Thursday, September 30, 2021

حضرت امیر معاویہ اور شادی نہ کرنے کا ارادہ

▪️ *حضرتِ امیرِ معاویہؓ اور شادی نہ کرنے کا ارادہ* ▪️

 صحابی رسول، حضرتِ امیرِ معاویہؓ کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپؓ نے ایک خواب دیکھا: کہ آسمان سے دو چمکتے ستارے نکلے اور انھیں سانپ کھا گیا۔آپؓ نے جب یہ خواب نبیّ کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا، تو آپ ﷺ نے اس کی تعبیر اِرشاد فرمائی: کہ (اے امیر معاویہ) تمھاری اولاد میری اولاد کو کھا جائےگی، تو حضرتِ امیرِ معاویہؓ نے شادی نہ کرنے کا ارادہ کر لیا؛لیکن انکو ایک ایسا مرض ہوا کہ مجبور ہو کر شادی ہی کرنی پڑی,مجھے میرے دوست نے یہ روایت سالوں پہلے سنائی تھی اور اُس میں مرض کی تفصیل بھی بتائی تھی کہ شرمگاہ میں ایسا درد ہوا کہ شادی کے بنا اُس کا علاج ممکن نہ تھا ؛لہٰذا آپ کو شادی کرنی پڑی۔ اسکی تحقیق درکار ھے!!!

 ••• *باسمہ تعالی* ••• 
*الجواب وبہ التوفیق:* 

 حضرت امیر معاویہؓ کے خواب اور حضورؐ کی تعبیر کا جو آپ نے حوالہ پوچھا ھے: وہ ہم کو کسی مستند کتاب میں نہیں ملا، میرے خیال میں یہ کسی کی من گڑھت کہانی ہے جو کسی نے گھڑی ہے، بچپن میں ہم نے بہی جاہلوں کی زبانی سنا تھا کہ حضرتِ امیرِ معاویہؓ یزید کو اپنے کاندھے پر بٹھائے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے انھیں دیکھ کر فرمایا: کہ جنتی کے کندھے پر جہنمی سوار ھے۔ یہ بات اس طرح جھوٹ ہے کہ سب جانتے ہیں حضور ﷺ نے 10 ہجری میں پردہ فرمایا، اور یزید کی پیدائش 26 ہجری میں ہوئی، تو جو شخص حضورؐ کے پردہ فرمانے کے 16 سال بعد پیدا ہوا، اُس کو حضور ﷺ نے کب حضرتِ امیرِ معاویہؓ کے کاندھے پر دیکھا اور کب اُس کو جہنمی بتایا؟الخ... 

 • المصدر: فتاوٰي بحر العلوم 
• المؤلف: مفتی عبد المنان اعظمی 
• المجلد: 6 
• الصفحة: 340 
• الطبع: اشتياق، اے مشتاق پرنٹر، لاهور، پاكستان.

 واللّٰهُ تعالٰي أعلم 
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
 30 ستمبر،؁ء 2021

Wednesday, September 29, 2021

کیا تراویح پڑھنے والا گدھا ھے

▪️ *کیا تراویح پڑھنے والا گدھا ھے*؟ ▪️

   ایسا سنا ھے کہ حضرت عبدﷲ بن عمرؓ نے تراویح پڑھنے والے کو گدھا کہا ھے, اسکی کیا حقیقت ھے؟ 

 ••• *باسمہ تعالی*
 ••• *الجواب وبہ التوفیق:* 

 حضرت ابن عمرؓ نے کسی تراویح پڑھنے والے کو گدھا نہیں کہا ھے ؛ بلکہ روایت کو بغور سمجہنا چاہئے : 

 🔖 *روایت کے الفاظ* 🔖

 عبد الرزاق عن الثوري عن منصور عن مجاهد قال : جاء رجل إلى ابن عمر ، قال : أصلي خلف الامام في رمضان ؟ قال : أتقرأ القرآن ؟ قال : نعم ، قال : أفتنصت كأنك حمار ، صل في بيتك ).   ( ترجمہ ) 

 کسی نے عبداللہ بن عمر سے پوچھا:کیا میں امام کے پیچھے کھڑا ہوکر قیام کروں رمضان میں؟تو آپ نے جواب دیا تم کو قرآن پڑھنا آتا ھے ( یعنی تم حافظ ہو یا قرآن پڑھ سکتے ہو) اس نے کہا: جی!تو کیا خاموش کھڑے رہوگے گدھے کی طرح اپنے گھر میں نماز پڑھو۔

 • المصدر: مصنف عبد الرزاق 
• المحدث: الإمام عبد الرزاق الصنعانيؒ 
 • المجلد: 4 
• الصفحة: 84 
• الرقم: 7880 
• الطبع: دار التاصيل، القاهرة، مصر.


 *مصنف ابن ابي شيبة* 

 حدثنا وكيع، عن سفيان، عن منصور، عن مجاهد، قال: سأل رجلٌ ابن عمر: أقوم خلف الإمام في شهر رمضان؟ قال: تنصت كأنك حمار.

 ٭ المصدر: مصنف ابن ابي شيبة 
٭ المجلد: 3 
٭ الصفحة: 399 
٭ الصفحة: 7789 
٭ الطبع: مكتبة الرشد، ناشرون، الرياض، السعودية.

 ❇️ *وضاحت* ❇️

 پوچھنے والا پڑھا لکھا تہا , حافظ قرآن یا اچھے طریقے سے پڑھنے والا تہا اس نے کہا: میں سامع بن کر تراویح پڑھنا چاہتا ہوں کیا ایسا کرسکتا ہوں؟حضرا ابن عمر نے استفسار کیا: تم قرآن پڑھنا جانتے ہو ؟ اس نے کہا:جی! تب ابن عمر نے فرمایا: کہ جب سنا سکتے ہو تو پھر اسکی فضیلت حاصل کرو! کیوں گدھے کی طرح خاموش کھڑے رہنا چاہتے ہو؟ یعنی آپ کیلیے بہتر یہ ھے کہ یا تو امامت کراؤ یا خود گھر میں تراویح ادا کرو اور قرآن سناؤ! اس میں تراویح کی نماز ادا کرنیوالے کو گدھا نہیں کہا ھے ؛ بلکہ ایک داناں کو ناداں بننے پر گدھا کہا گیا ھے۔

 وﷲ تعالی اعلم
 ✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

 29 ستمبر: 2021

Friday, September 17, 2021

حضرت معاویہ کی وفات بے دینی پر ہوئی

▪️ *حضرت معاویہؓ کی وفات بے دینی پر ہوئی* ؟▪️

 مفتی صاحب! میں نے ایک پوسٹ دیکھی ھے اس میں لکھا ہے کہ حضرت معاویہؓ کی وفات دین اسلام پر نہیں ہوئی اور اس پوسٹ میں اسکے متعلق حدیث کی کتابوں کا حوالہ بھی درج تہا, اسکی مفصل معلومات مجھے درکار ہیں!

 ••• *باسمہ تعالی*
 ••• *الجواب وبہ التوفیق:* 

یہ بات کہ حضرت معاویہؓ کی وفات غیر اسلام پر ہوئی یہ بات خود بے دینی ھے اور صحابہؓ سے دشمنی و بغض کی نشانی ھے اس طرح کی باتیں روافض و شیعوں کی جانب سے پھیلائی جاتی ہیں ان کا کوئی اعتبار نہیں, 

 ☪️ *انساب الاشراف* ☪️ 

 علامہ بلاذریؒ نے اس طرح کی روایت نقل کی ھے جس میں ھے کہ حضور‍ؐ نے کہا: ابہی ایک شخص یہاں آئگا اور میں اسکے متعلق پیش گوئی کرتا ہوں کہ اسکا خاتمہ بالخیر نہیں ہوگا( یعنی وہ ملت اسلام پر وفات نہ پایئگا ) دیکہا تو حضرت معاویہؓ آرھے ہیں:


 1) وَحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، وَبَكْرُ بْنُ الْهَيْثَمِ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّازِقِ بْنُ هَمَّامٍ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ فَقَالَ: ” يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ مِنْ هَذَا الْفَجِّ رَجُلٌ يَمُوتُ عَلَى غَيْرِ مِلَّتِي. قَالَ: وَكُنْتُ تَرَكْتُ أَبِي قَدْ وُضِعَ لَهُ وَضُوءٌ، فَكُنْتُ كَحَابِسِ الْبَوْلِ مَخَافَةَ أَنْ يَجِيءَ. قَالَ: فَطَلَعَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ: هُوَ هَذَا”].

 2) وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ فَقَالَ: يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ مِنْ هَذَا الْفَجِّ رَجُلٌ يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ عَلَى غَيْرِ مِلَّتِي. قَالَ: وَكُنْتُ تَرَكْتُ أَبِي يَلْبَسُ ثِيَابَهُ فَخَشِيتُ أَنْ يَطْلُعَ، فَطَلَعَ مُعَاوِيَةُ].

 ٭ المصدر: أنساب الأشراف 
٭ المؤلف: البلاذريؒ 
٭ المجلد: 5 
٭ الصفحة: 134 
٭ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.

 ❇️ *پہلی روایت کی تحقیق*

 اس روایت میں امام عبد الرزاق ہیں اور یہ روایت ان کی مصنَف میں نہیں ھے جیساکہ انساب الاشراف کے محقق الاستاذ /د سہیل زکار نے لکہا ھے, نیز جب امام عبد الرزاق اپنی کتاب کے علاوہ روایت کریں تو محدثین ان کی روایت قبول نہیں کرتے ہیں جیساکہ امام احمد نے مسند میں امام یحی کے حوالہ سے لکہا ھے:


 قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: قَالَ لىِ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: اكْتُبْ عَنِّى وَلَو حَدِيثًا وَاحِدًا مِنْ غَيْرِ كِتَابٍ.فَقُلْتُ: لَا, وَلاَ حَرْفًا.

 * المصدر: مسند احمد 
* المجلد: 22 
* الصفحة: 76 
* الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

 *دار قطنی کے حوالے سے*

 سالت ابا الحسن الدارقطني عنه:فقال: " ثقة ، يخطئ على معمر في أحاديث لم تكن في الكتاب " .

   ( المصدر: سؤالات أبي عبد الله بن بكير وغيره لأبي الحسن الدارقطني 
( المحدث: الامام الدارقطنيؒ 
( الصفحة: 35 
( الرقم: 20 
( الطبع: دار عمار، الأردن، عمان.

 *اسحاق بن إبراهيم*

 اس روایت میں راوی اسحاق بن ابراہیم بہی ھے جو امام عبد الرزاق سے منکر روایات نقل کرتے ہیں جیسا کہ امام ابن حجر نے لسان میں لکہا ھے:

 • المصدر: لسان الميزان 
• المحدث: الامام ابن حجرؒ 
• المجلد: 2 
• الصفحة: 36 
• الرقم: 995 
• الطبع: دار البشائر الإسلامية، بيروت، لبنان.


 ❇️ *دوسری روایت* 

 انساب الاشراف کی دوسری روایت میں ایک راوی شریک نام کے ہیں جن کے متعلق امام ابن حجر وغیرہ نے لکھا: ان کا حافظہ عہدہ قضا ملنے کے بعد خراب ہوگیا تہا اور وہ روایت بیان کرنے میں کافی غلطیاں کرجاتے ہیں : 

 • شريك بن عبد الله النخعي الكوفي القاضي ..صدوق يُخطئ كثيراً تَغَيَّرَ حِفْظُه منذ وَلِيَ القضاء بالكوفة وكان عادلاً فاضلاً عابداً شديدا ًعلى أهل البِدَع].

 • المصدر: تقريب التهذيب 
• المحدث: الإمام ابن حجر العسقلانيؒ 
• الصفحة: 436 
• الرقم: 2802 •
 الطبع: دار العاصمة، رياض، السعودية.

 *ليث بن أبي سُليم* •

 يه راوي بهي متروك هيں: ليث بن ابي سليم بن زنيم، بالزاي والنون، مصغر، واسم ابيه: أيمن، وقيل: أنس، وقيل: غير ذلك، صدوق اختلط جداً، ولم يَتَمَيَّزْ حَدِيْثُهُ فَتُرِكَ،من السادسة، مات سنة ثمان وأربعين.

 ٭ المصدر: تقريب التهذيب 
٭ الصفحة: 817 
٭ الرقم: 5721 
٭ الطبع: دار العاصمة، الرياض، السعودية.

 🔖 *روایت میں اضطراب* 🔖

 اس روایت میں سندا و متنا اضطراب بھی ھے ؛ لہذا قابل احتجاج نہیں رہتی :

 (سندا اضطراب) 

 وسألت أحمد ، عن حديث شريك ، عن ليث ، عن طاوس ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " يطلع عليكم رجل من أهل النار " فطلع معاوية . قال : إنما رواه ابن طاوس ، عن أبيه ، عن عبد الل ه بن عمرو أو غيره ، شك فيه . قال الخلال : رواه عبد الرزاق ، عن معمر ، عن ابن طاوس قال : سمعت فُرخاش يحدث هذا الحديث عن أبي عن عبد الله بن عمرو ".

 ٭ المصدر: المنتخب من علل الخلال 
٭ المحدث:الإمام ابن قدامة المقدسي 
٭ الصفحة: 228 
٭ الرقم: 136 
٭ الطبع: دار الراية، الرياض،السعودية. 

