں دیکھتا تھا, ایک ایک تارِ نگاہ کا حساب دے, اس کے بدلے میں کتنی عبادتیں لیکر آیا ھے؟ اور نگاہ تو الگ ھے یہ جو تو سانس لیتا تہا, جسکے ذریعے زندگی قائم تھی, ایک ایک سانس کا حساب دے, اس کے بدلے میں کتنی عبادتیں لیکر آیا؟  اور وہ جو بدن میں ہم نے جان دی تھی جس نے پانچ سو برس زندگی رکھی اور تونے عبادت کی, اس طاقت کا حساب دے, اسکے بدلے میں کیا کیا عبادتیں لیکر آیا؟ اور وہ جو چشمہ اور انار کا درخت کا درخت تیرے لیے رکھا تھا اور ھواؤں کو تیری طرف متوجہ کیا جس سے تو سانس لیتا تہا, اور جو ہم نے اپنے سورج کو گرمی بخشی جس نے تجھ تک گرمی پہونچائی جس سے تیرا بدن قائم رہا ان سب چیزوں کا حساب دے , ہماری دنیا کے ذرے ذرے سے جو فائدہ اٹھایا اب سب کا حساب دے! کیا عبادتیں لیکر آیا؟

عابد بیچارہ تھرّا گیا, اور اس نے عرض کیا: اےﷲ! بیشک نجات تیرے فضل ہی سے ہوتی ھے, بندے کے عمل سے نہیں ہوتی, عمل کی تو کُل قیمت یہ ھے: کہ پانچ سو برس کی عبادت کے بدلے ایک کٹورا پانی مل گیا, اور وہ بھی آپ نے فضل سے ہی دیدیا, اگر یوں فرماتے: کہ کٹورا اسکو ملیگا جس نے ایک لاکھ برس عبادت کی ھے تو میں اس سے بھی محروم رہ جاتا , تونے قیمت اتنی رکھی جو میں ادا کرسکا یہ بہی تیرا ہی فضل ہے اس لیے نجات فضل سے ہوتی ھے عمل سے نہیں ہوتی۔



÷ نام کتاب: خطبات حکیم الاسلام

÷ نام خطیب: قؔاری محمد طیب صاحبؒ

÷ جلد: 3

÷ صفحہ: 26

÷ طبع: بیت العلوم پبلشر, کراچی , پاکستان.


☸️ *حدیث سے ثبوت* ☸️


امام حاکمؒ نے مستدرک میں یہ روایت ذکر کی ھے اور اسکو صحیح الاسناد کہا ھے ؛ لیکن امام ذھبیؒ نے اس پر تعاقب کیا ھے یعنی ضعیف کہا ھے:



أخبرني أحمد بن محمد بن سلمة العنزي ، ثنا عثمان بن سعيد الدارمي ، ثنا عبد الله بن صالح المقري ، ثنا سليمان بن هرم القرشي ، وحدثنا علي بن حمشاذ العدل ، ثنا عبيد بن شريك ، ثنا يحيى بن بكير ، ثنا الليث بن سعد ، عن سليمان بن هرم ، عن محمد بن المنكدر ، عن جابر بن عبد الله - رضي الله عنهما - قال : خرج علينا النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - ، فقال : " خرج من عندي خليلي جبريل آنفا فقال : يا [ ص: 356 ] محمد ، والذي بعثك بالحق إن لله عبدا من عبيده ، عبد الله - تعالى - خمسمائة سنة على رأس جبل في البحر عرضه وطوله ثلاثون ذراعا في ثلاثين ذراعا ، والبحر محيط به أربعة آلاف فرسخ من كل ناحية ، وأخرج الله - تعالى - له عينا عذبة بعرض الأصبع تبض بماء عذب فتستنقع في أسفل الجبل ، وشجرة رمان تخرج له كل ليلة رمانة فتغذيه يومه ، فإذا أمسى نزل فأصاب من الوضوء وأخذ تلك الرمانة فأكلها ثم قام لصلاته ، فسأل ربه - عز وجل - عند وقت الأجل أنيقبضه ساجدا ، وأن لا يجعل للأرض ولا لشيء يفسده عليه سبيلا حتى بعثه وهو ساجد قال : ففعل فنحن نمر عليه إذا هبطنا وإذا عرجنا ، فنجد له في العلم أنه يبعث يوم القيامة فيوقف بين يدي الله - عز وجل - فيقول له الرب : أدخلوا عبدي الجنة برحمتي ، فيقول : رب بل بعملي ، فيقول الرب : أدخلوا عبدي الجنة برحمتي ، فيقول : يا رب ، بل بعملي ، فيقول الرب : أدخلوا عبدي الجنة برحمتي ، فيقول : رب بل بعملي ، فيقول الله - عز وجل - للملائكة : قايسوا عبدي بنعمتي عليه وبعمله فتوجد نعمة البصر قد أحاطت بعبادة خمس مائة سنة وبقيت نعمة الجسد فضلا عليه فيقول : أدخلوا عبدي النار قال : فيجر إلى النار فينادي : رب برحمتك أدخلني الجنة ، فيقول : ردوه فيوقف بين يديه فيقول : يا عبدي ، من خلقك ولم تك شيئا ؟ فيقول : أنت يا رب ، فيقول : كان ذلك من قبلك أو برحمتي ؟ فيقول : بل برحمتك . فيقول : من قواك لعبادة خمس مائة عام ؟ فيقول : أنت يا رب ، فيقول : من أنزلك في جبل وسط اللجة وأخرج لك الماء العذب من الماء المالح وأخرج لك كل ليلة رمانة وإنما تخرج مرة في السنة ، وسألتني أن أقبضك ساجدا ففعلت ذلك بك ؟ فيقول : أنت يا رب ، فقال الله - عز وجل - : فذلك برحمتي وبرحمتي أدخلك الجنة ، أدخلوا عبدي الجنة فنعم العبد كنت يا عبدي ، فيدخله الله الجنة ، قال جبريل - عليه السلام - : إنما الأشياء برحمة الله - تعالى - يا محمد " . 


هذا حديث صحيح الإسناد ، فإن سليمان بن هرم العابد من زهاد أهل الشام ، والليث بن سعد لا يروي عن المجهولين .


• المصدر: المستدرك للحاكمؒ

• المحدث: حاكم النيسابوريؒ

• المجلد: 4

• الصفحة: 278

• الرقم: 7637

• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


💠 *البدور السافرة ميں*💠


خؔطبات حکیم الاسلامؒ میں اس روایت کے متعلق امام جلال الدین سیوطیؒ کی کتاب کا حوالہ ھے اس میں بہی علامہ سیوطیؒ نے یہ روایت امام حاکمؒ کے حوالے سے ذکر کی ھے: 



٭ المصدر: البدور السافرة في أحوال الآخرة

٭ المحدث: الإمام السيوطيؒ

٭ الصفحة: 305

٭ الرقم: 882

٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


☪️ *الترغیب والترھیب* ☪️


 یہ روایت امام منذریؒ نے بھی ذکر کی ھے اور امام حاکمؒ نؔیشاپوری کی مستدرک کے حوالے سے نقل کی ھے نیز امام منذریؒ نے امام حاکمؒ کی تصحیح پر کوئی تعاقب نہیں فرمایا ھے: 



قال المنذري نقلا عن الحاكم:  رواه الحاكم عن عن سليمان بن هرم عن محمد بن المكندر، عن جابر،  وقال ( الحاكم): صحيح الإسناد.


٭ المصدر: الترغيب والترهيب ( فصل في الحساب وغيره)

٭ المحدث: الإمام زكي الدين المنذريؒ

٭ المجلد: 4

٭ الصفحة: 215

٭ الرقم: 45

٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.



