Monday, December 30, 2019

حضرت علی آب فردوس سے وضو

▪ *حضرت علیؓ اور آبِ فردوس سے وضو*▪

حضرت علیؓ کی منقبت میں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ھے خصوصا شیعی علماء اپنی محافل و مجالس میں اس کو بہت شد و مد سے بیان کیا کرتے ہیں: کہ ایک بار آقائے کریمؐ عصر کی نماز پڑھا رھے تھے اور آپؐ نے پہلی رکعت کے رکوع کو بہت طویل کردیا حتی کہ مقتدیوں کو لگنے لگا کہ شاید آپؐ کو سہو ہوگیا ھے؛ لیکن آپؐ نے پھر رکوع سر اٹھالیا اور سمعﷲ لمن حمدہ کہا پھر نماز کو مختصرا مکمل فرمایا, پھر آپؐ نے رخ انور مصلیوں کی جانب کیا, اور اپنی نگاہ پہلی صف پر اس طرح ڈالی جیسے کسی کی تلاش ہو, پھر دوسری صف کو اسی طرح نظروں سے ٹٹولا اور پھر تیسری صف کو اور فرمایا: مجہے میرے چچازاد بہائی علی نظر نہیں آرھے کہاں ہیں وہ؟ حضرت علی کرمﷲ وجہہ نے سب سے آخری صف سے عرض کیا : جی حضور میں یہاں ہوں! ارشاد ہوا: علی میرے نزدیک آؤ! حضرت علی تمام مہاجر و انصار مقتدیوں کی گردن پھلانگتے ہوئے آگے آئے حضورؐ نے فرمایا: علی! تم پہلی صف سے پیچھے کیوں رہ گئے؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا: میں نماز میں ہی تہا اور تکبیر اولی بہی پاچکا تہا؛ لیکن  مجھے وضو میں شک گزرا کہ وضو ہے یا نہیں تو میں گھر گیا, اور حسن و حسین کو آواز دی لیکن کوئی جواب نہ ملا تبہی اچانک مجہے ایک غیبی آواز سنائی دی, ابو الحسن! ذرا ادھر متوجہ ہوئیے! میں آواز  کی سمت متوجہ ہوا تو کیا دیکہتا ہوں کہ سونے کا ایک بڑا پیالہ ہے اس میں پانی تہا اور ایک تولیہ تہی, میں نے تولیہ لیکر کندھے پر رکہی, اور پانی کی طرف اشارہ کیا تو پانی خود بخود میری ہتیلیوں پر بہنے لگا, میں وضو سے فارغ ہوا, مجہے علم نہیں : کہ کس نے وہ برتن اور تولیہ رکہا تہا, حضور انور یہ سن کر مسکرائے اور علی کو سینے سے لگایا, اور پیشانی کا بوسہ لیا, پھر فرمایا: میں تمکو خوشخبری سناؤں ؟ کہ وہ پانی سے بہرا برتن جنت سے آیا تہا اور پانی و رومال جنت الفردوس سے آیا تہا, اور جس نے تمکو نماز کی تیاری کرائی وہ حضرت جبرئیلؑ تہے, اور جس نے تمکو تولیہ دی وہ میکائیلؑ تہے, قسم ھے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمدؐ کی جان ھے : اسرافیلؑ پہلی رکعت میں میرا گھٹنہ پکڑے رھے (جسکی وجہ سے رکوع طویل ہوا) حتی کہ تم وضو بناکر میرے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے ,کون ھے جو مجہے ملامت کریگا تجھ سے محبت کرنے کی وجہ ؛ علی! ﷲ اور فرشتے آسمانوں میں تم سے محبت رکہتے ہیں.


 اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ھے!!!!

•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*

   یہ واقعہ  اؔمام "ابن الجوزی" نے ٭موضوعات٭ میں ذکر فرماکر اسکے متعلق کہا:  یہ من گھڑت ھے؛ لہذا اسکے بیان و نشر سے احتراز ضروری ھے۔


  🔹 *الموضوعات میں*

★ أنبأنا محمد بن عبد الباقي البزارقال انبانا هناد بن ابراهيم النسفي قال، انبانا ابو الحسن علي بن يوسف بن محمد بن حجاج الطبري، قال حدثنا ابو عبد الله الحسين بن جعفر الجرجاني، قال حدثنا اسماعيل بن إسحاق بن سليمان الضبي،قال حدثنا محمد بن علي الكفرتوني قال حدثني حميد الطويل،عن أنس بن مالك،قال:  صلَّى بنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم صلاةَ العصرِ ، فأبطأ في ركوعِه في الرَّكعةِ  الأولَى حتَّى ظننَّا أنَّه قد سها وغفل ، ثمَّ رفع رأسَه : فقال : سمِع اللهُ لمن حمِده ، ثمَّ أوجز في صلاتِه وسلَّم ، ثمَّ أقبل علينا بوجهِه ، ثمَّ  جثَا على رُكبتَيْه ، ثمَّ رمَى بطرفِه إلى الصَّفِّ الأوَّلِ يتفقَّدُ أصحابَه ، ثمَّ الصَّفِّ الثَّاني ثمَّ الصَّفِّ الثَّالثِ يتفقَّدُهم رجلًا رجلًا ، ثمَّ قال  : ما لي لا أرَى ابنَ عمِّي عليَّ بنَ أبي طالبٍ ، فأجابه عليٌّ من آخرِ الصُّفوفِ : لبَّيْك يا رسولَ اللهِ ، فقال : ادْنُ منِّي يا عليُّ ، فما زال  يتخطَّى أعناقَ المهاجرين والأنصارِ حتَّى دنا منه ، فقال : ما الَّذي خلَّفك عن الصَّفِّ الأوَّلِ ؟ قال : شككتُ أنِّي على طُهرٍ ، فناديتُ : يا حسنُ ، يا حسينُ يا فضَّةُ ! فلم يجبْني أحدٌ ، فإذا بهاتفٍ يهتفُ من ورائي : يا  أبا الحسنِ التفِتْ فالتفتُّ ، فإذا أنا بسَطْلٍ من ذهبٍ فيه ماءٌ وعليه منديلٌ ، فأخذتُ المنديلَ ، فوضعتُه على منكبي ، وأومأتُ إلى الماءِ ، فإذا الماءُ يفيضُ على كفِّي ، فتطهَّرتُ ، ولا أدري من وضع السَّطْلَ والمنديلَ ؟ فتبسَّم رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في  وجهِه ، وضمَّه إلى صدرِه ، وقبَّل بين عينَيْه ؛ ثمَّ قال : ألا أبشِّرُك ؟ إنَّ السَّطلَ من الجنَّةِ ،  والماءَ والمنديلَ من الفردوسِ الأعلَى ، والَّذي هيَّأك للصَّلاةِ جبريلُ ، والَّذي مندَلك ميكائيلُ ، والَّذي نفسُ محمَّدٍ بيدِه ما زال إسرافيلُ قابضًا بيدِه على رُكبتي حتَّى لحقتَ معي الصَّلاةَ ، فيلومني أحدٌ على حبِّك ، واللهُ وملائكتُه يحبُّونك من فوقِ السَّماءِ.

• نام کتاب: الموضوعات
• المؤلف: ابوالفرج ابن الجوزيؓ
• مجلد: 1
• صفحة: 309
• درجة: موضوع
• طبع: المكتبة السلفية، بالمدينة المنورة.


▪ *كفاية الطالب ميں*

یہ واقعہ شؔیعی کتاب " کفایت الطالب فی مناقب علی بن ابی طالبؓ " میں بہی مذکور ھے:

* نام کتاب: كفاية الطالب
*  نام مؤلف: محمد يوسف الگنجي،
* صفحة: 289
* طبع: دار إحياء التراث، طهران، إيران.

▫ *بحر الدموع ميں*

اؔمام «عبد الرحمن ابن الجوزی» نے اس واقعہ کو " بحر الدموع" میں حضرت ابن عباسؓ سے بلا کسی سند نقل فرمایا ھے:

+ نام کتاب: بحر الدموع
+ مؤلف: ابو الفرج ابن الجوزيؒ
+ الصفحة: 138
+ الطبع: دار الصحابة للتراث، طنطا.


⚠ *حاصل کلام*:

سیدنا حضرت علی کرمﷲ وجہہ کے متعدد فضائل روایات مستندہ میں موجود ہیں انکو پڑھا اور بیان کیا جائے؛ سوال میں مذکورہ واقعہ غیر مستند ھے اسکو بیان نہ کیا جائے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

۳۰ دسمبر: ؁ء۲۰۱۹

Wednesday, December 25, 2019

بھوکے کو کھلانے کی فضیلت

• *بھوکے کو کہلانے کی فضیلت* •

 میں گزشتہ دنوں ٹیلی ویژن پر ایک پروگرام دیکھ رہا تہا اس میں ایک اسکالر کہہ رھے تھے: کہ بھوکے کو کہانا کہلانے کا اجر و فضیلت کعبہ کی تعمیر سے افضل ھے.

اس مقولہ میں کتنی صداقت ھے اس پر روشنی ڈالدیں!!!

•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 سوال میں معلوم کردہ بات " کہ بہوکے کو کہانا کہلانا بیت ﷲ کی تعمیر سے افضل ھے من گھڑت اور خود تراشیدہ ھے, اہل اسلام کی کتب سے اسکا تعلق نہیں۔ چند مستند کتب میں اسکا رد مذکور ھے:

▪ الفوائد الموضوعة ميں ▪

※ وحديث: أن إبراهيم عليه السلام لما بني البيت صلي في كل ركن ألف ركعة، فأوحي الله إليه: أفضل من هذا سدُّ جوعة وستر عورة.
قال ابن تيمية: هذا كذب ظاهر، ليس من كتب المسلمين.

( ترجمة) یہ حدیث کہ حضرت ابراہیمؑ جب کعبہ شریف کی تعمیر سے فارغ ہوگئے تو انہوں نے اسکے ہر رکن میں ہزار رکعات ادا کیں تو خدا تعالی کی وحی آئی : کہ اس سے زیادہ افضل عمل کسی کی بہوک مٹانا اور کسی برہنہ کو ستر چھپانے کا سامان مہیا کردینا ھے۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے کہا: یہ صاف اور نرا جہوٹ ھے یہ مضمون مسلمانوں کی کتابوں کا ہرگز نہیں۔

÷ نام کتاب: الفوائد الموضوعة
÷ نام مؤلف:  الشيخ مرعي بن يوسف الكرمي المقدسيؒ
÷ الصفحة: 119
÷ حديث: 142
÷ الدرجة: موضوع
÷ الطبع: دار الوراق، الرياض.

▫ تذكرة الموضوعات ميں ▫

"تذکرہ الموضوعات" میں ؞علامہ طاہر پٹنیؒ؞ نے بہی اس روایت کو من گھڑت لکہا ھے اور ابن تیمیہؒ کی موافقت کی ھے:

★ لما بني ابراهيم عليه السلام البيت، صلي في كل ركن الف ركعة، فاوحي الله اليه: يا ابراهيم! كانك سترت عورة أو أشبعت جوعة، قال ابن تيمية: موضوع، وهو كما قال.

٭ المصدر: تذكرة الموضوعات
٭ المؤلف: العلامة طاهر پٹنیؒ
٭ الصفحة:67
٭ الدرجة: موضوع
٭ الطبع: ادارة الطباعة المنيرية، قاهرة.

🔹 تنزيه الشريعة ميں 🔹

عؔلامہ  کنانیؒ نے بہی اس روایت کو ابن تیمیہؒ کے حوالہ سے من گھڑت قرار دیا ھے:

* نام کتاب: تنزيه الشريعة
* نام مؤلف: ابو الحسن الكنانيؒ
* جلد: 2
* صفحة: 144
* حديث نمبر: 64
* طبع:  دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

🔘 *ایک اور روایت*

 اسی سے ملتی جلتی ایک اور روایت عوام میں زباں زد ھے: کہ بہوکے کے منہ میں ایک لقمہ رکہنا ہزار مساجد بنانے سے بہتر ھے, یہ روایت بہی حدیث نہیں ھے:

♠  ( لقمة في بطن الجائع أفضل من عمارة ألف جامع )

 الظاهر أنه ليس بحديث .

. المصدر: كشف الخفاء
. المؤلف: العجلونيؒ
. المجلد: 2
. الصفحة: 169
. الرقم: 2055
. الطبع: مكتبة العلم الحديث.

⚠ *فائدہ* ⚠

 ماقبل میں معلوم کردہ الفاظ روایت کے متعلق بتایا جاچکا کہ وہ الفاظ حدیث نہیں ہیں؛ تاہم اسکا مطلب یہ بہی نہیں کہ بہوکوں کو کہانا کہلانے کا کوئی اجر یا فضیلت نہیں ھے ؛ بلکہ متعدد صحیح روایات اس باب میں موجود ہیں۔

__[نوٹ]__

ایک روایت یہ بہی ھے: کہ سب سے افضل عمل بہوکے کو کہانا کہلانا ھے: اس روایت کو امام ترمذیؒ نے " علل " میں ذکر کیا اور امام بخاریؒ سے اس کی سند کے متعلق سوال کیا: امام بخاریؒ نے کہا: اس میں "زربی" نامی راوی ہیں جو مقارب الحدیث ہیں یعنی انکی روایت لکھی جاسکتی ھے؛ لیکن کتاب کے حاشیہ میں محقق کا قول مذکور ھے کہ مذکورہ راوی کے متعلق امام بخاری کا قول " فیہ نظر" ہے۔

۝ حدثنا ابوعبيدة بن ابي السفر احمد بن عبد الله الهمداني، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، قال: حدثنا زربي عن أنس بن مالك قال سمعته يقول: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم:
ما من عملٍ أفضلُ من إشباعِ كبدٍ جائعٍ.

سألت محمدا عن هذا الحديث: قلت له: كيف زربي؟ قال هو مقارب الحديث.

٭ المصدر: علل الترمذي الكبير
٭ المؤلف: ابوعيسي الترمذيؒ
٭ المحقق: السيد صبحي وغيره
٭ الصفحة: 307
٭ الرقم: 571
٭ الطبع: دار عالم الكتب، بيروت، لبنان.

▪ الدر الملتقط میں▪

۩ امام صغانیؒ نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ھے.

= نام کتاب: الدر الملتقط
= نام مؤلف: الصغانيؒ
= صفحة: 36
= حدیث نمبر: 53
= طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

➕ اللآلي المصنوعة ميں ➕

۞ امام سیوطیؒ نے بہی اس روایت کو ذکر فرماکر اس کے متعلق ابن حبانؒ کا کلام نقل کیا: کہ یہ روایت «زربی عن انسؓ» ھے اور زؔربی منکَر راوی ہیں جو حضرت انسؓ سے بے اصل روایات ذکر کرتے ہیں؛ لیکن سیوطیؒ نے کہا: اسکو ترمذی و ابن ماجہ نے بہی روایت کیا ھے۔

* نام کتاب: اللآلي المصنوعة
* نام محدث: السيوطيؒ
* مجلد: 2
* صفحة: 87
* طبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.

🔹 موضوعات ابن جوزی 🔹

 "امام ابن الجوزیؒ" نے بھی ابن حبانؒ کے حوالے سے وہی بات نقل کی ھے جو سیوطیؒ نے کی ھے۔

÷ المصدر: الموضوعات
÷ محدث: ابن الجوزيةؒ
÷ مجلد: 2
÷ الصفحة: 172
÷ الطبع: المكتبة السلفية، المدينة المنورة.

🌷تذكرة الموضوعات🌷

 مشہور ہندی «محدث عؔلامہ طاہر پٹنی«
نے اس روایت کے متعلق لکہا: اسکے شواہد ہیں؛ لہذا یہ روایت حسن درجہ کو پہونچ جاتی ھے۔

« ما من عمل افضل من اشباع كبد جائعة» قلت: له شواهد تقتضي بحسنه.

+ المصدر: تذكرة الموضوعات
+ المحدث: الشيخ طاهرؒ
+ الصفحة: 67
+ الطبع:  ادارة الطباعة المنيرية، قاهرة.

💠 النكت على الموضوعات💠

  امام سیوطیؒ اس روایت کو " النکت" میں زیر  بحث لائے ہیں اور انہوں نے بہی یہی کہا ھے: کہ اس روایت کے شواہد موجود ہیں جسکی بنا پر یہ روایت حسن درجہ حاصل کرلیتی ھے۔

 « ما من عملٍ أفضلُ من إشباعِ كبدٍ جائعةٍ»

الراوي : أنس بن مالكؓ
المحدث : السيوطيؒ
المصدر : النكت على الموضوعات
الصفحة: 232
 الرقم: 200
 درجة : له شواهد كثيرة تقضي بحسنه.
طبع: دار مكة المكرمة، مصر.

🔰 تنزيه الشريعة ميں🔰

امام ابو الحسن کنانیؒ نے بھی اس روایت پر کلام فرماتے ہوئے لکہا : کہ اسکے شواہد موجود ہیں۔

٭ المصدر: تنزيه الشريعة
٭ المحدث: ابو الحسن الكنانيؒ
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 137
٭ الرقم: 32
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


💎  الترغيب والترهيب ميں💎

اؔمام منذریؒ نے اس روایت کو ذکر فرماکر سکوت اختیار کیا یعنی اس کی تضعیف نہیں فرمائی ھے:

% نام کتاب: الترغیب والترھیب
% محدث: ذكي الدين المنذریؒ
% جلد: 2
% صفحة: 36
% رقم: 15
% طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

➖ خلاصہ کلام ➖

بھوکے کو کہانا کہلانا افضلین عمل ھے اس بات کو بیان کیا جاسکتا ھے؛ تاہم یہ کہنا کہ یہ عمل مساجد و کعبہ کی تعمیر و بنا سے بھی افضل ھے ان الفاظ میں روایت موجود نہیں ہیں۔


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
26 دسمبر: 2019؁ء

الو پرندہ کے متعلق

• *الو پرندہ کے متعلق* •

ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ امام حضرت علی رضاؒ فرماتے ہیں : کہ الو حضرت رسول خداؑ کے زمانے میں گھروں اور محلوں میں رہتا تہا اور جب کوئی انسان کچھ کھا رہا ہو تو اسکے سامنے آکر بیٹھ جاتا اور لوگ بھی اسکو کچھ نہ کچھ کھانے کو دیتے تھے وہ اسے کھاکر پھر اڑجاتا تہا, لیکن جب "امام حسینؓ" شہید ہوئے تو اس نے آبادیوں کو چھوڑ دیا اور ویرانے پہاڑوں اور صحراؤں کو بسالیا اور کہنے لگا: تم بدترین قوم ہو؛ کیونکہ تم نے اپنے نبی کے فرزند کو شہید کردیا مجہے اب تم پر بھروسہ نہیں رہا۔

( کامل الزیارات, ص: 390)

اسکی کیا حقیقت ھے؟

•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  الو پرندے کے متعلق جو بات سوال میں مذکور ھے اسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ھے؛ کیونکہ مذکورہ کتاب " کامل الزیارت" شؔیعی کتاب ھے نیز اس میں جابجا من گھڑت فضائل وغیرہ بھرے پڑے ہیں۔
  اور الو اپنی تخلیق کے وقت سے ہی جنگلوں بیابانوں پہاڑوں میں ہی رہتا ھے اسکا شہادت حسینؓ یا واقعہ کربلا سے کوئی تعلق نہیں۔

▪ *کامل الزیارات کی عبارت*

۩ حدثني حكيم بن داود بن حكيم، عن سلمة بن الخطاب البراوستاني عن الحسين بن علي بن صاعد البربري - قيماً لقبر الرضا (عليه السلام) -، قال: حدثني أبي، قال: دخلت على الرضا (عليه السلام) فقال لي: ترى هذه البوم ما يقول الناس، قال: قلت جعلت فداك جئنا نسألك، قال: فقال: هذه البومة كانت على عهد جدي رسول الله (صلى الله عليه وآله) تأوي المنازل والقصور والدور، وكانت إذا أكل الناس الطعام تطير وتقع أمامهم فيرمى إليها بالطعام وتسقى وترجع إلى مكانها، فلما قتل الحسين (عليه السلام) خرجت من العمران إلى الخراب والجبال والبراري، وقالت: بئس الأمة أنتم، قتلتم ابن بنت نبيكم ولا آمنكم على نفسي.