 ( متن كا اضطراب) 

 مذکورہ بالا روایت جو انساب الاشراف کے حوالہ سے گزریں ان میں حضرت معاویہ کا نام ھے ؛ لیکن مسند احمد میں حضرت معاویہ کی جگہ " حکم " یعنی مروان کے والد کا نام ھے: 

 ☜ حدثنا : ‏ ‏إبن نمير ‏ ، حدثنا : ‏ ‏عثمان بن حكيم ‏ ‏، عن ‏ ‏أبي إمامة بن سهل بن حنيف ‏ ‏، عن ‏ ‏عبد الله بن عمرو ‏ ‏قال : ‏ ‏كنا جلوساً عند النبي ‏ (صلى الله عليه وسلم ‏ ‏وقد ذهب ‏‏عمرو بن العاص ‏ ‏يلبس ثيابه ليلحقني ، فقال : ونحن عنده ‏ ‏ليدخلن عليكم رجل لعين ، فوالله ما زلت وجلاً أتشوف داخلاً وخارجاً حتى دخل فلان ‏ ‏يعني ‏ ‏الحكم.

 @ المصدر: مسند احمد 
@ المجلد: 11 
@ الصفحة: 71 
@ الرقم: 6520 
@ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

 *مجمع الزوائد* 

 علامہ ہیثمی نے طبرانی کے حوالے سے روایت ذکر کی ھے اس میں اس شخص کا نام نہیں:

 وعنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: ليطلعن عليكم رجل يبعث يوم القيامة على غير سنتي ، أو على غير ملتي... الخ

 ٭ المصدر: مجمع الزوائد 
 ٭ المجلد: 1 
٭ الصفحة: 541 
٭ الرقم: 439 
٭ الطبع: دار المنهاج، جدة، السعودية.

 اس طرح کے اضطرابات کے ہوتے ہوئے کسی صحابی کی شان میں تنقیص کرنا محض نادانی ھے ؛ امام ابن الجوزی نے کہا کہ اس طرح کی باتیں حضرت معاویہ کی شان میں نبی کریم کی جانب سے ثابت ہونا محال ہے:

 قال المؤلف: وقد روي عنه: وأنه من أهل النار، وذلك محال أيضا. 

 + المصدر: العلل المتناهية 
+ المحدث: الإمام ابن الجوزية 
+ المجلد: 1 
+ الصفحة: 280 
+ الرقم: 451 
+ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

 ••• *خلاصہ* •••

 حضرت معاویہ کی شان میں تنقیص کی بات غیر معتبر ہے ؛ لہذا اس طرح کی باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں؛ کیونکہ بقول امام ابن القیم حضرت معاویہ کی شان میں تنقیص یا مذمت کی تمام روایات جہوٹی ہیں:

 ¤ ومن ذلك: الأحاديث في ذم معاوية، وكل حديث فی ذمه، فهو كذب.

 ⚀ المصدر: المنار المنيف 
⚁ المحدث: الإمام ابن القيم 
⚂ الصفحة: 110 
⚃ الطبع: دار عالم الفوائد، جدة، السعودية.

 وﷲ تعالی اعلم

 ✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

 17 ستمبر : 2021

ازواج مطہرات کی عدت

▪️ *ازواج مطہراتؓ کی عدت* ▪️ 

 کیا حضور کریمؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد باحیات ازواج مطہراتؓ نے عدت کی تہی یا نہیں ؟ 

 ••• *باسمہ تعالی* ••• 
*الجواب وبہ التوفیق*:

 اس بارے میں دونوں طرح کی رائے ہیں ؛ لیکن امام قرطبیؒ نے سورہ احزاب آیت نمبر: 53 کی تفسیر میں عدت کے نہ ہونے کو راجح اور صحیح قرار دیا ھے: 

 🏷️ *تفسير القرطبي* 🏷️

 الرابعة عشرة - اختلف العلماء في أزواج النبي صلى الله عليه وسلم بعد موته، هل بقين أزواجا أم زال النكاح بالموت، وإذا زال النكاح بالموت فهل عليهن عدة أم لا؟ فقيل: عليهن العدة، لأنه توفي عنهن، والعدة عبادة. وقيل: لا عدة عليهن، لأنها مدة تربص لا ينتظر بها الإباحة. وهو الصحيح، لقوله عليه السلام: (ما تركت بعد نفقة عيالي) وروي (أهلي) وهذا أسم خاص بالزوجية، فأبقى عليهن النفقة والسكنى مدة حياتهن لكونهن نساءه، وحرمن على غيره، وهذا هو معنى بقاء النكاح. وإنما جعل الموت في حقه عليه السلام لهن بمنزلة المغيب في حق غيره، لكونهن أزواجا له في الآخرة قطعا بخلاف سائر الناس، لان الرجل لا يعلم كونه مع أهله في دار واحدة، فربما كان أحدهما في الجنة والآخر في النار، فبهذا انقطع السبب في حق الخلق وبقي في حق النبي صلى الله عليه وسلم وقد قال عليه السلام: (زوجاتي في الدنيا هن زوجاتي في الآخرة). وقال عليه السلام م: (كل سبب ونسب ينقطع إلا سببي ونسبي فإنه باق إلى يوم القيامة). 

 ( المصدر: تفسير القرطبي 
( المجلد: 17 
( الصفحة: 210 
( الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

 *احکام القرآن* 

 اسی طرح کی بات امام ابوبکر ابن العربیؒ نے سورة احزاب آيت: 53 كے تحت احکام القرآن میں لکھی ھے: 

 ٭ المصدر: أحكام القرآن 
٭ المفسر: الإمام ابوبكر محمد بن عبد الله ابن العربيؒ 
 ٭ المجلد:3 
٭ الصفحة: 617 
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان. 

 🔖 *طبقات ابن سعد* 🔖

 امام محمد بن سعدؒ نے طبقات میں تین اثر ذکر کیے ہیں جن کے راوی محمد بن عمر واقدیؒ ہیں وہ اثر مرجوح ہیں؛ ممکن ھے کہ ازواج مطہرات نے اس غمناک حالت میں زیب و زینت ترک کردی ہو اور راوی نے اسکو عدت سے تعبیر کردیا ہو:

 *ذكر عدد أزواج النبي صلى الله عليه وسلم*

 أخبرنا محمد بن عمر حدثني بن أبي سبرة عن عمرو بن سليم عن عروة بن الزبير أنه سأله هل اعتد نساء رسول الله بعد وفاته فقال نعم اعتددن أربعة أشهر وعشرا فقلت يا أبا عبد الله ولم يعتددن وهن لا يحللن لاحد من العالمين وإنما تكون العدة للاستبراء فغضب عروة وقال لعلك ذهبت إلى قوله يا نساء النبي لستن كأحد من النساء أما العدة فإنما عملن بالكتاب .


 أخبرنا محمد بن عمر حدثني بن أبي سبرة عن عمر بن عبد الله العنسي قال حدثني جعفر بن عبد الله بن أبي الحكم قال حد نساء رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعة أشهر وعشرا وكن يزور بعضهن بعضا ولا يبتن عن بيوتهن ولقد تعطلن حتى كأنهن رواهب وما كان يمر بهن يوم أو اثنان أو ثلاثة إلا وكل امرأة منهن يسمع نشيجها. 


 أخبرنا محمد بن عمر عن بن أبي سبرة عن عمر بن عبد الله العنسي قال سألت عكرمة عن نساء رسول الله صلى الله عليه وسلم هل اعتددن فقال ما طلق امرأة منهن مدخولا بها إلا اعتدت ثلاث حيضات ثم يقول اعتدت الكلابية ثلاث حيض واعتدت سودة حين راجعها في أول حيضة قبل أن تطهر واعتد نساؤه في الوفاة بعده أربعة أشهر وعشرا. 

 • المصدر: كتاب الطبقات الكبير 
• المؤلف: محمد بن سعد الزهريؒ 
• المجلد: 10 
• الصفحة: 210 
• الطبع: مكتبة الخانجي، قاهرة، مصر.

 والله تعالي اعلم

 ✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

 17 ستمبر، 2021

Wednesday, September 15, 2021

کیا امام مالک گلوکار تھے؟

▪️ *کیا امام مالکؒ گلوکار تھے؟* ▪️ 

 ایسا کہا جاتا ھے کہ امام مالکؒ نوجوانی میں گلوکار تھے وہ گانا گایا کرتے تھے ؛ لیکن پھر کسی کے سمجہانے پر وہ علم دین کی طلب و حصول میں لگے۔

 اسکی تحقیق درکار ھے!!!

 ••• *باسمہ تعالی* •••
 *الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ بات من گھڑت اور بناؤٹی ھے؛ امام مالکؒ کی شان میں گستاخی ھے,یہ واقعہ ابو الفرج اصفهانیؒ نے "كؔتاب الأغاني" میں ذکر کیا ھے:

 ❇️ *كتاب الأغاني* ❇️

 أخبرني محمد بن عمرو العتابي ، قال : حدثنا محمد بن خلف بن المرزبان - ولم أسمعه أنا من محمد بن خلف - ، قال : حدثني إسحاق بن محمد بن أبان الكوفي ، قال : حدثني حسين بن دحمان الأشقر قال : كنت بالمدينة فخلا لي الطريق وسط النهار، فجعلت أتغنى : ( ما بالُ أهلكِ يا رَبابُ ) ( خُزْراً كأنّهم غِضابُ ). قال : فإذا خوخة قد فُتِحَتْ ، وإذا وجه قد بدا تتبعه لحية حمراء ، فقال : يا فاسق أسأتَ التأدية ، ومنعتَ القائلة ، وأذعتَ الفاحشة ، ثم اندفع يغنيه ، فظننت أن طُوَيْسًا قد نشر بعينه ، فقلت له : أصلحك الله من أين لك هذا الغناء ؟ فقال : نشأت وأنا غلام حدث أتبع المغنين وآخذ عنهم ، فقالت لي أمي : يا بني ، إن المغني إذا كان قبيح الوجه لم يُلْتَفَتْ إلى غنائه ، فدع الغناء واطلب الفقه ؛ فإنه لا يضر معه قبح الوجه ، فتركت المغنين واتبعت الفقهاء ، فبلغ الله بي عز وجل ما ترى . فقلت له : فَأَعِدْ جعلت فداءك ، قال : لا ، ولا كرامة أتريد أن تقول أخذته عن مالك بن أنس ، وإذا هو مالك بن أنس ، ولم أعلم ". 

 • المصدر: كتاب الأغاني 
• المؤلف: أبو الفرج علي بن حسين الأصفهانيؒ 
• المجلد: 4 
• الصفحة: 159 
• الطبع: دؔار صادر، بيروت، لبنان. 

 🏷️ *واقعہ کی تحقیق*: 🏷️ 

 اس روایت کی سند میں ایک راوی «اسحاق بن محمد» ہے جو بدمذہب تہا ؛ یہ حضرت علیؓ کے متعلق الوہیت کا عقیدہ رکہتا تہا,اسکے پیروکاروں کو اؔسحاقیہ کہاجاتا ھے نیز یہ زندیق شخص ھے اور اسکا محدثینؒ نے کسی کتاب میں ذکر نہیں کیا البتہ علامہ ابن الجوزیؒ نے اسکی حقیقت بیان کرنے کیلیے لکھا ھے کہ یہ کذاب اور غالی رؔافضی تہا, یہ واقعہ اگر چہ اؔصفہانی نے ذکر کیا ھے؛ لیکن کسی کو غلط فہمی نہ ہو کیونکہ یہ واقعہ بالکل جہوٹ ھے:

 *لسان المیزان* 

 إسحاق بن محمد النخعي الاحمر، كذاب، مارق من الغلاة، روي عن عبيد الله العيشي، و إبراهيم بن بشار الرمادي، و عنه ابن المرزبان، وأبو سهل القطان، وجماعة، قال الخطيب: سمعت عبد الواحد بن علي الأسدي يقول: إسحاق بن محمد النخعي كان خبيث المذهب يقول: إن عَلِيًّا هو الله وكان يطلي برصه بما يغيره فسمى بالأحمر. قال: وبالمدائن جماعة ينتسبون إليه يعرفون بالإسحاقية.قال الخطيب: ثم سألت بعض الشيعة عن إسحاق فقال لي مثل ما قال عبد الواحد سواء.قلت: ولم يذكره في الضعفاء أئمة الجرح في كتبهم وأحسنوا فإن هذا زنديق. وذكره ابن الجوزي فقال: كان كذَّابًا من الغلاة في الرفض... وإسحاق بن محمد هذا اسم جده أحمد بن أبان وهو الذي يروي محمد بن خلف بن المرزبان عنه، عن حسين بن دحمان الأشقر قال: كنت بالمدينة فخلا لي الطريق نصف النهار فجعلت أتغنى: ما بال أهلك يا رباب... الأبيات. وفيه قصة مالك معه وإخباره عن مالك أنه كان يجيد الغناء في حكاية أظنها مختلقة رواها صاحب كتاب الأغاني عن ابن المرزبان، وَلا يغتر بها فإنها من رواية هذا الكذاب. 

 ٭ المصدر: لسان الميزان 
٭ المحدث: الإمام ابن حجر العسقلانيؒ 
٭ المجلد: 2 
٭ الصفحة: 71/ 74 
٭ الرقم: 1061 
٭ الطبع: دار البشائر الإسلامية، بيروت، لبنان.