*خلاصۂ کلام*


 یہ روایت بقول امام حاکمؒ صحیح ھے لیکن در حقیقت اس روایت کی سند میں راوی " سلیمان بن ھرمؒ " پر ائمہ حدیث مثلا: امام ذھبیؒ و حافظ الدنیا علامہ ابن حجر عسقلانیؒ کی ( لسان المیزان, جلد:4. صفحہ:180, راوی نمبر:3655.طبع: دار البشائر الإسلامية، بيروت، لبنان.)  جرح مذکور ھے لہذا یہ روایت ضعیف قرار پایئگی۔ نیز حکیم الاسلام صاحبؒ نے یہ روایت دوران خطاب بیان کی ھے اس لیے افہام و تفہیم میں طوالت ہوگئ اور کچھ الفاظ آگے پیچھے ہوگئے ہیں ؛ اور پانی کے کٹوری والی بات روایت میں نہیں ھے۔


وﷲ تعالی اعلم 

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی* 

26 دسمبر :؁ء 2020

Saturday, December 19, 2020

اخلاق کا اثر

 ▪️ *اخلاق کا اثر* ▪️


 ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک یہودی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاں مہمان ہوئے،  حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اپنے بستر پر آرام کرنے کو کہا جب وہ بستر پر لیٹے تو پاخانہ کر دیا اور جلدی سے نکل گئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور اس...... کو اپنے ہاتھوں سے  صاف کیا....اور اس منظر کو دیکھ کر وہ یہودی آپؐ کے اخلاق سے اتنا متاثر ہوا کہ مشرف باسلام ہوگیا ۔


اس واقعے کا حوالہ و تحقیق مطلوب ھے!!!



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


یہ واقعہ مولانا اؔبن الحسن عباسی صاحبؒ نے اپنی کتاب " کتابوں کی درسگاہ میں " کے اندر ذکر کیا ھے : 


🔰 حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ فرماتے ہیں کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ  جب آخری حج سے تشریف لارہے تھے تو ہم لوگ اسٹیشن پر شرفِ زیارت کے لیے گئے ،اس وقت حضرتؒ کے متوسلین میں سے ایک شخص محمد عارف جھنگ سے دیوبند تک ساتھ گئے ،ان کا بیان ہے کہ ٹرین میں ایک ہندو جنٹلمین بھی تھا، جس کو قضاءِ حاجت کے لیے جانا تھا،لیکن جاکر الٹے پاؤں بادلِ ناخواستہ واپس آیا، حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ سمجھ گئے ، فورا ً چند سگریٹ کی ڈبیاں ادھر ادھر سے اکٹھی کیں اور لوٹا لے کر پاخانہ گئے اور اچھی طرح اسے صاف کرکے واپس آگئے،پھر اس ہندو دوست سے فرمانے لگے: آپ قضاءِ حاجت کے لیے جانا چاہتے تھے تو جائیے !بیت الخلا بالکل صاف ہے۔“ قصہ مختصر وہ اٹھا اور جاکر دیکھا تو پاخانہ بالکل صاف تھا،بہت متاثر ہوا، اور قضاءِ حاجت کے بعد بھر پور عقیدت سے عرض کرنے لگا: یہ حضور کی بندہ نوازی ہے ، جو سمجھ سے باہر ہے ۔اس واقعہ کو دیکھ کر ٹرین میں سوار خواجہ نظام الدین تونسوی مرحوم نے ایک ساتھی سے پوچھاکہ یہ کھدر پوش کون ہے ؟ جواب ملا: کہ یہ مولانا حسین احمد مدنی ہیں ۔تو خوا جہ صاحب فوراً حضرت مدنی سے لپٹ گئے اور رونے لگے ، حضرت مدنی  نے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ تو کہا: سیاسی اختلاف کی وجہ سے میں نے آپ کے خلاف فتوے دیے اور برا،بھلا کہا،آج آپ کے اعلیٰ کرداراور اخلاق کو دیکھ کر تائب نہ ہوتا تو شاید مر کرسیدھا جہنم میں جاتا۔ اس پر حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:میرے بھائی!میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر عمل کیا ہے اور وہ سنت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے یہاں ایک یہودی مہمان نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بستر مبارک پر رات کو پاخانہ کر دیااور صبح اٹھ کر جلدی چلا گیااور اپنی تلوار وہیں بھول گیا،جب اپنی بھولی ہوئی تلوار لینے آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم بنفس نفیس اپنے دستِ مبارک سے بستر دھو رہے ہیں، حضور صلی الله علیہ وسلم کے اِن اعلیٰ اخلاق کو دیکھ کر وہ یہودی مسلمان ہو گیا۔ ( ماہنامہ الرشید،  مدنی و اقبال نمبر، ص: 172)


• نام كتاب: كتابوں كي درسگاه ميں

• نام مؤلف: مولانا ابن الحسن عباسي 

• صفحة: 143

• طبع: مكتبه عمرِ فاروق، بالمقابل جامعه فاروقيه، شاه فيصل كالوني، كراچي، پاكستان.



( نوٹ )


 یہ واقعہ باوجودیکہ کافی مشہور ھے؛ لیکن اسکا ثبوت تلاش بسیار کے بعد بھی مل نہیں سکا؛ لہذا اسکی نسبت نبی کریم کی جانب نہ کی جائے۔


وﷲ تعالی اعلم 

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

19 دسمبر : 2020

Friday, December 18, 2020

اشرف الفقاعي

 ▪️ اشرف الفقاعي ▪️




حضرت امام ملا علی قاری علیہ رحمة البارى نے اپنی مایۂ ناز تصنیف مرقاة المفاتيح شرح مشكوة المصابيح میں بہت سارے مقامات پر  “ قال الاشرف “ کہکر  اپنی ماقبل کی گفتگو کا مؤید یا مبین قول پیش فرمایا ھے ,ایسے کل مقامات پوری کتاب میں میرے اعتبار سے ایک سو آٹھ (۱۰۸ ) ہیں .جس کی ابتداء یوں ھے:قال الاشرف اهل الجنة تكتب اسماءهم و اسماء اباءهم و قباءلهم الخ( مرقاة ج:1 صفحه: 274 ) اور سب سے آخر میں یوں ھے :قال الاشرف انما دعا لہما بالبرکة لان مولده بمكة الخ مرقاة ج : 11، صفحة: 403، طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.)




یہ اشرف صاحب جنکا حوالہ ملا علی قاری پیش فرماتے ہیں کون ہیں؟ہمارے علماء محققین کی نظر میں اگر اس سلسلہ میں کہیں کوئی وضاحت یا صراحت ہو تو ضرور ذکر فرمائیں!!


 


فقیر مشکور و ممنون رہیگا۔






••• *باسمہ تعالی* •••


*الجواب وبہ التوفیق:* 




امام محی السنہ بغوی جنکا مکمل نام اس طرح ھے:[ ابو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی] یہ خراسان کے علاقے " بغ " میں پیدا ہوئے جو " ھرات" اور " مَرْو" کے درمیان ایک جگہ ہے , آپ کی ولادت سنہ: 433 ھجری میں ہوئی تھی۔ اور تاریخ وفات شوال المکرم سنہ : 510 ھجری ھے۔اور تدفین " طالقان " کے قبرستان میں اپنے شیخ  قاضی حسین کے برابر میں ہوئی.




آپ کی متعدد تالیفات ہیں جن میں سے ایک " مصابیح السنة " بھی ھے ۔




( مقدمة الناشر فی المرقاة شرح المشکاة, جلد: 1, صفحہ: 9, طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.)






 اس کتاب " مصابیح السنہ" کی بھی متعدد شروحات لکھی گئیں ہیں جن میں ایک شرح وہ ھے جسکو " ابو عبداللہ جمال الدین اسماعیل بن محمد بن اسماعیل بن عبدالملک بن عمر حموی حنفی " ( المتوفی: 715) نے لکہا ہے, ان کا لقب  ”الاشرف الفُقاعی“ ہے۔




وشرحه الشيخ ابو عبد الله اسماعيل بن محمد اسماعيل بن عبد الملك بن عمر المدعو بالأشرف الفقاعي .




( كشف الظنون، الجزء: 2 الصفحة: 1701، الطبع: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان.)