• نام کتاب: كؔامل الزيارات
• مؤلف: ابن قولويه
• صفحة: 212
• رقم: 282
• طبع: مؤسسة دار الحجة، قُم، إيران.

⚠ *شیعی نقطۂ نظر میں*


اس روایت کے متعلق خود شیعی محققین کا کہنا ھے:کہ یہ غیر مقبول اور غیر ثابت ھے۔

دیکھئے: المكتبة الحسينية المقدسة، مركز الرصد العقائدي.


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
25 دسمبر: 2019؁ء

Tuesday, December 24, 2019

بیٹی کے متعلق موسی کا مکالمہ

• *بیٹی کے متعلق حضرت موسیؑ اور باری تعالی کا مکالمہ* •

حضرت موسیٰؑ نےﷲ تعالیٰ سے پوچھا: یاﷲ!  جب آپ اپنے بندے پر مہربان ہوتے ہیں تو کیا عطا کرتے ہو..تو ﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
اگر شادی شدہ ہو تو بیٹی عطا کرتا ہوں. حضرت موسیٰؑ نے پھر کہا. یاﷲ! اگر زیادہ مہربان ہو تو؟ ﷲ تعالیٰ نے پھر فرمایا. تو میں دوسری بھی بیٹی عطا کرتا ہوں. حضرت موسیٰ نے پھر فرمایا. یا اٙللّٰہ اگر سب سے زیادہ بہت زیادہ مہربان ہوتے ہو تو پھر؟ تو اٙللّٰہ تعالیٰ نے پھر فرمایا. ٰ اے موسیٰ میں تیسری بھی بیٹی عطا کرتا ہوں. اٙللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ جب میں اپنے بندے کو بیٹا عطا کرتا ہوں. تو اس بیٹے کو بولتا ہوں جاؤ  اور اپنے باپ کا بازو بنو. اور جب بیٹی عطا کرتا ہوں. تو مجھے اپنی خُدائی کی قسم کہ میں اس کے باپ کا بازو خود بنوں گا.

بیٹی ﷲ کی رحمت ہوتی ہے۔


یہ پوسٹ فیس بک اور واٹس ایپ پر بہت نشر ہورہی ھے اسکی کیا حقیقت ھے؟

•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*

   حضرت موسیؑ کا خدا تعالی سے یہ مکالمہ کسی کتاب میں مذکور نہیں؛ اسکے الفاظ اس قدر رکیک ہیں کہ ایک عام انسان بہی اس سے بہتر انداز میں  گفتگو کرسکتا ھے جبکہ حضرت موسیؑ تو ایک جلیل القدر پیغمبر ہیں جنکی زبان عالی سے اتنا لچر کلام صادر ہو ممکن ہی نہیں,

🔹 سوال میں مذکور دوسرا حصہ کہ میں جب بیٹا عطا کرتا ہوں تو اسکو باپ کا بازو بناتا ہوں اور بیٹی کے باپ کا خود بازو و مددگار بن جاتا ہوں اسکے متعلق " اؔبومعاویہ مازن بن عبد الرحمن البحصلی البیروتی" کا کہنا ھے: اسکی کوئی اصل نہیں یہ من گھڑت بات ھے؛ لہذا ان باتوں کو سچ جاننا یا ان کو نشر و بیان کرنا بالکل درست نہیں۔


۞ إن الله ينفخ في الولد فيقول له:اذهب فأنت عون لأبيك؛ وينفخ في البنت فيقول لها: اذهبي وأنا عون لأبيك.

قال ابو معاوية البيروتي: يُذكَر عند ولادة البنت، ولا أصل له.

٭ المصدر: أحاديث شائعة لا يجوز نسبتها الي النبيﷺ
٭ المؤلف: أبومعاوية
٭ الصفحة: 16
٭ الرقم: 14
٭ الطبع:  غير موجود.

واللہ تعالی اعلم
✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
24دسمبر: ؁2019ء

مسجد میں دنیوی باتیں

• *مسجد میں دنیوی باتیں*•

ایک مسجد میں ایک اشتہار چسپاں دیکہا: کہ مسجد میں دنیوی باتیں کرنا منع ہیں؛ کیونکہ مسجد میں دنیوی بات کرنا نیکیوں کو ایسے کہاتا ھے حیسے آگ لکڑی کو کہاجاتی ھے نیز اسی اشتہار میں ایک حدیث یہ بہی درج تہی: کہ جب کوئی مسجد میں بات کرتا ھے تو فرشتے اس سے کہتے ہیں: اے اللہ کے ولی خاموش ہوجا! پھر بہی نہ رکے تو کہتے ہیں: اے خدا کے مبغوض بندے خاموش ہوجا! اگر تب بہی نہیں رکتا تو کہتے ہیں: خاموش ہوجا! تجھ پر اللہ کی لعنت ہو! مزید یہ کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق نے مسجد نبوی میں دو لوگوں کو باتیں کرتے دیکہا تو ان سے معلوم کیا تم کہاں کے ہو؟ انہوں نے کہا: طائف سے, حضرت نے فرمایا: اگر تم مدینہ منورہ سے ہوتے تو تمہاری پٹائی لگاتا ۔

معلوم یہ کرنا ھے: کہ مسجد میں دنیوی گفتگو کی وجہ سے فرشتے لعنت کی دعا کرتے ہیں کیا یہ روایت  درست ھے؟!!

•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*

اس سوال میں تین باتیں ہیں ہم بالترتیب ان کو بیان کرینگے:

1) مسجد میں دنیوی گفتگو نیکیوں کو ایسے کہاتی ھے جس طرح آگ لکڑیوں کو کہاجاتی ھے۔ اس روایت کو علامہ عراقی و ملا علی قاری وغیرہ نے بے اصل بتایا ھے :

★ «الْكَلَامُ فِي الْمَسْجِدِ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ  الْحَطَبَ»  لم اقف علی اصل۔

÷ نام کتاب: المغنی عن حمل الاسفار
÷ مؤلف: العراقیؒ
÷ الصفحة: 107
÷ الرقم: 410
÷ الدرجة : لا اصل لہ
÷ الطبع: مكتبة طبرية، رياض.

▫ اسی طرح ملا علی قاریؒ نے بہی اس روایت کے متعلق کہا: یہ روایت ملتی نہیں ھے۔

* نام کتاب: المصنوع
* نام محدث: ملا علي القاريؒ
* صفحة : 92
* نمبر: 109
* طبع : مكتبة المطبوعات الاسلامية، حلب، الشام.

2) دوسری بات:

دنیوی گفتگو کرنیوالے پر فرشتے لعنت بہیجتے ہیں یہ روایت مرفوعا " ابن الحاج مالکی". نے -المدخل- میں بلا کسی سند ذکر کی ھے ؛ نیز دیگر کتب بہی اس روایت کے ذکر سے ساکت ہیں؛ لہذا اس روایت کو بیان کرنے و نشرنے میں توقف کیا جائے۔

🔰 *المدخل کی عبارت*

وروي عنه ايضا عليه الصلاة والسلام: انه قال: إذَا أَتَى الرَّجُلُ الْمَسْجِدَ فَأَكْثَرَ مِنْ الْكَلَامِ تَقُولُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ : اُسْكُتْ يَا وَلِيَّ اللَّهِ ، فَإِنْ زَادَ تَقُولُ : اُسْكُتْ يَا بَغِيضَ اللَّهِ ، فَإِنْ زَادَ تَقُولُ : اُسْكُتْ عَلَيْكَ لَعْنَةُ اللَّهِ }.

٭ المصدر: المدخل
٭ المؤلف: ابن الحاج المالكيؒ
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 227
٭ الطبع: مكتبة دار التراث، قاهرة،مصر.

3) تیسری بات:

مسجد میں گفتگو کرنیوالوں کو حضرت عمر فاروقؓ نے ڈانٹا اور سرزنش کرنے کی بات کہی اسکا ذکر بخاری شریف میں ھے:


 عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : " كُنْتُ قَائِمًا فِي المَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ ، فَجِئْتُهُ بِهِمَا، قَالَ: مَنْ أَنْتُمَا - أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا؟ - قَالاَ: مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ ، قَالَ: لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ البَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا، تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " .

% نام کتاب: بخاری
% جلد: 1
% صفحہ: 138
% نمبر حدیث: 470
% طبع: الطاف اینڈ سنز کراچی پاکستان۔

⚠ _الحاصل_

 مسجد، ایک پاکیزہ و مقدس مقام ہے، مسجد عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے۔ مسجد میں دنیاوی و سیاسی باتیں کرنا اس کی حرمت و تقدس کے منافی ہے  
اور اسی طرح کی لایعنی فضولیات باتوں پر حضرت عمر فاروقؓ کی ڈانٹ والا واقعہ ھے۔


لیکن  اگر کوئی مسجد میں نماز وغیرہ عبادت کے لئے آئے اور پھر کسی سے مباح گفتگو کی ضرورت پیش آجائے تو ایسے طریقے پر بات کرلینے میں حرج نہیں جس سے دوسروں کی عبادت میں خلل نہ ہو۔ مسجد میں مباح اور غیر لا یعنی گفتگو کرنے کی گنجائش حدیث مبارکہ سے ملتی ھے:

※ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ : قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَكُنْتَ تُجَالِسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ . كَثِيرًا كَانَ لَا يَقُومُ مِنْ مُصَلَّاهُ الَّذِي يُصَلِّي فِيهِ الصُّبْحَ أَوْ الْغَدَاةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَإِذَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ قَامَ وَكَانُوا يَتَحَدَّثُونَ فَيَأْخُذُونَ فِي أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ فَيَضْحَكُونَ وَيَتَبَسَّمُ .

اس روایت میں نبی کریمؑ اور صحابہؓ کی مسجد میں گفتگو اور خوش طبع بات کا ذکر ھے نیز مسکراہٹ و تبسم کا بہی ذکر ھے۔

÷ نام کتاب: صحیح مسلم
÷ جلد: 2
÷ صفحة : 538
÷ حدیث نمبر: 1524
÷ طبع: مكتبة البشري، كراچي.


 ▪ لیکن بالقصد دنیاوی گفتگو کے لئے مسجد میں بیٹھنا، جائز نہیں۔ اور مسجد میں فحش اور منکر بات تو کسی حال میں جائز نہیں؛ اسکی بابت بہی روایت میں وعید وارد ھے:


🔘  عن عبدﷲ بن عمرؓ{ :  سیکون  في آخر الزمان قوم یکون حدیثھم فی مساجدھم ليس لله بهم من حاجة } .

( ترجمہ) آخر زمانے میں ایسے لوگ ہونگے جو مساجد میں گفتگو کیا کرینگے اور ﷲ کو ان کی کوئی ضرورت نہ ہوگی۔

٪ نام کتاب: صحیح ابن حبان
٪ جلد: 15
٪ صفحہ: 163
٪ حدیث نمبر: 6761
٪ طبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.



☪ *مستدرک حاکم میں*

 یہی وعید جو بے جا اور لا یعنی گفتگو کے سلسلے میں وارد ھے اسکو مستدرک میں بہی حاکم نے بسند صحیح ذکر کی ھے:

۩ عن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يأتي على الناس زمان يتحلقون في مساجدهم وليس همتهم إلا الدنيا ، ليس لله فيهم حاجة فلا تجالسوهم ،

 هذا حديث صحيح ولم يخرجاه .

• المصدر : مستدرک حاکم
• المجلد: 4
• الصفحة:  468
• الرقم : 7997
• الطبع: دار الحرمين للطباعة والنشر، قاهرة، مصر.

گزشتہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کی لعنت اور نیکیوں کے ختم ہونیکی جو روایت ھے وہ مستند نہیں ؛ لیکن مساجد میں گفتگو تین طرح کی ہوسکتی ھے:  خالص دینی جسکے جواز میں شبہ نہیں ۔خالص دنیوی ( فضول) جسکے عدم جواز میں شبہ نہیں دنیوی گفتگو جو مباحات کے درجہ میں ھے اسکا جواز روایات کی روشنی میں سامنے آچکا ھے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
24دسمبر: ؁ء 2019

Friday, December 20, 2019

درود کی ایک فضیلت

• *درود کی ایک فضیلت* •

 ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ درود شریف پڑھنے والا لوگوں کی غیبت سے محفوظ رہتا ھے۔

 ( صراط الجنان, ج:8, ص: 82)

کیا واقعی درود پاک کی یہ فضیلت مستند ھے؟!!!


•• *باسمہ تعالی*••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  سوال میں معلوم کردہ درود پاک کی یہ فضیلت مستند اور ثابت نہیں ھے ؛ لہذا اسکو نشر و بیان نہ کیا جائے۔

🔰 اس روایت کو عؔلامہ «سخاوی»  نے اپنی مشہور کتاب " القول البدیع" میں ذکر فرماکر اسکے متعلق کلام فرمایا ھے: کہ یہ بات معتمد نہیں ھے ۔

※ وسمعتهما يقولان سمعنا رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ : إذا جلستم مجلسًا فقولوا : بسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ ، وصلَّى اللهُ على محمَّدٍ يُوكِّلُ اللهُ بكم ملكًا يمنعُكم من الغيبةِ حتَّى لا تغتابوا ، فإذا قمتم فقولوا ؛ بسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ ، وصلَّى اللهُ على محمَّدٍ ، فإنَّ  النَّاسَ لا يغتابونكم ويمنعُكم الملَكُ من ذلك.

هذه النسخة ذكرها المجد رحمه الله بإسناده، وتبعته في ذكرها، ولا أعتمد علي شيئ منها، والفاظها ركيكة.
وصرح ابن الذهبي: في ترجمة ابن الخيام من الميزان بوضعها، وقال لا ادري من وضعها.

(خلاصہ ترجمہ:)

 عؔلامہ مجد فیروز آبادیؒ اپنی سند اؔبو المظفر سمرقندیؒ یعنی محمد بن عبدﷲ بن خیام تک پہونچاتے ہوئے یہ روایت ذکر کرتے ہیں: کہ انہوں نے حضرت خضر و حضرت الیاس کو یہ بہی کہتے سنا: جب تم کسی مجلس میں بیٹھو تو بسم ﷲ الرحمن الرحیم پڑھ کر  صلیﷲ علی محمد یہ درود پڑھ لیا کرو! ﷲ ایک فرشتے کو مقرر کریگا جو تمکو لوگوں کی غیبت سے روکےگا, جب مجلس سے اٹھو! تب بہی یہی پڑھ لینا؛ تمہارے واپس آجانے کے بعد لوگ تمہاری غیبت نہ کرسکیں گے؛ کیونکہ فرشتہ ان کو غیبت سے روکےگا۔

* نام کتاب: القول البدیع
* مؤلف:  السخاویؒ
* الصفحة:  278
* الطبع : مؤسسة الريان، السعودية.


🔹 *میزان الاعتدال میں*

 جس نسخہ کا حوالہ علامہ سخاوی نے دیا ھے اسکے متعلق امام ذھبیؒ کی وضاحت یہ ھے: کہ میں نہیں جانتا کہ اس کو کس نے گھڑا ھے- یعنی یہ درود کی یہ فضیلت معتبر نہیں ھے-

محمد بن عبد الله بن الخيام السمرقندي، أبو المظفر لا أدري من ذا، وهو القائل: سمعت الخضر والياس الخـ
قلت: هذه نسخة ما ادري من وضعها. ملخصاـ

٭ المصدر: ميزان الاعتدال
٭ المؤلف: الذهبيؒ
٭ المجلد: 6
٭ الصفحة: 210
٭ الرقم: 7777
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


📘 *صراط الجنان*

صراط الجنان ایک بریلوی عقائد پر مشتمل تفسیر ھے, عوامِ اہل السنت والجماعت کو اسکا مطالعہ بلا کسی معتبر عالم کی نگرانی مناسب نہیں۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻 ...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
20 دسمبر: 2019؁ء

Wednesday, December 18, 2019

گھر کے حصول کا وظیفہ

▪ *گھر کے حصول کا وظیفہ*▪

  جو لوگ ذاتی گھر کے حصول کے لیے کوشاں و ساعی ہیں ان کے لیے عمدہ مجرب وظیفہ حدیث میں وارد ھے: جب تم وضو بناؤ تو دوران وضو یہ دعا پڑھتے رہیں :  *اللهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي ، وَوَسِّعْ لِي فِي دَارِي ، وَبَارِكْ لِي فِي رِزْقِي*.
اسکی برکت سے خدا تعالی وسیع گھر کا انتظام فرمادینگے۔

🔹 یہ وظیفہ "اؔبن السنی" نے «عمل الیوم واللیلہ» میں ذکر فرمایا ھے؛ البتہ سند ضعیف ھے؛ لیکن اتنا ضعف قادح نہیں ھے.

۩ اخبرنا ابوعبد الرحمن، قال حدثنا محمد بن عبد الاعلي، قال حدثنا معتمر بن سليمان،قال سمعت  بن عباد بن علقمة ، قال سمعت أبا مجلز يقول: قال  أَبُو مُوسَى الأشعري: ( أَتَيْتُ رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  فَتَوَضَّأَ ، فسمعته يقول: ( اللهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي ، وَوَسِّعْ لِي فِي دَارِي ، وَبَارِكْ لِي فِي رِزْقِي ) . ملخصاـ الخ.

