▪️ *ایک عبادت گزار بندہ اور انار کا درخت* ▪️
ایک واقعے کی تصدیق و حوالہ مطلوب ھے : کہ ایک شخص بہت زیادہ عبادت گزار تہا اس نے اللہ سے کہا:کہ خدایا! میں یکسو ہوکر تیری عبادت کرنا چاہتا ہوں, تو میرے لیے کہانے پینے کا بند و بست فرمادے چنانچہ وہ شخص ایک ٹیلے پر قیام پذیر ہوگیا اور اللہ نے وہاں ایک شیریں پانی کا چشمہ جاری کردیا اور انار کا درخت اگادیا وہ شخص دن رات عبادت کرتا اور کہانے پینے کیلیے خدا کے عطا کردہ چشمۂ شیریں اور انار سے غذا حاصل کرتا اس کو پانچ سو برس اسی طرح گزر گئے ۔ اسکی جب وفات ہوئی تو اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا: کہ میرے اس بندے کو میرے فضل و رحمت سے جنت میں داخل کردو! اس عابد بندے کے دل میں خیال آیا کہ میں نے صدیوں خدا کی عبادت کی ھے لیکن اس کا تذکرہ تک نہیں ہورہا تو اس نے اللہ سے کہا: بار الہ! میری عبادت کا کیا بنا ؟ کیا میری اس عبادت کے صلے جنت میں داخلہ نہ ہوگا؟ اللہ نے اس کے متعلق فرشتوں سے کہا: اس کو دوزخ کی طرف سیر کراکر لاؤ تاکہ اس کو وہاں کی گرمی لگ سکے ایسا ہی کیا گیا اور اس بندے کی پیاس کی شدت ناقابل برداشت تہی اس نے پانی مانگا تو جواب ملا: پانی کی کیا قیمت ادا کروگے؟ اس نے کہا: میری پانچ سو سالہ عبادت پانی کی قیمت ھے۔ اس کو ایک گھونٹ پانی دیدیا گیا ۔ تب خدا نے کہا:کہ اب بتا کہ جنت میں کس بنا پر جایئگا جبکہ تونے اپنی عبادت تو پانی کی قیمت میں خرچ کردی ھے تب اس بندے کو معلوم ہوا کہ واقعتا فضل خداوندی اور رحمت رب شامل حال ہو تو جنت ملیگی ورنہ نہیں ۔
••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*
یہ واقعہ تفصیل سے حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیبؒ کے خطبات " خطبات حکیم الاسلام" میں موجود ھے :
🔰 خطبات حکیم الاسلام 🔰
شیخ جلال الدین سیوطی نے ایک کتاب آخرت کے احوال پر لکھی ھے اس میں پچھلی امتوں میں سے بنی اسرائیل کا ایک بڑا عجیب واقعہ لکہا ھے کہ ایک عابد تہا جو دن رات اللہ کی عبادت میں لگا رہتا تہا؛ مگر بہر حال جب آدمی دنیا میں رہتا ھے تو کھانے پکانے کی ضرورت ھے ,بچے ہیں , گھر بھی ہیں رشتہ دار بہی ہیں کچھ نہ کچھ ان میں مشغولی ہوتی ہے اس عابد کو یہ بھی ناگوار تہا کہ اتنی دیر بھی بیوی بچوں میں کیوں لگے ؟ یہ وقت بہی اللہ کی عبادت میں لگنا چاہئے تو اس نے یہ کیا کہ بیوی بچے رشتہ دار مال جایئداد کو ترک کرکے سمندر کے بیچ میں ایک ٹیلے پر جاکر بیٹھ گیا کہ بس اب میں فارغ ہوگیا ہوں اور چوبیس گھنٹے ﷲ کے ذکر میں مشغول رہونگا ( اس زمانے میں یہ چیز جائز تہی اسلام نے اس کو ختم کردیا ؛ لیکن پچھلی امتوں میں رہبانیت گوشہ گیری کرنا اور پہاڑوں پر چلے جانا جائز تہا یہ بھی پہونچ گیا) اور ایسی جگہ پہونچا کہ کوئی دوسرا شخص وہاں نہ پہونچے سمندر اور اسکے بیچ میں ایک ٹیلہ تہا اس پر جاکر بیٹھ گیا اور ایک چھپر ڈال لیا ﷲ نے فضل کیا اسی پہاڑ کے ٹیلے پر ایک انار کا درخت اگ آیا اور اس پر میٹھے انار لگنے لگے , اور اسی کڑوے پانی کے اندر اس پہاڑ میں سے ﷲ نے ایک چشمہ جاری کردیا ۔
اس عابد کا کام یہ تہا کہ ایک انار روز کھالیا اور ایک کٹورا پانی پی لیا اور چوبیس گھنٹے نماز میں مشغول نہ رات کو سونا نہ دن میں کہیں جانا, دن بھر نماز رات بھر نماز پانچ سو برس اس نے اسی طرح گزارے اور یہ عبادت بھی خالص ؛ وہاں دکھلاوا بہی کس کو ہوتا وہاں دیکہنے والا کوئی نہ تہا ,شہرت اور نام آوری مقصود نہ تھی وہاں کون نام سننے والا تہا , تن تنہاء یہ بندہ اور خدا , اور خالص پانچ سو برس کی عبادت, پانچ سو برس گزر کر جب اس کے انتقال کا وقت آیا تو اس نے ﷲ سے دعا کی : کہ مجھے نماز پڑھتے ہوئے سجدے کی حالت میں موت دیجئے,اور میرے اس بدن کو سجدے کی حالت میں قیامت تک محفوظ رکھئے ؛ تاکہ قیامت میں تیرا سجدہ گزار بندہ سمجہا جاؤں کم سے کم سجدہ کرنے والے کی صورت ہی بنی رہے تو میری لاش سجدے کی حالت میں قیامت تک محفوظ رھے یہ دعا قبول ہوگئ اور حدیث میں ھے اسکو عین سجدے کی حالت میں موت آئی اور حضور فرماتے ہیں : آج تک اس کی لاش سجدے کی حالت میں محفوظ ھے, آپ نے ارشاد فرمایا : جب اس کی روح نکل گئ اور بارگاہِ حق میں اس کی پیشی ہوئی تو ﷲ نے فرمایا: اے بندے! میں نے اپنے فضل و کرم سے تجھے بخشا, اور تجھے جنت کا مقامِ رفیع عطا کیا, تو ابد الآباد کیلیے اب چین میں رہ! اور ملائکہ کو حکم دیا اسکو جنت میں لیجاؤ! یہ میرا مقبول بندہ ھے ؛ میں نے اسکو اپنے فضل و کرم سے نجات دی
اس عابد کے دل میں کھٹکا پیدا ہوا کہ پانچ سو برس میں نے عبادت کی , بیوی بچے رشتے دار, مال و دولت میں نے چھوڑا , اور اب بھی اپنے فضل و کرم سے بخشا, کم سے کم میری تسلی کیلیے کہہ دیتے کہ تیری نمازوں کی وجہ سے تجھے نجات دے دی, تونے گھر بار چھوڑا تہا,تیرے اس عمل کے طفیل نجات دیدی , تو ذرا میرا دل خوش ہوجاتا, کہ میرے عمل کی کچھ قدر کی , اتنی میں نے محنت کی, ساری دنیا کو میں نے ترک کیا,اور اب بہی بخشا تو اپنے فضل و کرم سے بخشا,گویا میں نے کچھ کیا ہی نہیں , یہ ایک وسوسہ اس کے دل میں پیدا ہوا, ﷲ تعالی تو دلوں کی کھٹک کو جانتے ہیں , { وﷲ علیم بذات الصدور} اس لیے ملائکہ سے فرمایا: اس کو جنت کی بجائے جہنم کے راستے پر لیجاؤ! جہنم میں