▪️ اسی طرح امام خطیب تَِبریزی متوفی 737 ھجری( ولی الدین ابو عبد ﷲ محمد بن عبد ﷲ الخطیب ) نے بھی ایک شرح مسمٰی "مشكاة المصابيح " لکھی ھے جسکی بھی متعدد شروحات ہیں , ان میں ملا علی قاری کی شرح " المرقاة " بهي هے،  اسی مرقات میں ملا علی قاری نے متعدد مواقع میں شیخ اشرف قفاعی کا حوالہ دیا ھے یہ وہ اشرف ہیں جنکا اوپر ذکر آچکا ھے۔






🔰 علامہ طیبی نے بھی ان اشرف فقاعی کو شرح طیبی کے مصادر میں ذکر کیا ھے : 




شرح طیبی “کے مصادر 


علامہ طیبی نے اس شرح کی ترتیب و تالیف میں جن کتابوں اور مصادر سے استفادہ کیا ہے ان کی فہرست شرح کے مقدمہ میں دے دی ہے، ہر ایک کتاب کے لیے ایک مخصوص اشارہ مقرر کر دیا ہے۔ چناں چہ شرح کے اندر جہاں کہیں بھی ان میں سے کسی کتاب سے استفادہ کیا گیا اور اس کی عبارت نقل کی گئی تو وہاں اس کے مقرر رمزکو ذکر کر دیا گیا ، جس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ عبارت فلاں کتاب کی ہے۔چناں چہ وہ فرماتے ہیں:




*بيان الرموز المستعملة في الكتاب*




 فعلامة معالم السنن وأعلامہا: ”خط“، وشرح السنة: ”حس“، وشرح صحیح مسلم: ”مح“، والفائق للزمخشري: ”فا“، ومفردات الراغب: ”غب“، ونہایة الجزري: ”نہ“، والشیخ التورابشتي: ”تو“، والقاضي ناصر الدین: ”قض“، والمظہر: ”مظ“، والأشرف: ”شف“.




 علامہ خطابی کی” معالم السنن و أعلامہا “ کی علامت : ”خط “ ، علامہ بغوی کی ”شرح السنہ “ کا اشارہ ” حس “ ، علامہ نووی  کی ”شرح مسلم“ کا رمز : ”مح “ ، علامہ زمخشری کی” الفائق فی غریب الحدیث “کی علامت : ”فا “ ، علامہ راغب اصفہانی کی ”مفردات القرآن “کا اشارہ : ”غب “ ، علامہ ابن الاثیر جزری  کی ”النہایہ فی غریب الحدیث و الاثر “ کا رمز ”نہ “ ، علامہ توراپشتی  کی ” کتاب المیسر فی شرح مصابیح السنہ “ کا اشارہ ” تو “ ، قاضی ناصر الدین بیضاوی  کی کتاب ” تحفة الابرار فی شرح مصابیح السنہ “ کی علامت ”قض “ علامہ مُظہرالدین زیدانی  کی شرح ” المفاتیح فی شرح المصابیح “ کا اشارہ ” مظ “ اور علامہ اشرف کا رمز ” شف “ ہے ۔ “




( مقدمة المؤلف في شرح الطيبي، جلد: 1، صفحة: 369،  طبع: مكتبة نزار مصطفي الباز، الرياض، السعودية. )






خلاصہ کلام 




مرقاة المفاتيح ميں قال الاشرف، اور شرح طيبي ميں "شف " سے مراد شيخ" أشرف الفقاعي " هيں.




والله تعالي اعلم 


✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*


18 / 12 / 2020

Tuesday, December 15, 2020

دیکھ اپنی آنکھ کا غافل ذرا شہتیر بھی

 ▪️ *دیکھ اپنی آنکھ کا غافل ذرا شہتیر بھی*  ▪️


ایک محاورہ اردو زبان میں اکثر بولا جاتا ھے کہ جب کوئی شخص اپنی کوتاہیوں کی تو پرواہ نہیں کرتا ؛ لیکن سامنے والے کی معمولی خطا پر گرفت کرنے لگتا ھے تو اس وقت ایک محاورہ بہت کہاجاتا ھے:


 ؎ *غیر کی آنکھوں کا تنکا تجھ کو آتا ہے نظر،  دیکھ اپنی آنکھ کا غافل ذرا شہتیر بھی*۔


سنا ھے کہ یہ محاورہ کسی حدیث کا مفہوم ھے؟ 

از راہ کرم مکمل رہنمائی کریں!!!



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


جی ہاں! یہ شعر اور محاورہ ضرب المثل ھے , اور اس وقت کہا جاتا ھے جب اپنا بڑے سے بڑا عیب نظر انداز کرکے  دوسرے کے معمولی قصور پر اسکو نیچا دکھایا جاتا ھے۔


نیز یہ شعر و محاورہ واقعتاً حدیث نبوی کا مفہوم ھے: 


( *حدیث مبارک ھے* )


أخبرنا أبو عروبة، قال: حدثنا كثير بن عبيد، قال: حدثنا محمد بن حِمْيَر، عن جعفر بن بُرقان، عن يزيد بن الأصمِّ، عن أبي هريرةؓ قال:  قال رسول الله ﷺ: يُبْصِرُ أحدُكم القَذَاةَ  في عينِ أخيهِ، ويَنْسَى الْجِذْعَ في عينِهِ.


( ترجمة)  


حضرت سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ھے: کہ نبی پاکؐ نے فرمایا: تم میں کسی کو اپنی بھائی کی آنکھ کی ( معمولی ) خرابی تو نظر آجاتی ھے ؛ لیکن خود کی آنکھ میں پڑا شہتیر نظر نہیں آتا۔


٭ المصدر: الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان 

٭ الراوي: أبوهريرةؓ

٭ المحدث: ابن بلبان الفارسيؒ

٭ المحقق: شعيب الأرنؤوطؒ

٭ المجلد: 13

٭ الصفحة: 73

٭ الرقم: 5761

٭ الطبع: مؤسسة الرِّسالة، بيروت، لبنان.


والله تعالي أعلم

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

۱۵ دسمبر: ؁۲۰۲۰ء

Sunday, December 13, 2020

صدیق اکبر کا جذبہ ایمانی

 ▪️ *صدیق اکبرؓ کا جذبۂ ایمانی* ▪️


  ایک واقعہ بہت مشہور ھے کہ کسی جنگ کے موقع پر حضرت ابو بکرؓ کے فرزند عبد الرحمنؓ ( جب اسلام نہ لائے تھے) کفار کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلیے آئے تھے, تو حضرت عبد الرحمنؓ  جب مسلمان ہوگئے تو انہوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا: کہ ابا جان! ایک بار فلاں جنگ میں آپ میرے سامنے آتے تہے تو میں آپ سے کنارہ کر جاتا تہا اور آپ اس وقت میرے حریف تہے ؛ لیکن چونکہ آپ میرے والد ہیں اس لیے آپ پر میں نے کوئی وار یا حملہ نہ کیا تو حضرت صدیق اکبرؓ کا ایمانی جذبے سے سرشار جواب تہا: کہ بیٹا! تم نے تو مجھ سے کنارہ کرلیا تہا ؛ لیکن اگر تم میرے سامنے پڑجاتے تو میں یقیننا تمکو نہ بخشتا اور قتل کردیتا۔


اس واقعے کا حوالہ مطلوب ھے!!!



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 



  جی یہ واقعہ غزوۂ بدر کا ھے , امام ابن عساکرؒ نے " تاریخ دمشق " میں اور امام سیوطیؒ نے " تاریخ الخلفاء " میں ذکر کیا ھے: 


🔰 *تاريخ الخلفاء ميں* 🔰



وأخرج ابن عساكر عن ابن سيرين: أن عبد الرحمن بن ابي بكر الصديق كان يوم بدر مع المشركين،  فلما أسلم، قال لابيه: لقد أهدفت لي يوم بدر، فصرفتُ عنك ولم أقتلك، فقال له ابوبكر: لكنك لو هدفتَ لي، لم انصرف عنك.


• تاريخ الخلفاء

• المؤلف: الامام السيوطيؒ

• الصفحة: 111

• الطبع: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، قطر.