• نام کتاب: عؔمل اليوم والليلة
• نام مؤلف: ابن السنيؒ
• صفحة : 71
• نمبر: 29
• حکم: ضعيف
• طبع: دار ابن حزم، بيروت، لبنان.


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۱۸ دسمبر: ؁ء۲۰۱۹

سو مرتبہ لا الہ الا ﷲ الملک الحق المبین کا ورد

*سو مرتبہ ”لا إله إلا الله الملك الحق المبين“ کا ورد کرنا*

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص لا الہ الاالله الملک الحق المبین کا سو مرتبہ ورد کرے گا تو خدائے عزیز و غالب اسے فقر سے پناہ دے گا ، وحشت قبر کو ختم کرے گا اور اس کو بے نیاز بنا دے گا اور وہ دروازۂ جنت پر دستک دینے والا ہوگا۔

اس وظیفہ کے متعلق کیا رائے ھے؟


•• *باسمہ تعالٰی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*

یہ وظیفہ حدیث میں مذکور ھے, اسکے متعلق " عؔلامہ عراقی " نے کہا : کہ اسکی سند میں ایک راوی _فضل بن غانم_ ضعیف ہیں؛ اور یہ ضعف قادح نہیں ھے لہذا اس وظیفہ کو پڑھا جاسکتا ھے۔اور اس میں مذکور فضیلت کی اللہ تبارک و تعالی سے امید لگائی جاسکتی ھے۔

۩ لا إلهَ إلا اللهُ الملكُ الحقُّ المبينُ من قالها في يومٍ مائةَ مرةٍ كان له أمانٌ من الفقرِ وأمانٌ من وحشةِ القبرِ واستجلب به الغِنَى واستقرع به بابَ الجنةِ .

٭ الراوي : علي بن أبي طالبؓ
٭ المحدث : العراقيؒ
٭ المصدر : المغني عن حمل السفار
‍٭ الصفحة: 313
٭ الرقم:1181
٭ خلاصة : [فيه] الفضل بن غانم ضعيف.
٭ الطبع: مكتبة طبرية، رياض.


واللہ تعالی اعلم
✍🏻••• کتبہ:  *محمد عدنان وقار صؔديقي*

جنتی کا حلیہ

▪ *جنتی کا حلیہ*▪

ایک خؔطیب دوران تقریر جنتی شخص کے حلیے کے متعلق خطاب فرمارھے تھے جس میں انہوں نے فرمایا: کہ جنتی شخص کا قد حضرت آدمؑ جتنالمبا یعنی لمبائی ساٹھ ذراع,  ان کی عمر حضرت عیسیؑ جتنی یعنی33 سال, ان کا حسن و جمال حضرت یوسفؑ جیسا, ان کی گفتگو حضرت محمدؐ جیسی شیریں, ان کا دل حضرت ایوبؑ جیسا, اور ان کی زبان کی فصاحت حضرت داودؑ کی طرح ہوگی۔یعنی وہ 6 انبیاءؑ والی صفات سے متصف ہوگا۔

مجہے اس بات کا حوالہ و تحقیق درکار ھے!!!

•• *باسمہ تعالی*••
*الجواب وبہ التوفیق:*

یہ بات بالکل درست ھے: کہ جنتی جنت میں مکمل خوبصورتی اور جمال کےساتھ داخل ہوں گے ، اور ان کی شکل اپنے باپ آدم علیہ السلام پر ہوگی جنہیں اللہ تعالی نے اپنے ھاتھ سے پیدا فرمایا اور ان کی تخلیق مکمل اورخوبصورت تصویر بنائ ، لہذا ہر ایک جنتی آدم علیہ السلام کی صورت اور خلقت پر ہوگا ۔



💠 *جنتی انسان کی لمبائی کا ذکر*

٭ عن أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :
( خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا ، فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ : اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ النَّفَرِ مِنْ الْمَلَائِكَةِ جُلُوسٌ فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ ، فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ . فَقَالَ : السَّلَامُ عَلَيْكُمْ . فَقَالُوا : السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ . فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ، فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ ، فَلَمْ يَزَلْ الْخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّى الْآنَ )۔

( ترجمہ )

  بخاری کی روایت ھے: سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اللہ عزوجل نے آدم کو اس کی صورت پر پیدا فرمایا ان کی لمبائ ساٹھ ھاتھ تھی ۔۔۔ تو جو بھی جنت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السلام کی صورت پر اور اس کی لمبائ ساٹھ ھاتھ ہوگی ۔۔۔ ) ملخصا.

* نام کتاب: صحیح البخاری
* جلد: 2
* صفحة : 1747
* حدیث نمبر: 6227
* طبع: الطاف اینڈ سنز,کراچی پاکستان۔


🔰 *جنتی کی عمر*

مستند روایت میں جنتی کی عمر 30/33 سال ہونیکا ذکر ھے:

❊ عن مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :
( يَدْخُلُ أَهْلُ الجَنَّةِ الجَنَّةَ جُرْدًا ، مُرْدًا ، مُكَحَّلِينَ ، أَبْنَاءَ ثَلاَثِينَ أَوْ ثَلاَثٍ وَثَلاَثِينَ سَنَةً ).

( ترجمہ )

 حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے فرمایا: جنتی لوگ بغیر بال والے ,صاف بدن .سُرمگیں (یعنی سرمہ لگی) آنکھوں والے ہوں گے, ان کی عمریں 30 یا 33 سال ہونگی۔

÷ نام کتاب: سنن ترمذی
÷ محدث: ابوعیسی ترمذیؒ
÷ جلد: 4
÷ صفحة : 305
÷ حدیث نمبر: 2545
÷ درجة : حسن
÷ طبع: دار الغرب الاسلامی بیروت لبنان۔

🔹 *جمال یوسفؑ اور زبان محمدیؐ*

 وہ روایت کہ جس میں ایک ساتھ  یہ ذکر ھے کہ جنتی شخص کا حسن و جمال حضرت یوسفؑ جیسا اور زبان محمد عربی جیسی اور عمر حضرت عیسیؑ جتنی اور لمبائی حضرت آدمؑ کی برابر ہوگی, اسکو اؔبن ابی الدنیاؒ نے اپنی کتاب " صفت جنت" میں ذکر کیا ھے: جس میں چار انبیاءؑ والی صفات کا ذکر موجود ھے, گو کہ سند ضعیف ھے؛ لیکن یہ ضعف قادح نہیں ۔


۞ حدثنا القاسم بن هاشم ، ثنا صفوان بن صالح ، قال : حدثني رواد بن الجراح العسقلاني ، ثنا الأوزاعي ، عن هارون بن رئاب ، عن أنس بن مالك ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
( يدخل أهل الجنةِ الجنةَ على طول آدم عليه السلام ، ستون ذراعا بذراع الملك ، على حسن يوسف ، على ميلاد عيسى ثلاث وثلاثون سنة ، وعلى لسان محمد صلى الله عليه وسلم ، جرد مرد مكحلون )۔

٭ المصدر: صفة الجنة
٭ المؤلف: ابن أبي الدنياؒ
٭ الصفحة: 163
٭ الرقم: 218
٭ الدرجة: ضعيف
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

💎 *حضرت ایوبؑ جیسا دل*

جنتی شخص کے دل کے متعلق امام طبرانیؒ نے " المعجم الکبیر" میں روایت نقل کی ھے کہ جنتی کا دل حضرت ایوبؑ جیسا ہوگا۔وہ روایت بہی سندا ضعیف ھے؛ کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی"اسحاق بن  ابراہیم زبریق" ہیں جو ضعیف ہیں۔


۩ عن إسحاق بن إبراهيم بن زبريق الحمصي ، ثنا عمرو بن الحارث ، عن عبد الله بن سالم ، عن محمد بن الوليد بن عامر الزبيدي ، ثنا سليم بن عامر ، أن المقدام بن معدي كرب : حدثهم أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : ( ما من أحد يموت سقطا ولا هرما - وإنما الناس فيما بين ذلك - إلا بعث ابن ثلاثين سنة ، فمن كان من أهل الجنة كان على مسحة آدم ، وصورة يوسف ، وقلب أيوب ، ومن كان من أهل النار عظموا وفخموا كالجبال )


+ نام کتاب: المعجم الكبير
+ نام محدث: الطبرانيؒ
+ جلد: 20
+ صفحة: 280
+ رقم: 663
+ طبع: مكتبة ابن تيمية، بيروت، لبنان

⚠ *حضرت داودؑ جیسی زبان*

  سوال میں مذکور جنتی شخص کی چھٹی صفت کہ اسکی زبان شیرینی «حضرت داودؑ» کی مانند ہوگی اس صفت کا ذکر روایات میں ہمکو نہ مل سکا؛ لہذا اس صفت کو ذکر نہ کیا جائے۔ نیز بعضے خطباء اس ضمن میں یہ بہی بیان کردیتے ہیں : کہ جنتی شخص کے اخلاق و عادات آقائے کریمؑ جیسے اور اسکا عفو و در گزر سیدنا یعقوبؑ جیسا ہوگا یہ بہی روایات مذکور  نہیں ھے۔ الحاصل: جنتی شخص کے متعلق سوال میں معلوم کردہ جن چھ صفات میں سے  پانچ صفات کا ذکر ہم نے بتایا ھے اتنا ہی اسکو بیان کیا جائے۔


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

۱۸ دسمبر: ؁ء۲۰۱۹،


ایک چھوٹا سا وظیفہ

• *ایک چھوٹا سا وظیفہ* •

چہرے پر خوبصورتی, بدن میں طاقت, نگاہ کی تیزی و حفاظت اور دماغ و ذہن کی تیزی کے لیے ایک وظیفہ روایت میں مذکور ھے : کہ جس شخص نے فجر کی نماز کے بعد تین مرتبہ یہ کلمات پڑھے :
سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِهِ ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ۔
تو ﷲ اسکو چہرے کی بدصورتی, سے محفوظ رکھےگا,بدن۔میں طاقت دےگا, نگاہ تیز ہوگی اور ذہن و دماغ کی تیزی عطا فرمایئگا۔

اس کی تخریج درکار ھے!!!

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  یہ وظیفہ اور کلمات محدثین نے ذکر کیے ہیں :

🔘 *مسند احمد میں*

حدثنا یزید بن ھارون عن الحسن عن ابی کریمة، حدثنی  رَجُل مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ الْمُخَارِقِ، قَالَ: " أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: ( يَا قَبِيصَةُ مَا جَاءَ بِكَ؟ ) ، قُلْتُ : كَبِرَتْ سِنِّي ، وَرَقَّ عَظْمِي ، فَأَتَيْتُكَ لِتُعَلِّمَنِي مَا يَنْفَعُنِي اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ ، قَالَ: ( يَا قَبِيصَةُ ، مَا مَرَرْتَ بِحَجَرٍ، وَلَا شَجَرٍ ، وَلَا مَدَرٍ ، إِلَّا اسْتَغْفَرَ لَكَ، يَا قَبِيصَةُ، إِذَا صَلَّيْتَ الْفَجْرَ ، فَقُلْ : سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِهِ ، تُعَافَى مِنَ الْعَمَى، وَالْجُذَامِ ، وَالْفَالِجِ ، يَا قَبِيصَةُ، قُلْ: اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِمَّا عِنْدَكَ ، وَأَفِضْ عَلَيَّ مِنْ فَضْلِكَ ، وَانْشُرْ عَلَيَّ رَحْمَتَكَ ، وَأَنْزِلْ عَلَيَّ مِنْ بَرَكَاتِكَ ) .


 اس روایت کو امام "احمد بن حنبلؒ" نے ذکر کیا ھے؛ لیکن اس کے اندر " لا حول ولا قوہ الا باللہ " کا ذکر نہیں فقط سبحان ﷲ العظیم وبحمدہ".تک مذکور ھے نیز اس روایت کی سند میں ایک راوی نامعلوم و مجہول ہیں جسکی بنا پر یہ سند ضعیف ہوجاتی ھے جیساکہ مؔحقق "شعیب الارنؤطؒ" صاحب نے لکہا ھے۔

إسناده ضعيف لابهام الراوي عن قبيصة،

٭ المصدر: مسند احمد
٭ المحدث: الامام احمد بن حنبلؒ
٭ المحقق: شعيب الأرنؤطؒ
٭ المجلد: 34
٭ الصفحة: 207
٭ الرقم: 20602
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.


🔹 *المعجم الکبیر میں*

اس روایت کو "امام طبرانیؒ" نے _المعجم الکبیر _میں ذکر فرمایا ھے: اسکی سند میں بہی ایک راوی " نافع ابو ہرمز" ہیں جنکو ضعیف کہا گیا ھے؛ البتہ اس روایت میں سوال میں ذکر کردہ مکمل وظیفہ منقول ھے:

• نام کتاب: المعجم الکبیر
• نام محدث: طبرانیؒ
• جلد: 18
•صفحہ : 368
• نمبر: 940
• طبع: مکتبہ ابن تیمیہؒ, قاہرہ مصر۔

🌷 *مجمع الزوائد میں*

امام ہیثمیؒ نے بہی اسکو مجمع الزوائد میں طبرانیؒ کے حوالہ سے ذکر فرماکر سند کی حیثیت بہی بیان کی ھے کہ یہ ضعیف ھے:

× نام کتاب: مجمع الزوائد
× نام محدث: ہیثمیؒ
× جلد:
× صفحة: 108
× حدیث نمبر: 16979
× طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

☪ *عمل اليوم والليلة ميں*

اؔبن السنیؒ نے اس روایت کو دو سندوں سے کیساتھ ذکر کیا ھے:
1 پہلی روایت میں وہی نافع ابوہرمز ضعیف راوی ہیں
2)دوسری سند میں " خلیل بن مرہ" ہیں جنکو محقق دکتور عبد الرحمن کؔوثر ابن الشیخ محمد عاشق الٰہی البرنی _بلند شہری_ صاحب نے ضعیف لکہا ھے:

= نام کتاب: عمل اليوم والليلة
= نام محدث: ابن السنيؒ
= نام محقق: عبد الرحمن كوثر
= صفحة: 97
= حدیث نمبر: 134/133
= طبع:شركة دار ارقم، بيروت، لبنان.

⚠ *فائدہ*⚠

  البتہ ابن السنیؒ کی کتاب کے ایک اور محقق نے ان دونوں روایات کی تحقیق کرتے ہوئے لکہا: کہ ان کی سند ضعیف جدا یعنی بہت کمزور ہے , اسکے روات میں  ضعیف راوی تو ہیں لیکن ایک راوی محمد بن فضل بن عطیہ پر کذب کا الزام بھی ہے۔

+ مصدر: عجالة الراغب
+ المحدث: ابن السنيؒ
+ المحقق: ابو اسامة سليم عبد الهلالي
+ صفحة: 187
+ رقم: 135/134
+ طبع:  دار ابن حزم، بيروت، لبنان.

( *خلاصہ کلام*)

 محققین کی تحقیقات کی روشنی میں یہ بات ظاہر ھے: کہ مسند احمد کی روایت سندا ضعیف ھے؛ لہذا اس وظیفہ کو پڑھا جاسکتا ھے اور امید اس فضیلت کی لگائی جاسکتی ھے.

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻 ...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Tuesday, December 17, 2019

ایک سحری کا واقعہ

• *ایک سحری کا واقعہ* •

معروف مؔذہبی اسکالر جناب حضرت "مولانا طارق جمیل صاحب"  نے اپنے ایک بیان میں ارشاد فرمایا: کہ ایک بار آپ ﷺ سحری کھا رہے تھے کہ اتنے میں حضرت بلال ؓ آگئے ، انہوں نے کہا : یا رسولﷺ سحری کا وقت ختم ہو گیا ہے، میں اذان دینے جارہا ہوں، آپ ﷺ بدستور سحری کہاتے رھے,اور حضرت بلالؓ چلے گئے,پھر جب حضرت بلالؓ واپس آئے کہ دیکھوں کیا آپ ﷺ نے کھانا پینا بند فرمایا کہ نہیں:
حضرت بلالؓ نے آکر کیا دیکھا کہ آپ ﷺ ابھی تک کھانا کھا رہے ہیں. حضرت بلالؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ اللہ کی قسم سحری ہوگئی ہے تو آپ ﷺ نے کھانے سے ہاتھ ہٹالیا اور کہا, بلال پر ﷲ رحم کرے! اگر بلال نہ ہوتے تو امید تہی سحری کا مزید وقت ملجاتا,حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اگر بلال قسم نہ کھاتے تو جب تک اللہ کے نبی ﷺ کھاتے رہتے صبح نہیں ہوتی.اور حضور کہاتے ہی رہتے ۔اور جبرئیلؑ آکر فرماتے: یا رسول خدا! اب تو ہاتھ روک لیں!!

اس  واقعہ کا حوالہ مطلوب ھے!!!

•• *باسمہ تعالی* ••
*الجواب وبہ التوفیق:*

یہ واقعہ کتب حدیث میں مذکور ھے:

💠 *مجمع الزوائد میں*


عن علي بن أبي طالب قال‏:‏ دخل علقمة بن علاثة على النبي صلى الله عليه وسلم فدعا له برأس وجعل يأكل معه فجاء بلال فدعا إلى الصلاة فلم يجب فرجع فمكث في المسجد ما شاء الله ثم رجع فقال‏:‏ الصلاة يا رسول الله قد والله أصبحت‏!‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏
‏"‏رحم الله بلالاً لولا بلال لرجونا أن يؤخر لنا ما بيننا وبين طلوع الشمس‏"‏‏.‏ فقال علي‏:‏ لولا أن بلالاً حلف لأكل رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يقول له جبريل صلى الله عليه وسلم‏:‏ ارفع يدك‏.‏

رواه البزار وفيه سوار بن مصعب وهو ضعيف‏.‏

+ نام کتاب: مؔجمع الزوائد
+ محدث: امام ہیثمیؒ
+ جلد: 3
+ صفحة: 272
+ حدیث نمبر: 4853
+ درجة: ضعیف
+ طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

▪ *كشف الأستار ميں*

امام ہؔیثمیؒ ہی نے اس روایت کو " کشف الاستار " میں بھی نقل فرمایا ھے:

% نام کتاب: کشف الاستار
% نام محدث: ہیثمیؒ
% جلد: 1
%صفحة: 465
% حدیث نمبر: 980
% طبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

🔰 *مختصر البزار میں*

اؔمام ابن حجر عسقلانیؒ نے اس روایت پر کلام کرتے ہوئے فرمایا: کہ اس روایت میں ایک راوی" سوار بن مصعب" ہیں جنکو "بزار" نے اگر چہ ضعیف کہا ھے؛ لیکن وہ "متروک" ہیں۔ لہذا یہ روایت مستند نہیں ۔


 عن علي:  دخَلَ عَلْقَمة بن عَلاثَة على النبي صلى الله عليه وسلم ، فدعا له برأْسِ ، وجعلَ يأكُلُ معهُ ، فجاءَ بلالٌ فدعا إلى الصلاةِ فلم يُجِبْ ، فرجع فمكثَ في المَسْجِدِ ما شاءَ اللهُ ، ثم رجعَ فقال : الصلاةُ يا رسولَ اللهِ قدْ واللهِ أصبحتَ فقال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : رَحِم اللهُ بلال ، لولا بِلال لرجونا أن يؤخّرَ لنا وما بيننا وبين طلوعِ الشمسِ ، فقال علي رضي الله عنه : لولا أن بلالا حلفَ لأكلَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم حتى يقول له جبريلُ عليهِ السلامُ : ارفعْ يدكَ.