ڈالنا نہیں ھے؛ لیکن اتنی دور جہنم سے دور کھڑا کرو جہاں سے جہنم پانچ سو برس کے راستے پر ہو اس کو وہاں پہونچا دیا گیا, وہاں جو جہنم کی ایک لو اور لپٹ آئی ھے تو سر سے پیر تک یہ عابد خشک ہوگیا, اس کو کانٹے چبہنے لگے اور پیاس پیاس چلانا شروع کیا, جہنم کا ایک جھونکا لگتے ہی اس کی ساری روح خشک ہوگئ حدیث میں ھے: کہ ایک ہاتھ غیب سے نمایاں ہوا, جس میں ٹھنڈے پانی کا کٹورا تھا, یہ عابد دوڑتا ہوا گیا اے ﷲ کے بندے یہ پانی مجھے دیدے, یہ آگے گیا اور ہاتھ پیچھے ھٹ گیا, اس نے کہا: خدا کیلیے مجھے پانی دے۔
جواب یہ ملا: آواز آئی کہ اس پانی کی قیمت ھے اس عابد نے پوچھا : کہ کیا قیمت ھے؟ کہ پانچ سو برس کی عبادت جو خالص کی ہو, وہ اگر قیمت میں ادا کردی جائے تو یہ پانی کا کٹورا مل سکتا ھے, ورنہ نہیں اس نے کہا: میرے پاس پانچ سو برس کی عبادت ہے اور وہ جلدی سے پیش کردی ,کٹورا لے کر پیا تو کچھ دم میں دم آیا,حق تعالی نے کہا: اس عابد کو لوٹا لاؤ! پھر ہمارے سامنے پیش کرو ,پھر پیشی ہوئی , حق تعالی نے فرمایا: اے بندے تیری پانچ سو برس کی عبادت سے تو ہم چھوٹ گئے تو نے پانچ سو برس کی عبادت کی تھی اس کی قیمت ایک کٹورا پانی مل گیا اور وہ قیمت خود تونے تجویز کی ,ہم نے نہیں کی تو نے ہی کہا کہ میں پانچ سو برس کی عبادت دیتا ہوں اور کٹورا خریدتا ہوں ؛ اس لیے ہم پانچ سو برس کی عبادت سے ادا ہوئے , معاملہ برابر سرابر ہوگیا,
اب ان لاکھوں کٹوروں پانی کا حساب دے جو دنیا میں تونے پئے! ان کے بدلے میں تو کیا کیا عمل لیکر آیا اور وہ جو تونے دنیا میں لاتعداد اناروں کے دانے کھائے ہیں, ایک ایک دانے کا حساب دے ان کے بدلے میں کتنے سجدے کتنے رکوع کیے, کتنی عبادتیں کیں؟ اور دانہ پانی تو الگ ھے وہ جو تیری آنکہوں میں روشنی تہی جس سے تو صورتیں دیکھتا تھا, ایک ایک تارِ نگاہ کا حساب دے, اس کے بدلے میں کتنی عبادتیں لیکر آیا ھے؟ اور نگاہ تو الگ ھے یہ جو تو سانس لیتا تہا, جسکے ذریعے زندگی قائم تھی, ایک ایک سانس کا حساب دے, اس کے بدلے میں کتنی عبادتیں لیکر آیا؟ اور وہ جو بدن میں ہم نے جان دی تھی جس نے پانچ سو برس زندگی رکھی اور تونے عبادت کی, اس طاقت کا حساب دے, اسکے بدلے میں کیا کیا عبادتیں لیکر آیا؟ اور وہ جو چشمہ اور انار کا درخت کا درخت تیرے لیے رکھا تھا اور ھواؤں کو تیری طرف متوجہ کیا جس سے تو سانس لیتا تہا, اور جو ہم نے اپنے سورج کو گرمی بخشی جس نے تجھ تک گرمی پہونچائی جس سے تیرا بدن قائم رہا ان سب چیزوں کا حساب دے , ہماری دنیا کے ذرے ذرے سے جو فائدہ اٹھایا اب سب کا حساب دے! کیا عبادتیں لیکر آیا؟