🔲 تاريخ ابن عساكر 🔲


قال وانبأنا ابن مروان، نا أحمد بن علي المزوري، نا علي بن عبد الله، نا عبد الرزاق، عن معمر، عن أيوب، عن ابن سيرين: أن عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق كان يوم بدر مع المشركين، فلما اسلم، قال لابيه: لقد أهدفتَ لي يوم بدر، فصرفت عنك، ولم اقتلك، فقال ابوبكر: لكنك لو أهدفتَ لي، لم أنصرف عنك.


٭ المصدر: تاريخ مدينة دمشق

٭ المجلد: 30

٭ الصفحة: 127

٭ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.



والله تعالي اعلم 

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*

13/12/2020

Saturday, December 12, 2020

حضرت علی کی حضور سے محبت کا انوکھا واقعہ

 ▪️ *حضرت علیؓ کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا انوکھا واقعہ* ▪️


ایک واقعہ بہت زیادہ سننے میں آرہا ھے : 

حضرت علی ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ کی پیدائش کی خبر جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور حضرت علی رضی اللہ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ کو گود میں اٹھایا، ابھی انہوں نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بچے کو نہلایا اور ساتھ ہی فرمایا کہ آج علی کو پہلا غسل میں دے رہا ہوں اور کل یہ مجھے آخری غسل دے گا، چنانچہ آنے والے وقت نے ثابت کردیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری غسل حضرت علی رضہ نے ہی دیا۔

حضرت علی رضی اللہ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ کی جوانی میں ایک دن حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم نے میرے آنے سے پہلے آنکھیں کیون نہ کھولیں تھیں تو آپ رضی اللہ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ نے عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں چاہتا تھا کہ جب اس دنیا میں میری آنکھ کھلے تو سامنے میرے محبوب کا چہرہ انوار ہو. 


بخاری مسلم


اس واقعے کی تحقیق مطلوب ھے!!!



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


یہ واقعہ کسی بھی حدیث یا سیرت کی کتاب میں موجود نہیں ؛نیز بؔخاری و مؔسلم کا نام لکہنا محض فریب اور دھوکہ ھے؛ لہذا اسکا بیان کرنا و نشر کرنا جائز نہیں ۔ 


( فائدہ )


   اتنا تو روایات سے ثابت ھے: کہ حضرت علی کرم ﷲ  وجہہ نے آپ علیہ السلام کو وفات کے بعد غسل دیا تہا؛ لیکن نہ اس کے متعلق کوئی پیش گوئی تہی نہ نبی کریمؐ کی ایسی کوئی وصیت ۔


☪️ حدثنا عبد الرحمن بن حمدان الجلاب بهمدان، ثنا إبراهيم بن نصر الرازي، وإبراهيم بن ديزيل، قالا: ثنا سليمان بن حرب، ثنا حماد بن زيد، عن معمر، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن عليٍّ رضي الله عنه: قال: عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال: (غسَّلْتُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم، فجعلتُ أنظر ما يكون من الميت فلم أرَ شيئاً، وكان طيبا حياً وميتا.


( هذا *حديث صحيح* علي شرط الشیخین، ولم يخرِّجاه.)


٭ المصدر: مؔستدرك حاكم

٭ المجلد: 3

٭ الصفحة: 61

٭ الرقم: 4397

٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان. 



والله تعالي أعلم 

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

12 / 12 /2020

Thursday, December 10, 2020

ایک سیاسی رنجش ایسی بھی

 ▪️ *ایک سیاسی رنجش ایسی بھی* ▪️


ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر خوب وائرل ھے جس میں چند مشہور نامور علماء ( مولانا فضل الرحمن, حافظ حمد ﷲ , مفتی کفایت ﷲ, اور حافظ حسین صاحب دامت برکاتہم ) کی تصویر بھی ھے اور نیچے ایک بات حدیث کے عنوان سے لکہی ھے: محمد مصطفیؐ نے فرمایا: میں نے معراج کی رات جہنم میں ایک ایسا گروہ دیکہا جنکی زبانیں لمبی لمبی تہیں , فرشتے زبانیں کاٹتے اور وہ پھر لمبی ہوجاتی تہیں , صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول ﷲ! یہ کون لوگ تھے ؟  آپؐ نے فرمایا : وہ عالم جو علم کی بنا پر امتوں کو لڑایا کرتے تہے۔


اسکی تحقیق مطلوب ھے !!!


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


 جواب سے قبل حدیث گھڑنے کے اسباب میں سے ایک سبب پر روشنی ڈالنا مفید رہیگا , مولانا. "سعود عالم قؔاسمی صاحب" نے " فتنۂ وضعِ حدیث" نامی کتاب میں حدیث گھڑنے کے چند اسباب ذکر کیے ہیں جن میں ایک سبب بادشاہوں اور امیروں کی خوشنودی بھی ھے وہ لکہتے ہیں : وضع حدیث کا ایک بڑا سبب یہ بہی تہا کہ لوگ اپنے جیسے دوسرے انسان کی خوشنودی اور تقرب حاصل کرنے کیلیے , اسکی نظر میں سرخ رو ہونے اور اس سے تہوڑی سی منفعت حاصل کرنے کیلیے کوشاں رہتے تھے , وہ امراء و سلاطین کے درباروں میں جاتے تہے اور ان کو خوش کرنے کیلیے جہوٹی روایات بیان کرتے تھے , مفاد پرست لالچی اور درباری لوگ ہمیشہ بادشاہوں کے تقرب کو سعادت سمجہتے رھے اور اس مقصد کیلیے اس حد تک ذلت پر اتر آتے کہ اپنے دین و ایمان کا سودا کرنے سے نہ چوکتے ,علمائے یہود اس فن میں ید طولی ( مہارت ) رکہتے تہے وہ چند سکوں کی خاطر اپنے علم اور دینداری کا غلط استعمال کرتے تہے اور خدا کی کتاب میں حقیر سی پونجی کیلیے تحریف و ترمیم کر ڈالتے تہے , مسلمانوں کے اندر تو ایسا کوئی گروہ پیدا نہ ہوا جو اس ذلیل منفعت کیلیے قرآن کریم میں تحریف و ترمیم کرتا ؛ مگر ایسے لوگ ضرور پیدا ہوگئے جو اس مقصد کیلیے حدیث وضع کرتے  ( گھڑتے) تہے اور امراء سے نذرانۂ کذب کے امیدوار رہتے تہے۔


÷ نام کتاب : فتنۂ وضعِ حدیث

÷ نام مؤلف: محمد سعود عالم قؔاسمی

÷ صفحہ : 70

÷ طبع : اہلحدیث ٹرسٹ, مرکزی جامع مسجد ,اہلحدیث کورٹ, کراچی , پاکستان.


💠 *معراج کی روایت* 💠


معراج کی روایت میں زبانیں کاٹے جانے کا ذکر بیشک مذکور ھے؛ لیکن سوال یہ ھے: کہ وہ وعید کن لوگوں کیلیے ھے؟ وہ وعید ایسے خطباء اور واعظین و مقررین کے لیے ھے جو محض کہتے ہیں ؛ لیکن کرتے نہیں یعنی فقط زبان سے بیانات کرتے ہیں البتہ عملی طور پر وہ بالکل دور ہیں ۔



☪️ *مسند ابو یعلی میں* ☪️


 مسند ابو یعلی میں یہ روایت ھے: کہ شب معراج میں کچھ لوگوں کی زبانیں اور ہونٹ کٹتے دیکھ کر نبی کریمؐ نے رفیق محترم جبریلؑ سے معلوم کیا یہ ماجرا کیا ھے ؟ جواب ملا: یہ آپ کی امت کے خطباء و مقررین ہیں ( یعنی مطلقا کہا کوئی تفصیل بیان نہیں کی).



حدثنا محمد بن المنهال، حدثنا يزيد، حدثنا هشام الدستوائي، عن المغيرة ختن مالك بن دينار عن مالك بن دينار عن أنس أتيتُ على سماءِ الدنيا ليلةَ أُسرِيَ بي فرأيتُ فيها رجالًا تُقطَّعُ ألسنتُهم وشفاهُهم بمَقاريضَ من نارٍ فقلتُ : يا جبريلُ ما هؤلاءِ ؟ قال : هؤلاءِ خُطباءٌ من أمَّتِك .