 والله تعالي أعلم

 ✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

 ۱۵ ستمبر، ؁۲۰۲۱ء

Saturday, September 11, 2021

کیا امام بخاری حدیث میں تبدیلی کرتے تھے؟

▪️ *امام بخاری حدیث میں تبدیلی کرتے تھے؟* ▪️

 امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری پر شیعوں کا الزام ھے کہ وہ حدیث میں رد و بدل کرتے تھے مثلا: اگر کسی صحابی رسول کے فسق و فجور کی بات آتی تو الفاظ بدل دیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت سمرہ بن جندب کے متعلق کیا ھے کہ ابن۔جندب نے ایک بار شراب فروخت کی تو حضرت عمر نے ان پر لعنت کی ؛ لیکن امام بخاری نے روایت میں حضرت سمرہ بن جندب کا نام ذکر نہیں کیا ؛ بلکہ ایک نامعلوم شخص کہہ کر گزر گئے جبکہ یہی واقعہ امام مسلم وغیرہ نے حضرت       سمرہ بن جندب کے نام کی صراحت کیساتھ ذکر کیا ھے۔ 

      مفتی صاحب اسکا جواب مطلوب ھے!!! 

 ••• *باسمہ تعالی* ••• 
*الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ بات کہنا اسی شخص کی ہمت ھے جس کو حدیث اور ائمہ حدیث بالخصوص صحابہ کرام سے بغض ہو؛ کیونکہ امام الدنیا محمد بن اسماعیل بخاری خادم حدیث ہیں , امین کلام رسول ہیں, اب رہی بات شیعوں کی بکواس کی تو اسکے متعلق تفصیل درج ذیل ھے:

 🏷️ *صحیح البخاری* 🏷️ 

 امام بخاری نے روایت ذکر کی ھے امام حمیدی سے انہوں نے سفیان بن عیینہ سے انہوں نے عمرو بن دینار سے انہوں نے طاوس سے انہوں نے ابن عباس سے کہ حضرت عمر کو معلوم ہوا کہ فلاں شخص نے شراب فروخت کی ھے ( اب سوال یہ ھے کہ فلاں شخص صحابی ہیں تو امام بخاری نے ان کا نام ذکر کیوں نہیں کیا جبکہ دیگر محدثین مثلا: امام مسلم نے نام کی صراحت کی ھے؟) 

 حدثنا الحميدي،حدثنا سفيان، حدثنا عمرو بن دينار،قال: أخبرني طاوس، أنه سمع ابن عباس رضي الله عنهما، يقول: بلغ عمر بن الخطاب: أن فلانا باع خمرا، فقال: قاتل الله فلانا، ألم يعلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قاتل الله اليهود؛ حرمت عليهم الشحوم فجملوها فباعوها.

 ٭ المصدر: صحيح البخاري 
 ٭ المجلد: 1 
٭ الصفحة: 586 
٭ الرقم: 2223 
٭ الطبع: الطاف اینڈ سنز، کراچی، پاکستان.


 • اسی طرح امام بخاری یہی روایت امام علی بن المدینی سے دوسری جگہ ذکر کرتے ہیں اور وہاں بھی حضرت سمرہ کا نام ذکر نہیں کرتے ہیں  : 

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: «قَاتَلَ اللَّهُ فُلَانًا، أَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِمْ الشُّحُومُ فَجَمَّلُوهَا فَبَاعُوهَا».

 ٭ المصدر: صحيح البخاري 
٭ المجلد: 1 
٭ الصفحة: 943 
٭ الرقم: 3460 
٭ الطبع: الطاف اينڈ سنز، کراچی، پاکستان.

 ( وضاحت ) امام بخاری نے یہ روایت دو مقام پر دو اساتذہ سے روایت کی ھے: 1) امام حمیدی سے , 2) امام علی مدینی سے ؛ امام بخاری نے روایت میں کوئی تصرف و تغیر نہیں فرمایا ھے ؛ بلکہ ان کے استاذ حمیدی یا علی ابن المدینی نے اسی طرح روایت کیا ہوگا کہ نام کی صراحت نہ کی ہوگی۔

 ÷÷ *سوال* ÷÷ 

 امام بخاری کے شیخ امام حمیدی نے اپنی مسند میں حضرت سمرہ کا اسم گرامی بصراحت ذکر کیا ھے تو امام بخاری جب 
امام حمیدی سے روایت کرتے ہیں تو ان کا نام نہیں لیتے ہیں ؟  
جواب : حمیدی صاحب نے کبھی بصراحت ذکر کیا ھے 
جیسا کہ مسند حمیدی میں ھے اور کبہی بغیر صراحت جیسا کہ بخاری میں ھے 

 🔖 *مسند حمیدی* 🔖

 حدثنا سُفْيَانُ، حدثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي طَاوُسٌ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: بَلَغَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَنَّ سَمُرَةَ بَاعَ خَمْرًا، فَقَالَ: قَاتَلَ اللَّهُ سَمُرَةَ، أَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِمُ الشُّحُومُ فَجَمَلُوهَا فَبَاعُوهَا».

 • مسند الحميدي 
• المحدث: عبد الله بن الزبير الحميدي 
• المجلد: 1 
• الصفحة: 9 
• الرقم: 13 
• الطبع: عالم الكتب، بيروت، لبنان.

 ☪️ *صحيح مسلم* ☪️

 امام مسلم بن حجاج نے امام ابو بکر ابن ابی شیبہ سے یہ روایت جب مسلم شریف میں ذکر کی تو انہوں نے حضرت سمرہ کا نام ذکر فرمایا ھے:

 • حَدَّثَنَاأَبُو بَكْرِ بن أَبِي شَيْبَةَ،و زُهَيْر بن حرب، وإسحاق بنُ إبْراْهِيْمَ، -واللفظ لابي بكر- قَالوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَلَغَ عُمَرَ أَنَّ سَمُرَةَ بَاعَ خَمْرًا، فَقَالَ: قَاتَلَ اللهُ سَمُرَةَ، أَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ، حُرِّمَتْ عَلَيْهِمُ الشُّحُومُ، فَجَمَلُوهَا، فَبَاعُوهَا».

 ٭ المصدر: تكملة فتح الملهم 
٭ المجلد: 1 
٭ الصفحة: 525 
٭ الرقم: 4026 
٭ الطبع: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان. 

 🌷 *مصنَّف ابن أبي شيبة* 🌷 

 آپ نے پڑھا کہ جب امام مسلم یہ روایت ذکر کرتے ہیں تو صحابی رسول کا نام لیتے ہیں ؛ لیکن جب ہم ان کے استاذ کی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ کو دیکہتے ہیں تو اس میں وہ صحابی رسول کا نام ذکر نہیں کرتے ہیں؛ لہذا معلوم ہوا کہ استاذ محترم نے کبھی نام کیساتھ ذکر کیا ھے اور کبہی بغیر نام کے: 

 • حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُوسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ : بَلَغَ عُمَرَ بْنُ الْخَطَّابِ، أَنَّ فُلاَنًا يَبِيعُ الْخَمْرَ فَقَالَ: مَا لَهُ قَاتَلَهُ اللَّهُ، أَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ، حُرِّمَتْ عَلَيْهِمَ الشُّحُومُ فَجَمَلُوهَا، فَبَاعُوهَا، وَأَكَلُوا أَثْمَانَهَا». 
 { المصدر: مصنف ابن ابي شيبة 
{ المحدث: أبوبكر ابن أبي شيبة 
{ المجلد: 7 
{ الصفحة: 349 
{ الرقم: 22022 
{ الطبع: الفاروق الحديثية، للطباعة، والنشر، قاهرة، مصر. 

 ❇️ *مسند البزار* ❇️ 

 یہ بات کہ امام بخاری نے روایت کے الفاظ میں تبدیلی نہیں کی ؛ بلکہ ان کے اساتذہ میں سے یا ان کے استاذہ کے استاذہ نے دونوں طرح روایت بیان کی ھے اس کی تائید مسند بزار سے بھی ہوتی ھے کہ حضرت سفیان بن عیینہ سے جب حضرت احمد بن عبدہ روایت کرتے ہیں تو حضرت سمرہ کا اسم گرامی نہیں ذکر کرتے ھیں:

 • حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ بَلَغَهُ: أَنَّ رَجُلا بَاعَ خَمْرًا، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم، قَالَ: «لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ، حُرِّمَتْ عَلَيْهِمُ الشُّحُومُ فَبَاعُوهَا وَأَكَلُوا أَثْمَانَهَا». 

 ∅ المصدر: مسند البزار 
∅ المحدث: الإمام أبوبكر البزار 
∅ المجلد: 1 
∅ الصفحة: 323 
∅ الرقم: 207 
∅ الطبع: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، السعودية.

 💟 *المنتقٰی* 💟

 امام ابن الجارود نے بھی " منتقٰی" میں بغیر نام ذکر کیے روایت کیا ھے:

 حَدَّثَنَا ابنُ الْمُقْرِئِ، وَمَحْمُودُ بْنُ آدَمَ، قَالَا: حدثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ وَبَلَغَهُ أَنَّ رَجُلًا بَاعَ خَمْرًا فَقَالَ: قَاتَلَ اللَّهُ فُلَانًا...

 ★ المصدر: المنتقي من السنن المسندة عن رسول الله 
★  المحدث: الإمام أبو محمد، عبد الله بن علي بن الجارود، النيسابوري 
★ الصفحة: 280 
★ الرقم: 584 
★ الطبع: دار التاصيل،القاهرة، مصر. 

 *خلاصہ*

 اگر امام بخاری نے حضرت سمرہ کا نام ذکر نہیں کیا تو ان پر رد و بدل کا الزام کم علمی/ جہالت/ بغض/ ہے ؛ کیونکہ حقیقت یہ ھے کہ محدثین کرام جب روایت بیان کرتے ہیں تو بسا اوقات کسی لفظ کی تشریح و تفصیل وغیرہ بھی بیان فرماتے ہیں اور بسا اوقات اختصار ملحوظ ہوتا ھے۔ 

 🕯️ *سمرہ بن جندب نے شراب کیوں فروخت کی؟* 🕯️

 حضرت سمرہ نے شراب کیوں فروخت کی؟ اسکی تفصیل حافظ ابن حجر وغیرہ نے لکھی ھے: کہ حضرت ابن جندب گورنر عراق تھے اور انہوں نے کسی ذمی سے جزیہ لیا ہوگا اور اس ذمی نے بطور جزیہ درہم و دینار نہ دیکر شراب ہی دیدی ؛چنانچہ حضرت سمرہ کو معلوم تھا کہ یہ شراب پینا حرام ھے ؛ لیکن ( ان کے خیال میں ہو کہ ) اسکا بیچنا منع نہیں ؛ اس لیے حضرت نے بیچ کر اسکی رقم بیت المال روانہ کی ہو : 

 🔮 *تكملة فتح الملهم* 🔮

 واختلف العلماء في كيفية بيع سمرة بن جندب، الخمر علي أربعة أقوال: 1) أَحَدُهَا: أَنَّهُ أَخَذَهَا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ عَنْ قِيمَةِ الْجِزْيَةِ فَبَاعَهَا مِنْهُمْ مُعْتَقدًا جَوَاز ذَلِك، وَهَذَا حَكَاهُ ابن الْجَوْزِيّ عَن ابن نَاصِرٍ وَرَجَّحَهُ، وَقَالَ: كَانَ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يُوَلِّيَهُمْ بَيْعَهَا فَلَا يَدْخُلُ فِي مَحْظُورٍ وَإِنْ أَخَذَ أَثْمَانَهَا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يَتَعَاطَ مُحَرَّمًا وَيَكُونُ شَبِيهًا بِقِصَّةِ بَرِيرَةَ حَيْثُ قَالَ: هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ. 2) وَالثَّانِي: قَالَ الْخَطَّابِيُّ: يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ بَاعَ الْعَصِيرَ مِمَّنْ يَتَّخِذُهُ خَمْرًا، وَالْعَصِيرُ يُسَمَّى خَمْرًا كَمَا قَدْ يُسَمَّى الْعِنَبُ بِهِ؛ لِأَنَّهُ يَئُولُ إِلَيْهِ. قَالَ: وَلَا يُظَنُّ بِسَمُرَةَ أَنَّهُ بَاعَ عَيْنَ الْخَمْرِ بَعْدَ أَنْ شَاعَ تَحْرِيمُهَا، وَإِنَّمَا بَاعَ الْعَصِيرُ. 3) ثالثها: أو يمكن أيضا ان يكون خلل الخمر،ثم باع الخل، معتقدا جوازه، كما هو مذهب أبي حنيفة، و أما إنكار عمر علي ذلك، فيمكن أن لا يجوز التخليل عنده، كما هو مذهب الشافعي. 4) قال الإسماعيلي: إنَّ سَمُرَةَ عَلِمَ تَحْرِيمَ الْخَمْرِ، وَلَمْ يَعْلَمْ تَحْرِيمَ بَيْعِهَا، وَلِذَلِكَ اقْتَصَرَ عُمَرُ عَلَى ذَمِّهِ دُونَ عُقُوبَتِهِ، وَهَذَا هُوَ الظَّنُّ بِهِ. 

 ٭ المصدر: تكملة فتح الملهم 
٭ المجلد: 1 
٭ الصفحة: 525 
٭ الطبع: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان.