 ٭ الراوي: علي بن أبي طالبؓ
 ٭ المحدث: ابن حجر العسقلانيؒ
 ٭ المصدر:  مؔختصر البزار
 ٭ الصفحة: 415
 ٭ الرقم: 693
 ٭ الدرجة: قال البزار: تفرد به سوار، وهو ليِّن الحديث، قلتُ: بل هو متروك الحديث.
 ٭ الطبع: مؤسسة الكتب الثقافية، بيروت، لبنان.


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
17 دسمبر: ؁ء 2019

Sunday, December 15, 2019

بھوکے کو کہلانا مسجد بنانے سے بہتر

• *بھوکے کو کھلانا مسجد بنانے سے بہتر* •

 میں نے ایک جگہ یہ سنا ھے: کہ کسی بہوکے کو کہانا کہلادینا مسجد کی تعمیر کرنے سے بہتر ھے۔ کیا اس طرح کی کوئی روایت ہمارے نبی کریمؐ سے مروی ھے؟

 از راہِ کرم مطلع فرمادیں!!!

-- *باسمہ تعالی*--
*الجواب وبہ التوفیق:*

  سوال میں مذکور بات کہ _بھوکے کو کھانا کھلانا مسجد بنانے سے بہتر ھے_  یہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ھے؛ لہذا اسکو حدیث پاک نہ سمجہا جائے۔ البتہ بہوکوں کو کہانا کہلانا کار خیر ھے جسکی اپنی الگ فضیلتیں احادیث طیبہ میں وارد ہیں۔

💎 لقمة في بطن جائع، خير من بناء جامع، ليس بحديث.

※ المصدر: تحذير المسلمين من الاحاديث الموضوعة علي سيد المرسلينؐ
※ المؤلف: محمد بن البشير ظؔافر الأزهري
※ الصفحة: 151
※ الرقم: 279
※ الدرجة: ليس بحديث
※ الطبع: دار ابن كثير، دمشق.

والله تعالي اعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
۱۵ دسمبر ؁ء ۲۰۱۹

Saturday, December 14, 2019

قصہ ایک صحابی کا

• *قصہ ایک صحابیؓ کا* •

  بیان کیا جاتا ھے : کہ بستر مرگ پر ایک صحابیؓ رسول نے تین کلمات کہے: ۱) کاش کہ وہ نیا ہوتا, پھر ان پر غنودگی طاری ہوگئ اور پھر ہوش و افاقہ ہوا تو (۲:  دوسرا جملہ یہ کہا: کاش کہ وہ دور ہوتی پھر غنودگی طاری ہوگئ پھر ہوش ہوا تو(۳: تیسرا جملہ یہ کہا: کاش کہ وہ پوری ہوتی , اسکے بعد ان کی روح پرواز کر گئ , جن صحابہؓ نے یہ معاملہ دیکہا وہ حضور پاکؑ کے پاس تشریف لے گئے اور سارا حال کہہ سنایا,  حضور پاکؑ نے ان تینوں کلمات کی وضاحت اس طرح فرمائی:

۩ کہ یہ وفات پانیوالے صحابی ایک دن کہیں جارھے تھے انکے پاس ایک پرانا کپڑا تہا تو ان کو ایک مسکین ملا جو سخت سردی سے پریشان تہا, تو انہوں نے اس کو وہ کپڑا دیدیا , چنانچہ جب ان کو موت کا عارضہ ہوا اور انہوں نے جنت کے محل کو دیکہا تو ان سے موت کے فرشتوں نے کہا: یہ تمہارا محل ھے تو صحابی نے کہا: کس عمل کی وجہ سے یہ جنتی محل خصوصا مجہے دیا جارہا ھے ؟ تو فرشتوں نے جواب دیا: کیونکہ فلاں رات تم نے ایک مسکین کو کپڑا عنایت کیا تہا یہ اسی کی جزا ھے,  تو صحابی کہنے لگے : وہ کپڑا پرانا تہا تب خدا نے یہ اتنا عالی شان محل عطا کیا کیا خوب ہوتا کہ وہ کپڑا نیا ہوتا! کاش وہ نیا کپڑا ہوتا!!!
۩ اور دوسرے جملے" کاش کہ وہ دور ہوتی" کی وضاحت نبی کریم نے یہ کی: وہ ایک روز مسجد جارہے تھے تو انہوں نے ایک اپاہج کو دیکہا جو مسجد جانا چاہتا تہا تو ان صحابی نے انکو مسجد تک پہونچادیا پس جب ان کی وفات کا لمحہ آیا تو انہوں نے آخری لمحات میں جنتی محل دیکہا, اور فرشتوں نے بتلایا کہ یہ بھی تمہارا محل ھے , انہوں نے معلوم کیا: یہ محل کس عمل خیر کی بنیاد پر مجہے مل رہا ھے ؟ جواب دیا گیا کہ تم نے ایک معذور اپاہج کی مدد کی تہی اسکو مسجد تک پہونچایا تہا,  صحابی نے کہا: وہ تو مسجد نزدیک ہی تہی اور اتنے سے عمل پر اتنا شاندار محل ملا ,اگر وہ مسجد دور ہوتی تو کتنا انعام ملتا کاش کہ وہ مسجد دور ہوتی!!!

۩ اور تیسری بات " کاش کہ وہ مکمل اور پوری ہوتی" کی تشریح نبی کریم نے یہ بتائی: ایک دن وہ جارھے تھے انکے پاس کچھ روٹی تہی انکو ایک غریب بہوکا نظر آیا انہوں نے اس کو وہ روٹی عطا کردی, جب وفات کے لمحات چل رھے تھے تو فرشتوں نے انکو جنت کا ایک اور محل دکھایا  تو انہوں نے استفسار کیا یہ والا محل کس عمل کے بدلے ھے؟ جواب ملا: تمہاری اس روٹی کے بدلے جو تم نے فلاں دن فلاں بہوکے غریب کو کہلائی تہی, تب یہ صحابی کہنے لگے : وہ تو پوری روٹی بہی نہ تہی اسکا اتنا عظیم اجر مل رہا ھے اگر وہ مکمل اور پوری ہوتی تو کتنا انعام و اجر سے مجہے نوازا جاتا , کاش کہ اس دن وہ روٹی مکمل ہوتی!!!

 اس واقعہ پر روشنی ڈالی جائے!!

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق*:

  یہ واقعہ حدیث کی کتب میں بہت تلاش کے بہی نہ مل سکا؛ لہذا اسکے بیان کرنے سے احتراز کیا جائے۔


 🔘 عربی زبان میں بھی یہ واقعہ لوگ ان الفاظ میں نشر کرتے ہیں:

❊ كان أحد صحابة رسول الله صلى الله عليه وسلم على فراش الموت ، فنطق بثلاث كلمات : ليته كان جديدا ، ويذهب في غفوة ، ويفيق وهو يقول : ليته كان بعيدا ، ويذهب في غفوة ويفيق وهو يقول : ليته كان كاملا . وبعدها فاضت روحه . ذهب الصحابة رضوان الله عليهم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ليسألوه عن هذه الكلمات ، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن هذا الرجل في يوم من الأيام كان يمشي ، وكان معه ثوب قديم ، فوجد مسكينا يشتكي من شدة البرد فأعطاه الثوب ، فلما حضرته الوفاة ، ورأى قصرا من قصور الجنة ، فقالت له ملائكة الموت : هذا قصرك . فقال : لأي عمل عملته ؟؟ فقالوا له : لأنك تصدّقت ذات ليلة على مسكين بثوب . فقال الرجل : إنه كان باليا فما بالنا لو كان جديدا ، ليته كان جديدا . وكان في يوم ذاهبا للمسجد ، فرأى مُقعدا يريد أن يذهب للمسجد ، فحمله إلى المسجد ، فلما حضرته الوفاة ، ورأى قصرا من قصور الجنة ، قالت له ملائكة الموت : هذا قصرك . فقال : لأي عمل عملته ؟؟ فقالوا له : لأنك حملت مُقعدا ليصلي في المسجد . فقال الرجل : إن المسجد كان قريبا ، فما بالنا لو كان بعيدا ، ليته كان بعيدا . وفي يوم من الأيام كان يمشي ، وكان معه بعض رغيف ، فوجد مسكينا جائعا فأعطاه جزءا منه ، فلما حضرته الوفاة ورأى قصرا من قصور الجنة ، فقالت له ملائكة الموت : هذا قصرك ، فقال لأي عمل عملته ؟؟ فقالوا له : لأنك تصدّقت ببعض رغيف لمسكين . فقال الرجل : إنه كان بعض رغيف ، فما بالنا لو كان كاملا ، ليته كان كاملا ً .


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

14 دسمبر: ؁ء2019

Friday, December 13, 2019

صحابی کی مدد کو فرشتہ کا اترنا

*•صحابیؓ کی مدد کو فرشتے کا آنا•*

  حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: کہ ایک صحابی تھے جنکی کنیت" ابو معلق" تہی وہ تاجر تھے , اپنے اور دوسروں کے مال سے تجارت کیا کرتے تھے, وہ بہت زیادہ عبادتگزار اور پرہیز گار تھے , ایک مرتبہ وہ سفر میں گئے انہیں راستے میں ایک مسلح ڈاکو ملا, اس نے کہا: اپنا سارا مال میرے حوالے کر دو اور قتل ہونے کے لئے تیار ہوجاؤ ۔'' یہ سن کر وہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے : ''تمہارا مقصودمال ہے تم میرا سارا مال لے لو اور مجھے جانے دو ،مجھے قتل کرنے سے تمہیں کیا فائدہ ہوگا ؟ یہ لومیں اپنا تمام مال تمہارے حوالے کرتا ہوں ۔''
 یہ سن کر ڈاکونے کہا:'' میں تمہارا مال تو لوں گا ہی مگر تمہیں قتل بھی ضرور کروں گا۔'' اتنا کہنے کے بعد جب وہ حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھا تو اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :'' جب تم میرے قتل کا ارادہ کرہی چکے ہو تو مجھے تھوڑی مہلت دو تا کہ میں اپنے رب عزوجل کی بارگاہ میں سجدہ کرلوں اور اس سے دعا کرلوں ۔'' یہ سن کر ڈاکو نے کہا : ''جو کرنا ہے جلدی کرو میں تمہیں قتل ضرور کروں گا ، جلدی سے نماز وغیرہ پڑھ لو ۔'' اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کیا، نماز پڑھی ، دعا مانگنے لگے :

 '' یَا وَدُوْدُ یَا ذَاالْعَرْشِ الْمَجِیْد،ِ یَا فَعَّالُ لِّمَا یُرِیْدُ، اَسْئئَلُکَ بِعِزِّکَ الَّذِیْ لَا یُرَامُ وَمُلْکِ الَّذِیْ لَایُضَامُ ، بِنُوْرِکَ الَّذِیْ مَلَأَ اَرْکَانَ عَرْشِکَ اَنْ تَکْفِیَنِیْ شَرَّ ھٰذَا اللِّصِّ، یَا مُغِیْثُ اَغِثْنِیْ، یَا مُغِیْثُ اَغِثْنِیْ، یَا مُغِیْثُ اَغِثْنِیْ۔
 ترجمہ:اے ودود! اے عرش مجید کے مالک! اے وہ ذات جو ہر اِرادے کو پورا کرنے والی ہے! میں تیری عزت کا واسطہ دیتا ہوں ایسی عزت جس کی کوئی اِنتہاء نہیں اور اے ایسی بادشاہت کے مالک! جس پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتا، میں تجھے تیرے اس نور کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں جس نے تیرے عرش کے ارکان کو منور کیا ہوا ہے ،اے میرے پروردگار !مجھے اس ڈاکو کے شر سے محفو ظ رکھ ، اے مدد کرنے والے !میری مدد فرما ، اے مدد کرنے والے! میری مدد فرما، اے مدد کرنے والے !میری مدد فرما ۔''

 اس صحابی نے بڑی آہ وزاری کے ساتھ ان کلمات کے ذریعے تین مرتبہ بارگاہِ خداوندی عزوجل میں دعا کی ، ابھی وہ دعا سے فارغ بھی نہ ہو نے پائے تھے کہ ایک جانب سے ایک شَہْسَوَار ہاتھ میں نیزہ لئے نمودار ہوا اور اس ڈاکو کی طرف بڑھا، جب ڈاکو نے اسے دیکھا تو اس پر حملہ کرنا چاہا لیکن سوار نے نیز ے کے ایک ہی وار سے ڈاکو کا کام تمام کردیا ۔ پھر وہ سوار اُس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا: ''کھڑے ہوجائیے۔''
 یہ سن کر وہ صحابی رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور اس سوار سے کہنے لگے:'' آج اس مصیبت کے دن تم نے میری مدد کی ہے ،تم کون ہو؟ '' سوارنے کہا: ''میں اللہ عزوجل کے فر شتوں میں سے ایک فرشتہ ہوں اور چوتھے آسمان سے اپ  کی مدد کے لئے آیاہوں، جب آپنے (ان پاکیزہ کلمات کے ساتھ) پہلی بار دعا کی توآسمان کے دروازوں کی آواز ہمیں سنائی دی ، پھر جب دوسری مرتبہ دعا کی تو ہم نے آسمان میں ایک چیخ وپکار سنی، پھر جب آپ  نے تیسری مرتبہ یہی دعا کی تو ہمیں یہ آواز سنائی دی:'' یہ مصیبت زدہ کی دعا ہے ۔لہٰذا میں نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں عرض کی: ''یا ربَّ العالَمین عزوجل !مجھے اس مظلوم کی مدد کر نے اور اس ڈاکو کو قتل کرنے کی اجازت دے۔'' چنانچہ میں اللہ عزوجل کے حکم سے آپ  کی مدد کرنے آیا ہوں۔''


ٍ  حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :'' جو شخص وضو کر ے اور چار رکعت نماز پڑھے پھر ان مذکورہ بالا کلمات کے ساتھ اللہ ربُّ العزَّت سے دعا کرے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے،چاہے دعا کرنے والا حالتِ کرب میں دعا کرے یا اس کے علاوہ (یعنی جب بھی دعا کرے اس کی دعا قبول کی جاتی ہے)۔


_÷ *باسمہ تعالی* ÷_
*الجواب وبہ التوفیق:*

۩ حضرت ابو معلقؓ کا یہ واقعہ متعدد كتب ميں مذكور هے،

 *شرح اعتقاد اهل السنة والجماعة*

حؔافظ الالكائيؒ نے ؞شرح اعتقاد اهل السنة والجماعة؞ ميں. حکایات اولیاء کے تحت " ابن کلبی" کے واسطے سے حضرت حسن بصریؒ کے حوالے سے حضرت انسؓ سے روایت کی ھے:

۩ اخبرنا علي بن عبد الله، قال أنا الحسين بن صفوان،قال حدثنا عبد الله بن محمد، قال ثنا حدثنا عيسى بن عبد الله التميمي أخبرني فهير بن زياد الأسدي عن موسى بن وردان عن الكلبي وليس بصاحب التفسير عن الحسن عن أنس بن مالك قال :
(( كان رجلا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم من الأنصار يكنى أبا معلق وكان تاجرا يتجر بماله ولغيره يضرب به في الآفاق وكان يزن بسدد وورع فخرج مرة فلقيه لص مقنع في السلاح
فقال له ضع ما معك فإني قاتلك قال ما تريد إلى دمي شأنك بالمال فقال أما المال فلي ولست أريد إلا
دمك قال أمَّا إذا أبيت فذرني أصلي أربع ركعات قال صلِّ ما بدا لك قال فتوضأ ثم صلى أربع ركعات فكان من دعائه في أخر سجدة أن قال (( يا ودود يا ذا العرش المجيد يا فعال لما يريد أسألك بعزك الذي لا يرام وملكك الذي لا يضام وبنورك الذي ملأ أركان عرشك أن تكفيني شرَّ هذا اللص يا مغيث أغثني يا مغيث ثلاث مرار قال دعا بها ثلاث مرات
فإذا هو بفارس قد أقبل بيده حربة واضعها بين أذني فرسه فلما بصر به اللص أقبل نحوه فطعنه فقتله ثم أقبل إليه فقال قم .
قال : من أنت بأبي أنت وأمي فقد أغاثني الله بك اليوم قال أنا ملك من أهل السماء
الرابعة
دعوت بدعائك الأول فسمعت لأبواب السماء فعقعة ثم دعوت بدعائك الثاني فسمعت لأهل السماء ضجة ثم دعوت بدعائك الثالث فقيل لي دعاء مكروب فسألت الله تعالى أن يوليني قتله .
قال أنس رضي الله عنه فاعلم أنه من توضأ وصلى أربع ركعات ودعا بهذا الدعاء استجيب له  مكروبا كان أو غير مكروب . أ. هـ

٭ المصدر: شرح أصول اعتقادأهل السنة والجماعة
٭ المؤلف: اللالكائيؒ
٭ الصفحة: 1367
٭ الطبع: دار الآثار،  صنعاء، يمن.

▪ *مجابوا الدعوة میں*▪

۞ حؔافظ «ابن ابی الدنیاؒ» نے اس روایت کو اسی سند سے ذکر کیا ھے۔

• نام کتاب: مؔجابوا الدعوة
• نام مؤلف: ابن ابی الدنیاؒ
• الصفحہ: 27
• الطبع: مؤسسة الكتب الثقافية، بيروت،لبنان.

🔘 *عیون الحکایات میں*

 عؔلامہ ابن الجوزیؒ نے بھی اسی سند سے ﴿عیون الحکایات﴾ میں اس واقعہ کا نقل فرمایا ھے:

# نام کتاب: عؔیون الحکایات
# نام مصنف: ابن الجوزیؒ
# صفحہ: 89
# طبع: دار الكتب العلمية، بيروت لبنان.

💎٭٭ *الاصابة ميں*٭٭

حؔافظ •ابن حجر عسقلانیؒ• نے بھی اس واقعہ کو ذکر فرمایا ھے ؛ لیکن اسکی دو سندیں ذکر کی ہیں
1) ابن الکلبی عن الحسن البصری عن انس بن مالک۔

2) ابن الكلبي عن الحسن عن أبي بن كعب۔

∅ المصدر: الإصابة في تمييز الصحابة
‌∅ المؤلف: ابن حجر العسقلانيؒ
∅ المجلد: 7
∅ الصفحة: 313
∅ الرقم: 10557
∅ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.