٭ المصدر: مسند ابو يعلي 

٭ المجلد: 7

٭ الصفحة: 180

٭ الرقم: 4160

٭ الدرجة: قال حسين سليم اسد: صحيح

٭ الطبع: دار المامون للتراث، دمشق، سورية.





🔲 الخصائص الکبری میں 🔲


امام سیوطیؒ نے معراج کے متعلق متعدد روایات جمع کی ہیں ان میں ایک روایت حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ھے جو کہ بہت طویل روایت ھے اس میں ھے: پھر ایسی قوم سے گزر ہوا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے   کترے جارہی ہیں ,اور جب ان کو کتردیا جاتا ھے تو وہ پھر ٹھیک ہوجاتی ہیں ,حضورؑ نے حضرت جبرئیلؑ سے معلوم کیا یہ کیا ماجرا ھے؟ تو جواب دیا: *یہ فتنہ پرور خطباء ہیں.*( اس میں خطباء کی تفصیل ضرور ھے ؛ لیکن مجمل ھے). 


 

ثم أتي علي قوم تقرض السنتهم   وشفاهم بمقاريض من حديد، كلما قرضت، عادت كما كانت، لا يفتر عنهم من ذلك شيئ، قال: ما هؤلاء يا جبريل!؟ قال: هؤلاء خطباء الفتنة.


٭ المصدر: الخصائص الكبري 

٭ الراوي: ابوهريرةؓ

٭ المحدث: الامام السيوطيؒ

٭ المجلد: 1

٭ الصفحة: 429

٭ الطبع: دار الكتب الحديثية، قاهرة، مصر.



⚠️ *فتنہ پرور سے مراد* ⚠️


امام جؔلال الدین سیوطیؒ کی الخصائص الکبری کے حوالے سے مذکورہ بالا روایت کا ایک جملہ کہ یہ فتنہ پرور علماء ہیں سے مراد کیا ھے اسکا جواب بہی حدیث پاک میں ھے: کہ اس سے مراد وہ خطباء و واعظین ہیں جو بے عمل ہیں :


☸️ *مجمع الزوائد میں* ☸️



امام ہیثمیؒ نے مجمع الزوائد میں ان خطباء کی تفصیل والی روایت ذکر کی ھے: جس میں ھے: کہ یہ آپؑ کی امت کے وہ واعظ ہیں جو دوسروں کو تو بھلائی کا حکم کرتے تہے اور برائی سے رکنے کو کہتے تھے ؛ مگر خود عمل 

نہ کرتے تھے۔


وعن انس بن مالك : أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال:  أتيتُ ليلَةَ أُسْرِيَ بي علَى رِجالٍ تُقْرَضُ  شِفَاهُهُم بمقاريضَ من نارٍ قلْتُ مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جبريلُ قال هؤلاءِ خطباءُ أمتِكَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ الناسَ بالبرِّ وينسونَ أَنْفُسَهُمْ وهم يَتْلُونَ الْكِتابَ أفَلَا يعقِلونَ، وفي روايةٍ تُقْرَضُ ألسنتُهُمْ بِمقَارِيضَ من نارٍ أوْ قال من حديدٍ، وفي روايةٍ أتيتُ على سماءِ الدنيا ليلةَ أُسْرِيَ بي فرأَيْتُ فيها رجالًا تُقْطَعُ ألسنتُهم وشفاهُهم .


① المصدر: مؔجمع الزوائد

② المحدث: الامام الهيثميؒ

③ المجلد: 15

④ الصفحة: 283

⑤ الرقم: 12222

⑥ الطبع: دار المنهاج، جدة، السعوية.



( نوٹ ) 


اردو زبان میں سیدنا ابوہریرہؓ والی روایت جو الخصائص الکبری کے حوالے سے ماقبل میں بیان کی گئ ھے اگر پڑھنا چاہیں تو علامہ ادریس کاندھلویؒ کی "۔سیرت المصطفیؐ " دیکہی جاسکتی ھے: 


* نام کتاب : سيرت مصطفيؐ

* نام مصنف: العلامة إدريس الكاندهلويؒ

* جلد: 1

* صفحة: 285

* طبع: كتب خانه مظهري، گلشنِ اقبال، كراچي، پاكستان.



🔰 *خلاصۂ کلام* 🔰


سوالیہ پوسٹ میں جو روایت ذکر کی گئ ھے اسکا ثبوت تو ملا نہیں , اور جس کا ثبوت ملا ھے اسکی مراد واعظِ بے عمل ھے ؛ اور ایسے معزز علماء کرام کو جہوٹی روایت گھڑ کر نشانہ بنانا ذلت و رسوائی ھے اور ایسے ذلیلوں کیلیے جہنم میں ٹھکانہ تیار ھے ؛ کہ محض ووٹ بٹورنے اور قوم کی دولت کھسوٹنے,  اعدائے اسلام کی غلامی کیلیے سچے اور امانت دار حق گو و بیباک علمائے کو جہوٹی باتوں کے ذریعے نشانہ بنایا شکست خوردگی اور نیچ و گھٹیا حرکت ھے۔


وﷲ تعالی اعلم 

✍🏻... کتبہ : *محمد عدنان وقار صؔدیقی* 

10 دسمبر :؁ء 2020

Wednesday, December 9, 2020

دسمبر میں بلاؤں کا نزول

 ▪️ *دسمبر میں بلاؤں کا نزول* ▪️


ایک بات مشہور ھے: کہ ماہِ دسمبر میں کسی نہ کسی رات یا کسی نہ کسی دن بلایئں گزرتی ہیں ؛ لہذا اپنے کہانے پینے کے برتن کو اس ماہ میں ضرور ڈھانک کر رکہو ؛ کیونکہ وہ بلایئں جس کُھلے برتن کو دیکہتی ہیں اس میں داخل ہوجاتی ہیں اور پھر بڑا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ھے۔



اس بات کی حقیقت اور حوالہ درکار ھے!!!



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


نبی کریم نے زندگی کے ہر موڑ پر امت کی رہنمائی کی ھے اور بطور شفقت و خیر خواہی قدم قدم پر آداب و مشورے عطا فرمائے ہیں انہیں مشفقانہ و خیر خواہانہ امور میں یہ بات بہی نبی کریم نے سکھائی ھے کہ رات کو برتنوں کو ڈھانک کر رکہا کرو! دروازے بند کرکے سویا کرو! چراغ بجہاکر سویا کرو! وغیرہ وغیرہ۔


نیز یہ بھی بیان کیا ھے: کہ برتنوں کو ڈھک دیا کرو! مشکیزوں کے منہ بند کردیا کرو! کیونکہ سال میں ایک رات ( ایک روایت میں ھے سال میں ایک دن) ایسی آتی ھے کہ جس میں بلاء و آفت نازل ہوتی ھے اور کھلے برتن اور کھلے مشکیزہ کو دیکھ کر اس میں اترجاتی ہے 



 مزید دوسری روایت میں ھے: کہ امام لیث نے فرمایا: کہ عجمی لوگ ( غیر مسلم ) اس وباء کو ماہِ دسمبر میں مانتے تہے۔



🔰 مسلم شریف 🔰


حدثنا عمرو الناقد، حدثنا هاشم بن القاسم، حدثنا الليث بن سعد، حدثني يزيد بن عبد الله بن أسامة بن الهاد الليثي، عن يحي بن سعيد، عن جعفر بن عبد الله بن الحكم، عن القعقاع بن الحكيم،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ( غَطُّوا الْإِنَاءَ، وَأَوْكُوا السِّقَاءَ، فَإِنَّ فِي السَّنَةِ لَيْلَةً يَنْزِلُ فِيهَا وَبَاءٌ، لَا يَمُرُّ بِإِنَاءٍ لَيْسَ عَلَيْهِ غِطَاءٌ، أَوْ سِقَاءٍ لَيْسَ عَلَيْهِ وِكَاءٌ، إِلَّا نَزَلَ فِيهِ مِنْ ذَلِكَ الْوَبَاءِ ).