 _°° *الحاصل* °°

 حضرت سمرہ بن جندب گورنر عراق کا شراب کو بیچنا ان کے فسق و فجور کی نشانی ہرگز نہیں ؛ کیونکہ وہ شراب یا تو غنیمت میں یا جزیہ میں آئی تھی اور انہوں نے اس کو فروخت کرکے اسکی مالیت بیت المال کو روانہ کی تھی۔

 وﷲ تعالی اعلم

 ✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی* 11

 ستمبر 2021

Thursday, September 9, 2021

کیا حنفی لوگ دیگر مسالک والوں کے نزدیک حیوانوں سے بھی بدتر ہیں

▪️ *کیا حنفی لوگ دیگر مسالک والوں کے نزدیک حیوانوں سے بھی بدتر ہیں؟*▪️

 مفتی صاحب مجھ سے ایک شیعہ نے کہا ھے: کہ تم حنفی لوگ امام شافعی کے ماننے والوں کے نزدیک جانوروں سے بھی بدتر ہو ؛ اس نے کہا: کہ شوافع سے اگر فتوی معلوم کروگے کہ اگر کھانے پینے کی چیز میں نبیذ گر جائے تو اسکا کیا کریں؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ اس کھانے کو کسی کتے یا حنفی کو ڈال دو ؛ کیونکہ احناف نبیذ کو حلال کہتے ہیں جبکہ امام شافعی حرام کہتے ہیں۔ 

مجھے اس بات کی تحقیق مطلوب ھے!!! 

 ••• *باسمہ تعالی* •••
 *الجواب وبہ التوفیق:*

 ہماری معلومات کے مطابق کسی بھی شافعی مفتی یا عالم کا ایسا کوئی فتوی نظروں سے نہیں گزرا ھے ؛ لہذا یہ سراسر شوافع پر الزام ھے؛ البتہ ایک کتاب میں پڑھا ھے کہ تعصب کی مثال یہ ھے کہ جیسے کسی شافعی عالم نے نبیذ کے متعلق جواب دیا کہ وہ کسی کتے یا حنفی کو کھلادو؛ کیونکہ نبیذ حنفیوں کے نزدیک حلال ھے: جبکہ صاحب کتاب نے نہ تو اس شافعی کتاب کا حوالہ درج کیا ھے نہ ہی اس کے قائل کا؛ البتہ تعصب خواہ کسی کی جانب سے بھی ہو غلط ھے ؛ لیکن کسی ایک انجان شخص کی بات نہ دلیل ھے نہ مذہب؛ اس لیے حنفیوں کے متعلق ایسی سوچ رکہنا ذہنی گمراہی ھے:

 🔖 *التعددية والحرية في الإسلام* 🔖

 وسُئل بعض المتعصبين من الشافعية عن حكم الطعام الذي وقعت عليه قطرة نبيذ؟ فقال:-عفا الله عنه- يرمى لكلب أو حنفي!.

 ٭ المصدر: التعددية والحرية في الإسلام 
٭ المؤلف: حسن بن موسي الصفار 
٭ الصفحة: 228 
٭ الطبع: مركز الحضارة لتمية الفكر الإسلامي، بيروت، لبنان.

 وﷲ تعالی اعلم

 ✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

 9، ستمبر:؁ 2021ء

Wednesday, September 8, 2021

امام یحی بن معین پر خواتین کو چھیڑنے کا الزام

▪️ *امام یحی بن معینؒ پر خواتین کو چھیڑنے کا الزام* ▪️

 روافض چونکہ ہر زاویہ سے اسلام و اساطین اسلام , محدثین و کتب حدیث کیخلاف ریشہ دوانیاں کرتے آئے ہیں اسی تناظر میں ایک شیعہ کو کہتے سنا : کہ حدیث کے جلیل القدر امام یحی بن معین خواتین کو چھیڑا کرتے تھے , مجھے سن کر ذرا یقین نہیں آیا ؛ لیکن مفتی صاحب مجھے آپ سے معلوم کرنا ھے کہ شیعہ نے بہ بات کس بنیاد پر کی ھے؟ 

 ••• *باسمہ تعالی* •••
 *الجواب وبہ التوفیق:* 

 امام مزیؒ نے حضرت امام یحی بن معینؒ کے متعلق ایک ضعیف راوی " حسین بن فہم" کا قول نقل کیا ھے : کہ ایک بار امام یحی بن معینؒ کو یہ کہتے سنا کہ میں نے بازار مصر میں ایک باندی کو ہزار دینار میں فروخت ہوتے دیکھا اور اس باندی سے زیادہ حسین و جمیل خاتون میں نے کبہی نہیں دیکھی اور مزید فرمایا: کہ خدا اس باندی پر رحم کرے اور اس پر ہی کیا ؛ بلکہ تمام خوبصورت لوگوں پر خدا کی رحمت ہو؛ اب آپ خود ملاحظہ کیجئے کہ اس میں کہاں چھیڑ چھاڑ یا ان کے کردار پر انگلی اٹھانے کی گنجائش ھے وہ ایک واقعہ بتارھے ہیں اور خوبصورت لوگوں کے استحصال کیلیے بدقماش لوگوں کی غلط نظریں یا ارادے ہوتے ہیں تو امام موصوفؒ نے ان کی حفاظت کی دعا فرمادی , اس میں تو ایک عام انسان بھی غلط نہ سوچے گا, افسوس ھے شیعہ و روافض پر کہ وہ اپنے بغض کی بنا پر وہ سب کچھ ہفوات بکتے ہیں جنکا حقیقت سے ذرا بہی تعلق نہیں ہوتا ھے:

 🏷️ *تہذیب الکمال* 🏷️ 

 ◆ وقال الحسين بن محمد بن فهم: سمعت يحيى بن معين وذكر عنده حسن الجواري. قال: كنت بمصر فرأيت جارية بيعت بألف دينار ما رأيت أحسن منها صلى الله عليها. فقلت يا أبا زكريا مثلك يقول هذا؟ قال: نعم. صلى الله عليها وعلى كل مليح!.

 ٭ المصدر: تهذيب الكمال 
 ٭ المحدث: الإمام المزيؒ 
٭ المجلد: 31 
٭ الصفحة: 561 
٭ الرقم: 6926 
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.


 *تاريخ مدينة دمشق*

 أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا أبو محمد الجوهري أنا محمد بن عبيد الله بن الشخير أبو بكر الصيرفي نا أحمد بن الحسن، بن علي المقرئ دبيس قال سمعت الحسين بن فهم، يقول سمعت يحيى بن معين يقول وذكر عنده حسن الجوار ، قال كنت بمصر فرأيت جارية بيعت بألف دينار ما رأيت أحسن منها صلى الله عليها وعلى كل مليح.

 ٭ المصدر: تاريخ مدينة دمشق 
٭ المؤلف: ابن عساكرؒ 
٭ المجلد: 65 
٭ الصفحة: 33 
٭ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.


 *لسان الميزان*

 امام ابن حجر عسقلانیؒ نے راوی واقعہ حسین بن فہم کے متعلق لکہا: وہ قوی نہیں ھے: 

 ◆ الحسين بن فهم صاحب محمد بن سعد. قال الحاكم: ليس بالقوي. وقال الخطيب: الحسين بن محمد بن عبد الرحمن بن فهم بن محرز سمع محمد بن سلام الجمحي ويحيى بن مَعِين وخلف بن هشام وطائفة. وعنه إسماعيل بن الخطبي وأحمد بن كامل وأبو علي الطوماري وآخرون. قال: وكان عسرا في الرواية متمنعا إلا لمن أكثر ملازمته. ذكره الدارقطني فقال ليس بالقوي. وعنه قال ولدت سنة 211. وقال ابن كامل: مات في رجب سنة 289 قال وكان حسن المجلس مفننا في العلوم حافظا للحديث والأخبار والأنساب والشعر عارفا بالرجال متوسطا في الفقه. 

 ٭ المصدر: لسان الميزان 
٭ المحدث: الإمام ابن حجر العسقلانيؒ 
٭ المجلد: 3 
٭ الصفحة: 202 
٭ الرقم: 2594 
٭ الطبع: دار البشائر الإسلامية، بيروت، لبنان.


 🔖 *سير أعلام النبلاء* 🔖

 امام ذھبیؒ نے اس بات کی وضاحت کی ھے کہ اگر یہ واقعہ امام یحی بن معین کی نسبت کسی درجے میں ثابت بھی ہو تو یہ ان کے مزاح پر محمول ہوگا۔


 ◆ "هذه الحكاية محمولة على الدعابة من أبي زكريا، وتروى عنه بإسناد آخر". 

 ٭ المصدر: سير أعلام النّبلاء 
 ٭ المحدث: الإمام الذهبيؒ 
 ٭ الصفحة: 4206 
٭ الرقم: 6694 
٭ الطبع: بيت الأفكار الدولية، الأردن. 

 🕯️ *خلاصۂ کلام* 🕯️

 جتنا واقعہ منقول ھے اگر اسکو مستند بھی مان لیا جائے تو نہ اس میں کوئی چھیڑخانی والی بات ھے نہ ہی قباحتی یا مروءت کے خلاف کوئی بات ؛ لہذا روافض کی دشنام طرازیوں اور بے جا اتہامات کی جانب التفات نہ کی جائے۔ وﷲ تعالی اعلم

 ✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی* 
8 ستمبر 2021

خطبہ جمعہ سے نبی کریم کا نام نکالنا

▪️ *خطبہ جمعہ سے نبی کریم کا نام نکالنا* ▪️

 شیعوں میں یہ بات مشہور ھے: کہ حضرت عبد ﷲ بن زبیر رضی ﷲ عنہ نے کافی عرصہ جمعے کے خطبے سے حضور علیہ السلام کا اسم گرامی نکلوادیا تہا اور وجہ یہ بتائی کہ جب خطبہ میں نبی کریم کا اسم گرامی لیا جاتا ھے تو چند خاندان نبوت کے افراد اتراتے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ ان لوگوں کو فخر کرنے دوں, ان کے دور میں خطبہ جمعہ بغیر نبی پاک کے اسم گرامی پڑھا جاتا رہا؟

 ••• *باسمہ تعالی* •••
 *الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ روافض کی جانب سے حضرت ابن زبیر پر الزام و بہتان ھے, آسان لفظوں میں اتنا سمجھ لیں یہ بغض صحابہ ھے اور رافضیوں کی اصلیت ھے اس بات کا ذکر بڑے طمطراق سے شیعہ مولوی مرزا فتح ﷲ بن محمد جواد اصبہانی نے کیا ھے اور کسی معتبر تاریخ یا کتاب میں کسی نے یہ بات نہیں ذکر کی ھے؛ لہذا ان باتوں میں پڑنا اور ان کے جواب کے درپے ہونا ضیاع وقت ہی ھے ؛ لیکن چونکہ سوشل میڈیا کا دور ھے اور اس طرح کی خرافات باطل فرقوں کی جانب سے خوب خوب پھیلائی جاتی ہیں اور ہماری سادہ لوح عوام کو تشویش ہوتی ھے تو اس بنا پر ان جیسے جہوٹوں کا رد کردیا جاتا ھے:


 ◆ وقطع عبد الله بن الزبير في الخطبة ذكر رسول الله - صلى الله عليه وآله وسلم - جمعا كثيرة فاستعظم الناس ذلك فقال: اني لا أرغب عن ذكره، ولكن له أهيل سوء، إذا ذكرته اطلعوا أعناقهم فأنا أحب ان اكبتهم. قال: لما كاشف عبد الله بن الزبير بني هاشم وأظهر بغضهم، وعابهم وهم بما هم به في أمرهم، ولم يذكر رسول الله - صلى الله عليه وآله وسلم - في خطبته، لا يوم الجمعة ولا غيرها، عاتبه على ذلك قوم من خاصتة، وتشاءموا بذلك منه، وخافوا عاقبته.

 ٭ المصدر: القول الصراح في البخاري وصحيحه الجامع 
 ٭ المؤلف: مرزا فتح الله الاصبهاني 
٭ الصفحة: 193 
٭ الطبع: مكتبة التوحيد، قُمْ، إيران. 

 واللّٰه تعالٰي أعلم 
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*
 8 ستمبر، 2021

Tuesday, September 7, 2021

جنتی ہونے کی بشارت

▪️ *جنتی ہونے کی بشارت* ▪️

 ایک رافضی کا سوال ملا وہ معلوم کر رہا ھے کہ تم اہل سنت تو دنیا میں ہی جنت کی خوشخبری پانے والے دس صحابہ کرام کے نام لیتے ہو جبکہ حدیث صحیح میں تو فقط ایک ہی صحابی کا ذکر ھے اور وہ صحابی ہیں " عبد ﷲ بن سلام" 

 ••• *باسمہ تعالی* ••• 
*الجواب وبہ التوفیق:*

 بخاری و مسلم نے یہ روایت ذکر کی ھے جس میں یہ مضمون ھے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے کہا: روئے زمین پر چلنے والوں میں فقط عبد ﷲ بن سلام کے متعلق ہی میں نے زبانِ نبوت سے سنا کہ وہ جنتی ہیں:

 *صحیح البخاری* 

 حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: سمعت مالكا يحدث عن أبي النضر مولي عمر بن عبيد الله، عن عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، قال: ما سَمِعْتُ النَّبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يقولُ لأحَدٍ يَمْشِي علَى الأرْضِ: إنَّه مِن أهْلِ الجَنَّةِ، إلَّا لِعَبْدِ اللَّهِ بنِ سَلَامٍ، قالَ: وفيهِ نَزَلَتْ هذِه الآيَةُ {وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ} [الأحقاف: 10] الآيَةَ.