🔰 *أسد الغابة ميں*

  حافظ "ابن اؔثیرؒ نے" اس واقعہ کا ذکر  " اسد الغابہ" میں کیا ھے ؛ لیکن سند میں کچھ ترمیم کی ھے یعنی اس طرح بیان کیا: ابن الکلبی عن ابی صالح عن الحسن عن انس بن مالک الخ.

+ نام کتاب: أسد الغابة
+ نام مؤلف: حافظ ابن أثيرؒ
+ صفحة: 1401
+ راوی نمبر: 6270
+ طبع: دار ابن حزم، بيروت لبنان.

««« خلاصة الكلام »»»

 اس واقعہ کے اندر مرکزی راوی  «ابن الکلبی» ہیں جنکا حال معلوم نہ ہوسکا ؛ نیز یہ ابن الکلبی اس واقعے کو تین طرح بیان کرتے ہیں :  عن الحسن عن أنس ,
 عن أبي صالح عن أنس ,  عن الحسن عن أبي بن كعب اسکو اضطراب فی السند کہا جاتا ھے ؛ مزید  شرح اصول لللالکائی کے محقق " نِشأت بن کمال مصری" نے کہا : کہ اس واقعہ کی سند میں کچھ روات کا حال معلوم نہ ہوسکا؛ لہذا اس واقعہ کو حتمی تو نہیں کہا جاسکتا ھے ؛ البتہ اس میں مذکور دعا بحیثیت الفاظ و معانی بالکل درست ہے ۔اس دعا کو مصیبت و پریشانی کے عالَم میں پڑھا جاسکتا ھے۔

والله تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*

Wednesday, December 11, 2019

ایک ایمان افروز واقعہ

*ایک ایمان افروز واقعہ*

علامہ قرطبیؒ نے اپنی سند متصل کے ساتھ حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی ، کہ میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے ، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کہ اپنے والد کو بلا کر لاؤ، اسی وقت جبرئیلؑ تشریف لائے اور رسول الله صلى الله عليه وسلم سے کہا کہ جب اس کا باپ آجائے ، تو آپ اس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں ؟ جو اس نے دل میں کہے ہیں ، خود اس کے کانوں نے بھی ان کو نہیں سنا جب یہ شخص اپنے والدکو لے کر پہنچا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے والد سے فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے ؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں؟ والد نے عرض کیا کہ آپ اسی سے یہ سوال فرمائیں کہ میں اس کی پھوپھی، خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہاں خرچ کرتا ہوں ؟رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ایه ! جس کا مطلب یہ تھا کہ بس حقیقت معلوم ہو گئی، اب اورکچھ کہنے ، سننے کی ضرورت نہیں ، اس کے بعد اس کے والد سے دریافت فرمایا کہ وہ کلمات کیا ہیں ؟ جن کو ابھی تک خود تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا ، اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول الله! ہمیں ہر معاملہ میں الله تعالیٰ آپ پر ہمارا ایمان اور یقین بڑھا دیتے ہیں جو بات کسی نے نہیں سنی ، اس کی آپ کو اطلاع ہو گئی ، ( جو ایک معجزہ ہے) پھر اس نے عرض کیا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے چند اشعار دل میں کہے تھے ، جن کو میرے کانوں نے بھی نہیں سنا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ وہ ہمیں سناؤ، اس وقت اس نے یہ اشعار سنائے:

① غَذَوْتُكَ مَوْلُودًا وَمُنْتُكَ يَافِعًا
تُعَلُّ بِمَا أَجْنِي عَلَيْكَ وَتَنْهَلُ

میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد بھی تمہاری ذمہ داری اٹھائی، تمہارا سب کھانا پینا میری ہی کمائی سے تھا۔

② إِذَا لَيْلَةٌ ضَافَتْكَ بِالسُّقْمِ لَمْ أَبِتْ
لِسُقْمِكَ إِلَّا سَاهِرًا أَتَمَلْمَلُ

جب کسی رات میں تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے تمام رات تمہاری بیماری کے سبب بیداری اور بے قراری میں گزاری۔

③  كَأَنِّي أَنَا الْمَطْرُوقُ دُونَكَ بِالَّذِي
طُرِقْتَ بِهِ دُونِي فَعَيْنَايَ تَهْمُلُ

گویا کہ تمہاری بیماری مجھے ہی لگ گئی ہے ، تمہیں نہیں، جس کی وجہ سے میں تمام شب روتا رہا۔
       
④ تَخَافُ الرَّدَى نَفْسِي عَلَيْكَ وَإِنَّهَا
لَتَعْلَمُ أَنَّ الْمَوْتَ وَقْتٌ مُؤَجَّلُ

میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے، پہلے پیچھے نہیں ہو سکتی۔

⑤ فَلَمَّا بَلَغْتَ السِّنَّ وَالْغَايَةَ الَّتِي
إِلَيْهَا مَدَى مَا فِيكَ كُنْتُ أُؤَمِّلُ

پھر جب تم اس عمر او راس حدتک پہنچ گئے، جس کی میں تمنا کرتا تھا۔

⑥ جَعَلْتَ جَزَائِي غِلْظَةً وَفَظَاظَةً
كَأَنَّكَ أَنْتَ الْمُنْعِمُ الْمُتَفَضِّلُ
تو تم نے میرا بدلہ سختی اور سخت کلامی بنا دیا، گویا کہ تمہی مجھ پر احسان وانعام کر رہے ہو؟!
       
⑦ فَلَيْتَكَ إِذْ لَمْ تَرْعَ حَقَّ أُبُوَّتِي
فَعَلْتَ كَمَا الْجَارُ الْمُجَاوِرُ يَفْعَلُ

کاش! اگر تم سے میرے باپ ہونے کاحق ادا نہیں ہو سکتا، تو کم از کم ایسا ہی کر لیتے جیسا کہ ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔
       
⑧ فأوليتني حق الجوار ولم تکن
علی بمال دون مالک تبخل

تونے کم از کم مجھے پڑوسی کا حق تو دیا ہوتا اور خود میرے ہی مال میں میرے حق میں بخل سے کام نہ لیا ہوتا۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہ اشعار سننے کے بعد بیٹے کا گریبان پکڑ لیا اور فرمایا:أنت ومالک لأبیک․ یعنی جا! تو بھی اور تیرا مال بھی سب باپ کا ہے۔

★ *واقعه كي عربي عبارت*★


وقد روينا عن الاسناد المتصل عن جابر بن عبد الله - رضِي الله عنه - قال: جاء رجلٌ إلى النبي - صلَّى الله عليه وسلَّم - فقال: يا رسول الله، إنَّ أبي أخَذَ مالي، فقال النبي - صلَّى الله عليه وسلَّم - للرجل: (( فأتِني بأبيك))، فنزل جبريل - عليه السلام - على النبي - صلَّى الله عليه وسلَّم - فقال: إنَّ الله - عزَّ وجلَّ - يُقرِئك السلام ويقول لك: إذا جاءَك الشيخ فسَلْه عن شيءٍ قالَه في نفسه ما سمعَتْه أذناه، فلمَّا جاء الشيخ قال له النبي - صلَّى الله عليه وسلَّم - ما بال ابنك يَشكوك، أتريد أخْذ ماله؟ قال: سَلْهُ يا رسول الله، هل أُنفِقه إلا على إحدى عمَّاته أو خالاته أو على نفسي! فقال النبي - صلَّى الله عليه وسلَّم -: ((إيهٍ! دَعْنا من هذا، أخبِرنا عن شيءٍ قُلتَه في نفسك ما سمعَتْه أذناك))، فقال الشيخ: والله يا رسول الله ما يَزال الله يزيدنا بك يقينًا! لقد قلتُ في نفسي شيئًا ما سمعَتْه أذناي فقال - صلَّى الله عليه وسلَّم -: ((قُلْ وأنا أسمع))، قال: قلت:

غَذَوْتُكَ مَوْلُودًا وَمُنْتُكَ يَافِعًا
تُعَلُّ بِمَا أَجْنِي عَلَيْكَ وَتَنْهَلُ

إِذَا لَيْلَةٌ ضَافَتْكَ بِالسُّقْمِ لَمْ أَبِتْ
لِسُقْمِكَ إِلَّا سَاهِرًا أَتَمَلْمَلُ

كَأَنِّي أَنَا الْمَطْرُوقُ دُونَكَ بِالَّذِي
طُرِقْتَ بِهِ دُونِي فَعَيْنَايَ تَهْمُلُ

تَخَافُ الرَّدَى نَفْسِي عَلَيْكَ وَإِنَّهَا
لَتَعْلَمُ أَنَّ الْمَوْتَ وَقْتٌ مُؤَجَّلُ

فَلَمَّا بَلَغْتَ السِّنَّ وَالْغَايَةَ الَّتِي
إِلَيْهَا مَدَى مَا فِيكَ كُنْتُ أُؤَمِّلُ.

جَعَلْتَ جَزَائِي غِلْظَةً وَفَظَاظَةً
كَأَنَّكَ أَنْتَ الْمُنْعِمُ الْمُتَفَضِّلُ

فَلَيْتَكَ إِذْ لَمْ تَرْعَ حَقَّ أُبُوَّتِي
فَعَلْتَ كَمَا الْجَارُ الْمُجَاوِرُ يَفْعَلُ

 فَأوْلَيْتَنِي حَقَّ الجِوارِ ولم تَكُنْ
عليَّ بمالٍ دونَ مالِك تَبْخَلُ

قال: فحينئذٍ أخذ النبي - صلَّى الله عليه وسلَّم - بتلابيب ابنه وقال: ((أنت ومالُك لأبيك))

≈ المصدر: تفسر القرطبي
‌≈ المفسر: أبوعبد الله القرطبيؒ
≈ المجلد: 14
≈ الصفحة: 61
≈ الطبع: مؤسسة الرسالة بيروت، لبنان.

💎 *مجمع البحرين ميں*

مجمع البحرین میں بھی اس واقعہ کا ذکر ھے ؛ تاہم سند ضعیف ھے ؛ کیونکہ اس میں ایک راوی " محمد بن المکندر"  ہیں جو کہ ضعیف ہیں:

(المصدر: مجمع البحرین
(المصنف:حافظ نور الدین ہیثمیؒ
(المجلد: 4
(الصفحہ:121
(الرقم: 2197
(الطبع: مكتبة الرشيد، رياض.

▪ *المعجم الاوسط میں*▪

یہ روایت مع اشعار  طبرانیؒ نے بہی اپنی کتاب " المعجم الاوسط" میں ذکر کی ھے ؛ لیکن کہا : کہ ان اشعار کا ذکر فقط اسی سند کیساتھ مذکور ھے اور فقط عبد اللہ بن نافع ہی ابن المکندر سے اسکو روایت کرتے ہیں ,

# نام کتاب: المعجم الاوسط
# نام محدث: الحافظ الطبرانیؒ
# جلد: 6
# صفحہ: 339
# حدیث نمبر: 6570
# طبع: دار الحرمين، قاهرة، مصر.


⚠ *فائدہ*⚠

مذکورہ بالا واقعہ گو کہ بلحاظ سند ضعف پر مشتمل ھے؛ لیکن اس میں مذکور ایک حصہ _انت ومالک لابیک_ صحیح سند کیساتھ کتب حدیث میں مذکور ھے۔

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ
أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالًا وَوَلَدًا وَإِنَّ أَبِي يُرِيدُ أَنْ يَجْتَاحَ مَالِي فَقَالَ أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِيكَ.

٭المصدر: سنن ابن ماجه
٭ المحدث: ابن ماجهؒ
٭ الراوي: جابر بن عبد اللهؓ
٭ الصفحة: 531
٭ الرقم: 2291
٭ الدرجة: صحيح
٭ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.

والله تعالي أعلم
✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صؔديقي*
۱۱ دسمبر، ؁ء۲۰۱۹

آدم کی اپنے بیٹے کو وصیت

• *حضرت آدمؑ کی اپنے بیٹے کو وصیت*•

 اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام پر تمام انبیاء مرسلین کی تعداد کے برابر لاٹھیاں نازل فرمائیں۔ پھر وہ اپنے بیٹے شیث کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : میرے بیٹے ! میرے بعد تو میرا خلیفہ ہے۔ ان کو تقویٰ اور عروہ و ثقیہ کے ذریعے پکڑ لے۔ جب بھی تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے تو ساتھ ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی لینا۔ میں نے اس وقت عرش کے پائے پر ان کا نام لکھا دیکھا تھا جب میں روح اور مٹی کے درمیان تھا۔ پھر میں نے آسمانوں کا چکر لگایا تو ایسی کوئی جگہ نہ تھی جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لکھا ہو۔ میرے رب نے مجھے جنت میں بسایا تو میں نے جنت میں کوئی محل یا کوئی کمرہ نہیں دیکھا جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لکھا ہو۔ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام جنت کی حوروں کے گلوں  پر لکھا دیکھا، جنت کے محلات کی اینٹوں پر، طوبیٰ کے درختوں کے پتوں پر، سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر، نور کے پردوں کے اطراف پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان اسے لکھا دیکھا۔ تو ان کا ذکر کثرت سے کیا کرنا، کیونکہ فرشتے بھی  ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں۔


کیا یہ روایت مستند ھے؟

•• *باسمہ تعالی*••
*الجواب وبہ التوفیق:*

یہ روایت " سیوطیؒ " نے _خصائص کبری_ میں اور "ابن عساکرؒ" نے  "تاریخ دمشق" میں ذکر کی ھے:

▪ *تاریخ ابن عساکر میں*

أخبرنا ابومحمد بن الحسين، نا أبو الحسين المهتدي، أنا ابو احمد عبيد الله بن محمد بن ابي مسلم الفرضي، انا ابو عمر عثمان بن احمد بن السماك،نا إسحاق بن إبراهيم بن سفيان، نا زكريا بن يحي، نا محمد بن زفر الاصبهاني، نا محمد بن خالد العاشمي الدمشقي، نا محمد بن حمير الحمصي، نا صفوان بن عمرو السكسكي، عن شريح بن عمير قال: كذا قال، فقلت: إنما هو شريح بن عبيد قال: كذا هو عندي عن أبي السمير الترمذي عن كعب الأحبار: أن الله تعالى أنزل على آدم عصيا بعدد الأنبياء، والمرسلين، ثم أقبل على ابنه شيث، فقال: أي بني ! أنت خليفتي من بعدي، فخذها بعمارة التقوى أ والعروة الوثقى، وكلما ذكرت الله تعالى، فاذكر إلى جنبه اسم محمد، فإني رأيت اسمه مكتوبا على ساق العرش، وأنا بين الروح والطين، ثم إني طفت السموات، فلم أر في السماء موضعا إلا رأيت اسم محمد مكتوبا عليه، وإن ربي أسكنني الجنة، فلم أر في الجنة قصرا ولا غرفة إلا رأيت اسم محمد مكتوبا عليه، ولقد رأيت اسم محمد مكتوبا على نحور الحور العين، وعلى ورق قصب آجام الحنة، وعلى ورق شجرة طوبى، وعلى ورق سدرة المنتهى، وعلى أطراف الحجب، وبين أعين الملائكة، فأكثر ذكره، فإن الملائكة تذكره في كل ساعاتها.

٭ المصدر:  تاريخ دمشق
٭ المؤلف: حافظ ابن عساكرؒ
٭ المجلد: 23
٭ الصفحة: 280
٭ الطبع: دار الفكر، بيروت، لبنان.

⚠  *روایت کا حکم*

  یہ روایت مقبول نہیں ھے ؛ کیونکہ اسکی سند میں ایک راوی " _محمد بن خالد ہاشمی دمشقی_" ہیں ان کے متعلق « امام ابو حاتم رازیؒ» نے کہا : کہ وہ جہوٹ بول دیا کرتے تھے۔

محمد بن خالد الدمشقي روي عن وليد بن المسلم، روي عنه محمد بن يعقوب الدمشقي، وإسحاق بن إبراهيم، نا عبد الرحمن قال: سألت أبي عنه، قال: كان يكذب.ملخصاـ

٭ المصدر:  الجرح والتعديل
٭ المؤلف: أبو حاتم رازيؒ
٭ المجلد: 7
٭ الصفحة: 244
٭ الرقم: 1340
٭ الطبع:  دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

📘 *الخصائص الکبریٰ میں*

یہ روایت «امام جلال الدین سیوطیؒ» نے بہی  "خصائص کبری" میں بلا کسی سند "ابن عساکر" کے حوالے سے کؔعب احبارؒ سے نقل کی ھے :

• نام کتاب: الخصائص الکبریٰ
• نام مؤلف: جلال الدین السیوطیؔ
•جلد: 1
•صفحة: 12
•طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

⚠ _فائدہ_
 اس ضمن میں یہ بات بہی بہت مشہور ھے کہ حضرت آدمؑ نے جب توبہ کی تہی تو حضور اکرمؑ کا وسیلہ لیا تہا اور اسکا ذکر متعدد کتب تفسیر و حدیث میں ھے, لیکن وہ روایات  کمزور ہیں اور بقول امام "شمس الدین ذہبیؒ" وہ موضوع ہے۔

*مستدرک حاکم میں*


حدثنا أبو سعيد عمرو بن محمد بن منصور العدل حدثنا أبو الحسن محمد بن إسحاق بن إبراهيم الحنظلي حدثنا أبو الحارث عبد الله بن مسلم الفهري حدثنا إسماعيل بن مسلمة أنبأ عبد الرحمن بن زيد بن أسلم عن أبيه عن جده عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال قال رسول الله  لما اقترف آدم الخطيئة قال يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي فقال الله يا آدم وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه؟ قال لأنك يا رب لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوباً لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك. قال الله: صدقت يا آدم إنه لأحب الخلق إلي، أدعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك».

اس روایت کو حاکمؒ نے صحیح بتایا ھے ؛ لیکن امام ذہبیؒ نے اسکی تعلیق میں اسکو موضوع قرار دیا ھے۔

• المصدر:  مستدرك حاكم
•مؤلف: حاكم نيشاپوريؒ
• جلد: 2
• صفحة: 722
• نمبر: 4287
• طبع:  دار الحرمين للطباعة، قاهرة، مصر.