وحدثنا نصر بن علي الجهمضي، حدثني أبي، حدثنا ليث بن سعد، بهذا الاسناد بمثله، غير انه قال: "فإن في السنة يوما ينزل فيه وباء " و زاد في آخر الحديث: قال الليث: فالاعاجم عندنا يتقون ذلك في كانون الاول. 


٭ المصدر: تكملة فتح الملهم

٭ المجلد: 3

٭ الصفحة: 550/ 551

٭ الرقم: 5224/ 5225

٭ الطبع: دار إحياء التراث العلمي، بيروت، لبنان.


✳️ غیر مسلموں کا دسمبر کے متعلق کہنا ✳️


دوسری روایت میں امام لیث نے اعاجم کا جو عمل نقل کیا ھے کہ ہماری طرف کے غیر مسلم ( اہل کتاب) اس بلاء کو ماہِ دسمبر میں مانتے ہیں اس کے متعلق روایت بالا کے حاشیے میں درج ھے: اعاجم کی یہ تعیین ہمارے مسلموں کیلیے حجت و دلیل نہیں کہ اسکو کسی ماہ کے ساتھ خاص کرلیا جائے کیونکہ ماہ و دن یا تاریخ کی کوئی تعیین و اشارہ شرعا نہیں ھے۔


( حوالا بالا )



خلاصۂ کلام:  


روایت میں اتنا ثبوت ملتا ھے کہ کہانے پینے کے برتن کھلے نہ چھوڑے جایئں اور یہ حکم روزانہ پورے سال کیلیے ھےتاکہ شیاطین و حشرات الارض اور زہریلی آب و ھوا سے حفاظت ہو, لیکن  کسی ماہ و تاریخ کی قید نہیں ھے ؛ لہذا اسکو کسی ماہ کے ساتھ مقید کرنا بلا دلیل ھے۔


وﷲ تعالی اعلم 

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

9 دسمبر : 2020

Saturday, December 5, 2020

دنیا کی مساجد

 ▪️ *دنیا کی مساجد* ▪️


ایسا سنا جاتا ھے کہ طوفان نوحؑ میں جب کعبہ غرق ہوگیا تو اسکے ذرات پانی سے پھیل کر ساری دنیا میں پہونچے اور جہاں جہاں بھی کوئی ذرہ پہونچا وہیں وہیں مسجد تعمیر ہوئی ھے اور وہیں وہیں آئندہ بھی تعمیر ہوگی, بعض سے یہ سنا ھے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد باقی پتھروں کو ہوا نے زمین پر پھیلا دیا اب جہاں پتھر گرے وہیں مسجد بنے گی ۔


کیا ایسا کچھ حدیثوں میں ثبوت ملتا ھے؟



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق*:


ہمیں تلاشِ بسیار کے بعد بھی اس طرح کی کوئی صراحت حدیث میں نہ ملی ؛ لہذا اس طرح کی بات پر اعتماد نہ کیا جائے۔


وﷲ تعالی اعلم 

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

۵ دسمبر: ؁۲۰۲۰ء

یاد کی ہوئی باتوں کو بھولنے کے اسباب

 ▪️ *یاد کی ہوئی باتیں بھولنے کے اسباب* ▪️


" امام بؔرہان الاسلام زرنوجیؒ " نے اپنی مایہ ناز شہرہ آفاق کتاب " تعلیم المتعلم " میں طلبہ کیلیے بطور شفقت و نصیحت چند باتیں عرض کی ہیں جن میں سے بعض کا تعلق علم طب سے ھے, بعض کا تجربہ سے ہے اور کچھ باتیں احادیث کی روشنی میں بہی کی گئ ہیں ؛ اسی سلسلے میں حضرت امام محترم نے یاد کی ہوئی باتوں کو بھول جانے کی چند وجوہات و اسباب بہی ذکر کیے ہیں جنکا تعلق طب و تجربہ سے ھے:


🔰 وأما اسباب نسيان العلم، فأكل الكُزْبَرَةِ الرطبة، والتفاح الحامض، والنظر الي المصلوب، و قراءة لوح القبور، والمرور بين قطار الجمال، وإلقاء القَمْلِ الحيِّ علي الارض، والحجامة علي نُقْرَةِ القَفَا، كلها تورث النسيان.



( ترجمہ )


جہاں تک بھولنے کی وجوہات ہیں تو ان کے اسباب یہ بہی  ہوسکتے ہیں کہ ہرا دھنیہ (بکثرت) کھانا, کھٹا سیب کہانا, سولی دیئے گئے کی جانب دیکہنا, قبروں کے کتبے پڑھنا, اونٹوں کی قطاروں کے بیچ میں کو گزرنا, زندہ جوں کو زمین پر پھینکنا , گُدِّی ( سر کے پچھلے حصے) کے گڑھے میں پچھنا لگوانا۔


÷ نام کتاب : تعليم المتعلم طريقَ التعلم

÷ نام مؤلف: الإمام برهان الإسلام الزرنوجيؒ 

÷ صفحة: 57

÷ طبع: مكتبة البُشْرٰي، كراچي، پاكستان.


والله تعالي اعلم 

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*


05 /12 / 2020

فیروزہ پتہر کی فضیلت

 ▪️ *فیروزہ پتہر کی فضیلت* ▪️


ایک روایت بحوالہ " بحار الانوار " گردش میں ھے: کہ ﷲ تعالی فرماتے ہیں: کہ جب میرے بندوں میں سے کوئی دعا کیلیے ہاتھ اٹھائے اور اس کے ہاتھ میں فیروزہ کی انگوٹھی ہو تو مجہے اس شخص کو مایوس لوٹانے سے حیا آتی ھے۔


اس روایت کی تحقیق مطلوب ھے!!!


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


 یہ روایت کسی شیعہ نے گھڑی ہے؛ اس کا کتب حدیث میں کوئی وجود نہیں نیز کسی پتہر و نگینہ کی کوئی تاثیر مقبول و مستند روایات میں منقول نہیں ھے ؛ ایسی باتوں کے بیان و نشر سے بچا جائے۔نیز بحار الانوار نامی کتاب اغلاط و مفتریات سے بھری ہوئی ھے۔


🔰 بحار الانوار کی عبارت🔰



ووجدت في بعض الكتب عن أبي الحسين رفعه إلى الصادق عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: قال الله سبحانه: إني لأستحيي من عبد يرفع يده وفيها خاتم فيروزج فأردها خائبة.


÷ المصدر: بؔحار الانوار

÷ المؤلف: باقر مجلسي

÷ المجلد: 90

÷ الصفحة: 321

÷ الطبع: دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان.


والله تعالي اعلم

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

5دسمبر: ؁ء2020

ابوجہل کے منہ پر تھپڑ

 ▪️ *ابوجہل کے منہ پر تھپڑ* ▪️


امام جلال الدین سیوطیؒ نے حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم کی بعثت کے ابتدائی زمانے میں ایک دن ابوجہل نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کسی بات پرتھپٹر مار دیا۔ کمسن سیدہ روتی روتی حضور صلى الله عليه وسلم کے پاس گئیں اور ابوجہل کی شکایت کی۔

آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’بیٹی جاؤ اور ابوسفیان کو ابوجہل کی اس حرکت سے آگاہ کرو وہ ابوسفیان کے پاس گئیں اور انہیں سارا واقعہ سنایا۔ ابوسفیان نے بھی فاطمہؓ کی انگلی پکڑی اور سیدھے وہاں پہنچے جہاں ابوجہل بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے سیدہؓ سے کہا بیٹی جس طرح اس نے تمہارے منہ پر تھپڑ مارا تھا تم بھی اس کے منہ پرتھپٹر مارو۔ اگر یہ کچھ بولے گا تو میں اس سے نبٹ لونگا,چنانچہ سیدہؓ نے ابوجہل کو تھپڑ مارا اور پھر گھر جا کر حضور صلى الله عليه وسلم کو یہ بات بتائی، آپ نے دعا کی:الہی ابوسفیان کے اس سلوک کو نہ بھولنا‘‘حضور صلى الله عليه وسلم کی اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ فتح مکہ کے بعد ابوسفیانؓ نعمت اسلام سے بہرہ ور ہوگئے۔


اس واقعے کی تحقیق و حوالہ مطلوب ھے!!!