 (ترجمة) 

 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی اور شخص کے بارے میں کہ جو زمین پر چلتا ہو ، نبی کریم 
صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا کہ وہ جنتی ہے ۔

 ٭ المصدر: صحيح البخاري 
٭ المجلد: 1 
٭ الصفحة: 1032 
٭ الرقم: 3812 
٭ الطبع: ألطاف اينڈ سنز، کراچی، پاکستان.


 *تكملة فتح الملهم* 

 حدثني زهير بن حرب، حدثنا إسحاق بن عيسي، حدثني مالك، عن أبي النضر، عن عامر بن سعد، قال: سمعت أبي يقول: ما سمعت رسول الله يقول لحي يمشي: إنه من أهل الجنة، إلا لعبد الله بن سلام.

 ٭ المصدر: تكملة فتح الملهم 
٭ الجزء: 5 
٭ الصفحة: 182 
٭ الرقم: 6330 
٭ الطبع: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان. 


 🔖 *روایت کا مطلب* 🔖 

 بظاہر یوں لگتا ھے کہ عبد ﷲ بن سلام کے علاوہ کسی اور کو دنیا میں جنت کی بشارت نہیں ملی ھے ؛ لیکن ایسا بالکل نہیں ھے ؛ بلکہ عشرہ مبشرہ والی روایت بھی مستند ھے ؛ لہذا اس روایت کی تشریح ہم محدث کبیر حافظ الدنیا امام الحدیث حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی سے لینگے ان کا کہنا ھے: کہ خود راوی حدیث حضرت سعد بن ابی وقاص عشرہ مبشرہ میں سے ہیں البتہ انہوں نے کسر نفسی کی بنا پر اپنا اسم گرامی ذکر نہیں کیا, نیز یہ حدیث انہوں نے ایسے وقت بیان کی ھے جب دنیا سے حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت سعید بن زید کے علاوہ دیگر مبشرین رخصت ہوچکے تھے تو یہ بات کہ روئے ارض پر عبد ﷲ بن سلام کے علاوہ کوئی مبشر بالجنہ نہیں ھے کہنا بالکل درست ہوگا؛ کیونکہ حضرت عبد ﷲ بن سلام حضرات عشرہ مبشرہ کے بعد تک بقید حیات رھے :

 *فتح الباري*

 استشكل: بأنه صلى الله عليه وسلم قد قال لجماعة: انهم من أهل الجنة غير عبد الله بن سلام ويبعد ان لا يطلع سعد على ذلك وأجيب: بأنه كره تزكية نفسه لأنه أحد العشرة المبشرة بذلك وتعقب بأنه لا يستلزم ذلك أن ينفي سماعه مثل ذلك في حق غيره، ويظهر لي في الجواب: أنه قال ذلك بعد موت المبشرين؛ لان عبد الله بن سلام عاش بعدهم ولم يتأخر معه من العشرة غير سعد وسعيد، ويؤخذ هذا من قوله يمشي على الأرض. 

 ٭ المصدر: فتح الباري 
٭ المحدث: الحافظ ابن حجر العسقلانيؒ 
٭ المجلد: 7 
٭ الصفحة: 129 
٭ الطبع: المكتبة السلفية، القاهرة، مصر.

 والله تعالي اعلم

 ✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

 7ستمبر، 2021؁ء

صحابہ پر نبی کریم کو قتل کرنے کا الزام

▪️ *صحابہ کرام پر نبی کریم کو قتل کرنے کا الزام* ▪️

 ایک شیعہ کی تحریر پڑھی جس میں وہ لکھ رہا ھے کہ غزوۂ تبوک سے واپسی کے موقع پر ایک گھاٹی میں چند صحابہ نے موقع پاکر حضور پر حملہ کیا اور حضور کو بلندی سے نیچے گرانے کی کوشش کی ؛ لیکن وہ اس سازش میں ناکام ہوئے اور ان صحابہ کے نام حضرت ابوبکر / حضرت عثمان/ حضرت طلحہ/ حضرت سعد بن ابی وقاص/ ہیں-

 اس بات کی تحقیق درکار ھے!!! 

 ••• *باسمہ تعالی* •••
 *الجواب وبہ التوفیق:*

 سب سے پہلے وہ واقعہ ذکرنا مناسب ہوگا جس کی بابت شیعہ و روافض نے بہتان و جہوٹ کا سہارا لیا ھے:

 🔖 *الرحیق المختوم اردو* 🔖

 سیرت کی مشہور کتاب " الرحیق المختوم " میں مولانا صفی الرحمن مبارکپوری نے یہ واقعہ اختصارا ذکر کیا ھے: اسلامی لشکر تبوک سے مظفر و منصور واپس آیا ۔ کوئی ٹکر نہ ہوئی ۔ اللہ جنگ کے معاملے میں مومنین کے لیے کافی ہوا ۔ البتہ راستے میں ایک جگہ ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی سے گزر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی ہانک رہے تھے ۔ باقی صحابہ کرام دور وادی کے نشیب سے گزر ہے تھے اس لیے منافقین نے اس موقع کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے غنیمت سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قدم بڑھایا ۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھی حسب معمول راستہ طے کررہے تھے کہ پیچھے سے ان منافقین کے قدموں کی چاپیں سنائی دیں ۔ یہ سب چہروں پہ ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریباً چڑھ ہی آئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کی جانب بھیجا ۔ انہوں نے ان کی سواریوں کے چہروں پر اپنی ایک ڈھال سے ضرب لگانی شروع کی ، جس سے اللہ نے انہیں مرعوب کردیا اور وہ تیزی سے بھاگ کر لوگوں میں جا ملے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’ رازدان ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسی واقعہ سے متعلق اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ ’’ وَھَمُّوْا بِمَا لَم یَنَالُوْا (9: 74) انہوں نے اس کام کا قصد کیا جسے وہ نہ پا سکے. 

 ÷ نام کتاب: الرحیق المختوم( اردو ) 
÷ نام مؤلف : صفی الرحمن مبارکپوری 
÷ صفحہ:
587
÷طبع: مکتبہ سلفیہ, شیش محل روڈ , لاھور پاکستان.

   🏷️ *مسند احمد میں* 🏷️ 

 حدثنا يزيد، اخبرنا الوليد -يعني ابن عبد الله بن الجُمَيْع- عن أبي الطفيل، قال: لما أقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم من غزوة تبوك أمر مناديا فنادى: إن رسول الله أخذ العقبة، فلا يأخذها أحد، فبينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوده حذيفة ويسوق به عمار إذ أقبل رهط متلثمون على الرواحل، غشوا عمارا وهو يسوق برسول الله صلى الله عليه وسلم، وأقبل عمار يضرب وجوه الرواحل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لحذيفة: " قد، قد " حتى هبط رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما هبط رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل ورجع عمار، فقال: " يا عمار، هل عرفت القوم؟ " فقال: قد عرفت عامة الرواحل والقوم متلثمون قال: " هل تدري ما أرادوا؟ " قال: الله ورسوله أعلم، قال: " أرادوا أن ينفروا برسول الله صلى الله عليه وسلم فيطرحوه " قال: فسأل عمار رجلا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: نشدتك بالله، كم تعلم كان أصحاب العقبة فقال: أربعة عشر فقال: إن كنت فيهم فقد كانوا خمسة عشر، فعذر رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم ثلاثة قالوا: والله ما سمعنا منادي رسول الله، وما علمنا ما أراد القوم، فقال عمار: أشهد أن الاثني عشر الباقين حرب لله ولرسوله في الحياة الدنيا، ويوم يقوم الأشهاد قال الوليد: وذكر أبو الطفيل في تلك الغزوة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال للناس: وذكر له: أن في الماء قلة فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم مناديا فنادى: " أن لا يرد الماء أحد قبل رسول الله فورده رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد رهطا قد وردوه قبله، فلعنهم رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ ".

 ٭ المصدر: مسند أحمد 
٭ المجلد: 39 
٭ الصفحة: 210 
٭ الرقم: 23792 
٭ الدرجة: صحيح 
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان. 

 🔖 *تكملة فتح الملهم* 🔖

 مسلم شریف میں تبوک سے واپسی والی گھاٹی میں حملہ آوروں کو منافق کہا گیا ھے کہ وہ لوگ منافقین تھے ؛ اور یہ بات خود نبی کریم نے حضرت حذیفہ بن یمان ( رازدار رسول ) کو بتائی تھی؛ لیکن ان کے نام کیا کیا ہیں یہ بات فقط رسول کریم اور ان کے راز دار حضرت حذیفہ کو معلوم ھے اور حضرت حذیفہ نے کبھی بھی یہ راز فاش نہ فرمایا؛ لہذا راف ضیوں کا یہ کہنا کہ وہ حملہ آور فلاں فلاں صحابہ تھے فقط ان کی فطری دروغ گوئی ھے : 


 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارٍ: أَرَأَيْتُمْ صَنِيعَكُمْ هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمْ فِي أَمْرِ عَلِيٍّ، أَرَأْيًا رَأَيْتُمُوهُ أَوْ شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَلَكِنْ حُذَيْفَةُ أَخْبَرَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا، فِيهِمْ ثَمَانِيَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ، ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ وَأَرْبَعَةٌ» لَمْ أَحْفَظْ مَا قَالَ شُعْبَةُ فِيهِمْ. 


 اس روایت میں ایک لفظ وارد ھے کہ میرے اصحاب میں بارہ منافق ہیں لہذا کسی کو یہ غلط فہمی ہرگز نہ ہو کہ یہاں صحابہ مراد ہیں ؛ بلکہ عربی میں ساتھ رہنے سہنے والے ( خواہ آستین کے دشمن ہوں)کو ساتہی و صاحب کہہ دیا جاتا ھے اور اگلی روایت میں اس کی وضاحت ھے کہ اصحابی کی بجائے امتی کا لفظ ھے کہ میری امت میں بارہ منافقین ہیں نیز یہ بھی ملحوظ رھے کہ امت میں بارہ سے زیادہ منافقین تھے لیکن بارہ کا عدد فقط اس گھاٹی کے حملہ آوروں کی تعداد بیان کرنا ھے: 


 حدثنا محمد بن المثني، ومحمد بن بشار، (واللفظ لابن المثني) قالا: حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن ابي نضرة، عن قيس بن عُبّاد، قال: قلنا لعمار: أرأيت قتالكم، أرأيا رأيتموه؟ فإن الرأي يخطئ ويصيب، أو عهدا عهده إليكم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: ما عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يعهده إلى الناس كافة، وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «إن في أمتي» قال شعبة: وأحسبه قال: حدثني حذيفة، وقال غندر: أراه قال: «في أمتي اثنا عشر منافقا لا يدخلون الجنة، ولا يجدون ريحها، حتى يلج الجمل في سم الخياط ثمانية منهم تكفيكهم الدبيلة، 
سراج من النار يظهر في أكتافهم، حتى ينجم من صدورهم». 

ترجمہ: 
جناب قیس سے روایت ہے، میں نے جناب عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: (سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھے) تم نے (سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے)جو جنگ کی اور لڑے یہ تمہاری رائے ہے ؟ کیونکہ کسی کی رائے درست بھی ہوسکتی ہے ، اورغلط بھی ، یا تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں کچھ فرمایا تھا . سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کوئی بات ایسی نہیں فرمائی جو اور عام لوگوں سے نہ فرمائی ہو لیکن سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں بارہ منافق ہیں ، یہ جنت میں نہ جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھسے .نہ اس کی خوشبو پائیں گے “ (یعنی ان کا جنت میں جانا محال ہے) اور آٹھ کو ان میں سے دبیلہ سمجھ لے گا (دبیلہ پھوڑا یا دمل) یعنی ایک آگ کا چراغ ان کے مونڈھوں میں پیدا ہو گا ان کی چھاتیاں توڑ کے نکل آئے گا (یعنی اس میں انگار ہو گا جیسے چراغ رکھ دیا ۔‘‘

 حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ قَالَ كَانَ بَيْنَ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ بَعْضُ مَا يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ فَقَالَ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ كَمْ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ قَالَ: فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: أَخْبِرْهُ إِذْ سَأَلَكَ، قَالَ: كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ، فَإِنْ كُنْتَ مِنْهُمْ فَقَدْ كَانَ الْقَوْمُ خَمْسَةَ عَشَرَ، وَأَشْهَدُ بِاللَّهِ أَنَّ اثْنَيْ عَشَرَ مِنْهُمْ حَرْبٌ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا، وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ، وَعَذَرَ ثَلَاثَةً، قَالُوا مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا عَلِمْنَا بِمَا أَرَادَ الْقَوْمُ، وَقَدْ كَانَ فِي حَرَّةٍ فَمَشَى فَقَالَ إِنَّ الْمَاءَ قَلِيلٌ فَلَا يَسْبِقْنِي إِلَيْهِ أَحَدٌ فَوَجَدَ قَوْمًا قَدْ سَبَقُوهُ فَلَعَنَهُمْ يَوْمَئِذٍ. 