☪ *دلائل النبوة ميں*

امام بيهقيؒ نے بهي "دلائل النبوة" ميں  اس روایت کو ذکر کیا ھے اور اسکی سند کو ضعیف کہا ھے:

٪ نام کتاب: دلائل النبوة
٪نام مؤلف: ابوبكر البيهقيؒ
٪جلد : 5
٪صفحة: 488
٪طبع: دار الكتب العلمية،بيروت، لبنان.

💠 *البدایہ والنہایہ میں*

بؔیہقیؒ کی تحقیق سے •علامہ حافظ ابن کثیر دمشقیؒ• نے بہی اس روایت کو  «البدایہ والنہایہ» میں ذکر فرمایا ھے:

* نام کتاب: البداية والنهاية
* نام مؤلف: حافظ ابن كثيرؒ
* جلد: 1
* صفحہ: 81
* طبع:  مكتبة المعارف، بيروت، لبنان.

🔹 خلاصة:

یہ روایت البدیہ والنہایة،  مستدرک حاکم وغیرہ میں مذکور ہے، حاکم نے اس کے بارے میں لکھا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے؛ لیکن علامہ ذہبی نے اس پر تعلیق کرتے ہوئے اسے ”موضوع“ قرار دیا، نیز دیگر حضرات نے بھی اس روایت کی تضعیف کی ہے، اس لئے یہ قابل اعتماد نہیں ہے.

🌷 *دعا میں وسیلہ لینا*🌷

دعا میں کسی نبی, ولی, یا نیک عمل کا وسیلہ لینا یعنی  کسی نبی یا ولی کے واسطے سے دعا کریں اور یہ کہیں اے اللہ فلاں بندے یا فلاں نبی کے طفیل میری دعا قبول فرما یہ جائز ہے اور اسکا حدیث صحیحہ سے ثبوت بہی ھے۔

اس سلسلے میں سب سے صریح دلیل حضرت عثمان بن حنیف کی روایت ہے جسے ترمذی نے اپنی ” سنن “ میں اوربيهقي نے ”دلائل النبوة“ میں روایت کی ہے، ترمذی کی روایت کا حاصل یہ ہے کہ عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی تھے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ دعا کردیجئے کہ میری بینائی ٹھیک ہوجائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری مرضی ہوتو دعا کردوں اور اگر چاہو تو صبر اختیار کرو اور صبر تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے تو حضرت عثمان بن حنیف نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! آپ دعا ہی کردیجئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھی طرح وضو کرو اور یہ دعا کرو:

 اللہم إنی أسئلک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبي الرحمة إني توجہت بک إلی ربي في حاجتي ہذہ لتقضي لي، اللہم فشفعہ فيّ۔

 یعنی اے اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف آپ کے نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں، (اے نبی) میں آپ کے توسل سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا؛ تاکہ میری اس ضرورت کو پورا کردیا جائے، اے اللہ! تو میرے حق میں ان کی شفارش قبول فرما۔

+ نام کتاب : سنن الترمذي
+ نام محدث: ابوعيسي الترمذيؒ
+ جلد: 5
+ صفحة:  536
+ رقم: 3578
+ درجة: صحيح
+ طبع: دار الغرب الاسلامي، بيروت، لبنان.

¤ *دلائل النبوة*

المصدر: دلائل النبوة
المحدث: بيهقيؒ
المجلد: 6
الصفحة: 166
الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

💎 *بخاری میں وسیلہ کا ثبوت*

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب قحط ہوتا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے توسل سے دعا مانگتے اورکہتے:
 اللہم انا نتوسل إلیک بعمّ نبیّنا فاسقنا فیسقون.


حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا‏.‏ قَالَ فَيُسْقَوْنَ‏.‏

٭ نام كتاب:  صحيح البخاري
٭ جلد:1
٭ صفحة: 1009/،274
٭ حديث نمبر: 1010/3710
٭ طبع: الطاف اينڈ سنز، کراچی، پاکستان.


••• حاصل بحث •••

حضرت آدمؑ کی اپنے بیٹے کو وصیت والی روایت غیر مستند ھے,  نیز آدم کا حضور پاک کا توسل لینا بہی معتبر سند سے ثابت نہیں ؛ البتہ نفس توسل کا ثبوت احادیث صحیحہ سے ملتا ھے۔


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*
۱۱ دسمبر، ؁ء۲۰۱۹

Monday, December 9, 2019

حضرت رکانہ کی نبی کریم سے کشتی

•• *حضرت رُکانہؓ سے نبی کریمؐ کی کُشتی*••

قبیلہ بنو ہاشم میں رکانہ نامی ایک مشرک شخص تھا۔ یہ بڑا ہی زبردست ، دلیر اور نامی گرامی پہلوان تھا ، اس کا ریکارڈ تھا کہ اسے کبھی کسی نے نہیں گرایا تھا۔یہ پہلوان اضم نام کے ایک جنگل میں رہتا تھا جہاں یہ بکریاں چراتا تھا اور بڑا ہی مالدار تھا۔ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے اس کی طرف جا نکلے۔ رکانہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ کے پاس آکر کہنے لگا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تو وہی ہے جو ہمارے (خدائوں) لات و عزیٰ کی توہین اور تحقیر کرتا ہے اور اپنے ایک خدا کی بڑائی بیان کرتا ہے؟ اگر میرا تجھ سے تعلق رحمی نہ ہوتا تو آج میں تجھے مار ڈالتا۔اور کہنے لگا کہ میرے ساتھ کشتی کر، تو اپنے خدا کو پکار۔ میں اپنے خدائوں لات و عزیٰ کو پکارتا ہوں۔ دیکھیں تمہارے خدا میں کتنی طاقت ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ رکانہ اگر کشتی ہی کرنا ہے تو چل میں تیار ہوں۔ رکانہ یہ جواب سن کر پہلے تو بڑا حیران ہوا اور پھر بڑے تکبر کے ساتھ مقابلے میں کھڑ ا ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی ہی جھپٹ میں سے گرا لیا اور اس کے سینے پر بیٹھ گئے، رکانہ عمر میں پہلی مرتبہ گر کر بڑا شرمندہ ہوا اور حیران بھی ‘ اور بولا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے سینے سے اٹھ کھڑے ہو۔ میرے خدائوں لات و عزیٰ نے میری طرف دھیان نہیں دیا ، ایک بار اور موقع دو اور آئو دوسری مرتبہ کشتی لڑیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رکانہ سے سینے پر سے اٹھ گئے اور دوبارہ کشتی کے لئے رکانہ پہلوان بھی اٹھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری مرتبہ بھی رکانہ کو پل بھر میں گرا لیا ، رکانہ نے کہا، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! معلوم ہوتا ہے آج میرے خدا مجھ سے ناراض ہیں اور تمہار خدا تمہاری مدد کررہا ہے۔ خیر ایک مرتبہ اور آؤ، اس مرتبہ میرے خدا لات و عزیٰ میرے مدد ضرور کریں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے مرتبہ بھی کشتی کے لئے منظور کرلیا۔ اور تیسرے مرتبہ بھی اسے پچھاڑ دیا۔

اب تو رکانہ پہلوان بڑا ہی شرمندہ ہوا اور کہنے لگا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ان بکریوں میں سے جتنی چاہو بکریاں لے لو ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ رکانہ مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں ، ہاں اگر تم مسلمان ہوجا تو جہنم کی آگ سے بچ جاؤگے۔ رکانہ نے جواب دیا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میں مسلمان تو ہوجائوں مگر میرا نفس جھجہکتا ہے کہ مدینہ اور گرد نواح کے لوگ کیا کہیں گے کہ اتنے بڑے پہلوان نے شکست کھائی اور مسلمان ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تو تیرا مال تجھ ہی کو مبارک ہو۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے۔
حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ؓ نے عرض کیا۔ کیا آپ نے رکانہ کو پچھاڑا؟ وہ تو ایسا پہلوان تھا کہ آج تک اسے کسی نے گرا ہی نہیں تھا۔ حضور نے کہا: میں نے رب سے دعا کی اس نے میری مدد کی۔

اس واقعے کی تحقیق مطلوب ھے !!!

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  اس واقعہ کے دو جزء ہیں:

1) حضورؑ کا حضرت رکانہؓ سے کشتی کرنا اور انکو پچھاڑنا۔

2) حضرت رکانہؓ کا قبول اسلام۔

1⃣ *پہلا جزء*
 یہ بات درست ھے کہ حضور اکرمؑ کا حضرت رکانہؓ سے مقابلہ ہوا ھے اور حضورؑ نے ان کو پچھاڑا بہی تہا جیساکہ سوال میں ذکر کردہ واقعہ سے معلوم ہوا ھے۔اور اس واقعہ کا ذکر متعدد کتب سیرت و تاریخ بشمول کتب حدیث میں ھے۔سنن اؔبوداود و سنن ترؔمذی میں بہت ہی مختصرا اس واقعہ کی جانب اشارہ مذکور ھے۔

▪ *سنن ابوداود میں*

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِىُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْعَسْقَلاَنِىُّ عَنْ أَبِى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِىِّ بْنِ رُكَانَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رُكَانَةَ صَارَعَ النَّبِي صلى الله عليه وسلم فَصَرَعَهُ النَّبِي صلى الله عليه وسلم، ملخصااهـ.

٭ سنن ابوداود
٭ مجلد: 6
٭ صفحة: 177
٭ رقم: 4078
٭ درجة: ضعيف
٭ طبع :دار الرسالة العالمية، دمشق.

🔹 *ترمذي ميں*

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قال حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ عن أَبي الْحَسَنِ الْعَسْقَلاَنِىُّ عَنْ أَبِى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ رُكَانَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رُكَانَةَ صَارَعَ النَّبِي صلى الله عليه وسلم فَصَرَعَهُ النَّبِي صلى الله عليه وسلم، ملخصااهـ هذا حديث غريب، وإسناده ليس بالقائم، لا نعرف أبا الحسن العسقلاني، ولا ابن ركانة.

 ➕ امام ترمذیؒ نے اس روایت کی سند کو کمزور قرار دیا ھے۔


٭ سنن ترمذي
٭ المجلد:3
٭ الصفحة: 380
٭ الرقم: 1784
٭ الدرجة: ضعيف
٭ الطبع: دار الغرب الاسلامی بیروت لبنان۔

 🔰 *مراسیل ابوداود میں*

 یہ واقعہ کچھ مفصلا امام ابوداودؒ نے مرسلا بسند صحیح اپنی کتاب" مراسیل ابوداود" میں حضرت سعید
بن جبیرؒ سے روایت فرمایا ھے:

• نام کتاب: مراسیل ابوداود
• مصنف: امام ابوداودؒ
• راوی: سعید بن جبیرؒ
• صفحہ: 235
• رقم: 308
• درجہ: مرسل,
• طبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

⚠  مراسیل ابوداود کی سند صحیح ھے ؛ لیکن وہ مرسل ھے پھر بھی اس کو بیان اس لیے کیا جاسکتا ھے کہ اس واقعہ کی ایک سند اور بہی ھے جو موصولا ھے گو کہ رتبہ میں ضعیف ھے۔

__ *سند موصول*__

اخرج الخطيب في الموتلف من طريق احمد بن عتاب العسكري، حدثنا حفص بن عمر، حدثنا حماد بن سلمة، عن عمرو بن دينار، عن سعيد بن جبير،عن ابن عباس: الخـ  ملخصا.

٭ الاصابة في تميز الصحابةؓ
٭ المؤلف: ابن حجر العسقلانيؒ
٭ الصفحة: 3071
٭ الرقم:9279
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

__ *دلائل النبوة میں*__

  امام بیہقیؒ نے بہی "دلائل النبوہ" میں اس واقعہ کا ذکر سند موصول کیساتھ کیا ھے جسکی سند حضرت ابو امامہؓ تک پہونچتی ھے۔ گو کہ یہ سند بہی ضعیف ھے اس میں ایک راوی "ابو عبد الملک علی بن یزید الشامی" ہیں جو روایت میں قوی نہیں ہیں. اور خود امام بیہقیؒ نے اس واقعہ کے متعلق رقم فرمایا ھے: کہ ان مراسیل کی اصل موصول روایات میں موجود ھے۔

دیکھئے!

 + نام کتاب: دلائل النبوۃ
 + نام محدث: ابو بکر البیہقیؒ
 + جلد: 6
 + صفحہ: 252/251
 +طبع: دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔


💠 *المسارعة الي المصارعة ميں*

عؔلامه سيوطيؒ كي كتاب "المسارعة الي المصارعة " میں اس واقعہ کی تفصیلات مذکور ہیں اور انہوں نے پانچ روایات مفصلا وہاں ذکر کی ہیں اور اس کتاب کی تخریج و تحقیق کرنیوالے محقق" مشہود حسن سلمان" نے بہی وہی بات کہی ھے جو امام بیہقیؒ نے کہی ھے کہ یہ واقعہ بے اصل بالکل نہیں ھے ۔

< نام کتاب: المسارعة الي المصارعة
< نام مؤلف: جلال الدين سيوطيؒ
< نام محقق: مشهود حسن سلمان
< صفحہ: 72/59
< طبع: مكتبة السوادي للتوزيع، السعودية.


⭕ *الفروسية ميں*

اس واقعہ کا ذکر "ابن القیمؒ " نے بہی اپنی کتاب" الفروسیة المحمدية" میں کیا ھے:

= نام کتاب: الفروسیة المحمدية
=نام مؤلف: ابن القیم الجوزيةؒ
= صفحة: 10
= طبع: دار عالم الفوائد، مكة.

☪ *البداية والنهاية ميں*

عؔلامہ ابن کثیرؒ نے اپنی مشہور کتاب" البدایہ والنہایہ" میں اس واقعہ کو نہایت مفصل انداز میں ذکر کیا ھے اور اسکی سند موصول کی جانب بہی اشارہ فرمایا ھے,

( نام کتاب: البداية والنهاية
(نام مصنف: حافظ ابن كثيرؒ
(جلد: 4
(صفحہ: 255
( طبع: مركز البحوث والدراسات العربية، والاسلامية، دار الهجرة.

🌷 _*أنساب الاشراف میں*_

"انساب الاشراف" میں بھی " بلاذریؒ" نے اس کی موصولا ذکر کیا ھے:

* نام کتاب: أنساب الأشراف
* نام مؤلف: أحمد البلاذريؒ
* جلد: 1
* صفحة: 175
* طبع: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان.


2⃣ *واقعہ کا دوسرا جزء حضرت رکانہؓ کا اسلام*

 اس میں دو رائے ہیں: بقول بعض «حضرت رکانہ» کشتی میں ہارجانے کے بعد مشرف باسلام ہوئے , اور بقول بعض وہ اس وقت تو اسلام نہیں لائے ؛ البتہ "فتح مکہ" کے موقعہ پر وہ اسلام لانیوالوں میں سے ہوئے۔


▪ ہم اؔبن اثیرؒ کے حوالہ سے یہ یہاں فقط اتنا ذکر کرتے ہیں کہ حضرت رکانہؓ فتح مکہ کے موقعہ پر قبول اسلام کرنے والوں میں سے ہیں.


هذا ركانة هو الذي صارع النبي، فصرعه النبي، مرتين أو ثلاثا، وكان من أشد قريش، وهو من مسلمة الفتح. ملخصاـ الخ.

٭ المصدر: أسد الغابة
٭ المؤلف: ابن أثير
٭ الصفحة: 400
٭ الرقم: 1208
٭ الطبع: دار ابن حزم، بيروت، لبنان.


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
٩دسمبر ؁ء ۲۰۱۹

خود اپنے منکروں کی بہی وہ کرتا ھے پرورش

*_خود اپنے منکروں کی بہی وہ کرتا ھے پرورش_*
 

محترم مفتی صاحب! حالیہ دنوں میں ایک مشہور اہل السنت والجماعت کے داعی واعظ خطیب کا بیان سن رہا تہا جس میں انہوں نے ﷲ تعالی کا اپنے گنہگار بندوں سے بہی محبت اور رحمت کا ذکر کرتے ہوئے دو واقعات بیان کیے مجہے ان کی تصدیق مطلوب ھے:
1) ہندوستان میں ایک بت کا پجاری رہا کرتا تہا وہ اپنے بت سے اپنی حاجت روائی و مدد کی دعا کیا کرتا تہا ایک دن اس کو کوئی اہم حاجت در پیش ہوئی تو اس نے اپنی عادت کے موافق بت کو پکارا : یا صنم صنم لیکن بت کی جانب سے کوئی جواب بدستور نہیں آیا اچانک اسکے منہ سے نکلا : یا صمد! تو اس پجاری کو فضا میں آواز سنائی دی لبیک میرے بندے مانگ جو تو چاہتا ھے چنانچہ وہ بت کا پجاری توحیدی بن گیا اور اسلام لے آیا تو فرشتوں نے خدا تعالی سے عرض کیا: یہ بت پرست زمانوں سے اپنے بت کو پکارتا رہا لیکن بت نے اسکی کبہی فریاد رسی نہ کی ؛ لیکن اس نے آپ کو تو ایک بار ہی پکارا اور آپ نے فورا اسکی التجاء و دعا کو قبول فرمالیا؟ خدا تعالی نے کہا: اے فرشتوں! جب اس نے بت سے دعا کی تو قبول نہ ہوئی لیکن جب اس نے صمد کو پکارا تو پھر بہی اگر دعا مقبول نہ کیجاتی تو ایک صنم اور صمد یعنی بت اور خدا میں کیا فرق رہتا۔

2) دوسرا واقعہ یہ بیان کیا :
حضرت سیدنا ابراہیمؑ کو مہمان نوازی کا بہت شوق تہا وہ کبہی تنہاء کہانا نہ تناول فرماتے تھے جب کہانا لگا دیا جاتا تو وہ کسی نہ کسی کو دسترخوان پر ضرور دعوت دیتے تھے ایک روز انکو ایک شخص ملا, تو جب وہ کہانے بیٹھا تو حضرت ابراہیمؑ نے اس سے کہا: بسمﷲ پڑھو! وہ شخص کہنے لگا : میں تو ﷲ کو جانتا تک نہیں تو حضرت ایراہیمؑ نے اسکو دسترخوان سے اٹھادیا , جب وہ شخص بنا کہائے چلا گیا تو حضرت جبرئیلؑ آئے اور خدا کا پیغام سنایا: کہ اس  بندے کوخدا تعالی  کفر کے باوجود  رزق دیتا رہا اور ابراہیم تم نے اس کیساتھ بخل کا معاملہ کیا ۔بس ابراہیمؑ فورا باہر گئے اور اس شخص کو واپس بلانے لگے , وہ نہیں آرہا تہا تو ابراہیمؑ نے اسکو سارا واقعہ کہہ سنایا, تو وہ شخص کہنے لگا : میرا رب بڑا کریم ھے اور اس نے اسلام قبول کرلیا اور حضرت ابراہیم کی دعوت بحالت اسلام تناول کی۔


••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

پہلا واقعہ صنم کے پجاری کے متعلق سوال میں ذکر کیا گیا ھے اسکو «عؔلامہ صفوری شافعیؒ» نے محض ایک حکایت و کہانی کی حیثیت سے لکہا ھے اسکو حدیث کا عنوان نہیں دیا گیا ھے؛ لہذا جب حدیث کا نام ہی نہیں دیا گیا ھے تو سند کی جستجو و تفتیش میں پڑنا بے جاغلو ھے ۔اللہ کی رحمت وسیع تر ھے۔

🌷كان ببلاد الهند شيخ كبير يعبد صنما دهرا طويلا ثم حصل له أمر مهم فاستغاث به فلم يغثه فقال يا أيها الصنم ارحم ضعفي فقد عبدتك دهرا طويلا فلم يجبه فانقطع عن ذلك رجاؤه منه ونظر إليه بعين الرحمة فخطر على قلبه أن يدعو الصمد فرمق بطرفه نحو السماء وقد وقع في الخجل وقال يا صمد فسمع صوتا من الهواء يقول لبيك يا عبد اطلب ما تريد فأقر الله بالوحدانية فقالت الملائكة ربنا دعا صنمه دهرا فلم يجبه ودعاك مرة واحدة فأجبته فقال يا ملائكتي إذا دعا الصنم فلم يجبه ودعا الصمد فلم يجبه فأي فرق بين الصنم والصمد ".