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


 یہ واقعہ اردو زبان میں جناب طالب ہاشمی صاحب نے امام جلال الدین سیوطی کے حوالے سے  " سیرت فاطمہ زھراء" میں نقل کیا ھے: 


• نام كتاب: سيرة فاطمة الزهراء

• نام مؤلف: طالب هاشمي

• صفحة: 66

• طبع: البدر پبلي كيشنز، راحت ماركيٹ، اردو بازار، لاہور، پاکستان.



🔲 امام سیوطی کے حوالے سے شیخ احمد زینی دحلان نے بھی اس واقعے کو اپنی تالیف " السيرة النبوية " میں جگہ دی ھے: 



قال السيوطي في "تحفة الاديب "روي القزويني في تاريخه عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : " لَطَمَ أَبُو جَهْلٍ فَاطِمَةَ في اول بعثة النبي ، فَشَكَتْ إِلَى رسول الله ، فَقَالَ لها: ائْتِي أَبَا سُفْيَانَ ، فَأَتَتْهُ فَأَخْبَرَتْهُ فَأَخَذَ بِيَدِهَا  حتي وَقَفَ عَلَى أَبِي جَهْلٍ ، فَقَالَ لَهَا : الْطِمِيهِ كَمَا لَطَمَكِ ، فَفَعَلَتْ فَجَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَخْبَرَتْهُ فَرَفَعَ يَدَيْهِ ، وَقَالَ : اللَّهُمَّ لا تُنْسِهَا لأَبِي سُفْيَانَ " ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : مَا شَكَكْتُ أَنْ كَانَ إِسْلامُهُ كان لِدَعْوَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .


٭ المصدر: السيرة النبوية 

٭ المؤلف: احمد زيني دحلان

٭ المجلد: 1 

٭ الصفحة: 266

٭ الطبع: دار القلم العربي، حلب، سورية.



♏ امام جلال الدین سیوطی نے یہ واقعہ "تحفة الاديب " میں امام رافعي  کے حوالے سے نقل کیا ھے, جس کی سند کچھ اس طرح ھے: 


وفي تاريخ قزوين للامام ابي القاسم الرافعي، روي علي بن احمد بن صالح، قال: حدثنا ابوالعباس محمد بن احمد العبدري القزويني حدثنا الحسن بن الفضل حدثنا محمد بن عبد الرحمن بن غزوان البغدادي حدثنا الاصمعي حدثنا مالك بن مغول عن الشعبي عن ابن عباس ، قال: لطم ابوجهل الخ.


٭ المصدر: تحفة الاديب 

٭ المصنف: الامام جلال الدين السيوطيؒ

٭ الصفحة: 39

٭ الطبع: عالم الكتب الحديث، إربد، الأردن.



🔰 تاريخ قزوين ميں 🔰


امام رافعی نے " تاریخ قزوین " میں اس واقعے کو مذکورہ بالا سند سے ہی ذکر فرمایا ھے جسکا ذکر امام سیوطی نے کیا ھے: 


محمد بن احمد بن مكي ابو العباس العبدي القزويني روي عنه علي بن احمد بن صالح، فقال:ثنا ابو العباس هذا، ثنا الحسن بن الفضل، ثنا محمد بن عبد الرحمن بن غزوان البغدادي، ثنا الاصمعي، ثنا مالك بن مغول، عن الشعبي عن ابن عباس قال: لطم ابوجهل فاطمة الخ.


٭ المصدر: التدوين في أخبار قزوين

٭ المؤلف: المؤرخ عبد الكريم الرافعي القزوينيؒ 

٭ المجلد: 1

٭ الصفحة: 201

٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.



⚠️ روايت كا حال ⚠️


اس روایت کی سند میں ایک راوی " محمد بن عبد الرحمن بن غزوان بغدادی " ہیں جن کے متعلق لسان المیزان میں امام ابن حجر عسقلانی نے ائمہ حدیث کے اقوال نقل کیے ہیں جنکا خلاصہ یہ ھے: کہ موصوف مستند راوی نہیں ہیں : 


محمد بن عبد الرحمن بن غزوان، ويعرف ابوه بـقراد، حدث بوقاحة عن مالك، وشريك، وضمام بن اسماعيل ببلايا، ... قال الدار قطني وغيره: كان يضع الحديث، وقال ابن عدي: له عن ثقات الناس بواطيل ... وقال ابن عدي: روي عن شريك و حماد بن زيد احديث انكرت عليه،وهو ممن يضع الحديث ، وقال الحاكم: روي عن مالك وابراهيم بن سعد أحاديث موضوعة، وقال ابواحمد الحاكم: ليس بالمتين.


★ المصدر: لسان الميزان 

★ المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ

★ المجلد: 7

★ الصفحة: 294

★ الرقم: 7070

★ الطبع: دار البشائر الإسلامية، بيروت، لبنان.


___*خلاصۂ کلام*___


 مذکورہ واقعہ مستند معلوم نہیں ہوتا ھے ۔


وﷲ تعالی اعلم 

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی* 


۵ دسمبر: ؁۲۰۲۰ء

Friday, December 4, 2020

مدینہ کی گلیوں میں رب کو دیکھا

 ▪️ *مدینہ کی گلیوں میں رب کو دیکہا* ▪️



حضرت ابو ہریرہؓ ایک بار مدینہ کی گلیوں میں صدا لگا رہے تھے

کہ میں نے مدینے کی گلیوں میں رب کو چلتے پھرتے دیکھا,جب حضرت عمرؓ نے یہ سنا تو انہیں پکڑ کرحضوررسالت مآبؐ کی بارگاہ میں لے گئے اور عرض کرنے لگے :  یارسول اللہ! ابوہریرہؓ دیوانہ ہو گیا ہے؛آپؐ نے پوچھا کہ اے عمرؓ ابوہریرہؓ کیا کہتا ہے۔حضرت عمرؓ عرض کرنے لگے :  ابوہریرہؓ کہتا ہے: میں نے مدینے کی گلیوں میں رب کو چلتے پھرتے دیکھا.آپؐ نے فرمایا ”قَالَ صَدقتَ“ کہ یہ سچ کہتا ہے۔

حضرت عمرؓ نے پوچھا یارسول اللہ! وہ کیسے؟تو اللہ کے رسولؐ سیّدنا کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے جواب دیا:اِنیِ مِرآة الَرحمٰن مَن رَانی فَقَد رَائی الحَق

”میں رحمان کا شیشہ ہوں جس نے مجھے دیکھا پس تحقیق اس نے اپنے رب کو دیکھا۔


بحوالہ:۔ ”تفسیرروح البیان،علامہ اسماعیل حقیؒ“ ٢۔”المرآة المفاتح کتاب الایمان.


                                                 کیا یہ سچ ھے؟ 


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


 یہ واقعہ تلاش بسیار کے بعد بھی کتب حدیث میں مل نہیں سکا؛ لہذا اسکے بیان کو موقوف رکہا جائے۔


💠 *تفسیر روح البیان* 💠


تفسیر رؔوح البیان میں شیخ اسماعیل حؔقی نے ایک بات ذکر کی ھے کہ حضورؐ کو خدا نے کمالات کا مَظہر اور  اپنی تجلیات کا ترجمان و عکاس اور آئینہ دار بنایا ھے ؛ اسی لیے حضورؐ نے کہا: کہ جس نے مجھے دیکھا تحقیق کے اس نے سچ ہی دیکہا ۔



والحاصل ان الله تعالى جعل نبيه صلى الله عليه وسلم مظهرا لكمالاته ومرآة لتجلياته؛ ولذا قال عليه السلام: " من رآنى فقد رأى الحق " .


٭ المصدر: تفسير روح البيان

٭ المؤلف: الشيخ اسماعيل حؔقيؒ 

٭ المجلد: 9

٭ الصفحة: 20 

٭ الطبع: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان.