 ولید بن جمیع نے کہا: ہمیں ابوطفیل رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: عقبہ والوں میں سے ایک شخص اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان (اسطرح کا جھگڑا ہوگیا جس طرح لوگوں کے درمیان ہو جاتا ہے۔ (گفتگو کے دوران میں) انہوں نے (اس شخص سے) کہا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ عقبہ والوں کی تعداد کتنی تھی؟ (حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ نے) کہا: لوگوں نے اس سے کہا: جب وہ آپ سے پوچھ رہے ہیں تو انہیں بتاؤ۔ (پھر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے خود ہی جواب دیتے ہوئے) کہا: ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہ چودہ لوگ تھے اور اگر تم بھی ان میں شامل تھے تو وہ کل پندرہ لوگ تھے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ان میں سے بارہ دنیا کی زندگی میں بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ میں تھے اور (آخرت میں بھی) جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین لوگوں کا عذر قبول فرما لیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کرنے والے کا اعلان نہیں سنا تھا اور اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ ان لوگوں کا ارادہ کیا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حرہ میں تھے، آپ چل پڑے اور فرمایا: "پانی کم ہے، اس لیے مجھ سے پہلے وہاں کوئی نہ پہنچے۔" چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (وہاں پہنچ کر) دیکھا کہ کچھ لوگ آپ سے پہلے وہاں پہنچ گئے ہیں تو آپ نے اس روز ان پر لعنت کی۔

 ٭ المصدر: تكملة فتح الملهم 
٭ المجلد: 6 
٭ الصفحة: 79/ 80/ 81/ 82 
٭ الرقم: 6966/ 6967/ 6968 
٭ الطبع: دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان.

 🔮 *المحلّٰی بالآثار* 🔮

 امام ابن حزم اندلسی نے المحلی بالآثار میں حضرت حذیفہ بن یمان کی روایت کے متعلق لکہا ھے کہ یہ روایت ساقط الاعتبار ھے یعنی اسکا اعتبار نہیں ؛ کیونکہ وہ جو روایت ذکر کررھے ہیں اس میں حملہ آوروں کے نام مذکور ہیں اور راوی حضرت ولید بن جمیع ہیں جن کی روایت مسلم شریف میں ھے اور صحیح سند سے مروی روایت میں حملہ آروں کے اسماء مذکور ہی نہیں اور ان ناموں کا ذکر ہوگا بھی کیسے ؛ کیونکہ حضرت حذیفہ بن یمان کی رازداری اور ان کی امانت داری اس کی وجہ سے مخدوش ہوجاتی ھے. الحاصل! امام ابن حزم کی بات کا خلاصہ یہ ھے کہ جس نے بھی نام ذکر کیے ہیں وہ بات گھڑی ہوئی ھے خدا اس گھڑنے والے کو غارت کرے! 

 ♜ وأما حديث حذيفة : فساقط ؛ لأنه من طريق الوليد بن جميع ، وهو هالك ! ولا نراه يعلم من وضع الحديث ؛ فإنه قد روى أخباراً فيها أن أبا بكر ، وعمر ، وعثمان ، وطلحة ، وسعد بن أبي وقاص ، رضي الله عنهم : أرادوا قتل النبي صلى الله عليه وآله ، وإلقاءه من " العقبة " في " التبوك "، وهذا هو الكذب الموضوع الذي يطعن الله تعالي واضعه، . 

 ٭ المصدر: المُحلّٰي بالآثار 
٭ المحدث: الإمام ابن حزم الاندلسي 
٭ المجلد: 12 
٭ الصفحة: 160 
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

 ☪️ *كشف المشكل من حديث الصحيحين* ☪️


 امام ابن جوزی نے حضرت حذیفہ والی روایت ذکر کرکے فرمایا: کہ یہ روایت نوآموز ( مبتدی طلبہ ) لوگوں کیلیے مشکل مقام ھے ؛ کیونکہ جب عقبہ والے مطلقا بولا جاتا ھے تو ذہن اس طرف جاتا ھے کہ وہ بیعت عقبہ والے انصار صحابہ ہوں جبکہ وہ واقعہ بیعت عقبہ اور یہ تبوک کی عقبہ( گھاٹی) دونوں واقعات الگ الگ ہیں, جہاں کچھ منافقین چھپ کر منہ چھپاکر نبی کریم پر حملہ کرنے آئے تھے: 


 هذا الحديث يشكل على المبتدئين ؛ لأن أهل العقبة إذا أطلقوا : فإنما يشار بهم إلى الأنصار المبايعين له ، وليس هذا من ذاك ، وإنما هذه عقبة في طريق تبوك ، وقف فيها قوم من المنافقين ليفتكوا به .

 × المصدر: كشف المشكل من حديث الصحيحين 
× المحدث: الإمام ابن الجوزية 
× الصفحة: 392 
× الطبع: دار الوطن، الرياض، السعودية. 

 🕯️ *خلاصۂ کلام* 🕯️

 واقعہ عقبہ جو مقام تبوک سے واپسی کے وقت پیش آیا (جس میں منافقوں کے ایک ٹولے نے نبی کریم پر حملہ کیا تہا) درست ھے؛ لیکن یہ کہنا کہ اس ٹولے میں حضرات صحابہ شامل تھے انتہائی درجے کا دجل و فریب ھے اور دنیا کی کوئی بھب سند یہ ثابت نہیں کرتی کہ ان حملہ آوروں میں بجز منافقوں کے کوئی صحابی و ہمدم رسول شامل تہا۔

 وﷲ تعالی اعلم

 ✍🏻...کتبہ : *محمد عدنان وقار صدیقی*

 7 ستمبر 2021

حضرت عائشہ حضور سے نکاح کے وقت کنواری تہیں یا شادی شدہ

▪️ *حضرت عائشہ حضور سے نکاح کے وقت کنواری تہیں یا شادی شدہ؟* ▪️  

شیعہ لوگ کہتے ہیں : کہ جب حضرت عائشہ کا نکاح حضور سے ہوا تہا تب وہ طلاق یافتہ تہیں یعنی ان کا نکاح جبیر بن مطعم سے ہوچکا تہا پھر انہوں نے طلاق دی تب حضور سے نکاح ہوا.

 اس بات میں کتنی صداقت ھے اس کی وضاحت درکار ھے

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 صدیقہ بنت صدیق حضرت عائشہ ام المومنین کا جب حضور اکرم سے نکاح ہوا تو آپ غیر شادی شدہ تہیں یعنی حضور سے قبل ان کا کسی سے بھی نکاح نہ ہوا تہا, صحیح بخاری شریف میں یہ بات مروی ھے کہ حضرت عائشہ بوقت نکاح کنواری تہیں :

 ☪️ *صحیح البخاری* ☪️ 

 حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال: حدثني أخي، عن سليمان، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة قالت: قُلتُ: يا رَسولَ اللَّهِ، أرَأَيْتَ لو نَزَلْتَ وادِيًا وفيهِ شَجَرَةٌ قدْ أُكِلَ منها، ووَجَدْتَ شَجَرًا لَمْ يُؤْكَلْ منها، في أيِّهَا كُنْتَ تُرْتِعُ بَعِيرَكَ؟ قالَ: في الذي لَمْ يُرْتَعْ منها. تَعْنِي أنَّ رَسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم لَمْ يَتَزَوَّجْ بِكْرًا غَيْرَهَا.

 ٭ المصدر: صحيح البخاري 
٭ المجلد: 2 
٭ الصفحة: 1447 
٭ الرقم: 5077 
٭ الطبع: الطاف اينڈ سنز، کراچی، پاکستان. 

 💟 *المعجم الكبير* 💟

 امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں روایت ذکر کی ھے جس میں صاف صاف مذکور ھے کہ حضرت عائشہ کے علاوہ آپ کی دیگر ازواج مطہرات میں سے بوقت عقد نکاح کوئی کنواری بیوی نہیں تہیں: 

 حدثنا إسحاق بن داود الصواف التستري،ثنا يحي بن غيلان، ثنا عبد الله بن يزيغ، عن أبي حنيفة، عن أبي إسحاق الشيباني، عن عامر الشعبي، عن مسروق، عن عائشة، قالت: أُعطيتُ سبعًا لم يُعْطَها نساءُ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كنْتُ مِن أحبِّ النَّاسِ إليه نفسًا وأحَبٍّ النَّاسِ إليه أبًا وتزوَّجَني رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ولم يتزوَّجْ بِكرًا غيري وكان جبريلُ عليه السَّلامُ ينزِلُ عليه بالوحيِ وأنا معه في لِحافٍ ولم يفعَلْ ذلك بغيري وكان لي يومان وليلتان ولنسائِه يومٌ وليلةٌ،وأنزل في عذر من السماء كاد أن يهلك بي فئام من الناس، وقبض رسول الله صلي الله عليه وسلم بين سحري ونحري.

 ٭ المصدر: المعجم الكبير 
 ٭ المجلد: 23 
٭ الصفحة: 30 
٭ الرقم: 75 
٭ الطبع: مكتبة ابن تيمية، قاهرة، مصر.

 🔖 *مسند الإمام الاعظم* 🔖

 معجم کبیر طبرانی والی سند سے ہی مسند امام اعظم میں یہ روایت مذکور ھے:

 • المصدر: مسند الإمام الأعظم 
• الصفحة: 
543 • الرقم: 379 
• الطبع: مكتبة البشرٰي، كراچي، پاكستان.

 ❇️ *مجمع الزوائد* ❇️

 امام ہیثمی نے بھی یہ روایت ذکر کی ھے جس میں حضرت عائشہ کا بوقت عقد نکاح سے ناآشنا ہونیکا ذکر ھے اور محقق حسین سلیم اسد دارانی/ مرھف حسین احمد نے اس روایت کے حاشیہ میں " معجم کبیر " اور " مسند امام اعظم" والی سند کا حوالہ دیکر کہا کہ یہ سندیں حسن ہیں:

 ٭ المصدر: مجمع الزوائد 
 ٭ المحدث: الإمام الهيثمي 
٭ المحقق: حسين سليم اسد الداراني / مرهف حسين أسد 
٭ المجلد: 18 
٭ الصفحة: 691 
٭ الرقم: 15302 
٭ الطبع: دار المنهاج، جدة، السعودية.

 ⭕ *یہ شوشہ کہاں سے اٹھا* ⭕

 آخر یہ شوشہ کہاں سے آیا کہ حضرت عائشہ صدیقہ محبوبۂ رسول خدا بوقت عقدِ نکاح باکرہ تہیں یا ثیبہ؟ طبقات ابن سعد کی روایت سے بعض کج فہموں کو اشتباہ ہوا ھے جبکہ روایت میں صاف صاف لکہا ھے کہ حضرت عائشہ باکرہ ہی تہیں؛ البتہ اتنا ذکر ضرور ھے کہ صدیقہ بنت صدیق کی حضور سے نسبت سے قبل ان کے والد گرامی صدیق اکبر نے ان کے رشتہ کے متعلق جبیر بن مطعم سے کی تہی: 


 أخبرنا هشام بن محمد السائب الكلبي، عن أبيه، عن أبي صالح، عن ابن عباس، قال: خطب رسول الله - صلَّى الله عليه وسلَّم - إلى أبي بكر الصديق عائشة، فقال أبو بكر: يا رسول الله، قد كنتُ وعدتُ بها أو ذكرتها لمطعم بن عدي بن نوفل بن عبد مناف لابنه جبير، فدعني حتى أسلَّها منهم، ففعل، ثم تزوجها رسول الله - صلَّى الله عليه وسلَّم - وكانت بِكرًا.

 ٭ المصدر: طبقات ابن سعد 
٭ المؤلف: محمد بن سعد الزهري 
٭ المجلد: 10 
٭ الصفحة: 58 
٭ الطبع: مكتبة الخانجي، القاهرة، مصر.

 *روایت کا درجہ* 

 اس روایت کی سند میں ابن سائب کلبی ہے جسکے متعلق امام ابن حجر نے لسان المیزان میں لکھا ھے: کہ یہ راوی بقول امام دار قطنی متروک ہے, اور بقول ابن عساکر رافضی غیر ثقہ ھے, اور بقول اصمعی یہ متہم بالکذب ھے: 

 ◆ قال أحمد بن حنبل انما كان صاحب سمر ونسب ما ظننت ان أحدا يحدث عنه، وقال الدارقطني وغيره متروك،وقال ابن عساكر: رافضي، ليس بثقة... وقال يحيى بن معين: غير ثقة، وليس عن مثله يروى الحديث، قلت: واتهمه الأصمعي، وذكره العقيلي وابن الجارود وابن السكن وغيرهم في الضعفاء. 

 ٭ المصدر: لسان الميزان 
 ٭ المحدث: ابن حجر العسقلاني 
٭ المجلد: 8 
٭ الصفحة: 338 
٭ الرقم: 8268 
٭ الطبع: دار البشائر الإسلامية، بيروت، لبنان.

 *دوسری روایت*

 اس روایت میں لفظ طلاق سے اشتباہ واقع ہوا ھے جبکہ یہاں طلاق سے مراد وہ طلاق نہیں جو قید نکاح کو ختم کرنے کیلیے ہوتی ھے؛ بلکہ مراد ھے کہ جبیر نے یا ان کے والد نے رشتہ کی بات ختم کردی :

 اس روايت ميں ضعف هے؛ كيونكه اس ميں انقطاع هے ابن مليكة كے بعد. 

 أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الأَجْلَحِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: " خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَائِشَةَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي كُنْتُ أَعْطَيْتُهَا مُطْعِمًا لابْنِهِ جُبَيْرٍ فَدَعْنِي حَتَّى أَسُلَّهَا مِنْهُمْ، فَاسْتَسَلَّهَا مِنْهُمْ فَطَلَّقَهَا، فَتَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". 