عابد بیچارہ تھرّا گیا, اور اس نے عرض کیا: اےﷲ! بیشک نجات تیرے فضل ہی سے ہوتی ھے, بندے کے عمل سے نہیں ہوتی, عمل کی تو کُل قیمت یہ ھے: کہ پانچ سو برس کی عبادت کے بدلے ایک کٹورا پانی مل گیا, اور وہ بھی آپ نے فضل سے ہی دیدیا, اگر یوں فرماتے: کہ کٹورا اسکو ملیگا جس نے ایک لاکھ برس عبادت کی ھے تو میں اس سے بھی محروم رہ جاتا , تونے قیمت اتنی رکھی جو میں ادا کرسکا یہ بہی تیرا ہی فضل ہے اس لیے نجات فضل سے ہوتی ھے عمل سے نہیں ہوتی۔
÷ نام کتاب: خطبات حکیم الاسلام
÷ نام خطیب: قؔاری محمد طیب صاحبؒ
÷ جلد: 3
÷ صفحہ: 26
÷ طبع: بیت العلوم پبلشر, کراچی , پاکستان.
☸️ *حدیث سے ثبوت* ☸️
امام حاکمؒ نے مستدرک میں یہ روایت ذکر کی ھے اور اسکو صحیح الاسناد کہا ھے ؛ لیکن امام ذھبیؒ نے اس پر تعاقب کیا ھے یعنی ضعیف کہا ھے:
أخبرني أحمد بن محمد بن سلمة العنزي ، ثنا عثمان بن سعيد الدارمي ، ثنا عبد الله بن صالح المقري ، ثنا سليمان بن هرم القرشي ، وحدثنا علي بن حمشاذ العدل ، ثنا عبيد بن شريك ، ثنا يحيى بن بكير ، ثنا الليث بن سعد ، عن سليمان بن هرم ، عن محمد بن المنكدر ، عن جابر بن عبد الله - رضي الله عنهما - قال : خرج علينا النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - ، فقال : " خرج من عندي خليلي جبريل آنفا فقال : يا [ ص: 356 ] محمد ، والذي بعثك بالحق إن لله عبدا من عبيده ، عبد الله - تعالى - خمسمائة سنة على رأس جبل في البحر عرضه وطوله ثلاثون ذراعا في ثلاثين ذراعا ، والبحر محيط به أربعة آلاف فرسخ من كل ناحية ، وأخرج الله - تعالى - له عينا عذبة بعرض الأصبع تبض بماء عذب فتستنقع في أسفل الجبل ، وشجرة رمان تخرج له كل ليلة رمانة فتغذيه يومه ، فإذا أمسى نزل فأصاب من الوضوء وأخذ تلك الرمانة فأكلها ثم قام لصلاته ، فسأل ربه - عز وجل - عند وقت الأجل أنيقبضه ساجدا ، وأن لا يجعل للأرض ولا لشيء يفسده عليه سبيلا حتى بعثه وهو ساجد قال : ففعل فنحن نمر عليه إذا هبطنا وإذا عرجنا ، فنجد له في العلم أنه يبعث يوم القيامة فيوقف بين يدي الله - عز وجل - فيقول له الرب : أدخلوا عبدي الجنة برحمتي ، فيقول : رب بل بعملي ، فيقول الرب : أدخلوا عبدي الجنة برحمتي ، فيقول : يا رب ، بل بعملي ، فيقول الرب : أدخلوا عبدي الجنة برحمتي ، فيقول : رب بل بعملي ، فيقول الله - عز وجل - للملائكة : قايسوا عبدي بنعمتي عليه وبعمله فتوجد نعمة البصر قد أحاطت بعبادة خمس مائة سنة وبقيت نعمة الجسد فضلا عليه فيقول : أدخلوا عبدي النار قال : فيجر إلى النار فينادي : رب برحمتك أدخلني الجنة ، فيقول : ردوه فيوقف بين يديه فيقول : يا عبدي ، من خلقك ولم تك شيئا ؟ فيقول : أنت يا رب ، فيقول : كان ذلك من قبلك أو برحمتي ؟ فيقول : بل برحمتك . فيقول : من قواك لعبادة خمس مائة عام ؟ فيقول : أنت يا رب ، فيقول : من أنزلك في جبل وسط اللجة وأخرج لك الماء العذب من الماء المالح وأخرج لك كل ليلة رمانة وإنما تخرج مرة في السنة ، وسألتني أن أقبضك ساجدا ففعلت ذلك بك ؟ فيقول : أنت يا رب ، فقال الله - عز وجل - : فذلك برحمتي وبرحمتي أدخلك الجنة ، أدخلوا عبدي الجنة فنعم العبد كنت يا عبدي ، فيدخله الله الجنة ، قال جبريل - عليه السلام - : إنما الأشياء برحمة الله - تعالى - يا محمد " .
هذا حديث صحيح الإسناد ، فإن سليمان بن هرم العابد من زهاد أهل الشام ، والليث بن سعد لا يروي عن المجهولين .
• المصدر: المستدرك للحاكمؒ
• المحدث: حاكم النيسابوريؒ
• المجلد: 4
• الصفحة: 278
• الرقم: 7637
• الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
💠 *البدور السافرة ميں*💠
خؔطبات حکیم الاسلامؒ میں اس روایت کے متعلق امام جلال الدین سیوطیؒ کی کتاب کا حوالہ ھے اس میں بہی علامہ سیوطیؒ نے یہ روایت امام حاکمؒ کے حوالے سے ذکر کی ھے:
٭ المصدر: البدور السافرة في أحوال الآخرة
٭ المحدث: الإمام السيوطيؒ
٭ الصفحة: 305
٭ الرقم: 882
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
☪️ *الترغیب والترھیب* ☪️
یہ روایت امام منذریؒ نے بھی ذکر کی ھے اور امام حاکمؒ نؔیشاپوری کی مستدرک کے حوالے سے نقل کی ھے نیز امام منذریؒ نے امام حاکمؒ کی تصحیح پر کوئی تعاقب نہیں فرمایا ھے:
قال المنذري نقلا عن الحاكم: رواه الحاكم عن عن سليمان بن هرم عن محمد بن المكندر، عن جابر، وقال ( الحاكم): صحيح الإسناد.
٭ المصدر: الترغيب والترهيب ( فصل في الحساب وغيره)
٭ المحدث: الإمام زكي الدين المنذريؒ
٭ المجلد: 4
٭ الصفحة: 215
٭ الرقم: 45
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.
*خلاصۂ کلام*
یہ روایت بقول امام حاکمؒ صحیح ھے لیکن در حقیقت اس روایت کی سند میں راوی " سلیمان بن ھرمؒ " پر ائمہ حدیث مثلا: امام ذھبیؒ و حافظ الدنیا علامہ ابن حجر عسقلانیؒ کی ( لسان المیزان, جلد:4. صفحہ:180, راوی نمبر:3655.طبع: دار البشائر الإسلامية، بيروت، لبنان.) جرح مذکور ھے لہذا یہ روایت ضعیف قرار پایئگی۔ نیز حکیم الاسلام صاحبؒ نے یہ روایت دوران خطاب بیان کی ھے اس لیے افہام و تفہیم میں طوالت ہوگئ اور کچھ الفاظ آگے پیچھے ہوگئے ہیں ؛ اور پانی کے کٹوری والی بات روایت میں نہیں ھے۔
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
26 دسمبر :ء 2020