⚠️ [ نوٹ]  یہ روایت کہ جس نے مجھے ( خواب میں ) دیکھا سو اس نے برحق دیکہا یہ درست روایت ھے:


☪️ *بخاری شریف* ☪️


 حدثنا خالد بن خَلِيٍّ، قال: حدثنا محمد بن حرب، قال: حدثنا الزبيدي عن الزهري، قال ابوسلمة، قال ابوقتادة: قال النبي ﷺ : مَن رآنِي فقَدْ رَأَى الْحَقَّ.


① المصدر: صحيح البخاري 

② المجلد: 2

③ الصفحة: 1956

④ الرقم: 6996

⑤ الطبع: ألطاف اينڈ سنز، کراچی، پاکستان.


والله تعالي اعلم 

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي* 

4 دسمبر:؁ء 2020

Thursday, December 3, 2020

حضور کے غسل کا پانی

 ▪️ *حضورؐ کے غسل کا پانی* ▪️


سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل مبارک کا پانی چار شیشوں میں بھر کر ایک شیشہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے لیا،  ایک حضرت میکاٸیل علیہ السلام نے،ایک حضرت اسرافیل علیہ السلام نے، اور ایک حضرت عزراٸیل علیہ السلام نےلیا، حضرت عزراٸیل علیہ السلام نزع کے وقت مومنوں کے منہ میں اس کا ایک قطرہ ڈال دیتے ہیں جس سے موت کی سختی آسان ہوجاتی ہے۔ حضرت میکاٸیل علیہ السلام  منکر نکیر کے سوالوں کے وقت ایک قطرہ ڈال دیتے ہیں اس سے جواب میں سہولت ہوتی ہے۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام قیامت کے دن ایک قطرہ چہرے پر چھڑک دیں گے اس سے قیامت کی دہشت سے  امن ملے گا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام قیامت کے دن ایک قطرہ آنکھوں پر مل دیں گے جس سے دیدار خداوندی کےمشاہدے کی طاقت حاصل ہو جائے گی۔



📝: 👈 _بحوالہ_( _*تحفة الوعظین۔کیاآپ جانتے ہیں صفحہ ٢٥* _)


اس کی تحقیق درکار ھے!!!!



••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


سوال میں مذکورہ بات اردو کی ایک کتاب _کیا آپ جانتے ہیں_ میں مذکور ھے ؛ لیکن یہ بات ہمیں تلاش و تتبع کے باوجود بہی کسی حدیث میں نہ مل سکی۔ 



• نام کتاب : کیا آپ جانتے ہیں 

• نام مؤلف : حسنین میاں برکاتی

• صفحہ : 14

• نمبر :74

• طبع : قادری رضوی کتبخانہ، گنج بخش روڈ،  لاھور.


⚠️ ( نوٹ ) 


مؤلف کتاب نے آخر میں مصادر و مراجع بہی ذکر کیے ہیں جن میں ایک نام " تحفة الواعظین " از: ظهير احمد عبد الاحد بہی ھے نیز سوال میں بہی اس کتاب کا نام بطور حوالہ درج ھے جبکہ مذکورہ کتاب " تحفة الواعظین" میں ایسا کچھ مذکور ہی نہیں۔

 



🔲  اگر چہ اسکے مؤلف نے ( جو کہ مسلکا بریلوی ہیں ) نے کتاب کے مقدمہ میں بڑے طمطراق سے لکہا ھے: کہ جو لوگ مجھے جانتے ہیں وہ میری اس عادت کو بہی پہچانتے ہیں کہ میں اپنے قلم سے کوئی ایسی بات نہیں لکہتا جو کسی مرحلہ پر قابلِ گرفت ہو, میں نے اس کتاب کی ترتیب میں بہی یہی کوشش کی ھے کہ جو کچھ لکہوں صحیح اور مستند ماخذ سے لکہوں , علمائے کرام یہ فیصلہ بخوبی کرسکتے ہیں کہ اس کتاب کے اندراجات بڑی کتابوں سے لیے گئے ہیں ۔


* نام کتاب : کیا آپ جانتے ہیں 

* نام مؤلف : مولانا حسنین میاں برکاتی 

* صفحہ : ج

* طبع : قادری رضوی کتبخانہ،  گنج بخش روڈ، لاھور.


وﷲ تعالی اعلم 

✍🏻... کتبہ : *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

3دسمبر : 2020

Tuesday, December 1, 2020

ایک دیہاتی کی روضہ اطہر پر دعا

 ▪️ *ایک دیہاتی کی روضۂ اطہر پر دعا* 


ایک عرب دیہاتی روضہ رسولﷺپر حاضر ہوکر رب سے دعا کرتا ہے,

اس کے مانگنے کا انداز دیکھیئے

الفاظ پر غورکیجیئے!

*یقین جانیئے رب سے مانگنے کا بھی ایک خاص فن،انداز اور ڈھنگ ہوتا ہےجو اس گاؤں کے رہنے والے عرب سے سیکھنا چاہیئے۔اے اللہ!یہ روضہ ہے جس میں آپ کے حبیب ہیں،میں آپ کا غلام ہوں اور شیطان آپ کا دشمن ہے۔خدایا اگر تو مجھے بخش دے گا تو تیرا حبیب خوش ہوگا،تیرا بندہ کامیاب ہوگا اور تیرا دشمن غمگین ہوگا،مولا اگر تو نے میری بخشش نہیں کی تو تیرا حبیب غمگین ہوگا،تیرا غلام ناکام ہوگا اور تیرا دشمن خوش ہوگا،الہی! تیری شان اس سے بڑی ھے کہ تو اپنے حبیب کو غمگین کردے،اپنے بندے کو ناکام اور اپنے دشمن کو خوش کردے،میرے پروردگار!میں عربی ہوں ہمارے یہاں جب کوئی سردار فوت ہو جائے تو اس کی قبر پر غلاموں کو آزاد کیا جاتا ہے اور یہ تمام جہانوں کے سردار محمدرسول اللہﷺکی قبر ہے،پس تو مجھ غلام کو جھنم کی آگ سے آزاد فرما دے ۔آمین۔*


اس کی تحقیق مطلوب ھے!!!


••• *باسمہ تعالی* •••

*الجواب وبہ التوفیق:* 


یہ واقعہ بلا سند منقول ھے؛ لہذا اسکے بیان و نشر سے احتراز کیا جائے: 


💠 واقعہ عربی زبان میں 💠


حديث العتق : روى في الجوهر المنظم أن أعرابياً وقف على القبر الشريف وقال :

اللهم إن هذا حبيبك وأنا عبدك والشيطان عدوك فإن غفرت لي سر حبيبك وفاز عبدك وغضب عدوك وإن لم تغفر لي غضب حبيبك ورضي عدوك وهلك عبدك وأنت يا رب أكرم من أن تغضب حبيبك وترضي عدوك وتهلك عبدك . اللهم إن العرب إذا مات فيهم سيد اعتقوا على قبره وإن هذا سيد العالمين فاعتقني على قبره يا أرحم الراحمين . فقال له بعض الحاضرين : يا أخا العرب إن الله قد غفر لك بحسن هذا السؤال .


🔰 واقعہ کی تحقیق 🔰


شیخ محمد نسیب رؔفاعی اپنی کتاب " التوصل إلى حقيقة التوسل " میں رقمطراز ہیں: کہ یہ بات بلا سند ھے, بالکل بے اصل ھے, کسی حدیث کی کتاب میں اسکا ثبوت نہیں ملتا۔



✳️ لا كلام علي سند هذا الخبر؛ لانه لا سند له،  ولا زمام ولا خطام، وليس له ذكر في اي كتب من الحديث... فهو حديث باطل، لا وجود له الا في ادمغة من اخترعوه ووضعوه وصنعوه. ملخصا.


٭ المصدر: التوصل الي حقيقة التوسل 

٭ المؤلف: محمد نسيب الرفاعي

٭ الصفحة: 290- 297

٭ الطبع: دار لبنان للطباعة والنشر، بيروت، لبنان.


والله تعالي اعلم

✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي* 

1 دسمبر،؁ء 2020