 • المصدر: الطبقات لابن سعد 
• المجلد: 10 
• الصفحة: 59 
• الطبع: مكتبة الخانجي، القاهرة، مصر.

 *فتح الباری شرح البخاری* 

 امام ابن حجر عسقلانی نے امام احمد اور طبرانی کے حوالے سے بسند حسن روایت ذکر کی ھے جس میں صراحتا حضرت صدیقہ بنت صدیق کے غیر شادی شدہ ہونے اور باکرہ ہونے کا ذکر ھے : 

 وقد روي أحمد والطبراني بإسناد حسن عن عائشة،قالت : لمَّا توُفِّيَت خديجةُ قالت خولةُ بنتُ حَكيمٍ امرأةُ عثمانَ بنِ مظعونٍ يا رسولَ اللَّهِ ألا تزوَّجُ قالَ نعَم فما عندَكِ قالت بِكْرٌ وثيِّبٌ البِكْرُ بنتُ أحبِّ خلقِ اللَّهِ إليكَ عائشةُ والثَّيِّبُ سَودةُ بنتُ زمعةَ قالَ فاذهبي فاذكُريهما عليَّ فدخلَت على أبي بَكْرٍ فقالَ إنَّما هيَ بنتُ أخيهِ قالَ قولي لَهُ أنتَ أخي في الإسلامِ وابنتُكَ تصلحُ لي فجاءَهُ فأنكحَهُ ثمَّ دخلَت على سودةَ فقالت لَها أخبري أبي فذَكَرت لَهُ فزوَّجهُ. 

 ٭ المصدر: فتح الباري
 ٭ المحدث: ابن حجر 
 ٭ المجلد: 7 
٭ الصفحة: 225 
٭ الطبع: المكتبة السلفية، قاهرة، مصر.

 *أسد الغابة* 

 حافظ ابن حجر کی طرح امام ابن الاثیر نے بھی یہ روایت ذکر کی ھے: 

 • المصدر: أسد الغابة في معرفة الصحابة 
• المحدث: الإمام ابن الاثير 
• الصفحة: 1550 
• الرقم: 7096 
• الطبع: دار ابن حزم، بيروت، لبنان. 

 🔮 *سیر اعلام النبلاء* 🔮

 امام ذھبی نے مفصلا روایت ذکر کی ھے جس کی سند حسن ھے, لکھا ھے کہ حضرت عائشہ کے رشتے کی بات مطعم کے فرزنذ جبیر سے کی گئ تہی ؛ لیکن بعد میں یہ وعدہ برضا طرفین ختم ہوگیا اور آپ علیہ السلام سے لخت جگرِ صدیق کا عقد زواج ہوگیا:

 ◆ وقال عبد الله بن إدريس ، عن محمد بن عمرو ، عن يحيى بن عبد الرحمن بن حاطب ، قال : قالت عائشة : لما ماتت خديجة ، جاءت خولة بنت حكيم فقالت : يا رسول الله ، ألا تزوج ؟ قال : ومن ؟ قالت : إن شئت بكرا وإن شئت ثيبا ؟ قال : من البكر ومن الثيب ؟ ؟ قالت : أما البكر ، فعائشة ابنة أحب خلق الله إليك ، وأما الثيب ، فسودة بنت زمعة ، قد آمنت بك واتبعتك . قال : اذكريهما علي . قالت : فأتيت أم رومان فقلت : يا أم رومان ، ماذا أدخل الله عليكم من الخير والبركة ! قالت : ماذا ؟ قالت : رسول الله ص لی ﷲ علیه وسلم يذكر عائشة، قالت: انتظري ، فإن أبا بكر آت ، فجاء أبو بكر ، فذكرت ذلك له ، فقال : أو تصلح له وهي ابنة أخيه ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أنا أخوه وهو أخي ، وابنته تصلح لي ، فقام أبو بكر ، فقالت لي أم رومان : إن المطعم بن عدي كان قد ذكرها على ابنه ، ووالله ما أخلف وعدا قط . قالت : فأتى أبو بكر المطعم ، فقال : ما تقول في أمر هذه الجارية ؟ قال : فأقبل على امرأته ، فقال : ما تقولين ؟ فأقبلت على أبي بكر ، فقالت : لعلنا إن أنكحنا هذا الفتى إليك تدخله في دينك ! فأقبل عليه أبو بكر ، فقال : ما تقول أنت ؟ قال : إنها لتقول ما تسمع ، فقام أبو بكر وليس في نفسه من الموعد شيء ، فقال لها : قولي لرسول الله صلى الله عليه وسلم فليأت ، فجاء ، فملكها ...الخ

 ( المصدر: سير أعلام النبلاء 
( المحدث: الإمام الذهبي 
( الصفحة: 73 
( الطبع: بيت الأفكار الدولية، جدة، السعودية.

 🏷️ *کیا واقعتا حضرت عائشہ کا رشتہ ہوا تہا؟* 🏷️ 

 جی ہاں! مطعم نے اپنے بیٹے جبیر سے حضرت عائشہ کا پیام دیا تہا جسکو حضرت صدیق اکبر منظور بھی کرچکے تھے ؛ لیکن جب حضور کا رشتہ بھی آگیا تو حضرت ابوبکر مطعم سے ملے اور ماجرا کہہ سنایا ؛ لیکن مطعم کی بیوی نے یہ رشتہ ختم کرادیا تہا ؛ اسکو خوف تہا کہ شادی کے بعد اس کا بیٹا ( بد دین ) صابی نہ ہوجائے یعنی مسلمان نہ ہوجائے۔
 ( ملخصا 

{ نام کتاب: سيرة المصطفی 
 { نام مصنف: مولانا إدريس كاندهلوي 
{ جلد نمبر: 3 
{ صفحة: 283 
{ طبع: كتبخانه مظهري، گلشنِ اقبال، كراچي، پاكستان.

 واللّٰه تعالٰي أعلم 

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*

 7 ستمبر، 2021

Monday, September 6, 2021

حضرت عمر فاروق پر بے ادبی کا الزام

▪️ *حضرت عمر فاروقؓ پر بے ادبی کا الزام* ▪️

 مفتی صاحب! ایک شیعہ نے مجھے سوال بہیجا ھے کہ حضرت عمر فاروق اعظمؓ با ادب نہیں تھے ؛ اس لیے کہ جب بھی وہ پیغمبر علیہ السلام یا حضرت فاطمہؓ کا تذکرہ کرتے تھے تو انہیں نازیبا الفاظ میں یاد کرتے تھے ؛ یہی وجہ ھے کہ ان کو علمائے اہل سنت نے احمق سے تعبیر کیا ھے جیسا کہ امام عبد الرزاقؒ ( صاحب مصنف ابی شیبہ) نے حضرت عمر فاروقؓ کو احمق لکھا ھے, اور خود امام ذہبیؒ نے یہ بات نقل کی ھے! 

 ••• *باسمہ تعالی* •••
 *الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ بات کہ حضرت عمر فؔاروق اعظمؓ شان نبوت یا شان بتول کے سلسلے میں باادب نہیں تھے کسی رافضی کی فکر و سوچ ہوسکتی ھے ؛ در اصل امام ذھبیؒ نے اس بات کی تفصیل بیان کی ھے کہ جب حضرت علی و حضرت عباس رضی ﷲ عنہما حضرت عمرؓ کی خدمت میں میراث نبوی کے مطالبے کیلیے تشریف لائے تو حضرت عمر فاروقؓ نے کہا: کہ عباس آپ تو بھتیجے ( محمد صلی ﷲ علیہ وسلم) کی میراث سے اور اے علی! تم رفیقہء حیات کی جانب سے ان کے والد کے ترکے سے ان کا حصہ طلب کرنے ہوئے ہو( یعنی آپ رضی ﷲ عنہ طلب میراث میں اس رشتے کی وضاحت فرمارھے تھے جس کی بنا پر یہ دونوں بزرگ تشریف لائے تھے ) اب حضرت عمر فاروقؓ پر یہ الزام تراشی اور بہتان (کہ انہوں نے حضور اکرمؐ کا اسم گرامی نہ لیا اور فقط رشتہ ذکر کیا ) کسی بدعقل کی ذہنی سوچ ہوسکتی ھے ؛ کیونکہ منصب نبوت اور ذات نبوت کی تکریم و تعظیم حضرت عمر فاروق اعظمؓ سے زیادہ کون کرسکتا ھے اسکا اندازہ روافض یا شیعوں کی غلیظ سوچ میں کیسے آسکتا ھے!!! نیز یہ روایت نقل کرکے امام عبد الرزاق صنعانیؒ ( مصنف ابن ابی شیبہ کے مصنِف) نے حضرت عمرؓ کے متعلق خود نازیبا کلمات ادا کیے ہیں یعنی حضرت عمرؓ کو احمق کہا ھے کہ دیکہو! یہ ( عمر ) احمق کس طرح کہہ رہا ھے۔ اسکا جواب امام ذہبی نے لکہا ھے: کہ محترم عبد الرزاق! نازیبا کلمات تو آپ کہہ رھے ہیں کہ حضرت عمر کی شان میں بدتمیزی کر رھے ہیں ـ

 💟 *سیر اعلام النبلاء* 💟 

 قال العقيلي سمعت علي بن عبد الله بن المبارك الصنعاني يقول : كان زيد بن المبارك ، قد لزم عبد الرزاق ، فأكثر عنه ، ثم خرق كتبه ، ولزم محمد بن ثور ، فقيل له في ذلك ، فقال : كنا عند عبد الرزاق ، فحدثنا بحديث معمر ، عن الزهري ، عن مالك بن أوس بن الحدثان . . . الحديث الطويل فلما قرأ قول عمر لعلي والعباس : فجئت أنت تطلب ميراثك من ابن أخيك ، وجاء هذا يطلب ميراث امرأته ، قال عبد الرزاق : انظروا إلى الأنوك ، يقول : تطلب أنت ميراثك من ابن أخيك ، ويطلب هذا ميراث زوجته من أبيها ، لا يقول : رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال زيد بن المبارك : فلم أعد إليه ، ولا أروي عنه . قلت : هذه عظيمة ، وما فهم قول أمير المؤمنين عمر ، فإنك يا هذا لو سكت ، لكان أولى بك ، فإن عمر إنما كان في مقام تبيين العمومة والبنوة ، وإلا فعمر -رضي الله عنه- أعلم بحق المصطفى وبتوقيره وتعظيمه من كل متحذلق متنطع ، بل الصواب أن نقول عنك : انظروا إلى هذا الأنوك الفاعل -عفا الله عنه- كيف يقول عن عمر هذا ، ولا يقول : قال أمير المؤمنين -الفاروق- ؟ ! وبكل حال فنستغفر الله لنا ولعبد الرزاق ، فإنه مأمون على حديث رسول الله -صلى الله عليه وسلم- صادق.

 ٭ المصدر: سير أعلام النبلاء 
٭ المحدث: الإمام الذهبيؒ 
٭ الصفحة: 2266 
٭ الرقم: 2980 
٭ الطبع: بيت الأفكار الدولية، جدة، السعودية.

 🔖 *میزان الاعتدال* 🔖 

 امام ذھبیؒ نے اس روایت کو( جس میں حضرت عمرؓ کے متعلق امام عبد الرزاقؒ کا کلام ھے ) مرسل کہا ھے اور اس کی صحت سے لاعلمی کا اظہار کیا ھے اور فرمایا : کہ حضرت عمر فاروق اعظمؓ پر بے ادبی کا کوئی بھی الزام نہیں کیونکہ جس مسئلہ میراث کے بارے میں ان کا مذاکرہ چل رہا تہا اس 
میں ترکہ کی تقسیم سے متعلق رشتوں کی بات کر رھے تھے: ۩
 قلت: في هذه الحكاية إرسال، والله أعلم بصحتها، ولا اعتراض على الفاروق - رضي الله عنه - فيها فإنه تكلم بلسان قسمة التركات. 

 ٭ المصدر: ميزان الاعتدال 
٭ المحدث: الإمام الذهبيؒ 
٭ المجلد: 2 
٭ الصفحة: 611 
٭ الرقم: 5044 
٭ الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.

 🔮 *شیعیت سے رجوع* 🔮 

 امام عبد الرزاقؒ کے متعلق وارد ھے کہ ان میں معمولی سا تشیع تہا یعنی وہ آج کل کے شیعوں و روافض کی طرح نہ تھے ؛ بلکہ شیخینؓ ( حضرت صدیق اکبر و عمر فاروق اعظم ) کی افضلیت کے قائل تھے اور خود ان کے بقول روافض کافر ہیں , نیز ان کے متعلق لکہا گیا ھے: کہ حضرت نے اس معمولی سے تشیع سے بھی رجوع کرلیا تہا۔

 ◆ *تاريخ ابن عساكر* ◆ 

 كتب إلي أبو نصر عبد الرحيم بن عبد الكريم أنا أبو بكر البيهقي أنا أبو عبد الله الحافظ قال: سمعت أبا العباس قاسم بن القاسم السياري شيخ خراسان في عصره يقول: سمعت أبا مسلم البغدادي يقول: عبيد الله بن موسى من المتروكين تركه أبو عبد الل ه أحمد بن حنبل لتشيعه وقد عوتب أحمد بن حنبل على روايته عن عبد الرزاق فذكر أنه رجع عن ذلك،

 كتب إلي أبو طالب عبد القادر بن محمد وحدثنا أبو الحجاج يوسف بن مكي الفقيه عنه أنا أبو إسحاق إبراهيم بن عمر البرمكي نا أحمد بن جعفر القطيعي نا عبد الله بن أحمد بن حنبل قال: سمعت سلمة بن شبيب أبا عبد الرحمن يقول سمعت عبد الرزاق يقول:والله ما انشرح صدري قط أن أفضل عليا على أبي بكر وعمر رحم الله أبا بكر ورحم الله عمر ورحم الله عثمان ورحم الله عليا ومن لم يحبهم فما هو بمؤمن فإن أوثق عملي حبي إياهم رضوان الله عليهم ورحمته أجمعين. 