•نام کتاب: نزهة المجالس
•نام مؤلف: عبد الرحمن الصفوريؒ
•جلد: 1
•صفحة: 28
•درجة: حكاية
•طبع: المكتب الثقافي للنشر والتوزيع، قاهرة، مصر.

2⃣ *حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ*

  سیدنا حضرت ابراہیمؑ کے متعلق جو واقعہ مہمان نوازی کے متعلق ذکر کیا گیا ھے اسکو [تفسیر قرطبی] اور "احکام القرآن" وغیرہ میں بطور اسرائیلی روایت کے مفسرین نے نقل کیا ھے۔

🔘 *قرطبی میں*

وجاء في بعض الإسرائيليات قصة فيها عبرة، كان إبراهيم عليه السلام لا يأكل وحده، فإذا حضر طعامه أرسل يطلب من يأكل معه، فلقي يوماً رجلاً، فلما جلس معه على الطعام.
قال له إبراهيم: سم الله، قال له الرجل: لا أدري ما الله، قال له: اخرج عن طعامي، فلما خرج الرجل نزل إليه جبريل، فقال له: يقول الله -عز وجل-: إنه يرزقه على كفره مدى عمره، وأنت بخلت عليه بلقمة، فخرج إبراهيم مسرعاً فرده، فقال: ارجع، فقال: لا أرجع، تخرجني ثم تردني لغير معنى، قال: فأخبره بالأمر، فقال: هذا رب كريم آمنت،  ودخل، وسمى الله، وأكل مؤمنًا.

• المصدر: تفسير قؔرطبي
•مؤلف: ابوعبد الله القرطبيۃ
• مجلد: 11
•صفحة: 167
• درجة: اسرائيلية
• طبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.


💎 *أحكام القرآن ميں*

احکام القرآن میں بھی ابن العربی نے انہیں الفاظ میں مذکورہ واقعہ بیان فرمایا ھے:

٭ نام كتاب:  أحكام القرآن
٭ نام مفسر:  ابوبکر ابن العربیؒ
٭ جلد: 3
٭ صفحة: 20
٭ طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

   __ *الحاصل*__

  پہلا واقعہ بطور حکایت ہے اس کو حدیث یا کسی صحابیؓ کا قول کہہ کر بیان نہ کیا جائے۔ ایک واقعہ و حکایت کا عنوان دیا جاسکتا ھے

دوسرا واقعہ از قبیل اسرائیلیات ھے؛ لیکن یہ ان روایات اسرائیلیہ میں سے ھے جو نہ بالکل تصدیق شدہ ہیں اور بالکل تکذیب شدہ؛ بلکہ ان کے متعلق موقف یہ ھے کہ سکوت اختیار کیا جائے تصدیق و تردید نہ کیجائے۔البتہ اسکا بیان کرنا جائز ھے لیکن ایسی روایات پر کسی دینی مسئلہ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی ھے, نیز ایسی باتوں کے بیان میں کچھ فائدہ بہی نہیں ھے ۔

(مستفاد:)

 نام کتاب: علوم القرآن
نام مصنف: مفتی محمد تقی عؔثمانی
صفحہ: 346
طبع: مکتبہ دار العلوم کراچی۔


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ : *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

۹ دسمبر ؁ء ۲۰۱۹

Sunday, December 8, 2019

قبر پر مٹی ڈالنے کی دعا

*قبر پر مٹی ڈالنے کی دعا*

مفتی صاحب! السلام علیکم! ہم میت کو دفناتے وقت یعنی قبر پر مٹی ڈالتے وقت جو دعا پڑھتے ہیں : 

 ( مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ ، وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى ) 

کیا یہ حدیث سے ثابت ھے اور اسکا پڑھنا مسنون ھے یا مستحب؟

➖ *باسمہ تعالی*➖
*الجواب وبہ التوفیق:* 

  جی ہاں! یہ دعا حدیث سے ثابت ھے. "حضرت ابو امامہ الباہلیؓ" سے مروی یہ روایت_ امام اؔحمد بن حنبل_ؒ نے مستند سند کیساتھ ذکر فرمائی ھے۔

💡حدثنا علي بن إسحق، حدثنا عبد الله -يعني ابن المبارك- أنا يحي بن أيوب، عن عبيد الله بن زحر، عن علي بن يزيد عن القاسم، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ : " لَمَّا وُضِعَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ ابْنَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْرِ ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ ، وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى ) " .

(ترجمة): 

جب نبی کریمؑ کی صاحبزادی حضرت ام کلثومؓ کو قبر میں رکھا جاچکا, تو آپؐ نے یہ دعا پڑھی : <منہا خلقناکم وفیہا نعیدکم ومنہا نخرجکم تارة أخري>.

🌷 اس روایت کی سند کے متعلق مؔحقق -احمد شاکر- کا کہنا ھے : کہ اسکی سند حسن درجہ کی ھے,گو کہ علامہ ذھبیؒ نے اسکے ایک راوی" علی بن یزید "کو متروک کہا ھے؛ لیکن انہوں نے ان کو متروک کہنے میں افراط و شدت سے کام لیا ھے۔

▪ نام کتاب: مسند احمد حنبل
▪الراوی: احمد شاکر
▪محدث : الامام احمد بن          
     حنبلؒ
▪المجلد: 16
▪الصفحة: 229
▪الرقم: 22087
▪الدرجة: حسن
▪الطبع:  دار الحديث، قاهرة.


*مستدرک حاکم میں*

یہ روایت «حؔاکم نیشاپوریؒ» نے بہی "مستدرک حاکم" میں ذکر کی ھے:

•نام کتاب: مستدرک حاکم
•نام محدث: حاکم نیشاپوریؒ
• مجلد: 2
• صفحہ: 447
• رقم:3491
• طبع: دار الحرمين للطباعة والنشر، قاهرة، مصر.

★ إعلاء السنن كي تحقيق★

 صاحب «اعلاء السنن» کی تحقیق کے مطابق یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ھے؛لہذا اس دعا کا پڑھنا ثابت بالحدیث ھے ؛ تاہم اسکو سنت نہیں کہا جایئگا ؛ بلکہ مستحب کا درجہ دیا جایئگا۔

٭ نام كتاب:  إعلاء السنن
٭ نام مؤلف:  الشيخ ظؔفر احمدالعثمانی،  التهانويؒ
٭ جلد: 8
٭ صفحة: 307
٭ درجة: ضعيف
٭ طبع: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراچي، پاكستان.


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
8 دسمبر ؁2019ء

داعی ڭا اجر

▪ *••داعی کا اجر••*▪

السلام علیکم مفتی صاحب بعض  ہمارے تبلیغی ساتھی داعی کے صفات بتاتے ہوئے کہتےہیں کہ ایک مرتبہ اللہ نے جبرئیل علیہ السلام کو کہا کہ داعی   کی نیکیوں کو گنو اس پر جبرئیل علیہ السلام نے کہا اللہ میں بارش کے  قطروں کوگن سکتا ہوں ریت کے ذرات کو گن سکتا  ہوں؛لیکن داعی کی نیکیوں کو گن نہیں سکتا. وہ بہت زیادہ  ہیں اور جب داعی  پل صراط پر سے گزرے گا تو اللہ تعالیٰ اسکے قدموں کے نیچے اپنے ہاتھوں کو  رکھیں گے

  کیا یہ بات  صحیح ہے؟!!!

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

  تلاش بسیار کے باوجود یہ روایت کہیں نہ مل سکی؛ لہذا اس کی نسبت نبی کریمؑ کی جانب ہرگز نہ کیجائے۔ نبی کریمؑ کی جانب اس بات کی نسبت ہوتی ھے جو معتبر سند سے ثابت ہو۔اور چونکہ یہ بات نبی کریمؑ کے واسطہ کے بغیر ہمکو معلوم ہونہیں سکتی ھے لہذا اسکو بنا نبی کریمؑ کی جانب منسوب کیے بہی بیان نہ کیا جائے۔ داعی الی ﷲ کے جو اجر معتبر و احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں انکو بیان کیا جائے۔


وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

کتیا پر رحم کا واقعہ

*••کتیا پر رحم کا واقعہ••*

بیان کیا جاتا ھے کہ "فتح مکہ" کے موقعہ پر نبی کریمؐ نے ایک کتیا کو دیکہا جو اپنے بچوں کو دودھ پلارہی تہی , تو آپؐ نے حضرت "جعیل بن سراقہؓ" کو حکم دیا کہ اس کتیا کی آڑ کرلیں ؛ کہیں لشکر بے خبری میں اسکو روند نہ ڈالے۔

کیا یہ واقعہ ہوا تہا؟

__*باسمہ تعالی*__
*الجواب وبہ التوفیق:*

  ہمارے نبی پاکؐ دنیا میں ہر کسی کے لیے رحمت بن کر آئے ہیں انکی رحمت کفار و مسلمین یہاں تک کہ بے زبان جانوروں کو بہی عام تہی۔ اسی رحمت و شفقت اور جانوروں پر پیار کا یہ ادنی سا واقعہ اور نمونہ ھے جسکا ذکر سؔیرت نگاروں نے کیا ھے , نیز یہ واقعہ ہم یہاں "عؔلامہ مقریزی" کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں:

📘  ونظر عليه السلام بعد مسيره من العرج إلي كلبة تهر علي أولادها، وهن حولها يرضعنها، فأمر جعيل بن سراق يقوم حذائها؛لا يعرض لها احد ولا لأولادها.

— ترجمة—

مقام" ؔعرج" سے نکلنے کے بعد آپؐ کی نظر ایک کؔتیا پر پڑی جو اپنے بچوں کی حفاظت کی خاطر غرا رہی تہی , اور اسکے بچے اسکے ارد گرد پڑے اسکا دودھ پی رھے تھے, تو نبی کریمؐ نے حضرت "جعیل بن سراقہؓ" کو حکم دیا کہ اس کتیا اور اسکے بچوں کی آڑ کرلو؛ تاکہ لشکر والے اسکو روند نہ ڈالیں۔

٭ نام كتاب: إمتاع الأسماع
٭ نام مؤلف: تقؔي الدين
   أحمدالمقريزيؒ
٭ جلد: 1
٭ صفحة: 355
٭ طبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

والله تعالي أعلم
✍🏻... كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*

چار بیویوں کا فائدہ

*•••چار بیویوں کافائدہ•••*


 حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے بیویوں کی تعداد کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ:

ایک بیوی والا شخص مریض ہے، بیوی بیمار ہو تو یہ بھی بیمار ہوجاتا ہے، اُسے حیض آئے تو اِسے بھی آجاتا ہے، وہ روزہ رکھے تو اس کا بھی روزہ ہوجاتا ہے۔

دو بیویوں والا دو انگاروں کے درمیان ہے، جو بھی اسے پا لے, جلا دیتی ہے۔

تین بیویوں والا ہر روز ایک نئی بستی کا مہمان ہوتا ہے (یعنی ہر روز مہمان کی طرح اس کی خاطر مدارت ہوتی ہے)

اور چار بیویوں والا تو ہر روز ہی دولہا ہوتا ہے (باری میں تاخیر اور سوکنوں کی کثرت کی وجہ سے ہر بیوی اپنی باری میں دولہے کی طرح اس کا استقبال کرتی اور دلہن کی طرح تیار ہوتی ھے۰

(امام ذہبی  "سیر اعلام النبلاء" جلد:3, ص:31)


اس اثر کی کیا حیثیت ھے کیا واقعتا یہ حضرت "مغیرہ بن شعبہؓ" کا مقولہ ھے؟!!

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

 حضرت "مغیرہ بن شعبہؓ" بہت زیادہ نکاح کرنیوالے تھے ۔نیز یہ مقولہ بہی انہی کا ھے تاہم اس مقولہ میں تین بیویوں والے اور چار والے کا حال مذکور نہیں ؛ فقط ایک دو اور چار بیویوں والے مرد کا ذکر ھے۔

 یہ مقولہ امام ذھبیؒ نے "سیر اعلام النبلاء" میں نقل فرمایا ھے:

▪ ابن وهب: حدثنا مالك قال: كان المغيرة نكاحا للنساء ويقول صاحب  الواحدة إن مرضت مرض، وإن حاضت حاض، وصاحب المرأتين بين نارين تشعلان ، وكان ينكح أربعا جميعا ويطلقهن جميعا.

*ترجمہ :*

حضرت امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ سیدنامغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کثرت سے شادیاں کرتے تھے ، اور فرماتے تھے کہ :
ایک بیوی والا شخص کا حال یہ ہے کہ اگر اس کی بیوی بیمار ہو تو یہ بھی بیمار ہوجاتا ہے، اُسے حیض آئے تو اِسے بھی آجاتا ہے، ۔دو بیویوں والا دو شعلہ والی آگوں کے درمیان ہے، اور سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ چار عورتوں سے شادی کرتے ،اور طلاق بھی چاروں کو ہی دے دیتے ۔

★ سير أعلام النبلاء
★ شمس الدين الذهبيؒ
★ جلد: 3
★صفحة: 31
★طبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

🔹 *تاریخ ابن عساکر میں*🔹

أخبرنا أبو نصر غالب بن أحمد بن المسلم أنا أبو الحسن علي بن أحمد بن زهير المالكي أنا أبو الحسن علي بن محمد بن شجاع الربعي أنا محمد بن علي أبو بكر الغازي أنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحافظ أخبرني أحمد بن سهل الفقيه نا إبراهيم بن معقل نا حرملة بن يحيى نا ابن وهب قال سمعت مالكا يقول كان المغيرة بن شعبة نكاحا للنساء ويقول صاحب المرأة الواحدة إن مرضت مرض معها وإن حاضت حاض معها وصاحب المرأتين بين نارين يشتعلان قال وكان ينكح أربعا جميعا ويطلقهن جميعا.

• المصدر: تاؔریخ ابن عساکر
• المؤلف: ابن عساكرؒ
• المجلد: 60
• الصفحة: 55
• الطبع: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، دمشق.

  __*خلاصہ کلام*__

مذکورہ مقولہ حضرت مغیرہؓ کی جانب بسند ضعیف مذکور ھے؛ کیونکہ امام مالکؒ اسکے راوی ہیں لیکن انہوں نے اس واقعہ کو براہ راست حضرت مغیرہؓ سے روایت کیا ھے جبکہ امام مالکؒ اور صحابی کے درمیان کم از کم دو واسطے ہونے چاہئیں , لہذا سند معضل قرار پایئگی اور معضل روایت کا حکم ضعیف ھے۔ البتہ مع ضعف یہ مقولہ مقبول ھے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

Saturday, December 7, 2019

چار چیزیں ہوتیں اور چار نہ ہوتیں

*•چار چیزیں ہوتیں اور چار نہ ہوتیں•*

عبقری رسالے مئی 2010 میں ایک بات لکہی دیکہی کہ ایک دفعہ حضرت موسیؑ نے مالک کائنات سے عرض کی کہ اے للہ! کیا ہی اچھا ہوتا کہ چار چیزیں ہوتیں او ر چار نہ ہوتیں۔ ٭زندگی ہوتی اور موت نہ ہوتی۔ ٭تندرستی ہوتی اور بیماری نہ ہوتی۔ ٭جوانی ہوتی اور بڑھاپا نہ ہوتا۔ ٭دولت ہوتی اور غربت نہ ہوتی۔ تو اللہ رب العزت کی طرف سے جواب آیا کہ
; اے موسیٰ ٭زندگی ہوتی اور موت نہ ہوتی تو میرا دیدار کون کرتا۔ ٭تندرستی ہوتی اور بیماری نہ ہوتی تو مجھے یاد کون کرتا۔ ٭جوانی ہوتی اور بڑھاپا نہ ہوتاتو میری عبادت کون کرتا۔ ٭دولت ہوتی اور غربت نہ ہوتی تو میرا شکر کون کرتا یہ سن کر حضرت موسیؑ نے نہایت عاجزی سے سر جھکا یا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت  و دانائی سے سر شار ہے۔

کیا یہ مستند ھے؟

*•••باسمہ تعالی•••*
*الجواب وبہ التوفیق:*

مذکورہ بات ہمکو تلاشِ بسیار کے بعد بہی مستند کتب میں مل نہ سکی ؛ البتہ فارسی کی مشہور کتاب" گلزار دبستاں" میں محض ایک حکایت کے عنوان سے مذکور ھے,

*••گلزار دبستاں کی عبارت••*

(حکایت سی و نہم )

حضرت موسیؑ مناجات کرد کہ الہی چہ خوش بودے اگر چہار چیز بودے و چہار چیز نبودے , 1) زندگانی بودے و مرگ نبودے
2) بہشت بودے و دوزخ نبودے, 3)توانگری بودے و درویشی نبودے,4) تندرستی بودے و بیماری نبودے, ندا آمد: کہ اے موسی! اگر زندگانی بودے و مرگ نبودے بلقائے ما کہ مشرف شدے, اگر بہشت بودے و دوزخ نبودے , از عذابِ ما کہ ترسیدے, اگر توانگری بودے و درویشی نبودے شکرِ نعمت ما کہ گفتے و اگر تندرستی بودے و بیماری نبودے مارا کہ یاد کردے۔


• نام کتاب: گؔلزار دبستاں
• حصہ: دوم
• صفحہ: 30
• حکایت نمبر:39
• طبع: مکتبہ بلال دیوبند۔


__*حکایات کا حکم*__

حکایات کے متعلق شؔیخ الحدیث مولانا "یونس صاحب جونپوریؒ" نے " نواد الحدیث " میں لکہا ھے: کہ حکایات و مواعظ کے باب میں تشدد مناسب نہیں بلکہ حکایات کی اگر سند مل جائے تو بہت خوب ورنہ چشم پوشی کیجائے ۔اسکی سند کی تفتیش میں پڑنا غلو ھے بشرطیکہ وہ حکایت یا موعظت کسی امر شرعی یا قرآن و سنت کے مخالف نہ ہو اور نہ اس سے کسی حکم شرعی کا اثبات ہورہا ہو۔ لہذا اس حکایت کو محض حکایت کے عنوان سے بیان کیا جاسکتا ھے.