 أخبرنا أبو الفرج سعيد بن أبي الرجاء أنا أبو الفتح منصور بن الحسين وأبو طاهر أحمد بن محمود قالا أنا أبو بكر بن المقرئ حدثني محمد بن عبيد الله بن محمد بن الحسن بن أبي عبيد قال سمعت أحمد وعبد الله ابني الشرقي يقولان: سمعنا أبا الأزهر يقول: سمعت عبد الرزاق يقول: أُفَضِّلُ الشيخين بتفضيل عليٍّ إياهما على نفسه، ولو لم يفضلهما لم أفضلهما، كفى بي إزراء أن أحب عليا ثم أخالف قوله، 

 قال وأنا ابن عدي نا ابن أبي عصمة نا أحمد بن أبي يحيى قال سمعت أبا بكر بن زنجويه يقول سمعت عبد الرزاق يقول: الرافضيُّ كافرٌ.

 ٭ المصدر: تاريخ مدينة دمشق 
٭ المؤلف: الإمام ابن عساكر 
٭ المجلد: 36 
٭ الصفحة: 189 / 190 
٭ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.

 والله تعالي أعلم 

✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*

 6 ستمبر،2021

Saturday, September 4, 2021

حضرت سلمان فارسی کی عمر

▪️ *حضرت سلمان فارسیؓ کی عمر* ▪️

 مشہور ھے کہ حضرت سلمان فارسیؓ طویل العمر تھے یعنی ان کی عمر کے متعلق بیان کیا جاتا ھے کہ وہ ڈھائی سو یا تین سو سال کی عمر پاکر دنیا سے رخصت ہوئے ؛ لیکن امام ذھبیؒ نے اس بات پر بھروسہ نہیں فرمایا ھے ؛ ان کی تحقیق یہ ھے کہ حضرت سلمان فارسیؓ کی عمر لگ بھگ اسی سال ہوئی : 

 🔖 *سير أعلام النبلاء* 🔖 


 قال الواقدي: مات سلمان في خلافة عثمان بالمدائن، وكذا قال ابن زنجويه، وقال أبو عبيد وشباب في رواية عنه و غيرهما: توفي سنة ست و ثلاثين بالمدائن، وقال شباب في رواية أخري: سنة سبع، وهو وهم، فما أدرك سلمان الجمل و الصّفّين. قال العباس بن يزيد البحراني: يقول أهل العلم: عاش سلمان ثلاث مأة وخمسين سنة، فأما مأتان وخمسون، فلا يشكون فيه. قال أبو نعيم الأصبهاني: يقال: اسم سلمان: ما هويه، وقيل: ماية، وقيل بهبود بن بذخشان بن آذر جشيش من ولد منوجهر الملك، وقيل: من ولد آب الملك. يقال: توفي سنة ثلاث وثلاثين بالمدائن. قال: وتاريخ كتاب عتقه يوم الاثنين في جمادى الأولى مهاجر رسول الله صلى الله عليه وسلم. ومولاه الذي باعه عثمان بن أشهل القرظي اليهودي، وقيل: إنه عاد إلى أصبهان زمن عمر. وقيل: كان له أخ اسمه بشير وبنت بأصبهان لها نسل وبنتان بمصر، وقيل: كان له ابن اسمه كثير، فمن قول البحراني إلى هنا منقول من كتاب الطوالات لأبي موسى الحافظ. وقد فتشت، فما ظفرت في سنه بشئ سوى قول البحراني، وذلك منقطع لا إسناد له. ومجموع أمره وأحواله، وغزوه، وهمته، وتصرفه، وسفه للجريد، وأشياء مما تقدم ينبئ بأنه ليس بمعمر ولا هرم. فقد فارق وطنه وهو حدث، ولعله قدم الحجاز وله أربعون سنة أو أقل، فلم ينشب أن سمع بمبعث النبي صلى الله عليه وسلم ثم هاجر، فلعله عاش بضعا وسبعين سنة. وما أراه بلغ المئة. فمن كان عنده علم، فليفدنا. وقد نقل طول عمره أبو الفرج بن الجوزي وغيره. وما علمت في ذلك شيئا يركن إليه. روى جعفر بن سليمان: عن ثابت البناني، وذلك في " العلل " لابن أبي حاتم، قال: لما مرض سلمان، خرج سعد من الكوفة يعوده، فقدم، فوافقه وهو في الموت يبكي، فسلم وجلس، وقال: ما يبكيك يا أخي؟ ألا تذكر صحبة رسول الله؟ ألا تذكر المشاهد الصالحة؟. قال: والله ما يبكيني واحدة من ثنتين: ما أبكي حبا بالدنيا ولا كراهية للقاء الله. قال سعد: فما يبكيك بعد ثمانين؟ قال: يبكيني أن خليلي عهد إلي عهدا قال: " ليكن بلاغ أحدكم من الدنيا كزاد الراكب " وإنا قد خشينا أنا قد تعدينا. رواه بعضهم عن ثابت، فقال: عن أبي عثمان، وإرساله أشبه قاله أبو حاتم، وهذا يوضح لك أنه من أبناء الثمانين. وقد ذكرت في تاريخي الكبير أنه عاش مئتين وخمسين سنة، وأنا الساعة لا أرتضي ذلك ولا أصححه.

 ٭ المصدر: سير أعلام النبلاء 
٭ المحدث: الإمام الذهبيؒ 
 ٭ الصفحة: 1889 
٭ الرقم: 2315 
٭ الطبع: بيت الأفكار الدولية، الأردن. 

 والله تعالي أعلم 

 ✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

 4 ستمبر، ؁2021ء

Friday, September 3, 2021

بہترین رزق پانے اور برائیوں سے محفوظ رہنے کا نسخہ

▪️ *بہترین رزق پانے اور برائیوں سے محفوظ رہنے کا نسخہ* ▪️

 روایت میں ھے کہ جو شخص صبح کے وقت یہ دعا ( جو نیچے آرہی ھے ) پڑھ لے تو اس دن بہترین رزق سے نوازا جایئگا اور برائیوں سے محفوظ رہیگا۔ وہ دعا یہ ھے: مَا شَاءَ 
اللَّهُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.  
اس روایت کی تحقیق مطلوب ھے!!!


 ••• *باسمہ تعالی* ••• 
*الجواب وبہ التوفیق:*

 یہ روایت «ابن السنی» نے ٭عمل الیوم واللیلة٭ میں ذکر کی ھے؛ لیکن محقق بشیر محمد عؔیون نے اس کو غیر معتبر قرار دیا ھے؛ لہذا اس کی نسبت رسول اکرمؐ کی جانب نہ کی جائے۔  

﴿﴿﴿ حدثني عزرة بن عبد الدائم، حدثنا سليمان ابن ربيع النهدي، حدثنا كادح بن رحمة، عن أبي سعيد العبدي ( زوج أم سعيد) عن الحسن، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: ((مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ: مَا شَاءَ اللَّهُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ؛ رُزِقَ خَيْرَ ذَلِكَ الْيَوْمِ، وَصُرِفَ عَنْهُ شَرُّهُ، وَمَنْ قَالَهَا مِنَ اللَّيْلِ رُزِقَ خَيْرَ تِلْكَ اللَّيْلَةِ، وَصُرِفَ عَنْهُ شَرُّهَا﴾﴾﴾. 

 قال المحشي: في إسناده: كادح بن رحمة، قال عنه الأزدي: كذاب، وسليمان بن الربيع أحد المتروكين. 

 ٭ المصدر: عمل اليوم والليلة 
٭ المحدث: الحافظ ابن السنيؒ 
 ٭ الصفحة: 28 
٭ الرقم: 53 
٭ الطبع: مكتبة دار البيان، دمشق، الشام.

 والله تعالي اعلم

 ✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*

 3 ستمبر، ؁2021ء

غرباء و فقراء کی رعایت

▪️ *غرباء و فقراء کی رعایت* ▪️

 ایک روایت بیان کی جاتی ھے: کہ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ حضرت زبیر بن عوامؓ کے ذبیحہ خانے آتے تھے اور اس وقت مدینہ منورہ میں بس یہی ایک ذبیحہ خانہ تہا , آپؓ کے پاس درہ ہوتا تہا اگر آپؓ کسی آدمی کو مسلسل دو دن گوشت خریدتا دیکہتے تو اسے درے لگاتے اور کہتے: کیا تم اپنے پیٹ کو اپنے پڑوسی اور کسی چچازاد بہائی ( غریب مسلمان ) کی خاطر سمیٹ نہیں سکتے؟

 اس روایت کی تحقیق مطلوب ھے:

 ••• *باسمہ تعالی* ••• 
*الجواب وبہ التوفیق:*  

یہ
 روایت متعدد کتب میں ھے اور امام علامہ ابن الجوزیؒ نے  "مناقب امیر المومنینؓ" میں ذکر کی ھے: 

 ☪️ عن ابن عمر قال: كان عمر يأتي مجزرة الزبير بن العوام، بالبقيع، ولم يكن بالمدينة مجزرة غيرها، فيأتي ومعه بالدّرة، فإذا رأي رجلا اشتري لحما يومين متتابعين، ضربه بالدرة، وقال: 《 ألا طويت بطنك يومين 》. 
 ٭ المصدر: مناقب امير المومنين عمر بن الخطابؓ  
٭ المؤلف: الإمام ابن الجوزيةؒ 
٭ الصفحة: 79 
٭ الطبع: دار ابن خلدونؒ، إسكندرية، مصر.

 💟 *تهذيب الآثار* 💟 

 امام ابن جرير طؔبریؒ نے تہذیب الآثار میں اس طرح کی روایت نقل کی ھے:

   حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : لَقِيَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَمَعِي لَحْمٌ اشْتَرَيْتُهُ بِدِرْهَمٍ ، فَقَالَ : مَا هَذَا ؟ فَقُلْتُ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ، اشْتَرَيْتُهُ لِلصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ فَقَالَ عُمَرُ : لَا يَشْتَهِي أَحَدُكُمْ شَيْئًا إِلَّا وَقَعَ فِيهِ ، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا ، ثُمَّ قَالَ : لَوْلَا يَطْوِي أَحَدُكُمْ بَطْنَهُ لِجَارِهِ وَابْنِ عَمِّهِ ؟ ثُمَّ قَالَ : أَيْنَ تَذْهَبُ عَنْكُمْ هَذِهِ الْآيَةُ : { أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا } ؟ 

 ( المصدر: تهذيب الآثار 
( المحدث: أبوجعفر ابن جرير الطبريؒ 
( المجلد: 2 
( الصفحة: 718 
( الرقم: 1038 
( الطبع: مطبعة المدني، المؤسسة السعودية، القاهرة، مصر.


 🔖 *مسند الفاروقؓ* 🔖

 امام حؔافظ ابن کثیرؒ نے " مسند فاروق" میں یہ روایت ذکر کی ھے اور محشی مؔحقق امام بن علی بن امام نے اس روایت كي سند کو ضعیف لکہا ھے: 

 قال ابن ابى الدنيا: حدثنا اسماعيل بن ابى الحارث، حدثنا يحيى بن اسماعيل، حدثنا عبد الله بن جعفر، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: كان عمر رضى الله عنه ياتى مجزرة الزبير بن العوام بالبقيع، ولم يكن بالمدينة مجزرة غيرها، فيأتى معه بالدرة، فاذا راى رجلا اشترى لحما يومين متتابعين، ضربه بالدرة،وقال: الا طويت بطنك لجارك وابن عمك.

 ٭ المصدر: مسند الفاروقؓ 
٭ المحدث: الحافظ ابن كثير الدمشقيؒ 
 ٭ المحقق: إمام بن علي بن إمام 
٭ المجلد: 1 
٭ الصفحة: 397 
٭ الرقم: 252 
٭ الطبع: دار الفلاح للبحث العلمي وتحقيق التراث، الفيُّوم، مصر.

  🕯️ *خلاصۂ کلام* 🕯️

 یہ بات کہ حضرت عمرؓ مسلسل دو دن گوشت کے خریدار کو سرزنش فرماتے تھے درست بات ھے ؛ لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مدینہ میں ایک ہی گوشت کی دوکان تہی اور گوشت کم تہا , سارے اہل مدینہ کو کفایت نہ کرتا تہا تو یہ آپؓ کی حسن تدابیر میں سے ھے کہ آپ نے گوشت کی پورتی کیلیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ایک ہی شخص لگاتار دو دن گوشت کی خریداری نہ کرے دیگر لوگوں کا بھی خیال رکھے۔ 

 وﷲ تعالی اعلم

 ✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

 3ستمبر، 2021؁ء