📘 وأما أخبار الصالحين وحكايات الزهاد والمتعبدين ومواعظ البلغاء، وحكم الادباء، فالاسانيد زينة لها، وليست شرطا في تاديتها.

. نام كتاب:  نوادر الحديث
. نام مؤلف: الشيخ يونس الجونفوريؒ
. صفحه: 41
. طبع:  ادارہ افادات اشرفیہ, دو بگہ, ہردوئی روڈ, لکھنؤ, یوپی الہند۔

🔰 تاہم عبقری رسالے کے متعلق اتنا عرض ھے :

اس رسالے کے مندرجات عموماً تین طرح کے ہوتے ہیں:

1- وظائف۔ 2- مجربات۔ 3- دینی مسائل اور راہ نمائی وغیرہ۔

(1⃣) وظائف سےمتعلق یہ حکم ہے کہ جو وظائف درجِ ذیل شرائط کے ساتھ ہوں وہ جائز ہیں:
(۱)  ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو،  (۲) ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو، (۳)  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو ۔

       لہذا ایسے وظائف جو آیاتِ  قرآنیہ ، ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہوں  تو لوگوں کے فائدے کے لیے جائز کاموں کے لیےان کو لکھنا،  استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے؛ کیوں کہ اس کی حقیقت ایک جائز تدبیر سے زیادہ کچھ نہیں اور جن وظائف  میں کلماتِ  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منترہوں یا الفاظ معلوم اور صحیح ہوں لیکن انہیں مؤثر حقیقی  سمجھا جائے تو ان کا استعمال  شرعاً جائز نہیں ہے۔

(2⃣) مجربات میں اگر کوئی خلافِ شرع بات نہ ہو  تو مجربات کے طور پر ان کے استعمال کی گنجائش ہے، کیوں کہ ان کا تعلق دینی امور سے نہیں ہے، بلکہ  تجربات سے ہے۔ البتہ اگر ان کا تعلق طب/میڈیکل سے ہو تو اس کے ماہرین سے رائے لیے بغیر ان پر عمل بھی مناسب نہیں ہے، ہر عمل ہر ایک کے لیے مفید نہیں ہوتا، مزاجوں اور علاقوں اور موسم کے اعتبار سے علاج میں بھی فرق آتاہے۔

(3⃣) دینی اور شرعی بات  کا مستند ہونا ضروری ہوتا ہے،  اس لیے اس میں مستند علماءِ کرام سے پوچھ پوچھ کر اور مستند کتب میں دیکھ کر ہی عمل اور نقل کیا جائے، مذکورہ رسالہ میں بسا اوقات دینی باتیں غیر مستند نقل کی جاتی ہیں، اس لیے ان کی دینی باتیں پڑھنے  اور نقل کرنے سے احتیاط کریں اور اگر کبھی ایسی کوئی بات سامنے آجائے تو مستند علماء سے تصدیق کرکے عمل کریں۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*

7 دسمبر ؁2019

Wednesday, December 4, 2019

لکڑہارے کی بیوی کا قصہ

• *لکڑہارے کی بیوی کا قصہ*•

ڈائنا ڈی سوزا D.Disvza ہندوستان کی ایک مسیحی محقق ہیں۔ وہ فاطمہ زہرا کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کرکے اس پر تبصرہ کرتی ہے۔ واقعہ یوں ہے، ایک دن حضرت محمدؐ نے اپنی صاحبزادی فاطمہ سے فرمایا، کیا کوئی ایسی خاتون ہے جس کی دعا آسمان تک پہنچنے سے پہلے ہی مقام قبولیت تک پہنچ جائے؟ حضرت فاطمہ اپنے والد بزرگوار کے بیان کیے ہوئے اس معیار پر اترنے والی خاتون سے ملاقات کی آرزومند تھیں۔ ایک دن آپ ایک لکڑہارے کی بیوی سے ملاقات کی خاطر ان کے ہاں گئیں۔ جونہی ان کے گھرکے سامنے پہنچی آپ نے اندر داخل ہونے کے لیے اس سے اجازت طلب کی۔ اس خاتون نے یہ کہہ کر آپ سے معذرت خواہی کی کہ میرے شوہر ابھی یہاں نہیں ہیں اور میں نے ان سے آپ کو گھر لانے کی اجازت بھی نہیں لی ہے لہذٰا آپ واپس چلی جائیے اور کل تشریف لائیے تاکہ میں ان سے اس حوالے سے اجازت لے سکوں۔ حضرت فاطمہ واپس لوٹ آئیں۔ جب اس عورت کا شوہر رات کو گھر آیا تو اس نے حال چال دریافت کیا۔ اتنے میں اس خاتون نے کہا کہ اگر پیغمبر اکرم ؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ ہمارے ہاں آنا چاہے تو کیا ان کے لیے اجازت ہے؟ اس نے جوابا کہا، وہ آ سکتی ہیں۔ اگلے روز حضرت فاطمہ حضرت حسین کو اپنے ہمراہ لیے دوبارہ اس کے پاس آئیں اور حسب سابق ان سے اندر داخل ہونے کی اجازت مانگی۔ اس خاتون نے دوبارہ یہ کہہ کر معذرت کی کہ میں نے صرف آپ کے لیے میرے شوہر سے اجازت لی ہے لیکن آپ کے ساتھ اس وقت آپ کا صاحبزادہ بھی ہے لہذٰا میں اجازت نہیں دے سکتی ہوں۔ حضرت فاطمہ دوبارہ لوٹ آئی۔ رات کو جب اس عورت کا شوہر واپس لوٹ آیا اور حال احوال دریافت کیا تو اس کی بیوی نے پوچھا: کیا پیغمبر اکرمؐ کے گھرانے سے کوئی ہمارے ہاں آئے تو اس کے لیے اجازت ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اس طرح حضرت فاطمہ تیسری مرتبہ لوٹ آئیں اور اس لکڑہارے کی بیوی سے ملاقات کی۔
 یہی وہ خاتون ہیں کہ جو سیدہ فاطمہ کے آگے ان کی اونٹنی کی نکیل پکڑے جنت میں سب سے پہلے داخل ہونگی۔


کیا یہ واقعہ درست ھے؟

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق*:

  مذکورہ واقعہ ہمیں تلاش بسیار کے بعد بہی نہ مل سکا۔لہذا اس کے ثبوت میں توقف کرنا چاہئے۔ تاہم یہ واقعہ سوشل میڈیا پر بزبان عربی « _شیخ سعید بن مسفر القحطانی_» کے دروس میں سننے کو مل سکتا ھے ۔لیکن شیخ نے بہی اسکا کوئی حوالہ ذکر نہیں کیا ھے۔ نیز کچھ شیعہ "مصنفین "نے بہی اپنی تصانیف و مقالات میں اس واقعہ کو ذکر کیا ھے لیکن سند و حوالہ کے بغیر ۔

▪  *فاطمہؓ جنتی عورتوں کی سردار*▪

 یہ بات بالکل درست ھے کہ سیدہ فاطمہؓ صاحبزادیٔ رسولؐ جنتی عورتوں کی سردار ہیں:

🔰إنَّ هذا ملَكٌ لم ينزلِ الأرضَ قطُّ قبلَ اللَّيلةِ استأذنَ ربَّهُ أن يسلِّمَ عليَّ ويبشِّرَني بأنَّ فاطمةَ سيِّدةُ نساءِ أَهْلِ الجنَّةِ وأنَّ الحسَنَ والحُسَيْنَ سيِّدا شبابِ أَهْلِ الجنَّةِ.  ملخصااهـ

٭الراوي : حذيفة بن اليمانؓ  ٭المحدث : ابوعيسي الترمذيؒ
٭المصدر : سنن الترمذي
٭المجلد: 6
٭الصفحة:121
٭الرقم: 3781
٭خلاصة : صحيح
٭الطبع: دار الغرب الاسلامي، بيروت، لبنان.

•• *جنت میں سب سے پہلے؟*••

اوپر معلوم ہوچکا کہ سیدہ فاطمہؓ خاتون جنت ہیں جنتی عورتوں کی سردار ہیں؛ لیکن کیا جنت میں خواتین میں سے ان کا داخلہ سب سے پہلے ہوگا ؟ اسکے متعلق "امام حاکمؒ" نے اپنی مستدرک میں ایک روایت ذکر کی ھے جس سے حضرت سیدہ فاطمہؓ کا سب سے پہلے جنت میں داخلہ کا ثبوت ھے ؛ لیکن اس روایت پر " عؔلامہ ذھبیؒ" نے تعاقب کیا ھے اور مستند نہیں مانا ھے۔

💎 (( عن علي رضى الله عنه قال اخبرني رسول الله صلى الله عليه وآله: ان اول من يدخل الجنة انا وفاطمة والحسن والحسين قلت يا رسول الله فمحبونا؟ قال: من ورائكم )).

۩ لیکن علامہ شمس الدین الذھبیؒ نے اس کے متعلق کہا :

۞ قلت: اسماعيل، وشيخه وعاصم ضعفوا، والحديث منكر من القول، يشهد القلب بوضعه.

★المصدر: المؔستدرك للحاكم
★المحدث: حاكم النيسابوريؒ
★المجلد: 3
★الصفحة: 177
★ الرقم: 4786
★ الطبع: دار الحرمين للطباعة والنشر، قاهرة، مصر.


والله تعالي أعلم
✍🏻... كتبه: ٭ *محمد عدنان وقار صدیقی*٭

Sunday, December 1, 2019

قیامت میں فاطمہ کی فضیلت

▪ *قیامت میں سیدہ فاطمہؓ کے متعلق ایک فضیلت*▪


یہ بات بہت مشہور ھے: کہ قیامت کے دن جب حضرت سیدہ فاطمہ بنت رسول تشریف لایئنگی تو ایک فرشتہ اعلان کریگا کہ تمام میدان محشر میں جمع انسان اپنی نگاہیں نیچی کرلیں ؛ کیونکہ اس وقت سیدہ فاطمہ کا گزر ہورہا ھے , تب تمام لوگ خواہ وہ نبی ہوں رسول ہوں صدیقین ہوں یا شہداء ہوں غرضیکہ سبہی اپنی نگاہ نیچے کرلینگے اور حضرت فاطمہ گزر جائینگی۔


  اس بات کی کیا حقیقت ھے؟

_*باسمہ تعالی*
*الجواب وبہ التوفیق:*

  یہ واقعہ اہل سنت و اہل تشیع دونوں کی کتب میں پڑھنے کو مل جاتا ھے اور کچھ واعظین بھی حضرت فاطمہؓ کی فضیلت کے تحت اسکو دھڑلے سے بیان کردیتے ہیں, اور شیعی کتابوں میں اس واقعہ کو مزید ملمع سازی کرکے بیان کیا گیا ھے ۔


*شیعی کتاب بحار الانوار میں*

’’رسولِ خدا (ص) ایک طویل حدیث میں فرماتے ہیں:
’’قیامت کے دن میری بیٹی فاطمہ ایک جنتی اُونٹ پر سوار ہو کر محشر میں آئیں گی
{ آنحضرتؐ اُس اُونٹ کی خصوصیت بیان کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں}
اُونٹ کے دائیں طرف ستّر ہزار فرشتے، بائیں طرف ستّر ہزار فرشتے ہوں گے اور اُونٹ کی مہار جبرائیلؑ تھامے ہوئے بلند آواز میں یہ اعلان کریں گے:
(اے اہلِ محشر!) اپنی نظریں جھکا لو تاکہ فاطمہ گزر جائیں۔ اُس دن کوئی نبی، رسول، صدیق اور شہید نہ ہو گا مگر یہ کہ اپنی نظریں جھکا لے گا یہاں تک کہ حضرت فاطمہ گزر جائیں گی اور پروردگارِ عالم کے عرش کے سامنے پہنچ اُونٹ سے نیچے اُتریں گی اور کہیں گی:
اے میرے معبود! اے میرے مولا! میرے اور مجھ پر ظلم کرنے والوں کے درمیان اور میرے اور میرے بچوں کو قتل کرنے والوں کے درمیان فیصلہ فرما۔
اللہ  کی جانب سے آواز آئے گی: اے میری حبیبہ اور میرے حبیبؐ کی بیٹی! تم جو چاہو مجھ سے مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا اور (جس کے لیے شفاعت کرنا چاہو) شفاعت کرو تاکہ تمہاری شفاعت قبول کی جائے۔
مجھے اپنے عزّت و جلال کی قسم! کسی ظالم کا ظلم فراموش نہیں کیا جائے گا۔
اُس وقت حضرت فاطمہ عرض کریں گی: اے میرے معبود! اے میرے سید و سردار! . میری ذرّیت اور میرے شیعہ اور میری ذرّیت کے شیعہ اور میرے چاہنے والے اور میری ذرّیت کے چاہنے والے۔
اللہ جلّ جلالُہ کی جانب سے آواز آئے گی: فاطمہ کی ذرّیت، اُن کے شیعہ، اُن کے چاہنے والے اور اُن کی ذرّیت کے چاہنے والے کہاں ہیں؟ پس وہ سب آگے بڑھیں گے تو رحمت کے فرشتے اُن سب کا احاطہ کر لیں گے اور فاطمہ انہیں لے چلیں گی یہاں تک کہ انہیں جنت میں داخل کر دیں گی۔


•نام کتاب: بؔحار الانوار
•مؤلف: باقر مجلسی
•جلد:43
•صفحہ: 116
•طبع: احیاء الکتب الاسلامیہ, شہر : قُم, ایران۔


➕ *مستدرک حاکم میں*➕


عن علي ان رسول الله قال:  إذا كان يوم القيامة، قيل:‏ يا أهل الجمع!‏ غضوا أبصاركم وتمر فاطمة، وتمر وعليها ريطتان خضراوان.
هذا حديث صحيح الاسناد، ولم يخرجاه.

★ المصدر:  المستدرك للحاكم
★ المجلد:3
★ الصفحة: 190
★الرقم : 4821
★ الدرجة: موضوع
★ الطبع: دار الحرمين للطباعة، والنشر للتوزيع، مصر

💎 حاکمؒ نے اپنی مستدرک میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا : کہ یہ روایت صحیح ھے اور اتنی صحیح ھے کہ بخاری و مسلم میں ذکر کیے جانے کے قابل ہے؛ لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ عؔلامہ ذہبیؒ نے اس روایت میں امام حاکم کا تعاقب کیا اور کہا : یہ روایت موضوع ھے۔

_ *موضوعات ابن جوزی میں*_

 الحديث العاشر في قوله: غضوا أبصاركم، روي العباس بن وليد عن خالد الواسطي عن بيان عن الشعبي عن أبي جحيفة عن علي: اذا كان يوم القيامة نادي مناد من وراء الحجاب يا اهل الجمع! غضوا أبصاركم عن فاطمةبنت محمد حتي تمر.
قال ابن حبان: لا يجوز الاحتجاج به. وقال الدارقطني: كذاب.

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ابن الجوزیؒ نے ابن حبانؒ و دارقطنیؒ کے حوالے سے لکہا ھے: کہ یہ روایت ناقابل احتجاج ھے اور اسکی سند میں راوی جہوٹا ھے۔

÷ نام کتاب: موضوعات ابن جوزی
÷ مؤلف: ابو الفرج ابن الجوزیؒ
÷ جلد:1
÷ صفحة: 423
÷طبع:المكتبة السلفية، المدينة المنورة،  السعودية.

_*فیض القدیر میں*_

  اسی طرح عؔلامہ مناویؒ نے " فیض القدیر" میں اس روایت کی صحت کے تسلیم سے انکار فرمایا ھے اور علامہ ذہبیؔ و ابن جوزی کی تصریحات وہاں ذکر کی ہیں :

نام کتاب: فؔیض القدیر
نام مؤلف: عبد الرؤف المناويؒ
جلد: 1
صفحة: 429
طبع: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت، لبنان.

🌷 *کنز العمال میں*🌷

 کنز العمال میں بہی اس روایت کو سیدہ فاطمہؓ کے فضائل کے تحت ذکر کیا گیا ھے ؛ لیکن محشی ومحقق نے فؔیض القدیر کے حوالہ سے اس روایت کو غیر معتبر بتایا ھے۔

* نام کتاب: کنز العمال
* نام مؤلف: عؔلاء الدین الہندیؒ
* جلد: 12
*صفحہ: 106
*حدیث نمبر: 34211
*طبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

*میزان الاعتدال میں*

امام ذہبیؒ نے اس روایت کے ایک راوی _عباس بن
بن بکار_ پر جرح فرمائی ھے, اور کہا: یہ راوی بقول امام دار قطنیؒ جہوٹا ہے, اور بقول امام عقیلیؒ اس راوی کی عموما روایات مناکیر ہوتی ہیں۔

📘 العباس بن بكار الضبي [أَبُو الوليد، وهو العباس بن الوليد بن بكار].بصري.
عن خالد، وَأبي بكر الهذلي.
قال الدارقطني: كذاب.
قلت: اتهم بحديثه عن خالد بن عبد الله عن بيان عن الشعبي، عَن أبي جحيفة، عَن عَلِيّ رضي الله عنه مرفوعا: إذا كان يوم القيامة نادى مناد يا أهل الجمع غضوا أبصاركم عن فاطمة حتى تمر على الصراط إلى الجنة.
وقال العقيلي: الغالب على حديثه الوهم والمناكير.

• نام کتاب: میزان الاعتدال
• نام مؤلف: شمس الدین ذھبیؒ
• جلد: 4
• صفحہ: 48
• رقم: 4165
• طبع: دار الكتب العلمية بيروت، لبنان.

▪ *الحاصل*▪

  تمام تر تفصیلات کی روشنی میں یہ ظاہر ھے : کہ حضرت فاطمہ بنت رسول صلیﷲ علیہ وسلم کے متعلق مذکورہ فضیلت غیر معتبر ھے؛ لہذا سیدہ کے بارے میں اس فضیلت کی نسبت نبی اکرم کی جانب نہ کیجائے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صؔدیقی*